ڈاکٹر ظفرالطاف نے لندن میں وسیم اکرم کی بیگم ہما اکرم سے مدد لینے کا فیصلہ کیا ۔
ڈاکٹر صاحب ہما کی عزت کرتے تھے۔ وہ کہتے ‘وسیم اکرم کو بنانے میں ہما کا بہت ہاتھ تھا ۔ وہ ماہرِ نفسیات تھی ۔ جب وسیم اکرم اپنی زندگی کے برے وقت سے گزر رہا تھا تو اس وقت ہما نے ہی اس کی مدد کی۔ ڈاکٹر ظفرالطاف نے ہما کو بتایا کہ تم ہی وسیم اکرم کو سمجھا سکتی ہو وہ شعیب اختر کے ساتھ وہی رویہ رکھے جو عمران نے اس کے ساتھ رکھا تھا۔ شعیب اختر ایک وننگ پلیئر تھا۔ وہ مخالف ٹیموں کو خوفزدہ کرنے کی صلاحیت رکھتا تھا ۔ انہوں نے ہما سے کہا‘ وسیم کو سمجھائو ایک اینڈ سے جب شعیب اختر دھواں دھار بولنگ کرائے گا تو دوسرے اینڈ سے وسیم اکرم کے لیے وکٹیں لینے کا موقع بڑھ جائے گا کیونکہ شعیب سے خوفزدہ کھلاڑی وسیم کو کھیلنے کی کوشش کریں گے اور وسیم انہیں اپنی تباہ کن بولنگ سے نشانہ بنا سکے گا ۔ اس لیے وہ شعیب اختر کو اپنے لیے ایسا ساتھی سمجھے جو نہ صرف اسے وکٹیں لینے میں مدد دے گا بلکہ وہ میچ بھی جتوائے گا۔ وسیم ورلڈ کپ جیتے گا تو عمران خان کی طرح اس قوم کا ہیرو بن کر ابھرے گا ۔
ہما نے ڈاکٹر ظفر الطاف کی باتوں سے اتفاق کیا اور اس نے وسیم اکرم اور شعیب کے درمیان جو فاصلے پیدا ہوگئے تھے انہیں دور کرانے میں بھی مدد کی تھی ۔
ڈاکٹر ظفرالطاف کا خیال تھا‘ وسیم اکرم کو اس طرح شعیب کو اپنے لیے استعمال کرنا چاہیے جیسے کبھی وقار یونس کو کیا تھا ۔ وقار جیسے تیز رفتار بائولر کو جب کھیلنے میں ناکام ہو کر کھلاڑی وسیم اکرم کو مارنے کی کوشش کرتے تھے تو آئوٹ ہوجاتے تھے۔ اب وہی موقع پھر پیدا ہوچکا تھا لیکن وسیم اکرم شعیب اختر کی مقبولیت کی وجہ سے کچھ ضد لگا بیٹھا تھا اور ڈاکٹر صاحب کے خیال میں یہ پاکستانی ٹیم اور خود وسیم اکرم جیسے بڑے بائولر کے لیے کچھ اچھی بات نہیں تھی۔ وقار یونس کی بات سے ڈاکٹر ظفر الطاف کو یاد آیا جب لاہور میں ٹیم کا کیمپ لگا ہوا تھا اور شارجہ کے لیے ٹیم کی سلیکشن ہونا تھی تو وہ قذافی اسٹیڈیم میں تھے۔ عمران خان نے پوچھاکہ آپ سلیکٹرز نے یہ کس نوجوان (وقار یونس) کو ٹیم میں ڈال دیا تھا؟ عمران خان کسی اور بائولر کو ٹیم کا حصہ بنانے کے حق میں تھے ۔ ڈاکٹر ظفر الطاف نے کہا ‘عمران‘ ایک کام کرو ۔ وہ لڑکا (وقار یونس) اس وقت نیٹ پر بائولنگ کرا رہا ہے۔ تم جائو اور اسے کھیلو اور واپس آکر بتائو کہ اسے لینا ہے یا نہیں۔ عمران خان نے پیڈ باندھے اور نیٹ پر چلے گئے۔ کچھ دیر بعد لوٹے تو پسینہ بہہ رہا تھا اور بولے یار ZA وہ تو واقعی نہیں کھیلا جارہا ۔ بہت تیز بائولنگ کرتا ہے۔ چلو ٹھیک ہے‘ اسے ٹیم میں رہنے دو۔
