سوچتا ہوں یہ ٹرم ہمارے لیے ہی تخلیق کی گئی تھی... state of denial۔ کوئی ماننے کو تیار نہیں کہ ہم سے کہاں غلطیاں ہوئیں اور ہوتی ہی چلی جا رہی ہیں۔ سال چھ ماہ قبل میں اپنے دوست ارشد شریف کے ساتھ بیٹھا ایک وردی پوش کی پریس کانفرنس ٹی وی پر سن رہا تھا کہ پاکستان نے اچھے برے طالبان کی تمیز ختم کر دی ہے، سب کے خلاف آپریشن ہو گا، اب ہماری سر زمین پر کوئی دہشت گرد نہیں ہو گا۔ میں نے خوش ہو کر ارشد شریف سے کہا، دیکھا کتنا فرق پڑتا ہے قیادت تبدیل ہونے سے، نئے چیف نے پرانی سوچ سے چھٹکارا پانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ ارشد شریف دفاعی معاملات مجھ سے بہتر سمجھتا ہے۔ بولا: جناب کو دن میں خواب دیکھنے کا شوق ہے۔ اللہ کے فضل سے اچھے اور برے طالبان کی پالیسی نہ صرف جاری ہے بلکہ پہلے سے بھی زیادہ۔ یہ فیصلے ادارے کرتے ہیں اور کسی کے آنے جانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا‘ کھیل جاری ہے۔ میں نے منہ بنا کر ارشد شریف کو کہا: اب ہمارے عسکری ادارے اچھے برے کی تمیز ختم کیے بیٹھے ہیں۔ ارشد کا موڈ بحث کا نہیں تھا، وہ چپ رہا۔
کچھ دن بعد میری ملاقات انہی صاحب سے کسی شادی کی تقریب میں ہوئی۔ ارشد شریف کی باتیں ڈنک ماری رہی تھیں۔ میں نے پوچھ لیا تو وہ بولے: اب کوئی اچھا برا نہیں، سب دہشت گرد ہیں۔ میں نے کہا: اس کا مطلب ہے اب حقانی گروپ کو بھی اچھے طالبان کی فہرست سے نکال دیا گیا ہے۔ وہ بولے: آپ کو کس نے کہا ہے؟ میں حیرت سے دیکھتا رہا۔ وہ مجھے سمجھاتے رہے کہ افغانستان میں ہمارے لیے حقانی گروپ کیوں اہم ہے۔ مجھے پہلی دفعہ لگا کہ ہم کتنی جلدی بے وقوف بن جاتے ہیں۔ ٹی وی پر تو پریس کانفرنس میں کہا جا رہا تھا کہ اب اچھے برے طالبان کی تمیز ختم ہو گئی۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ جو طالبان کابل کی مارکیٹوں میں بموں سے افغانیوں کو اڑائیں، بچوں اور عورتوں کو ماریں، وہ ہمارے لیے اچھے اور جو ہمارے اے پی ایس سکول اور اب چارسدہ یونیورسٹی پر حملہ کریں وہ برے؟ گویا جو افغانستان کے نزدیک دہشت گرد ہیں‘ وہ ہمارے ہیرو ہیں اور جو ہمارے لیے دہشت گرد ہیں وہ افغانستان کے نزدیک ہیرو یعنی جو کابل میں معصوم لوگوں کو بموں سے اڑاتے ہیں‘ وہ ہمارے لیے اچھے طالبان ہیں اور جو ہمارے بچوںکو مارتے ہیں وہ افغانستان کے نزدیک اچھے طالبان ہیں۔ ویسے ان بموں کے حملوں میں کون مارا جا رہا ہے؟ عام انسان اور ان کے بچے... جنہیں شاید پراکسی وارز کا ترجمہ بھی نہیں آتا ہو گا۔ اس کا مفہوم اور اصل مطلب سمجھنا بہت مشکل ہے۔
دو تصویریں ایسی ذہن سے چپک گئی ہیں کہ کوشش کے باوجود نہیں مٹ رہیں۔ ایک تصویر کابل کی‘ جہاں پچھلے سال مارکیٹ میں ملا عمر کی موت کے اعلان کے بعد نئے خلیفہ نے اپنی دہشت اور کنٹرول ثابت کرنے کے لیے خود کش حملے کرائے۔ ان حملوں میں پچاس عورتیں اور بچے مارے گئے اور ڈھائی سو سے زیادہ زخمی ہوئے۔ اس تصویر میں دکھایا گیا کہ ایک بوڑھا افغان اپنی بیٹی کی لاش کفن میں لیپٹ کر سڑک کنارے بیٹھا ہے جبکہ اس کا دو ماہ سے بھی کم عمر نواسہ کپڑے میں لپٹا مردہ ماں کے ساتھ پڑا ہے۔ بوڑھا افغان‘ جس کے آنسو خشک ہو چکے تھے‘ خاموش بیٹھا کہیں دور گھور رہا ہے۔ دوسری تصویر اے پی ایس پشاور سکول کے ایک بچے کی ماں کی ہے جو اپنے بچے کے تابوت پر رو رہی ہے۔ اس تصویر کو لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ لگتا ہے اس ماں کی چیخیں تصویر سے نکل کر آپ کی سماعت میں ہمیشہ کے لیے داخل ہو گئی ہیں۔ اسی طرح پچھلے دنوں پٹھان کوٹ پر ہونے والے حملے میں بھی ایک بھارتی خاندان کی اسی طرح کی تصویر اخبارات میں چھپی۔ ایسی کئی تصویریں مقبوضہ کشمیر کے نوجوانوں کی مائوں کی بھی چھپتی رہی ہیں‘ جن پر بھارتی فوجی ظلم کرتے ہیں۔
سمجھ نہیں آتی اس خطے میں یہ خونیں کھیل کیسے شروع ہوا‘ اور کیسے ختم ہو گا؟ اگر جان کی امان پائوں تو عرض کروں کہ پراکسی جنگوں کا یہ جدید تصور ہم نے پیش کیا اور دنیا کے ہر کونے میں اپنے جہادی بھیج دیے۔ ان کے کارناموں کو رومانوی شکل دیتے رہے کہ بس دنیا آج فتح ہوئی کہ کل۔ اب یہ پراکسی جنگیں دنیا کے مختلف حصوں سے ہوتی ہوئی ہمارے گھروں تک پہنچ گئی ہیں۔ ہندوستان کا ایک ٹی وی پروگرام دیکھ رہا تھا جس میں ایک صوبے کا وزیر اعلیٰ کہہ رہا تھا کہ پاکستان پر حملہ کر کے پہلے اس کے چار ٹکڑے کیے جائیں اور پھر چار کو آٹھ کر دیا جائے۔ سامعین میں بیٹھے زیادہ تر نوجوان لڑکے اور لڑکیاں تھے۔ سب نے تالیاں بجائیں؛ تاہم میں نے غور کیا تو کچھ نوجوان تالیاں نہیں بجا رہے تھے۔ شاید یہی چند نوجوان امید کی کرن تھے‘ جو وزیر اعلیٰ کی باتوں پر تالیاں نہیں بجا رہے تھے۔ مجھے تالیاں بجانے والے نوجوانوں کو دیکھ کر یاد آیا کہ جب پاکستانی لیڈر ایسی بڑھکیں مارتے تھے کہ لال قلعہ پر جھنڈا لہرائیں گے تو ہم بھی اسی طرح تالیاں بجاتے تھے۔
ان نعروں کا نتیجہ یہ نکلا کہ بھارتی وزیر اعظم مودی پاکستان آتے ہیں‘ تو ہم مظاہرے شروع کر دیتے ہیں۔ پاکستانی ہندوستان جائیں تو وہاں مظاہرے شروع ہو جاتے ہیں۔ نفرت نے رنگ دکھا دیا ہے۔ دونوں ملکوں کی نسلوں میں نفرت بہت آگے چلی گئی ہے۔ میرا خیال تھا سوشل میڈیا اور ٹی وی چینلز ایک دوسرے کے ملکوں اور عوام کو قریب لائیں گے اور دونوں ملکوں کے عوام اپنی اپنی حکومتوں پر زور ڈال کر مسائل حل کرائیں گے، لیکن لگتا ہے سوشل میڈیا اور ٹی وی چینلز ہندوستان اور پاکستان میں جنگ ضرور کرائیں گے۔ ٹویٹر پر اگر ہندوستانی کو پتا چل جائے کہ یہ پاکستانی ہے تو وہ آپ کو دہشت گردوں کا ساتھی قرار دیتا ہے۔ پاکستانی جواباً ہندوستانی کو گالیاں دیتا ہے۔ دونوں ایک دوسرے کو دہشت گرد قرار دیتے ہیں۔ ہندوستانی سمجھتے ہیں ہم ان کے ملک میں دہشت گردی کراتے ہیں، ہم انہیں اپنے ہاں دہشت گردی کا ذمہ دار سمجھتے ہیں۔ دونوں طرف کی نسلیں اس قابل نہیں رہ گئیں کہ ایک دوسرے سے دلائل کے ساتھ بات کر سکیں۔ دونوں ایک دوسرے کے لیے دہشت گرد ہیں۔
ادھر کابل میں پاکستان کے خلاف مظاہرے ہوتے ہیں۔ افغان خود کو ہندوستان کے زیادہ قریب سمجھتے ہیں۔ پچھلے دنوں ہندوستانی ایمبیسی پر حملہ ہوا تو افغان گورنر خود بندوق لے کر حملہ آوروں سے لڑنے کے لیے نکلا۔ چند دن بعد پاکستان کے سفارت خانے پر حملہ ہوا۔ کوئی باہر نہ نکلا۔ دکھ ہوتا ہے افغانوں کی قسمت پر۔ شاید وہ اپنے بزرگوں کا جرائم کا کفارہ ادا کر رہے ہیں۔ تاریخ میں ہندوستان پر زیادہ تر حملے افغانستان سے ہوتے رہے۔ ہندوستان اور موجودہ پاکستان کے لاکھوں انسانوں نے افغان حملہ آوروں کے ہاتھوں ظلم و ستم سہے۔ دلی کی گلیاں لہو کی ندیاں بن جاتی تھیں۔ ان افغان اور سنٹرل ایشیا کے حملہ آوروںکی ہندوستان پر حملوں کی کہانیاں پڑھ کر بندہ کانپ جاتا ہے۔ آج وہی افغانی سرزمین لہولہان ہے جیسے کبھی افغان حملہ آور ہندوستان کی دھرتی کو کرتے تھے۔ دکھ ان لاکھوں ہندوستانیوں کا بھی محسوس ہوتا ہے جو ان افغانوں کے حملوں اور لوٹ مار کا نشانہ بنتے تھے، لیکن دکھ ان افغانوں کے بارے میں بھی ہوتا ہے جو آج کابل مارکیٹ کے حملوں میں مارے جاتے ہیں۔ ہندوستان میں جو انسان افغان حملہ آوروں کے ہاتھوں مارے گئے وہ بھی بے گناہ تھے۔ آج جوکابل میں مارے جاتے ہیں وہ بھی بے گناہ ہیں۔ افغانوں سے ہمدردی اس لیے بھی محسوس ہوتی ہے کہ جب کابل میں ہندوستانی سفارت خانے پر حملہ ہوتا ہے تو اس میں بھی افغان سپاہی مارے جاتے ہیں۔ جب پاکستان کے سفارت خانے پر حملہ ہوتا ہے تو بھی اس میں افغان سپاہی مارے جاتے ہیں۔ پاکستان اور ہندوستان کے درمیان جاری نفرت اور جنگی ماحول کی قیمت افغان شہری اور افغان سپاہی ادا کر رہا ہے۔
ہم کبھی یہ بات نہیں مانیں گے کہ جب تک ہمارے ہمسایوں میں امن نہیں ہو گا ہمارے ہاں بھی نہیں ہو سکتا۔ پراکسی جنگوں نے اس خطے کو تباہ کر دیا ہے۔ ہندوستان اور پاکستان دونوں جانتے ہیں، نیوکلیئر بموں کی وجہ سے دونوں میں جنگ نہیں ہو سکتی، اس لیے ایک دوسرے کو کمزور کرنے کے لیے دونوں پراکسی وارز کا ہتھیار استعمال کرتے ہیں۔ اب افغانستان بھی پراکسی جنگ میں شریک ہو چکا ہے۔ یوں اس خطے کے تین ممالک اس وقت ایک دوسرے کے ملکوں میں پراکسی وار لڑ رہے ہیں۔ مرنے والے عام شہری ہیں جو اپنے بیوی بچوں کے ساتھ مارکیٹ شاپنگ کے لیے جاتے اور بموں کا شکار ہو جاتے ہیں۔ پھر سکول میں پڑھتے بچے مارے جاتے ہیں۔
تین ملکوں میں جاری اس پراکسی جنگ سے کس کو فائدہ ہو رہا ہے؟ مجھے نہیں پتا کس کو ہو رہا ہے، لیکن یہ ضرور ہے کہ ان پراکسی جنگوں سے افغان، پاکستانی اور ہندوستانی ایک دوسرے کے لہو کے پیاسے ہو چکے ہیں۔ لہو کے پیاسے تو وہ پہلے بھی تھے لیکن اب فرق یہ ہے کہ پہلے وہ صرف لہو بہانے کا سوچ کر ہی کتھارسس کر لیتے تھے، اب ایک دوسرے کا لہو بہا کر مزہ لیتے ہیں۔ اس خطے میں جاری پراکسی جنگوں میں پیدا ہونے والی شدت دیکھ کر نیوٹن کا تیسرا اصول یاد آتا ہے:
For every action, there is an equal and opposite reaction.
جو گیند جتنی شدت سے کسی دیوار پر لگے گی وہ اسی شدت سے اس انسان کی طرف لوٹ آئے گی جس نے اسے دیوار پر مارا تھا۔
آپ لاکھ توجیہات پیش کرتے رہیں، ہمیں سٹریٹیجک گہرائی کی کہانیاں سناتے رہیں، دہشت گردوںکو اپنے رومانوی قصوں اور کالموں کا حصہ بناتے رہیں اور ہمیں سمجھاتے رہیں کہ پراکسی جنگیں کتنی اہم ہوتی ہیں لیکن سچ یہ ہے کہ 1980ء کی دہائی میں ہماری دھرتی سے شروع ہونے والی پراکسی جنگیں دنیا بھرکے سیر سپاٹے اور ہزاروں لوگوں کو قتل کرنے کے بعد بالآخر ہمارے اپنے ہی گھر لوٹ آئی ہیں۔ منہ کو لگا انسانی لہو اتنی آسانی سے نہیں چھوٹتا، چاہے انسان کو لگ جائے یا جنگل میں دھاڑتے آدم خود درندے کو!
مسافر صدیوں کی مسافت کے بعد گھروں کو لوٹ آئے ہیں اور اپنے ساتھ وہی ہمارے لیے لائے ہیں جو (گولہ بارود) روانہ کرتے وقت ہم نے انہیں دے کر دوسرے دیس بھیجا تھا!