کالم نگار دوست ہارون الرشید نے تسلی سے پوری کہانی سنی کہ کیسے حکومت کے کہنے پر ہلہ دودھ بند کرانے اور حکمرانوں کے بچوں کو دودھ کا کاروبار شروع کرانے کے لیے یہ سب کارروائی کی گئی تھی۔
ہارون الرشید کافی دیر خاموش رہے۔ شاید ان کا دل بھی دکھ سے بھر گیا تھا۔ انہوں نے ڈاکٹر صاحب سے ہاتھ ملایا اور اگلے دن زبردست کالم لکھا۔ ساری کہانی بیان کر دی، چرچا ہوا اور بات پھیل گئی۔ ڈاکٹر ظفر الطاف بھی طویل جنگ کے لیے تیار ہو گئے۔ انہیں پتا چل چکا تھا کہ اگر وہ جھکنے کے لیے تیار نہیں تو حکمران بھی اپنے بچوں کا کاروبار سیٹ کرنے کے لیے کسی حد تک جانے کو تیار ہیں؛ چنانچہ لاہور کی اینٹی کرپشن عدالت سے سمن ملا کہ پیش ہوں، آپ پر فرد جرم عائد ہوگی کیونکہ آپ نے پنجاب کے خزانے کو کروڑوں روپے کا نقصان پہنچایا ہے۔ ڈاکٹر صاحب اور میں نے ایک دوسرے کو دیکھا۔ مجھے لگا ان کا بچنا مشکل ہے، خدانخواستہ ان کی اگلی منزل جیل ہوگی۔ لنچ کی میز پر ماحول کو سنجیدہ دیکھ کر میں نے ہنستے ہوئے کہا، ڈاکٹر صاحب وقت وقت کی بات ہے، کبھی آپ نے بینظیر بھٹو کو گرفتارکیا تھا، آج آپ کی باری ہے۔ لیکن آپ نے کبھی گرفتاری کی پوری کہانی نہیں سنائی؟ ڈاکٹر صاحب ہنس پڑے اور کہا: یار، میرے گرفتار کرنے سے پہلے ہی وہ گرفتار ہو چکی تھیں، لیکن یہ میرے کھاتے میں ڈلنی تھی سو ڈل گئی۔ حتٰی کہ بینظیر بھٹو نے اپنی دوسری حکومت میں کابینہ کے اجلاس کے دوران میرا نام سنا تو فوراً کہا: تو آپ وہی ڈپٹی کمشنر ساہیوال ظفر الطاف ہیں جنہوں نے مجھے گرفتارکیا تھا؟
یہ ساری کہانی اس طرح شروع ہوئی تھی: ڈاکٹر صاحب کو جنرل ضیا کی بغاوت کے بعد ڈپٹی کمشنر ساہیوال لگایا گیا۔ وہ اس وقت فیلڈ میں جانے کے موڈ میں نہیں تھے لیکن چیف سیکرٹری کا خیال کچھ اور تھا۔ جنرل اقبال مارشل لا ایڈمنسٹریٹر تھے جن کا سٹاف افسر بریگیڈیئر بشیر تھا‘ جس کا تعلق کمانڈنگ نو بلوچ سے تھا۔ ڈاکٹر ظفر الطاف اس رجمنٹ کے ساتھ تین ماہ سیالکوٹ سیکٹر میں کام کر چکے تھے جہاں ان سب سے رابطہ بن گیا تھا۔ بعد میں اس رجمنٹ کو جیسور بھیج دیا گیا۔ اب اسی رجمنٹ کے افسر پنجاب میں مارشل لا حکومت چلا رہے تھے۔ چونکہ ڈاکٹر ظفر الطاف اس وقت سب سے سینئر افسر تھے‘ جنہیں کسی ضلع کا ڈپٹی کمشنر لگایا جا رہا تھا، لہٰذا ایک تجویز یہ تھی کہ انہیں لاہور کا ڈپٹی کمشنر لگایا جائے۔ چیف سیکرٹری نے کہا: نہیں، ظفر الطاف کو لاہور کا ڈی سی نہیں لگایا جا سکتا کیونکہ وہ ہاکی کھیلتا ہے، سارا دن کھیل میں مصروف رہے گا۔ انہیں بتایا گیا کہ وہ کرکٹ کھیلتے ہیں‘ لیکن وہ نہ مانے۔ کہا وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ظفر الطاف کیسا افسر ہے، بہتر ہے اسے لاہور سے دور رکھا جائے۔