ڈاکٹر ساری عمر ہما کے شکر گزار رہے کہ اس نے اس مشکل وقت میں مدد کی اور وسیم کو سمجھایا تھا ۔ جب ہما کی موت ہوئی تو وہ کئی دن افسردہ رہے اور بولے ‘وہ ایک زبردست خاتون تھی ۔ ایک سمجھدار عورت۔ یہ واقعہ بھی انہوں نے ہما کی موت پر سنایا تھا کہ کیسے اس نے مشکل وقت میں شعیب اختر اور وسیم اکرم کے درمیان پیدا ہونے و الے مسائل میں پیچھے رہ کر بے پناہ مدد کی تھی ۔
جب بھی شعیب اختر کی بات ہوتی تو کہتے کہ وہ غصیلا ہے۔ اس کے اندر جوش ہے۔ کہتے ایک فاسٹ بولر غصیلا نہیں ہوگا تو وہ کیا بولنگ کرائے گا؟ ایسے بڑے کھلاڑیوں کو manage کرنا چاہیے۔ اس لیے شعیب اختر نے کبھی ان کے لیے مسائل پیدا نہیں کیے کیونکہ وہ اسے سمجھتے تھے اور ویسے ہی ہینڈل کرتے تھے اور جوابا ًشعیب اختر نے ہمیشہ ان کی عزت کی۔
کرکٹ کھیل ہی انا کا ہے۔ یہ انسانی انا ہی ہے جو کسی کو شعیب اختر جیسے خوفناک بائولر کے سامنے کھڑے ہونے پر مجبور کرتی ہے ورنہ کوئی پاگل ہی دنیا کے تیز ترین بائولر کے سامنے کھڑے ہونے کی جرأت کرے گا۔ اس طرح ایک بائولر کی انا ہی اسے دوبارہ بائونس بیک کرنے کی طاقت فراہم کرتی ہے جب ویون رچرڈز جیسا کھلاڑی پٹائی کر رہا ہو۔ میں نے ایک دن پوچھا‘ ڈاکٹر صاحب! آپ ٹیم کے مینیجر تھے اور ٹیم پر الزامات لگے کہ اس نے لندن کا ورلڈ کپ بیچ دیا تھا۔کس نے ہماری ٹیم کو خرید لیا تھا؟
ڈاکٹر صاحب میری کم باتوں کا برا مانتے تھے لیکن اس دن مجھے لگا‘ انہیں میری بات اچھی نہیں لگی۔ بولے سچ سننے کا حوصلہ ہے؟ میں خاموش رہا تو بولے کوئی ٹیم بھلا کیسے کھیل سکتی ہے‘ اگر کھیل شروع ہونے سے پہلے آپ کا لندن میں ہائی کمشنر آپ کو یہ پیغام دے کہ وزیراعظم پاکستان کا کہنا ہے کہ اگر تم لوگ فائنل ہارگئے تو پھر پاکستان مت لوٹنا۔ وہ بولے جونہی انہیں پتہ چلا یہ پیغام دیا گیا ہے تو وہ اسی وقت سمجھ گئے تھے پاکستان فائنل ہار چکا تھا۔ بھلا اتنے بڑے دبائو میں کون کھیل سکتا ہے۔ آپ کو میچ شروع ہونے سے پہلے ہی ملک کے وزیراعظم کا پیغام دیا جائے کہ اگر اچھا نہ کھیلے تو اپنے وطن مت لوٹنا۔یہ سب دبائو تھا۔دبائو کی وجہ سے ہم میچ ہار گئے تھے۔ وہ بولے ان کی کوشش تھی میچ سے پہلے کوئی شخص کھلاڑیوں تک نہ پہنچ سکے۔ ڈریسنگ روم کھلاڑیوں کی نجی سلطنت ہوتی ہے۔ وہاں کسی اور کا داخلہ ممنوع ہوتا ہے۔ وہ بولے‘ جب وہ ڈریسنگ روم گئے تو سب کے منہ اُترے ہوئے تھے۔ انہوں نے حوصلہ دینے کی کوشش کی لیکن انہیں لگا کہ وہ میچ سے پہلے ہی ہار چکے ہیں۔ وہ شاید اپنے وزیراعظم کی طرف سے اس وقت حوصلے کے چند الفاظ سننا چاہتے تھے نہ کہ یہ دھمکی کہ اگر وہ ہار گئے تو وہ وطن نہ لوٹیں گے۔ وہی کچھ ہوا ۔ جب وہ سب وطن لوٹے تو سیف الرحمن اپنی توپیں لے کر سب کھلاڑیوں کے پیچھے لگ گئے ۔ وزیراعظم نے اپنے کہے پر عملدرآمد شروع کر دیا تھا۔ ایک انکوائری شروع ہوگئی۔ سیف الرحمن نے سب کھلاڑیوں کو ہراساں کرنا شروع کردیا ۔ اس دبائو کو استعمال کرتے ہوئے سیف الرحمن نے اپنے بھائی مجیب الرحمن کو کرکٹ بورڈ کا سربراہ بنوالیا اور سب مقدمہ ختم ہوگیا ۔
ڈاکٹرظفر الطاف کہتے تھے ‘ کھلاڑیوں کی ذہنی تربیت بہت ضروری ہوتی ہے۔ جب وہ ویسٹ انڈیز کے دورے پر ٹیم کو لے کر گئے تو تباہ کن باولنگ کے سامنے پاکستانی کھلاڑیوں کو مشکلات پیش آرہی تھیں۔ جاوید میانداد بھی قدرے ہلے ہوئے تھے۔ ڈاکٹر صاحب نے ایک کام کیا۔ وہ ایک ہی ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ا نہوں نے جاوید میانداد کو ساتھ لیا اور انہیں اس جگہ لے گئے جہاں ویسٹ انڈیز کے بائولر بیٹھے شراب پی رہے تھے اور عامیانہ سی حرکتیں کر رہے تھے۔ وہ ان کے ساتھ بیٹھے اور جاوید میانداد کو بھی بٹھایا۔ دھیرے دھیرے جاوید میانداد کا اعتماد لوٹ آیا۔ اسے لگا کہ یہ تو عام سے لوگ ہیں وہ ویسے ہی ان سے ڈر رہا تھا ۔ اگلے دن جاوید میانداد نے ان سب کی دھلائی کر دی۔ وہ اکثر کہا کرتے‘ کرکٹ دماغ کی گیم ہوتی ہے۔ جتنا آپ ذہنی طور پر ٹف ہوتے ہیں‘ اتنا ہی اس کھیل میں آگے جاتے ہیں۔ عمران اس لیے اس کھیل میں آگے نکل گیا تھا کیونکہ وہ ٹف تھا۔ جو ٹف نہیں ہوتا وہ پیچھے رہ جاتا ہے۔
پاکستانی بائولنگ میں وہ سرفراز نواز کی بے پناہ تعریف کرتے تھے۔ ان کا خیال تھا اگر پاکستانی گریٹ بائولرز کی فہرست بنائی جائے تو وہ چند ٹاپ بائولرز میں ہوگا۔ ایک دفعہ سرفراز نواز نے کہہ دیا وہ بیمار ہے، اگلے دن کا میچ نہیں کھیلے گا۔ ڈاکٹر صاحب کو پتہ تھا کہ اس کے بغیر پاکستان میچ نہیں جیت پائے گا۔ اس کا انہوں نے حل نکالا اور کہا سرفراز میں نے مخالف ٹیم کے کھلاڑیوں کو کہتے سنا ہے کہ سرفراز ان سے ڈر گیا ہے۔ سرفراز نے کہا ،یہ بات ہے۔ اس نے ٹیکے لگوائے اور اگلے دن مخالف ٹیم کو تباہ کر دیا۔ ایک دفعہ سرفراز نواز نے ان کے خلاف کچھ اخباری بیانات دیے تو میں نے کہا آپ سرفراز نواز کی ہمیشہ تعریف کرتے ہیں ، اس نے آپ کو رگڑ دیا ہے۔ ہنس کر بولے، بھائی جان میں سرفراز نواز کی بائولنگ کا فین ہوں، میں اسے پسند کر تا ہوں۔ وہ اگر مجھے پسند نہیں کرتا تو کیا میں اسے بھی پسند کرنا چھوڑ دوں؟ یہ کیا بات ہوئی کہ اگر کوئی آپ کو پسند نہیں کرتا تو آپ بھی اسے پسند کرنا چھوڑ دیں۔
ساری عمر وہ اس بات پر افسردہ رہے کہ کراچی کے بھائیوں کی جوڑی نے انہیں بھارت کے خلاف ساٹھ کی دہائی میں ٹیسٹ میچ میں کیپ نہیں لینے دی تھی۔ وہ بھارت کے دورے پر ٹیم کا حصہ تھے۔ انہیں پاکستان کی طرف سے اوپننگ بیٹسمین کے لیے کھلانے کا فیصلہ ہوا ۔ جس عظیم بیٹسمین کی جگہ انہیں اوپننگ کرائی جائے گی ‘وہ چھ نمبر پر بیٹنگ کریں گے۔ اس پر اس عظیم کھلاڑی اور اس کے بھائیوں نے بغاوت کردی کہ یہ بھلا کیا بات ہوئی۔ کل کے لونڈے کے لیے اسے اب چھ نمبر پر بھیجا جائے گا؟ فضل محمود کے لئے مشکلات پیدا ہوگئیں۔آخر جونیئر لڑکے ظفرالطاف کا نام ٹیم سے آخری لمحے نکال دیا گیا اور ڈاکٹر صاحب ایک افسردہ یادوں کے ساتھ پاکستان لوٹے اور سول سروس کو سنجیدگی سے لینے کا فیصلہ کیا ۔
ان کا تبادلہ مشرقی پاکستان کر دیا گیا ۔ وہ اس وقت مشرقی پاکستان جانے پر تیار ہوگئے جب وہاں سے افسران واپس لوٹ رہے تھے۔ انہوں نے فیصلہ کرنا تھا کہ انہوں نے مزید انتظار کر کے پاکستانی ٹیم میں جگہ بنانی تھی یا پھر سول سروس کو اپنا کیرئیر بنانا تھا۔ انہوںنے سول سروس کو ترجیح دی۔ انہیں لگا کہ کرکٹ میں جاری لاہور اور کراچی کی جنگ میں ان کی جگہ نہ بن سکے گی حالانکہ انہوں نے فرسٹ کلاس کرکٹ میں ماجد خان کے ساتھ چار سو سے زیادہ پارٹنرشپ کا ریکارڈ بنا رکھا تھا ۔
ڈاکٹر صاحب اب ریٹائرمنٹ کے بعد زندگی گزار رہے تھے۔ کالم لکھتے تھے۔ نئی نئی کتابیں اور دوستوں کے ساتھ دوپہر کے کھانے پر گپیں۔اس دوران پیپلز پارٹی کی حکومت وفاق میں آ چکی تھی۔ ایک دن مجھے وزیراعظم ہائوس سے یوسف رضاگیلانی کا فون آیا ۔ بولے‘ آپ کے دوست ڈاکٹر ظفرالطاف سے ایک کام ہے۔ ہم سب نے کوشش کر کے دیکھ لی ہے۔ وہ ہمارا ایک کام کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ مجھے پتہ چلا ہے وہ آپ کی بات مان لیتے ہیں ۔ مجھے قطعاً کوئی حیرانی نہیں ہوئی۔ ڈاکٹر ظفرالطاف کسی کو بھی ناں کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔میں نے پوچھا ‘جی بتائیں۔۔گیلانی صاحب بولے‘ فون پر بات نہیں ہوسکتی۔ ہوسکتا ہے تو وزیراعظم ہائوس تشریف لائیں۔
میں حیران اور پریشان وزیراعظم ہائوس کی طرف روانہ ہوگیا۔ اگر ڈاکٹر ظفر الطاف نے ملک کے وزیراعظم کی بات نہیں مانی تھی تو بھلا میں کس کھیت کی مولی تھا ۔ ڈاکٹر صاحب سے روزانہ ملاقات ہوتی تھی لیکن انہوں نے کبھی ذکر نہ کیا تھا حالانکہ وہ ہر بات کرتے تھے۔
مجھے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ کون سی ایسی بات تھی جسے ملک کے وزیراعظم کو ڈاکٹر ظفرالطاف سے منوانے کے لیے بقول ہمارے سینئر صحافی دوست نصرت جاوید کے مشہور زمانہ ڈائیلاگ''دو ٹکے کے صحافی‘‘ کی ضرورت پڑگئی تھی۔ (جاری)