ڈاکٹر ظفر الطاف اور میں ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکرا دیے۔
کچھ عرصہ پہلے بھی ان کے گھر پر چھاپہ پڑا تھا‘ اور یہ چھاپہ ایک سابق وزیر کے ایما پر مارا گیا تھا‘ جن کا خیال تھا کہ ڈاکٹر ظفر الطاف کو سزا دینا ضروری ہے کیونکہ وہ سلام کرنے نہیں آتے تھے‘ اور ان کے کہنے پر نوکریاں نہیں دی تھیں۔
اپنی چالیس سالہ سروس میں وہ ان ہتھکنڈوں کے عادی ہو چکے تھے۔ ہر کوئی انہیں جھکانے کی کوششیں کرتا رہا۔ کسی دوست کے لیے کسی بھی حد تک جا کر خطرہ مول لے سکتے تھے‘ لیکن حکمرانوں کی خوشی کے لیے وہ کبھی کچھ نہ کرتے‘ چاہے نتائج کچھ بھی ہوں۔ وہ ان لوگوں میں سے تھے جو کسی کے ساتھ زیادتی دیکھ کر چپ نہیں رہ سکتے تھے‘ چاہے کچھ بھی ہو جائے۔جب انہیں چیئرمین پی اے آر سی کے عہدے سے ہٹایا گیا‘ تو چند دن بعد پتہ چلا وہاں این اے آر سی میں نایاب نسل کے جو جانور رکھے گئے تھے اور جو بریڈنگ کے کام آتے تھے‘ انہیں باقاعدہ ایک بوگس نیلامی کے ذریعے ایک وزیر کے ڈیرے پر بھیج دیا گیا ہے۔ بریڈنگ کے ان جانوروں کو ناکارہ قرار دیا گیا۔ پھر قصائی بلائے گئے کہ وہ خرید لیں۔ پتہ چلا کہ یہ سب ڈرامہ تھا۔ مقصد وفاقی وزیر کو وہ نایاب نسل فراہم کرنا تھا۔ یہ تھی وہ قیمت جو ان کی جگہ لینے والے افسروں کو ادا کرنا تھی۔ کون سا ان کی جیب سے کچھ جا رہا تھا۔ جب یہ خبر باہر نکلی تو پھر سزا کے طور پر پولیس کو کچھ جھوٹے ٹارگٹ دے کر ان کے گھر پر یہ کہہ کر چھاپہ مروایا گیا کہ فلاں گھر میں کچھ اشتہاری چھپے ہوئے ہیں۔ ہنس کر بولے: جی ہاں اس گھر میں دو اشتہاری رہتے ہیں۔ ایک تو میں خود ہوں‘ دوسرا رئوف ہے‘ جو ہر دوپہر کو یہاں چھپنے کے لیے آ جاتا ہے۔ ہم دونوں کو آپ ساتھ لے جائیں۔ تحقیق کے بعد پتہ چلا کہ مرکزی پنجاب کے تھانے سے پولیس کو خصوصی ہدایات دے کر بھیجا گیا تھا۔
اس دوران جب ان پر اینٹی کرپشن کا مقدمہ ہوا‘ تو اس روز دکھی ہوئے اور بولے: میرے والد چوہدری الطاف اتفاق فائونڈری کے مرتے دم تک لیگل ایڈوائز رہے۔ اور بھی کہانیاں سنائیں جن کا دہرانا شاید ان کو اچھا نہ لگتا‘ لہٰذا میں بھی نہیں لکھ رہا۔
ایک دن کہنے لگے: ہم ان نام نہاد جمہوریت پسندوں کے حق میں لکھ تو رہے ہیں‘ لیکن ان کا ریکارڈ کہتا ہے کہ جب یہ لوگ اپوزیشن میں ہوتے ہیں تو ہمدرد بن جاتے ہیں لیکن انہی کو اقتدار ملتا ہے تو گلے سے پکڑ لیتے ہیں۔ اسی لیے جب انہیں بتایا گیا کہ آپ کیخلاف اینٹی کرپشن کا مقدمہ ہو گیا ہے تو ذرا حیران نہ ہوئے۔ میں نے کہا‘ آپ کو تو ریٹائر ہوئے دس برس ہو گئے ہیں‘ آپ نے پنجاب میں آخری بار 1984ء کی دہائی میں نوکری کی تھی۔ اب آپ نے کون سی کرپشن کر ڈالی ہے کہ نہ صرف اینٹی کرپشن نے آپ پر مقدمہ کر دیا ہے بلکہ پولیس بھی بھیج دی ہے جو آپ کے گھر پر چھاپے ماری رہی ہے۔
اصل کہانی یوں نکلی... جب ڈاکٹر ظفر الطاف پنجاب میں سیکرٹری زراعت تھے تو کوآپریٹوز کے کلچر کو فروغ دینے کا منصوبہ بنایا۔ ایک ادارہ کسان بھی وجود میں لایا گیا‘ جس نے مرکزی پنجاب میں اوکاڑہ، پتوکی اور لاہور کے قریبی علاقوں میں ہزاروں عورتوں کو اکٹھا کیا اور ان سے ان کی گائیوں اور بھینسوں کا دودھ خریدنا شروع کیا تاکہ بہتر قیمت دلوائی جائے۔ جرمن حکومت نے اس کے لیے گرانٹ بھی دی تھی۔ جرمن گرانٹ کے ذریعے دیہی خواتین کو معاشی طور پر طاقتور بنانے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس کے تحت ادارہ کسان اور ہلہ دودھ کا منصوبہ وجود میں آیا۔ کوآپریٹوز کے بعد منصوبہ بنا کہ پنجاب حکومت کا والٹن پر ایک دودھ کا پلانٹ تھا‘ جو نہیں چل پا رہا تھا۔ اس کے ساتھ جوائنٹ وینچرز کا معاہدہ ہوا اور پلانٹ نے کام کرنا شروع کر دیا۔ اس پلانٹ کی کمائی سے پنجاب حکومت کو بھی طے شدہ حصہ ملنے لگا۔ اس پلانٹ کی کامیابی سے لاہوریوں کو بہت فائدہ ہوا کیونکہ ڈاکٹر صاحب نے ادارہ کسان کی انتظامیہ سے کہا کہ آپ لوگ زیادہ منافع نہ لیں... کم منافع رکھ کر زیادہ فائدہ ان خواتین کو دیں جو اپنی بھینسوں کا دودھ بیچتی ہیں‘ پیکنگ کو سادہ کر دیا گیا تاکہ لاگت کم ہو۔ علاوہ ازیں دہی کے پانچ کلو پیک کو عام کیا‘ جس کی قیمت حیران کن حد تک کم رکھی گئی۔ ساتھ میں ہلہ دودھ کی بائی پروڈکٹس پر کام ہوا۔ کم قیمت پر دودھ بیچنے کی لاگت پوری کرنے کے لیے مکھن، جوس اور پانی وغیرہ کے منصوبے بھی شروع کیے گئے‘ اور سب کی قیمتیں اتنی کم رکھی گئیں کہ مارکیٹ میں دوسری کمپنیوں کے لیے مسائل پیدا ہو گئے۔ اس فریش اور پیسچرائزڈ دودھ کی قیمت واضح طور پر دیگر برانڈز سے کم تھی۔ دودھ کو مسلسل سستا رکھنے کے لیے انہوں نے شہر میں مختلف پوائنٹس بنوا دیے تھے تاکہ دکاندار کو زیادہ پرافٹ مارجن نہ دینا پڑے اور وہ فائدہ خریدار تک پہنچے۔ ڈاکٹر صاحب کو علم تھا وہ دشمنوں کی تعداد میں اضافہ کر رہے تھے کیونکہ دودھ کے دوسرے برانڈز یہ برداشت نہیں کریں گے کہ ان کے پرافٹ کو کم کیا جائے اور جو دودھ سرف ڈال کر بیچا جا رہا تھا اس کے مقابلے میں فریش اور پیسچرائزڈ دودھ لوگوں کو سستے داموں ملنا شروع ہو جائے۔ تاہم ڈاکٹر ظفر الطاف کو تسلی تھی کہ انہوں نے چھبیس ہزار دیہی خواتین کو اس منصوبے کے ذریعے معاشی آزادی دی تھی‘ اور پیسہ دیہی عورتوں کو براہ راست جا رہا تھا۔ دیہی معیشت کسی حد تک چھوٹے پیمانے پر ہی سہی‘ لیکن بہتر ہونا شروع ہوگئی تھی‘ اور ہزاروں نہیں تو سینکڑوں دیہات کو یقینا فائدہ ہو رہا تھا۔ انہوں نے دودھ بیچنے والی خواتین کی صحت، بچوں کی تعلیم اور دیگر معاملات کے لیے ادارہ کسان کے ذریعے پروگرام شروع کرائے‘ جن میں ان کے دودھ والے جانوروں کی ویکسی نیشن اور دیگر مراعات بھی شامل تھیں۔
اسی اثنا میں اسلام آباد میں بڑے عرصے سے بند دودھ کا پلانٹ بھی کھولنے کا پلان بنا‘ اور پھر یہاں بھی ادارہ کسان اور وفاقی حکومت میں جوائنٹ وینچر ہوا کہ ادارہ کسان اسے چلائے گا' اور پرافٹ میں سے حصہ حکومت کو بھی ملے گا۔ چند دنوں میں ہی پلانٹ کو دوبارہ چلا دیا گیا‘ اور اسلام آباد اور پنڈی کے شہریوں کو فریش دودھ اور دہی کی سستے ترین ریٹس پر سپلائی شروع ہو گئی۔ اگرچہ ادارہ کسان کو ان علاقوں میں دودھ اکٹھا کرنے میں شدید مشکلات کا سامنا تھا کیونکہ پنجاب کی طرح یہاں دودھ دینے والے جانور بڑی تعداد میں میسر نہیں تھے؛ تاہم اس کا حل انہوں نے یہ نکالا کہ پنجاب سے دودھ لا کر اس سے اسلام آباد کا پلانٹ چلا دیا۔
ہلہ دودھ کی کامیابی سے متاثر ہو کر پنجاب حکومت نے ادارہ کسان سے کہا کہ وہ لیہ میں ایک دودھ کا پلانٹ لگا کر دیں۔ شروع میں ڈاکٹر صاحب ہچکچاہٹ کا شکار تھے‘ لیکن اب تک ان کا والٹن کا تجریہ کامیاب ہو چکا تھا‘ لہٰذا انہوں نے ادارہ کسان کی انتظامیہ کو منع نہیں کیا۔ سرمایہ پنجاب حکومت نے دینا تھا اور باقی کا کام ادارہ کسان نے کرنا تھا۔ ویسے بھی وہ ادارہ کسان کے اعزازی چیئرمین تھے‘ تنخواہ دار نہیں تھے اور سب سے بڑھ کر مختلف صوبائی سیکرٹریز کی ایک کمیٹی بنائی گئی‘ جس نے پیسے اور کام کی مانٹیرنگ کرنا تھی تاکہ کہیں کچھ غلط نہ ہو۔ یوں ایک معاہدہ ہوا اور لیہ میں ایک اور جوائنٹ وینچر شروع ہوا۔