جنرل ضیا تین ماہ کے لیے آئے تھے‘ لیکن دس برس ملک پر مسلط رہے۔ جنرل ضیا اور جنرل چشتی جالندھر کے ایک ہی گائوں سے تعلق رکھتے تھے۔ بھٹو کو پہلے ہی ہائوس اریسٹ کر لیا گیا تھا اور کہا جا رہا تھا کہ مری میں ہونے والی ملاقات میں دونوں کے درمیان تلخی ہوئی تھی۔ بینظیر بھٹو اپنے والد کو بچانے کے لیے میدان میں اتر چکی تھیں۔ وہ جہاں بھی جاتیںکافی تعداد میں لوگ اکٹھے ہو جاتے۔ بینظیر بھٹو نے ساہیوال کا دورہ بھی کرنا تھا۔ اس سے پہلے نصرت بھٹو ساہیوال بار ایسوسی ایشن سے خطاب کرچکی تھیں۔ ڈپٹی کمشنر کی حیثیت میں لا اینڈ آرڈر برقرار رکھنا ڈاکٹر صاحب کی ذمہ داری تھی۔ انہوں نے فیصلہ کیا کہ اوکاڑہ اور دیپالپور کے سنگم پر جہاں بینظیر بھٹو نے جلسے سے خطاب کرنا تھا خود وہاں جائیں گے۔ ڈاکٹر صاحب وہاں پہنچے تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ بہت بڑی تعداد میں عورتیں اور بچے بینظیر کو دیکھنے کے لیے جمع ہو چکے ہیں۔ اس وقت یہ ایک عام پنجابی محاورہ بن چکا تھا '' ویکھو، چھوٹی جئی کڑی ہائے تے اپنے پیو دا کم سنبھال لائی ہائے‘‘(دیکھو، چھوٹی سی لڑکی نے باپ کا کام سنبھال لیا ہے)
ڈاکٹر صاحب نے یہ سب کچھ دیکھا تو انہیں اندازہ ہوا کہ مارشل لا حکام کے خدشات کے باوجود خطرے کی کوئی بات نہیں۔ چونکہ ڈاکٹر صاحب پاکستان کی قومی کرکٹ ٹیم کے سلیکٹر بھی تھے اور برطانوی ٹیم سیریز کھیلنے کے لیے آنے والی تھی اس لیے وہ ٹیم کی سلیکشن کے لیے لاہور کے قذافی سٹیڈیم کے لیے روانہ ہو گئے۔ شام پانچ بجے چھانگا مانگا کے قریب ایک پولیس چوکی پر انہیں روک لیا گیا۔ ایک سپاہی نے پوچھا، آپ ڈپٹی کمشنر ساہیوال ہیں؟ اثبات میں جواب ملنے پر اس نے کہا، چیف سیکرٹری کا حکم ہے کہ آپ واپس لوٹ جائیں، آپ لاہور نہیں جا سکتے۔
