مجھے اندازہ نہیں تھا کہ مرحوم ڈاکٹر ظفرالطاف پر لکھی گئی میری تحریروں کو اس محبت سے پڑھا جائے گا اور ان کا انتظار کیا جائے گا۔ سینکڑوں ای میلز اور پیغامات سے میرا ان باکس بھرا ہوا ہے۔ لوگ حیران ہیں کہ ایسا انسان بھی ہمارے درمیان موجود تھا ۔ شاید سمجھا جاتاکہ میں اپنے دوست کی خوبیوں اور خامیوں کو بڑھا چڑھا کر بیان کر رہا ہوں‘ اس لیے جب ڈی ایم جی افسر اور چیئرمین واپڈا ظفرمحمود کا خط ملا جس میں انہوں نے ڈاکٹر ظفرالطاف کی شخصیت کے انہی پہلوئوں پر روشنی ڈالی جن پر میں لکھ رہا تھا تو مجھے کچھ حوصلہ ہوا میں اکیلا ہی ان کی شخصیت کے سحر کا شکار نہیں تھا ۔ فہرست طویل تھی اور سب سے اچھی بات یہ تھی کہ ظفرمحمود نے جرأت کر کے وہ سب کچھ لکھ دیا جسے لکھنے کے لیے بڑے حوصلے کی ضرورت ہوتی ہے۔سوال اب یہ تھا کہ میں کیا کروں؟ کیا اس طرح قسط وار کالم لکھتا چلا جائوں؟ کب تک لکھوں؟ایک طویل اور خوبصورت زندگی کا اختتام کیا لکھوں؟ یا شاید میرے اندر ایک خواہش ابھری کہ یہ سلسلہ ختم نہ ہوِ، اس بہانے میں روزانہ اس دوست کو یاد کرلیتا ہوں جس کے ساتھ اٹھارہ برس تک روزانہ دوپہر گزاری۔
ایمانداری کی بات ہے مجھے اندازہ نہیں تھا کہ میرا اخبار مجھے ایک ہی انسان پر اتنے طویل کالم لکھنے کی اجازت دے گا۔ چلو ایک دو تین کالم تو ٹھیک ، میں نے گیارہ لکھ مارے ۔ یقین کریں دل سے شکر گزار ہوں اخبار کے مالک اور ایڈیٹر سے لے کر ادارتی صفحہ کے مہربانوں تک کا‘ کہ کسی نے ایک دفعہ بھی نہیں کہا کہ آخری قسط کب لکھ رہے ہو۔اب ان سب کا مزید امتحان لینے کا کوئی موڈ نہیں ہے‘ مگردل نہیں چاہ رہا کہ کالموں کے اس طویل سلسلے کو روک دوں۔یہ ایک مشکل فیصلہ ہے بہرحال مجھے ہی کرنا تھا ۔
اگرچہ لکھنے کو ابھی بہت کچھ ہے،حیرت انگیز داستان ایک غیرمعمولی انسان کی کہانی،یا شاید میرے اندر ایک احساس جرم ہے کہ کتنی دفعہ منصوبہ بنا، میں ڈاکٹر ظفرالطاف کی آپ بیتی لکھوں۔ پہلے یہ کام ہمارے مشترکہ دوست اور کالم نگار ارشاد بھٹی نے اپنے ذمہ لیا تھا ۔یقین کریں اگر ارشاد بھٹی لکھتا تو یقینا ایک خوبصورت تحریر جنم
لیتی۔ ارشاد بھٹی کو جو گرفت اردو زبان پر ہے وہ مجھے نہیں ہے۔کہانی لکھنے کا فن انہیں خوب آتا ہے۔ ارشاد بھٹی کئی دن ان کے پاس جاکر نوٹس لیتا رہا اور پھر ایک دن وہ اپنی مصروفیات میں گم ہوگیا۔کچھ عرصے بعد میں نے ڈاکٹر صاحب سے کہا کہ میں شروع کرتا ہوں۔ ان دنوں میں دنیا ٹی وی پر روزانہ سعید قاضی اور شازیہ ذیشان کے ساتھ مارننگ شو کرتا تھا ۔ طے پایا کہ شو سے فارغ ہونے کے بعد ان کے دفتر پہنچ جائوں گا اور روزانہ کچھ نہ کچھ لکھ لیا کریں گے۔ میں بھی یہ کام نہ کرسکا ۔شاید میرے ذہن میں یہی تھا کہ وہ مزید بیس برس زندہ رہیں گے۔ اتنی جلدی کیا ہے،ان کی وفات سے کچھ دن پہلے میں نے پھر ذکر کیا ‘سر‘ اب میں فارغ ہوں، دوبارہ شروع کرتے ہیں۔ پہلی دفعہ میں نے انہیں تھوڑا سا ناراض دیکھا ۔وہ بس اتنا بولے کہ نہیں رہنے دو، اب میں خود لکھوں گا۔ میں بھی ان کا موڈ دیکھ کر خاموش ہوگیا۔ ان کا غصہ بھی بجا تھا ۔ پہلے ارشاد بھٹی نے انہیں راضی کیا اور پھر خود بھاگ گیا۔ پھر میں نے تیار کیا اور میں ہی مصروفیت کا شکار ہوگیا‘۔اس لیے اپنے دو قریبی دوستوں سے وقت نہ پاکر اب انہوں نے خود ہی لکھنے کا فیصلہ کیا تھا، مگر موت نے مہلت نہیں دی۔