اس دوران پنجاب کے حکمران خاندان کے بچوں کو اپنا دودھ پلانٹ لگانے کا آئیڈیا آیا کیونکہ چوہدری شجاعت حسین صاحب کے بچے بھی پہلے سے دودھ کا کاروبار کر رہے تھے۔ چنیوٹ میں یہ پلانٹ لگانے کے لیے ادارہ کسان اور ہلہ دودھ لاہور سے تمام تکنیکی مدد لی گئی۔ ہلہ دودھ کے ماہرین کو وہاں بھیجا گیا تاکہ وہ پلانٹ لگانے میں مدد کریں۔ سب کچھ درست جا رہا تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے ایک دفعہ ادارہ کسان اور ہلہ دودھ کے انچارج بخاری صاحب کو منع کرنے کی بھی کوشش کی کہ بڑے لوگوں سے ان کا ڈیل کرنے کا پرانا تجربہ ہے۔ کام نکل جانے کے بعد وہ الٹا آپ پر ہی چڑھ جاتے ہیں‘ لہٰذا آپ انکار نہیں کر سکتے اورکام کر کے بھی پھنس جاتے ہیں۔ تاہم ادارہ کسان کی انتظامیہ کے ذہن میں یہی تھا کہ چینوٹ میں دودھ کے اس نئے پلانٹ سے وہاں کے کسانوں اور خصوصا دیہی عورتوں کو فائدہ ہو گا‘ ان کی بھینسوں کا دودھ بک جائے گا‘ لہٰذا جتنے دودھ کے پلانٹ نجی سیکٹر میں لگ سکتے تھے تو لگنے چاہئیں۔ اس کا دوسرا فائدہ یہ تھا کہ مارکیٹ میں اجارہ داری نہیں ہوتی اور عام لوگوں کو فائدہ ہوتا ہے۔ ادارہ کسان کو اصل صورتحال کا علم نہ تھا۔ بھلا ادارہ کسان کے والٹن میں چلتے ہوئے دودھ پلانٹ کی موجودگی میں چینوٹ سے لایا گیا دودھ لاہور میں کیسے فروخت ہو گا اور اگر مارکیٹ ہو بھی گیا تو پھر بھلا کیسے وہ ہلہ دودھ کی قیمت کا مقابلہ کر سکے گا۔
پھر ایک رات ہلہ دودھ والٹن پر چھاپہ پڑا۔ عملہ گرفتار ہوا اور پولیس نے قبضہ کرنے کے بعد وہاں اپنی چوکی قائم کر دی۔ الزام لگا‘ لیہ پلانٹ کی تعمیر میں گھپلے ہوئے ہیں۔ اینٹی کرپشن نے مقدمہ درج کر لیا تھا۔ ڈاکٹر ظفر الطاف کو پیغام بھیجا گیا آپ اس معاملے سے دور رہیں۔ آپ کو کچھ نہیں کہا جائے گا۔ میں جانتا تھا کہ اس پیغام کے جواب میں ڈاکٹر ظفر الطاف کا کیا جواب ہو گا۔ جس پر اب ان پر بھی مقدمہ درج ہو گیا تھا۔ مجھے خوف لاحق ہو گیا تھا کہ جنرل مشرف دور میں تو وہ جیل جانے سے بچ گئے تھے‘ لیکن اس بار دفعہ اصلی اور نسلی جمہوریت پسند انہیں اپنے بچوں کے دودھ کے کاروبار کو کامیاب کرانے کے لیے نہیں بخشیں گے۔
اب پنڈی عدالت سے واپسی پر پتہ چلا تھا کہ پنجاب پولیس پہلے ہی ان کے گھر پر چھاپہ مار چکی ہے!
ڈاکٹر ظفر الطاف کو تھکے ہارے انداز میں کرسی میں خاموش بیٹھے دیکھ کر میں نے سوچا‘ ستر برس کی عمر میں بھی انہیں سکون نہیں مل پایا تھا۔ پرانا کھیل شروع ہو چکا تھا۔ وہی ڈاکٹر ظفر الطاف، وہی مقدمے، کرپشن کے الزامات، وہی حکمران... وہی پرانا میڈیا ٹرائل... کچھ نہ سمجھ آیا تو میں نے اپنے کالم نگار دوست ہارون الرشید کو فون کیا... مجھے پتہ تھا‘ معاملہ اس دفعہ سنگین ہے۔ (جاری)