ڈاکٹر صاحب کو علم تھا کہ یہ قوم کرکٹ کی دیوانی ہے۔ انہوں نے سپاہی سے کہا، یار ایک بات بتائو، اگر تم میری جگہ ہوتے تو کیا کرتے؟ چیف سیکرٹری کے حکم کی تعمیل کرتے یا جا کر قومی کرکٹ ٹیم سلیکٹ کرتے جو برطانوی ٹیم سے میچ کھیلے گی؟ سپاہی نے جواب دیا سر! میں تو قومی ٹیم ہی سیلیکٹ کرتا۔ آپ نکل جائیں۔ ہم لاہور کے اعلیٰ حکام کو بتا دیں گے کہ ہمیں ڈپٹی کمشنر کی گاڑی نہیں ملی۔ بات یہیں ختم نہ ہوئی۔ ڈاکٹر صاحب لاہور میں جہاں بھی گئے وہاں پہلے سے پیغام موجود تھا کہ چیف سیکرٹری کا حکم ہے فوراً ان سے بات کریں اور ساہیوال جائیں۔ ڈاکٹر صاحب کے والد چوہدری الطاف تک کو فون کیا گیا کہ اپنے بیٹے کو ڈھونڈ کر ساہیوال بھیجیں، وہاں ایک سنگین مسئلہ کھڑا ہوگیا ہے؛ چنانچہ ڈاکٹر الطاف نے چیف سیکرٹری کو فون کرکے پوچھا کہ ایسی کیا اہم بات ہوگئی ہے؟ چیف سیکرٹری نے بتانے سے انکار کرتے ہوئے کہا، آپ چھوڑیں اور فوراً ساہیوال جائیں۔
ڈاکٹر صاحب واپس ساہیوال کے لیے روانہ ہوگئے۔ وہ ابھی ساہیوال سے اٹھائیس میل دور تھے کہ ریڈیو پر خبر سنی کہ ڈپٹی کمشنر ساہیوال ظفر الطاف نے بینظیر بھٹو کوگرفتارکر لیا ہے۔ اس دوران بینظیر بھٹو کو ایک گھر میں نظر بند کر دیا گیا تھا۔ ڈاکٹر صاحب حیرت کے سمندر میں ڈوب گئے کہ انہوں نے کب گرفتارکیا تھا۔ خیر پنتالیس منٹ بعد جب اپنے دفتر پہنچے تو ماتحت افسر کو دیکھا جس کے ہاتھ کانپ رہے تھے، گرفتاری کے احکامات اس کے ہاتھ میں تھے۔ پوری ضلعی انتظامیہ کی حالت بہت بری تھی۔ ڈاکٹر صاحب نے پوچھا، بینظیر بھٹو کو کس گھر میں نظربند کیا گیا ہے؟ یہ گھر پیپلز پارٹی کے ایم این اے کا تھا جس کے بیٹوں کو ڈاکٹر صاحب جانتے تھے۔ ڈاکٹر صاحب نے وارنٹ گرفتاری لیے اور خود بینظیر بھٹو کو پیش کرنے کے لیے چل پڑے۔ بینظیر بھٹو سے ملے اور انہیں ورانٹ گرفتاری دکھائے۔ بینظیر نے پڑھ کر کہا، اس دستاویز میں ایک بڑی غلطی ہے۔ کہا، مسٹر ڈپٹی کمشنر! مجھے وہ لیگل دستاویز دکھائو جس میں درج ہو کہ تم مجھے کس قانون کے تحت گرفتارکر رہے ہو۔ اس دستاویز کے تحت تو تم مجھے گرفتار نہیں کر سکتے۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا، آپ مجھ سے یہ دستاویز لے کر عدالت میں چیلنج کر سکتی ہیں کہ آپ کو حبس بے جا میں رکھا گیا تھا۔ انہوں نے اپنے تئیں چالاکی کرنے کی کوشش کی۔ مطلب یہ تھا کہ اپنی ڈیوٹی پوری کی جائے اور باقی کا بوجھ عدالتوں پر ڈال دیا جائے‘ لیکن بینظیر بھٹو باتوں میں آنے والی نہیں تھیں۔ وہ بار بار یہی کہتی رہیں کہ نہیں مسٹر ڈپٹی کمشنر! تم مجھے قائل کرو کہ اس دستاویز کے تحت تم مجھے گرفتار کر سکتے ہو؟ کوئی راستہ نہ پا کر ڈاکٹر صاحب نے کہا، او کے، میں بندوبست کرتا ہوں۔ انہوں نے چیف سیکرٹری سے رابطہ کیا اور انہیں بتایا کہ جناب بینظیر کوئی عام خاتون نہیں، وہ وزیر اعظم کی بیٹی ہیں اور سب کچھ سمجھتی ہیں، اگر انہیں گرفتار کرنا ہے تو ایک قانونی دستاویز لاہور سے بھجوائی جائے۔ چیف سیکرٹری نے کہا، ابھی بھیج رہے ہیں۔
