"RKC" (space) message & send to 7575

مٹی نہ پھرول فریدا‘ یار گواچے نئیں لبھدے! (1)

اتوار کے روز اداس ڈھلتی ہوئی شام لاہور کے ایک قبرستان میں ڈاکٹر ظفر الطاف کو ان کے والدین کے پہلو میں دفن ہوتے دیکھ کر یاد آیا‘ پچھلے تین برسوں میں دو ایسے انسانوں کی رفاقت سے محروم ہو گیا ہوں‘ صبح اٹھ کر جن کے لیے ضرور دعا کیا کرتا تھا۔ نعیم بھائی کے بعد‘ اب ڈاکٹر صاحب کے بغیر زندگی مزید پھیکی، بور اور اداس ہو جائے گی۔
نعیم بھائی کی ریٹائرمنٹ کے بعد ان کے ساتھ اپنے گھر میں رہنے کا منصوبہ تھا۔ والدین کی وفات کے بعد‘ انہوں نے اپنے بھائی بہنوں کی محبت میں شادی نہ کی تھی۔ اپنی زندگی کی آخری شام میرے ساتھ اسلام آباد کی کرکٹ گرائونڈ میں واک کے بعد تھک کر بیٹھے تو میں نے پوچھا: ''ریٹائرمنٹ میں کتنے برس باقی ہیں؟‘‘۔ مسکرائے اور بولے: ''یار ابھی بہت سال پڑے ہیں‘‘۔ انہیں علم تھا کہ میں کتنی شدت سے چاہتا ہوں‘ وہ ریٹائرمنٹ کے بعد میرے ساتھ رہیں۔ جب اصرار کیا تو بولے: ''یار آٹھ برس پڑے ہیں‘‘۔ میں نے کہا: ''چلیں اس وقت تک میں گھر بنوا لوں گا۔ آپ کی خدمت میرے بچے کریں گے‘ جیسے آپ نے ہماری کی ہے‘‘۔ اسی رات وہ ہم سے جدا ہو گئے۔ نئی منزلوں کے راہی بن گئے۔
دوسرے طفر الطاف تھے‘ جن کی ریٹائرمنٹ کو سب سے زیادہ میں انجوائے کر رہا تھا... اور اب وہ بھی نہیں رہے‘ حالانکہ میری سوچ یہ تھی کہ وہ ابھی کم از کم بیس برس مزید زندہ رہیں گے۔ میری بیوی مجھ سے پوچھتی رہی: ''بیدار ہو کر تم منہ میں کیا بڑبڑاتے ہو‘‘۔ میں کئی دنوں تک چھپاتا رہا‘ پھر بتایا: ''نعیم بھائی کی موت کے بعد اب ڈاکٹر ظفر الطاف کی زندگی کی دعا مانگتا ہوں‘‘۔ وہ قطعاً حیران نہ ہوئی‘ بولی: ''اب کیا کریں‘ تم نے دوستیاں بھی تو اپنے ہم عمروں کے بجائے اپنی عمر سے خاصے بڑے لوگوں سے کر رکھی ہیں‘‘۔ میں اس کی بات سمجھ کر بھی انجان بنا‘ خاموش رہا۔ 
پچھلے بدھ کو اسلام آباد سے گائوں گیا تھا‘ تو وہ شہر میں موجود تھے۔ اب لوٹا ہوں تو وہ نہیں ہیں۔ دوپہر ہو چکی ہے۔ بیوی دفتر‘ بچے سکول میں ہیں‘ جبکہ میں گھر میں کافی دیر سے تنہا بیٹھا ہوں۔ ظفر الطاف اگر زندہ ہوتے تو اب تک ان کا فون آ چکا ہوتا... ''کدھر ہو‘ آ جائو یار‘... اور پھر ایک سے چار بجے تک ان کے دفتر میں بیٹھ کر طویل گپ شپ ہوتی‘ جہاں پوری دنیا سے ان کے دوست اور مداح موجود ہوتے۔ سب مل کر لنچ کرتے۔ شام کو سات بجے پھر فون آ جاتا۔ یہ نہ کہتے کہ کدھر ہو۔ کہتے: دفتر کے باہر ہوں‘ آجائو‘ چلو کافی پیتے ہیں! 