ہاں توشاید یہ احساس جرم ہی تھا جس نے مجھے ڈاکٹر ظفرالطاف پر طویل سیریز لکھنے پر مجبور کیا ۔لیکن لگتا ہے مزید نہیں لکھا جائے گا۔اتنا کچھ لکھنے کو ہے۔ سوچتا ہوں کب تک اخبارات کے صفحات کالے کرتا رہوں گا ۔ کیوں اپنے اخبار اور قاری کا امتحان لوں۔کسی دن سب تھک ہی نہ جائیں کہ کب تک قصیدہ گوئی چلے گی۔ دنیا میں اور لکھنے کو کچھ نہیں رہا ؟
لاہور سے ہی میاں خالد کا فون تھا کہ یار کالم پڑھنے سے پہلے میری نظر آخری لائن پر جاتی ہے کہ کہیں یہ سلسلہ ختم تو نہیں ہوا۔ اگر جاری کا لفظ نظر آئے تو تسلی سے کالم پڑھتا ہوں ۔بدھ کا کالم نہ لکھ سکا تو درجنوں ای میلز ملی ہیں۔ آج ہی ای میل ملی ہے کہ جس طرح آپ شکیل عادل زادہ کے‘ سب رنگ‘ میں چھپنے والے 'بازی گر ‘کا انتظار کرتے تھے اسی طرح ڈاکٹر ظفرالطاف کے کالموں کی سیریز کا انتظاررہتا ہے۔میرے خیال میں اس سے زیادہ ستائش ممکن نہیں کیونکہ صرف وہی اس کا مطلب سمجھ سکتے ہیں جو ‘بازی گر‘ کا بے تابی سے انتظار کرتے تھے۔ کہاں شکیل عادل زادہ جیسا بڑا ادیب اور کہاں میرے جیسا نوخیز لکھاری ۔ پدی کے شوربے کا محاورہ میرے اوپر فٹ آتا ہے۔ کتنے لوگوں نے سراہاکہ چلیں ایک افسر کی سرگزشت سے اور کچھ ہو نہ ہو ‘کم از کم ایک رول ماڈل تو نوجوان بیوروکریٹس کو ملے گا ۔ ایک ایسی بیوروکریسی جو حکمرانوں کی خوشامد میں ہر حد عبور کر چکی ہے۔آگے ان نئے افسران کی اپنی مرضی کہ وہ اس رول ماڈل کو فالو کرنا چاہتے ہیں یا نہیں۔ ایک اور بھی ڈاکٹر ظفرالطاف اس سول سروس کو مل گیا تو تحریر ضائع نہیں جائے گی ۔
اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ وہ روایتی بیوروکریٹ نہیں تھے۔ ساری عمر وہ لڑتے رہے اور سزا بھگتتے رہے۔ بیوروکریسی اور میڈیا میں بھی وہ ایک متنازع افسر کی حیثیت سے جانے جاتے تھے۔ سینکڑوں ایسے لوگوں کو نوکریاں دیں جنہیں وہ جانتے تک نہیں تھے۔ اپنے جاننے والوں کو بھی نوکریاں دیں۔ایک دفعہ گوجر خان کے ایک بہت غریب خاندان کی بچی کی‘ جسے میرپور خاص آزاد کشمیر تھانے کی پولیس پورے خاندان کے ساتھ اٹھا کر لے گئی اور بائیس دن تک تھانے میں رکھ کر تشدد کیا تھا ( یہ ایک طویل سنسنی خیز کہانی ہے ‘کسی دن پوری سنائوں گا) ‘کی میں نے سفارش کی، ٹال گئے۔ میں نے ارشاد بھٹی کو کہا کہ تم کہو۔ بھٹی کے کہنے پر نوکری دے دی۔ ساری عمر میں انہیں تنگ کرتا رہا کہ سر‘ ہماری یہ تو اوقات تھی کہ ہمارے کہنے پرآپ نے ایک نوکری تک نہیں دی‘ جب کہ آپ کے دربار سے پتہ نہیں کتنوں کو فیض ملا۔ کتنے سرکاری افسران ان کے پاس جاتے کہ رئوف آپ کا دوست ہے اسے ہمارے خلاف خبروں سے روکیں۔۔ہنس کر بتاتے جناب میں اس کی خبروں کی وجہ سے تین انکوائریاں بھگت چکا ہوں ۔ اس کاکام ہے۔ ہماری دوستی اس وجہ سے نہیں ہے کہ ہم ایک دوسرے کو اپنے اپنے کام سے روکیں۔۔
وہ سب افسران اور ان کے اپنے ساتھی بھی انہیں پسند نہیں کرتے تھے جو سمجھتے تھے کہ وہ رولز کی پروا نہیں کرتے یا پھر یاردوستوں کو نوازتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب اپنے ان ساتھیوںکا مذاق اڑاتے اور ہنستے ساری عمر یہ لوگ حکومتی رولز کی کتابیں کھول کر بیٹھے رہے، جہاں ذاتی فائدے اٹھانے ہوتے یا پھر حکمرانوں کو فائدے دینے ہوتے تو پھر کسی بات کی پروا نہیں ہوتی تھی۔ پروا اس وقت شروع ہوتی جب عام انسانوں کی مدد کا وقت آتا۔ رولز کی کتابوں کے بنڈل کھل جاتے!!
سب چاہتے ہیں میں ڈاکٹر ظفرالطاف پر کتاب لکھوں۔سوال یہ ہے اگر میں کتاب لکھتا تو کتنے لوگ پڑھتے؟ کتاب پڑھنے کا رواج کہاں رہا ۔کالم ابھی بھی لوگ پڑھ لیتے ہیں۔لیکن جو کچھ لکھا ہے اسے ضائع نہیں جانا چاہیے۔ ایک پبلشر دوست کو فون کیا کیا خیال ہے، کتاب چھپ جائے گی؟ بولے بالکل چھپ جائے گی!اس لیے سوچا یہی ہے کالموں کو یہیں روک کر پوری کتاب لکھ دوں۔ اگرچہ مجھے اندازہ ہے کتاب اتنی نہیں پڑھی جائے گی جتنے کالم پڑھے جارہے ہیں ۔
ڈاکٹر ظفرالطاف ساری عمر عام انسانوں کے لیے لڑتے رہے اور مقدمے بھگتتے رہے۔ اب موت کے پندرہ دن بعد اکیس دسمبر کو نیب اسلام آباد نے ان کے خلاف انکوائری شروع کر دی ہے کہ انہوں نے چیئرمین پی آر سی کی حیثیت سے دو سو سے زائد نوکریاں دی تھیں۔ میں تو پنجاب حکومت کے ان کے خلاف مقدمے کی داستان لکھ رہا تھا اب نئی داستان شروع ہو گئی ہے ۔ نیب ان کے مرنے کے بعد بھی تحقیقات جاری رکھے گا۔ امید ہے نیب افسران انہیں سزا بھی دلوائیں گے۔
یہ تھا ڈاکٹر ظفرالطاف...!
وہ قبر میں جالیٹے ہیں لیکن ان کی کہانی ختم نہیں ہوئی۔ ! اتوار کو ڈاکٹر ظفرالطاف کا چہلم ہے، لاہور جانا ہے ۔کیسے دن گزرجاتے ہیں۔
اسلام آباد میں خزاں کا موسم شروع ہے۔درختوں کے پتے زرد ہو کر گرنے لگے ہیں۔دھوپ میں تنہا بیٹھنا اچھا لگتا ہے۔کسی سے بات کرنے کو جی نہیں چاہتا۔فون خاموش رہتا ہے کیونکہ میں نے اس کی آواز میوٹ کر رکھی ہے۔ میرے بچوں کا پالتو کتا میری کرسی کے نیچے لیٹ کرانتظار کرتا ہے کہ میں کب اپنی جگہ سے ہلوں تو وہ بھی بھاگ کر میرے ساتھ چل پڑے۔ وہ تھک جاتا ہے تو خود ہی میرے سامنے گھاس پر لیٹ کر مجھے تکتا رہتا ہے کہ اب بس کردو۔کبھی اپنی زندگی پر نظر دوڑاتا ہوں تو حیرانی ہوتی ہے کہ یہ میں ہی تھا جو طویل سفر طے کرآیا تھا۔خدا نے کہاں سے اٹھایا اور کہاں لے آیا تھا ۔کیا کچھ نہیں دیا، نوازشات کی بارش کر دی ۔ جتنا شکر کروں، کم ہوگا ۔ جس چیز کی زندگی میں خواہش کی، سب کچھ ملا۔ اس لیے مجھے ڈر لگتا تھا کہ خدا نے اتنا کچھ دے دیا ہے کہیں کوئی پیاری چیز چھین نہ لے۔ اورپھر ایک دن میرے خدشات درست ثابت ہوئے۔ نعیم بھائی کی موت ایک بڑا جھٹکا تھا ۔ رہی سہی کسر ڈاکٹر ظفرالطاف کی موت نے پوری کر دی ۔
اب اسلام آباد کی ان سرد‘ اداس اور تنہا شاموں میںاکیلا بیٹھا سوچتا رہتا ہوں‘ میرے ساتھ کیا ہوا ؟ خدا نے زندگی میں مجھ پر عنایات کی بارش کیے رکھی‘ لیکن یا مجھ سے نعیم بھائی اور ڈاکٹر ظفرالطاف کی شکل میں سب کچھ واپس لے لیا تھا ؟ دو ایسے غیرمعمولی لوگ جن سے میں سب سے زیادہ پیار کرتا تھا ۔ جن سے سب سے زیادہ متاثر تھا ۔ وہ دو باکمال لوگ جن کا میری زندگی اور میری سوچ پر سب سے زیادہ اثر تھا۔!
میری زندگی میں ہی خدا نے حساب برابر کر دیا تھا...!