وہ دستاویز پورے پندرہ دن بعد ساہیوال پہنچی۔ ڈاکٹر صاحب حیران رہ گئے، سویلین تو بدنام ہیں کہ وہ کام کے معاملے میں سست ہیں، فوجی حکام جلدی کام کرنے کے لیے مشہور تھے، پھر پندرہ دن کیسے لگ گئے؟ ڈاکٹر صاحب کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ یہ دستاویز بھیجنے میں اتنی دیر کرنے میں کیا سیاسی مصلحت تھی؟ بعد میں پتا چلا کہ فوجی حکام دو وجوہ کی بنا پر دستاویز بھیجنے سے خوفزدہ تھے۔ ایک یہ کہ ابھی انتخابات کا علم نہیں تھا کہ کہیں وقت پر ہی نہ ہو جائیں۔ دوسرا خوف یہ تھا کہ بینظیر بھٹو جہاں جہاں جا رہی تھیں وہاں بہت بڑا مجمع اکٹھا ہو جاتا تھا۔ وہ تیزی سے بہت بڑی سیاسی قوت بن رہی تھیں۔ مارشل لا حکام ان سے خوفزدہ تھے۔ بینظیر بھٹو کرشماتی شخصیت، پُرجوش اور انرجی سے بھری ہوئی تھیں، لہٰذا لوگ باہر نکل رہے تھے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ بھٹو کی بیٹی تھیں۔ ڈاکٹر صاحب ڈپٹی کمشنر ہونے کی وجہ سے وہاں موجود ہوتے تھے اور لوگوں کی گفتگو سنتے تھے، اس لیے انہیں معلوم ہو رہا تھا کہ لوگ بینظیر کے ساتھ کھڑے ہونے کے لیے تیار ہو رہے ہیں۔ یہی وجہ تھی جب ڈاکٹر ظفر الطاف کو کہا گیا کہ وہ بینظیر بھٹو کوگرفتار کریں تو انہیں بہت سے مسائل نظر آنے لگے۔ اصل حکام پیچھے چھپ گئے۔ جو دستاویز بینظیر بھٹو مانگ رہی تھیں وہ نہیں دی گئی تھی۔ انہیں سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کیا کریں... ہائوس اریسٹ رکھیں یا باقاعدہ گرفتار کر لیں۔
اس صورت حال میں ڈاکٹر ظفر الطاف بریگیڈیئر بشیر سے ملے اور ان سے کہا، آپ نے یہ ایکشن کرنے کے لیے ساہیوال کو ہی کیوں منتخب کیا ہے؟ سب مسائل انہی کے لیے کیوں کھڑے کیے گئے ہیں؟ کیا کوئی انہیں کوئی دوسرا ضلع اور ڈپٹی کمشنر نہیں ملا؟ انہی کو ہی کیوں اس کام کے لیے منتخب کیا گیا ہے؟ ان کا قصور کیا ہے، کیا سارا ملبہ ان پر ڈالنے کا منصوبہ بن چکا ہے؟ بریگیڈیئر بشیر کے جواب نے ڈاکٹر ظفر الطاف کو حیران کر دیا اور وہ ہکا بکا رہ گئے! (جاری)