سب لوگ قبر پر مٹی ڈال رہے تھے۔ مجھ سے قدم نہیں اٹھایا جا رہا تھا۔ پرویز ملک‘ جسے سب دوست پیار سے ''پیجی‘‘ کہتے ہیں‘ نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا۔ میں چند قدم آگے بڑھا۔ مٹھی بھر مٹی لی اور قبر پر بکھیر کر اکیلا ہی قبرستان سے نکل آیا۔
یاد آیا 1998ء میں‘ جولائی کی ایک دوپہر‘ جب ملتان چھوڑ کر اسلام آباد آئے ہوئے چند روز ہوئے تھے، وفاقی سیکرٹریٹ میں واقع ڈاکٹر ظفر الطاف کے دفتر میں داخل ہوا‘ کیونکہ ڈان کے بیوروچیف محمد ضیاالدین نے مجھے زراعت کی بیٹ دے دی تھی۔ میں نے سوچا‘ پہلے دن ہی سیکرٹری صاحب سے ملتے ہیں۔ ان کے پرائیویٹ سیکرٹری کو چٹ پر نام لکھ کر دیا۔ انور مسکرایا‘ اور بولا: ''یہاں چٹ کا رواج نہیں‘ یہ اکبر بادشاہ کا دربار ہے‘ یہاں سب برابر ہیں‘ دورازہ کھول کر چلے جائیں‘‘۔ میں نے کہا: ''لیکن میں تو انہیں نہیں جانتا، نہ ہی وہ مجھے جانتے ہیں‘‘۔ وہ بولا: ''بادشاہو! جانتا تو میں بھی آپ کو نہیں‘ نہیں جانتے تو آپ ان کو جان جائیں گے‘‘۔
اسی وقت دروازہ کھلا۔ سامنے ڈاکٹر ظفر الطاف کھڑے تھے۔ کمرے میں کچھ اور لوگ بھی تھے۔ لمحہ بھر انور کو یوں لگا‘ ڈاکٹر صاحب شاید مجھے ہی لینے آئے ہیں۔ وہ فوراً بول پڑا: ''سر آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔ میں نے بڑا کہا چلے جائیں‘ لیکن یہ چاہتے ہیں کہ پہلے آپ کو چٹ دوں‘‘۔ ڈاکٹر طفر الطاف نے میری طرف پہلی دفعہ غور سے دیکھا‘ اور بولے: ''آئو کھانے پر چلتے ہیں‘‘۔ کمرے میں جتنے لوگ تھے‘ سب کو ساتھ لیا۔ میں اکیلا رہ گیا تو انور بولا: ''آپ نے سنا نہیں ڈاکٹر صاحب نے آپ کو بھی کہا ہے کہ ان کے ساتھ کھانے پر چلیں۔ یہ سب لوگ ان کے ساتھ جا رہے ہیں۔ آپ بھی جائیں‘‘ میں اور انور نیچے گئے تو واقعی گاڑی رکی ہوئی تھی۔ انہوں نے مجھے اپنے ساتھ بٹھا لیا۔یہ تھا ہماری طویل رفاقت کا آغاز۔ ان کے ساتھ پورا ایک قافلہ تھا‘ جو کھانے پر جا رہا تھا۔ مجھے بعد میں پتہ چلا کہ وہ ایسی روح تھے‘ جو اکیلے کھانے نہیں کھا سکتی تھی۔ جب تک ان کے ساتھ ایک درجن لوگ نہ ہوں‘ وہ کھانا نہیں کھا سکتے تھے۔ بل خود ادا کرتے۔ 
میری ایک عادت سے انہیں چڑ ہو گئی تھی۔ میں بغیر چٹ کے ان کے دفتر نہ جاتا‘ چاہے کچھ بھی ہو۔ انور ناراض ہو گیا کہ کیوں مجھے ڈاکٹر صاحب سے ڈانٹ پڑواتے ہو۔ ڈاکٹر الطاف کا کمرہ پریس کلب کی شکل اختیار کر چکا تھا۔ اسلام آباد کے بیشتر صحافی ان کے کمرے میں موجود ہوتے۔ تھوڑے فاصلے پر ڈاکٹر صاحب ملاقاتیں کر رہے ہوتے‘ یا پھر اجلاس اور ہم صحافی ان کے صوفوں پر لیٹے چائے پیتے، بسکٹ کھاتے خبروں کا انتظار کرتے۔ میٹنگ ختم 
ہوتی تو سب لپک کر جاتے کہ سر جی! کوئی خبر دیں۔ وہ کسی افسر کو کہتے کہ رک جائو اور انہیں بریف کر دو۔ ان کی وزارت کے افسران کو بہت کوفت ہوتی تھی کہ ڈاکٹر صاحب نے یہ کیا صحافیوں کا ہجوم پال رکھا ہے۔ بھلا کوئی سرکاری افسر اور وہ بھی وفاقی سیکرٹری کسی صحافی کو خبر یا سرکاری کاغذ دیتا ہے؟ ڈاکٹر صاحب ایک دبنگ سرکاری افسر تھا ۔ پتہ چلا کہ شوگر ملز مالکان نے کسانوں کے دو ارب روپے دبا لیے ہیں۔ انہوں نے رولا ڈال دیا۔ قومی اسمبلی کی کمیٹی میں جا کر شور مچایا‘ اور ان شوگر ملز مالکان کی فہرست بھی پیش کر دی‘ جنہوں نے کسانوں کا پیسہ دبا رکھا تھا۔ ایسی باتوں پر حکومت کو سبکی ہو رہی تھی۔ انہیں سمجھانے کی کوشش کی گئی‘ لیکن وہ ایسی باتیں بھلا کہاں سمجھتے تھے۔ ان کو اپنی نوکری سے زیادہ کسانوں کا مفاد عزیز تھا۔ مجھے ان کے دفتر میں پھیلی کشیدگی سے اندازہ ہو رہا تھا کہ کچھ نہ کچھ ہونے والا ہے کیونکہ ڈاکٹر صاحب اپنے موقف سے ہٹنے کو تیار نہیں تھے اور شوگر ملز مالکان ناراض ہو چکے تھے کہ ان کے نام میڈیا میں چھپ گئے تھے۔ اپٹما والے پہلے ہی ناراض تھے کہ وہ ان پر تنقید کرتے کہ وہ کسانوں کا استحصال کرتے ہیں۔ خود ایک سے دوسری ٹیکسٹائل مل لگا لی لیکن کسان کی زندگی میں کوئی فرق نہیں آیا تھا۔ آخر وہی ہوا جس کا خوف تھا۔ ایک دن پتہ چلا ڈاکٹر صاحب کو سیکرٹری کی پوسٹ پر سے ہٹا دیا گیا ہے۔ ہم سب صحافیوں پر منوں پانی پڑ گیا کیونکہ سب کو ان کی عادت ہو چکی تھی۔ وہ خبر بلاک کرنے پر یقین نہیں رکھتے تھے۔ ان کا خیال تھا صحافیوں کا یہی کام ہے۔
پھر ہوا یوں کہ ملک میں کھاد کی کمی ہو گئی۔ ہر طرف شور مچ گیا۔ خطرہ پیدا ہو گیا گندم کی فصل متاثر ہو جائے گی۔ اجلاس بلا لیا گیا۔ ڈاکٹر ظفر الطاف سیکرٹری تھے۔ ان کی جواب طلبی ہوئی۔ سیکرٹری خزانہ نے سارا ملبہ وزارت زراعت پر ڈال دیا کہ انہوں نے بروقت فنڈز کی سمری نہیں بھیجی تھی۔ ڈاکٹر ظفر الطاف بولنے لگے‘ تو سینئر سیکرٹری فنانس نے آنکھوں ہی آنکھوں میں منت کی کہ خاموش رہیں۔ ایک روایتی اور مروت سے بھرا ظفر الطاف خاموش رہا۔ اپنے اوپر ساری ذمہ داری لے لی۔ سیکرٹری فنانس بچ گیا‘ اور ڈاکٹر ظفر الطاف شام کو سیکرٹری کی پوسٹ سے ہٹا دیے گئے۔ 
میں ان کے گھر ملنے گیا تو پوچھا: ''کیا ہوا‘‘۔ پوری بات بتائی۔ میں نے کہا: ''لیکن آپ تو تین ماہ سے سمریاں بھیج رہے تھے۔ فنانس نے فنڈز ریلیز نہیں کیے۔ آپ نے وزیر اعظم کو کیوں نہ بتایا؟‘‘ بولے: ''رئوف تم نہیں سمجھو گے۔ میں سول سروس کے اس گروپ سے تعلق رکھتا ہوں جو سینئرز کو اس طرح سب کے سامنے 'لیٹ ڈائون‘ نہیں کر سکتے۔ اگر سینئر نے خیال نہیں کیا‘ اور مجھے اعلیٰ حکام کے آگے چارہ بنا کر پھینک دیا تھا‘ تو پھر مجھے ہی لحاظ کرنا تھا۔ کسی ایک کو جانا تھا۔ میں جاتا یا پھر سیکرٹری فنانس۔ میں چپ رہا کہ میں ہی چلا جاتا ہوں۔ میں نے کیا کرنا ہے‘‘۔ کوئی افسوس... کوئی افسردگی نہیں تھی۔ اس وقت کے وزیر عبدالستار لالیکا نے انہیں کہا کہ ابھی چارج مت چھوڑیں‘ میں کچھ کرتا ہوں۔ بولے: آپ کوشش کرتے رہیں۔ چارج چھوڑ دیا ہے۔ مجھے کہا: تمہاری پرانی سوزوکی 1994ء والی ماڈل کار کدھر ہے؟ میں نے کہا: سر نیچے کھڑی ہے۔ بولے: چلو چلتے ہیں‘ کہیں کافی پیتے ہیں اور پھر مجھے گھر چھوڑ دینا۔
اور وہ میری ٹوٹی پھوٹی گاڑی پر بیٹھے، قہقہے لگاتے اور مسکراتے رہے۔ ہم نے کافی پی اور شام کو انہیں ان کے گھر چھوڑ دیا۔ ان کی بیگم کو پتہ چل چکا تھا۔ وہ دوازے پر تھیں۔ مسکراتے ہوئی بولیں: ظفر صاحب آپ پھر او ایس ڈی بن گئے ہو‘ مبارک ہو‘ تم نے اپنی پرانی روایت سے غداری نہیں کی‘ میں خود حیران تھی ایک سال ہونے کو آیا‘ تمہیں ابھی تک وزیر اعظم نے کیسے برداشت کیا ہوا ہے۔ بولے: چھوڑو یار ہر وقت طعنے دیتی رہتی ہو...پلیز رئوف اور میرے لیے کھانا لائو (جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں