ڈاکٹر ظفر الطاف روم (اٹلی) سے اسلام آباد ائیرپورٹ اترے اور گھر چلے گئے۔ نیب کا انتظار شروع کیا۔ نیب نہ آئی۔ سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ طارق سعید آ گئے۔ ڈاکٹر صاحب حیران ہوئے۔ طارق نے بتایا آپ کی قسمت ہی بہت اچھی ہے۔
جنرل امجد نے وارنٹ گرفتاری پر دستخط کر دیے تھے لیکن وہاں نیب اجلاس میں کراچی کی ایک خاتون وکیل ڈٹ گئی۔ اس نے کہا میں نے وہ فائلیں پڑھی ہیں جن کی بنیاد پر ڈاکٹر ظفر الطاف پر مقدمہ قائم کیا جارہا ہے۔ وہ فیصلہ انہوں نے ذاتی فائدے کے لیے نہیں کیا تھا ۔ خاتون کا خیال تھا کہ مقدمہ قائم کرنے سے پہلے یہ دیکھنا ہوگا ‘ جس نے وہ فیصلہ کیا اس کی نیت کیا تھی۔ کیا مقصد کچھ ذاتی فائدے اٹھانا تھا؟
بڑی دیر تک جنرل امجد سے بحث ہوتی رہی۔ نیب کا خیال تھا اگر ڈاکٹرظفر الطاف جیسے بیوروکریٹ کو گرفتار کر لیا گیا تو بیوروکریسی میں دہشت پھیل جائے گی اور انہیں قابو کرنا آسان ہوجائے گا۔ لیکن کراچی کی وہ خاتون وکیل نہ مانی اور یوں ڈاکٹر ظفر الطاف گرفتار نہ ہوئے۔ طارق سعید نے پوچھا‘ کیا وہ اس خاتون کو جانتے ہیں؟ ڈاکٹر حیران ہوئے اور بولے میں تو نام بھی پہلی دفعہ سن رہا ہوں۔
اب نیب نے فیصلہ کیا کاٹن کیس میں نہیں پھنستے تو امریکی کمپنی کو ادا کیے گئے جرمانے میں پکڑ لو۔
مجھے یاد آیا ڈاکٹر صاحب کو جس مقدمے میں پھنسایا جا رہا تھا‘ اس کے مطابق ایک امریکی کمپنی کو ادائیگی کی گئی‘ وہ بھی ان کی مروت کی نشانی تھی کہ وہ اپنے سینئرز کے احترام میں اپنے آپ کو کس حد تک نقصان پہنچانے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ ہوا یوں کہ بینظیر بھٹو دور میں انہوں نے ملک میں کسانوں کو پانی کے نقصانات سے بچانے کے لیے جیوسینتھیٹک لائننگ پروجیکٹ کی منظوری لی جس کا ٹھیکہ ایک امریکی کمپنی کو ملا۔ اس کا مقصد پاکستانی نہروں سے پانی کو ضائع ہونے سے بچانا تھا۔ حکومت بدلی، ڈاکٹر صاحب کو بھی بدل دیا گیا۔ نئی حکومت اور سیکرٹری نے وہ پروجیکٹ ختم کر دیا۔ امریکی کمپنی نے امریکہ میں مقدمہ کر دیا۔ عدالت نے پاکستانی ایمبیسی کو نوٹس جاری کر دیے۔ اتنی دیر میں جنرل مشرف واپس آئے اور ڈاکٹر ظفر الطاف دوبارہ سیکرٹری بنے۔ اسی اثناء میں واشنگٹن میں ایمبیسی نے خط بھیجے کہ ان کے لیے مسائل پیدا ہوگئے ہیں جس سے بینک اکائونٹ تک بند ہوجائیں گے۔ اس دوران سیکرٹری جنرل فنانس واشنگٹن گئے تو ان کی ملاقات امریکی کمپنی کے عہدے داروں سے ہوئی۔ واپسی پر انہوں نے ڈاکٹر ظفر الطاف کو کہا کہ اس معاملے کو سیٹل کریں ۔ ایک کمیٹی بنائی گئی۔ جس میں فنانس، پلاننگ ڈویژن، اکنامک افیئر اور زراعت کے افسران شامل تھے۔ اس کمیٹی نے امریکی کمپنی سے مذاکرات کیے۔ باقاعدہ سیٹل مینٹ ہوئی۔ ایک سمری بنا کر ای سی سی کو بھیجی گئی جس میں کہا گیا کہ امریکی کمپنی کو جرمانہ ادا کیا جائے۔ شوکت عزیز نے سمری کی منظوری دی۔ فنانس منسٹری نے ادائیگی کر دی۔ لیکن جب جنرل مشرف غصے سے لال پیلے ہوئے تو اسی فنانس منسٹری نے سارا ملبہ ڈاکٹر ظفر الطاف پر ڈالا۔ ایک رات ان کی طرف ایک فائل پھینکی اور کہا اسے پڑھو۔ انہوں نے وہ خط پڑھا جو سیکرٹری جنرل فنانس نے انہیں لکھا تھا کہ وہ امریکی کمپنی سے ملے ہیں اور وہ اس کے جاننے والے ہیں۔ ان سے کہا گیا اب یہ مسئلہ کمیٹی میں حل ہو گا۔ وہ بولے: میرا اس میں کیا قصور ہے؟ کمیٹی نے سفارش کی اور شوکت عزیز نے ای سی سی میں منظوری دی لیکن وہی سیکرٹری جنرل خاموش ہو گئے اور مقدمہ ڈاکٹر صاحب پربنا دیا گیا ۔
میں حیرانی سے سنتا رہا۔پوچھا: آپ نے شور کیوں نہیں ڈالا۔ مسکرائے اور بولے‘ سیکرٹری جنرل فنانس میرے سینئر ہیں۔ اگر انہیں یہ کرتے ہوئے احساس نہیں ہوا تو میرے شور ڈالنے سے ہوجائے گا؟
پہلے ہی ڈاکٹر ظفر الطاف پر آڈٹ رپورٹ کے پیروں کی روشنی میں بائیس مقدمات بن چکے تھے۔ انہیں ذلیل کرنے کے لیے پنڈی نیب بلایا جاتا۔ کرنل لیول کا ایک افسر انہیں گھنٹوں دفتر کے باہر بٹھائے رکھتا۔ وہ بیٹھے رہتے۔ اپنے ساتھ کتاب لے جاتے اور ایک بینچ پر بیٹھ کر پڑھتے رہتے۔ آخر ایک دن نیب کے دل کی بات زبان پر آگئی کہ ایک صورت میں معافی مل سکتی ہے۔ بینظیر بھٹو اور آصف زرداری کے خلاف ٹریکٹر ریفرنس میں وعدہ معاف گواہ بن جائو ۔ مسکرائے اور بولے‘ ماں نے وہ دودھ نہیں پلایا کہ ایک خاتون کے خلاف عدالت میں وعدہ معاف گواہ بن جائوں ۔ جو میرے ساتھ کرنا ہے‘ کر لو ۔ نیب کو طنزیہ کہا۔ ویسے بینظیر بھٹو اور زرداری پر مقدمہ یہ نہیںبنتا تھا کہ انہوں نے بیرون ملک سے ڈیڑھ لاکھ روپے میں ٹریکٹر منگوا کر کسانوں کو بانٹے جبکہ مقامی مارکیٹ میں یہی ٹریکٹر چار پانچ لاکھ روپے میں بک رہا تھا ۔ ان کا اصل جرم یہ تھا کہ وہ اتنا سستا ٹریکٹر ملک میں لائے کیوں؟کیوں کسانوں کو فائدہ دینے کی کوشش کی؟ انہوں نے نیب کو بتایا کہ یہ منصوبہ ان کا تھا ۔ انہوں نے سیکرٹری کے طور پر سمری بینظیر بھٹو کو بھیجی تھی۔ اگر یہ سکینڈل تھا تو اس میں بینظیر بھٹو کا قصور نہیں تھا ۔ اگر اس میں کمشن کھایا گیا تھا تو وہ کمشن پھر انہوں نے کھایا تھا ۔ نیب سے پوچھا‘ ذرا سمجھا دیں کہ بیلاروس سے امپورٹ کر کے ایک ٹریکٹر ڈیڑھ لاکھ روپے میں کسان کو گھر ملا، اس میں کتنا کمشن ایک ٹریکٹر میں کمایا جاسکتا تھا ۔ دس یا بیس ہزار روپے؟ اگر کسی نے پھر بھی کمالیا تھا تو اس کو داد ملنی چاہیے۔
یہ کہہ کر وہ اٹھ گئے کہ نیب بھول جائے‘ وہ کبھی بینظیر بھٹو کے خلاف وعدہ معاف گواہ نہیں بنیں گے‘ چاہے آسمان ہی کیوں نہیں گر جاتا ۔ اس اثناء میں انہوں نے انگریزی اخبارات میں کالم لکھنے شروع کیے۔ جس پر شوکت عزیز مزید مشتعل ہوگئے۔ نیب کو حکم ہوا‘ ڈاکٹر کو مزید ٹائٹ کرو۔ ایک بیوروکریٹ کی یہ جرأت کہ وہ وزیرخزانہ کی پالیسیوں پر سرِعام تنقید کرے۔
ایک رات گھر پر تھا کہ دستک ہوئی۔ نکل کر دیکھا تو ڈاکٹر صاحب کھڑے تھے۔ غصے سے سرخ ہورہے تھے۔ میں گھبرا گیا ۔ اندر لایا۔ بولے‘ بھابی سے کہو کھانا کھلائے۔میں ان کے لیے ٹھنڈا پانی لایا۔پوچھا ‘خیریت ہے۔مجھے دیکھتے رہے۔ بولے ‘یار آج بہت تکلیف ہوئی ہے۔بہت زیادہ۔کیا نیکی کا یہی انجام ہوتا ہے؟
میں نے پوچھا‘ کیا ہوا ؟بولے‘ تھوڑی دیر پہلے طارق سعید ہارون گھر آیا تھا ۔ اس کے ساتھ مرسڈیز پر ایک بندہ تھا۔ میں اسے نہیں جانتا تھا ۔ اس نے بتایا‘ آپ بھول گئے ہوں گے‘ کچھ برس قبل میں آپ کے اسی گھر میں آیا تھا ۔ اس دن وزارت ِزراعت نے گندم کے گوداموں پر دیمک سپرے کا کنٹریکٹ دینا تھا ۔ بولیاں کھلنی تھیں۔ میں مقروض ہوچکا تھا ۔ یہ میرا آخری چانس تھا ۔ اپنی بیوی کے زیور اور گھر کو گروی رکھ کر میںنے بولی میں حصہ لیا تھا ۔ لیکن وہ کنٹریکٹ کراچی کی پارٹی کو مل گیا تھا ۔ اسی شام میں آپ کے گھر آیا اور سب کہانی بتائی۔ آپ نے مجھے ڈرائنگ روم میں بٹھایا اور کراچی کی پارٹی کو فون کیا تھا کہ آدھا کنٹریکٹ وہ مجھے دے دیں۔ آپ کی مہربانی سے آج میں کروڑپتی ہوں۔ میرا کام چل پڑا۔
طارق سعید کے ساتھ وہ چینی کھانے پر چلے گئے۔ وہ بندہ بھی ساتھ تھا۔ طارق نے ان کے ساتھ نیب کے مقدمات پر بات شروع کی۔ وہ بندہ چپ کر کے سنتا رہا۔ وہ اچانک بول پڑا ۔ ڈاکٹر صاحب اگر نیب نے آپ پر مقدمات بنائے ہیں تو آپ نے کچھ نہ کچھ تو کیا ہوگا۔ کچھ تو کھایا ہوگا ؟ یہ سننا تھا کہ ڈاکٹر صاحب غصے سے کانپنے لگے۔ اسے وہیں ریسٹورنٹ میں گالیاں دیں اور پوچھا‘ تم نے خود اپنی ساری کہانی مجھے سنائی۔ مجھے تو یہ واقعہ یاد تک نہیں تھا۔ اگر میں کرپٹ تھا تو میں نے تم سے کتنے پیسے لیے تھے؟
کھانا کھائے بغیر اب میرے گھر افسردہ بیٹھے تھے ‘ بولے ‘یار میں مانتا ہوں‘ میں کوئی نیک انسان نہیں ہوں ۔ میرے اوپر الزامات لگتے ہیں کہ میں رولز کی پروا نہیں کرتا۔ میں دوستوں کو نوازتا ہوں۔ جو جی چاہے کرتا ہوں۔ بعض دفعہ میرے اپنے ہی دوست غلط کام کرا لیتے ہیں۔بولے میں نے ساری عمر لوگوں پر بھروسہ کیا ۔ میرے نزدیک ہر انسان بنیادی طور پر اچھا ہوتا ہے۔ اسے موقع ملنا چاہیے۔مجھے بعض دفعہ علم ہوتا ہے کہ مجھ سے میرا کوئی دوست غلط کام کرارہا ہے... کیا کروں یہ میرے مزاج میں ہے۔اچھے دوست بھی ملے مگر دشمن بھی بہت بنائے۔
وہ بولتے رہے۔میں خاموش سنتا رہا۔
اس وقت وہ ٹوٹے ہوئے تھے۔
ریٹائرمنٹ کے بعد انہیں پتہ چلا کہ انہوں نے ایک قریبی دوست پر اعتماد کیا تھا ۔ اسے زراعت کے اہم ادارے کا سربراہ بنایا جس کا کام پرائیویٹ پارٹیوں کو قرضہ دے کر ملک میں پام آئل کو فروغ دینا تھا۔ اب انہیں پتہ چلا تھا اس افسر نے ان کے نام پر قرضہ بانٹنے کے چکر میں ستر لاکھ روپے اکٹھے کر لیے تھے۔ بولے‘ اندازہ کرو‘ میری کیا حالت ہوئی ہو گی۔ جب پتہ چلا تو ایک نے بتایا کہ آپ کے نام پر اتنے لاکھ روپے لیے گئے۔ دوسرے سے چیک کیا تو اس نے بھی یہی بتایا۔ دیگرسے چیک کیا تو سب نے کہا‘ آپ کے اس بااعتماد افسر نے اسی لاکھ روپے لیے تھے۔
ساری عمر افسردہ رہے لیکن لوگوں پر اعتماد کرنا پھر بھی نہ چھوڑا۔
اس دوران شاہین صہبائی نے جنرل مشرف کے خلاف سخت آرٹیکل لکھے تو ان کے برادر اِن لاء اور ایک بھتیجے پر مقدمہ بنا کر جیل میں ڈال دیا گیا۔ شاہین صہبائی نے سب کو پاکستان میں فون کیے۔ کسی نے آواز نہیں اٹھائی۔ میں نے ایک دن ڈاکٹر ظفر الطاف کو بتایا تو تیار ہوگئے۔ میں نے کہا‘ آپ سول سرونٹ ہیں ۔ آپ کے خلاف کارروائیاں ہوں گی۔ پہلے ہی مقدمات چل رہے ہیں ۔ بولے شاہین صہبائی کوئی غلط نہیں کررہا۔ وہ بہادر ہے۔ اس کا ساتھ سب کو دینا چاہیے۔ ویسے بھی شاہین کے رشتہ داروں کا کیا قصور۔ اب ہم بھی چپ رہیں کہ سیکرٹ ایجنسیاں اور جنرل مشرف ہمارا جینا حرام کر دیں گے؟ جو ہو گا دیکھا جائے گا۔
ہم دونوں پنڈی عدالت پیشی پر جاتے۔ نواز لیگ کے ظفرعلی شاہ کا اللہ بھلا کرے وہ وکیل بن گئے۔ خفیہ ایجنسیوں کے لوگ ضمانت نہیں ہونے دے رہے تھے۔ آخر مشکل سے ایک کی ضمانت ہوئی تو پتہ چلا کہ ضامن نہ تھا ۔کوئی تیار بھی نہیں تھا۔ سیکرٹ ایجنسی شاہین صہبائی کی دشمن بن چکی تھی۔ ظفرالطاف نہ گھبرائے اور خود عدالت میں اپنی جائیداد کے کاغذات پیش کیے اور ضمانت دی۔ کچھ دن بعد بھتیجے کی ضمانت ہوئی تو پھر کوئی ضامن نہ تھا ۔ ہم دونوں چپ کہ اب کیا کریں۔ سوچنے کے بعد بولے‘ میرے ساتھ آئو۔کمرے سے کچھ کاغذات لیے‘ گاڑی نکالی‘مجھے بٹھایا اور پنڈی یونیورسٹی لے گئے۔ وہاں سے اپنی اکلوتی بیٹی فریحہ کو کلاس روم سے بلوایا ۔ اسے بتایا بھی نہیں کہ کہاں جارہے ہیں۔ اپنی یونیورسٹی پڑھتی بیٹی کو عدالت میں جج کے سامنے پیش کیا ۔ اس کے پلاٹ کی دستاویزات عدالت میں پیش کیں۔ بیٹی کو کہا‘ جج کو بتائوتم شاہین صہبائی کے بھتیجے کی ضامن ہو...میں عدالت کے ایک کونے میںمبہوت کھڑا یہ سب کچھ دیکھ رہا تھا (جاری )