"RKC" (space) message & send to 7575

گریڈ اے چاہیے۔۔۔۔!

لکھنے کا ارادہ تو کسی دوسرے موضوع پر تھا لیکن ابھی اپنے بچوں کے سکول سے واپس آیا ہوں اور میں نے جو ڈیڑھ گھنٹہ کلاس میں گزارا اس کے اثر سے نکل نہیں پا رہا۔ یہ میرے چھوٹے بیٹے کی کلاس تھی۔ سکول کی چیف ایگزیکٹو افسر مسز فلورا محمود نے سب بچوںکے والدین کو بلایا تھا تاکہ انہیں بریفنگ دی جاسکے کہ ان کے بچے او لیول میںکن مضامین کا انتخاب کریں۔
صبح اٹھنا مشکل تھا، لیکن مَیں اگر اسلام آباد میں کسی سے ڈرتا ہوں تو وہ اس سکول کی پرنسپل شبنم اشرف ہیں۔ انہیں بچوں کی تعلیم و تربیت کا جنون ہے۔ سکول کے فنکشن میں چھپ رہا ہوتا ہوں کیونکہ مجھے علم ہے ملیں گی تو میری خوب کلاس لی جائے گی۔ وہ اکثر کہیں گی، ٹی وی پر بیٹھ کر دنیا جہان کو بڑے لیکچر دیتے ہو، لیکن اپنے بچوں پر توجہ نہیں دیتے۔
ایک دن میرے بڑے بیٹے کی اردوکی خاتون استاد نے جو محنت سے پڑھانے اور سختی کے لیے مشہور ہیں، اسے نرمی سے تھپڑ لگائے۔ وہ شرمندہ ہوکر مجھے بتا رہا تھا کہ میڈم بہت اچھی استاد ہیں، جتنی محبت سے بچوں کو پڑھاتی ہیں اتنا وہ انہیں ڈراتی بھی ہیں اور ان کی کلاس کا ریزلٹ بہت بہتر ہوتا ہے۔ میں نے کہا بیٹا تم خوش قسمت ہو، دو تھپڑوں سے جان چھوٹ گئی، ہم ٹاٹ سکول میں ڈنڈے سے مارکھاتے تھے۔ میں نے اسے تاکید کی کہ سکول کام کرکے جایا کرو تاکہ مار نہ پڑے۔ اس دن سے اس نے پڑھنا شروع کر دیا اور امتحان میں اچھے نمبر لیے۔ 
میں اس دن بڑا متاثر ہوا جب بچوں کو سکول چھوڑنے گیا۔ میڈیم شبنم اشرف پونے آٹھ بجے سکول کے گیٹ پر خود رجسٹر لے کر کھڑی تھیںکہ کون (والد یا ڈرائیور) بچوں کو دیر سے لا رہا ہے۔ وہ دیر سے آنے والوں پر برس رہی تھیں کہ بچوںکی تعلیم سے زیادہ کیا اہم کام ہو سکتا ہے؟ جب سے میرے بچے اس سکول میں داخل ہوئے ہیں میری پریشانیاں ختم ہوگئی ہیں۔میڈم شبنم اشرف سے بہتر بچوں میں پاکستانیت اور اخلاقی اقدار کوئی نہیں ڈال سکتا۔ میرے بچے پہلے کسی اور سکول میں پڑھتے تھے۔ ایک دن میرے چھوٹے بیٹے نے جو تیسری کلاس میں تھا مجھے بتایا کہ انہوں نے گینگ بنا لیا ہے۔کہنے لگا، ان کے کلاس فیلوکو چوتھی کلاس کے بچوں نے مارا تھا، آج انہوں نے مل کر کلاس فورکو مارا ہے۔ وہ آئندہ بھی انہیں ماریں گے۔ میں نے اگلے دن اسے سکول سے اٹھا لیا۔ 
فلورا محمود کلاس میں کھڑی ہم سب کو وضاحت سے سمجھا رہی تھیں کہ بچوںکے لئے جب او لیول کے مضمون کا انتخاب کرنا ہو توکیا کیا چیزیں ذہن میں رکھنی چاہئیں۔ انہوں نے سائنس سے لے کر بزنس اور آرٹس تک سب مضامین کے بارے میں وضاحت سے بتایا۔ ان کا کہنا تھا، عموماً والدین کے نزدیک بچوں کی کامیابی کو جانچنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ جو بچہ اے گریڈز سکورکر لے سمجھا جاتا ہے کہ وہ قابل ہے۔کوشش کی جاتی ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ اے سکورزحاصل کرے اور یونیورسٹی میں داخلہ آسان ہوجائے۔ ان کا کہنا تھا، انہوں نے استاد کے طور پر کئی بچوں کو دس سے پندرہ اے گریڈز تک لیتے دیکھا ہے، لیکن وہ ایک پیرا گراف تک اپنی طرف سے نہیں لکھ سکتے۔ سب کچھ رٹ کر کمرہ امتحان میں جاتے ہیں اور لکھ کر آجاتے ہیں۔ اخبار اور ٹی وی سے پتا چلے گا فلاں بچے نے اتنے اے گریڈز لیے ہیں تو پھر تمام والدین میں جنگ شروع ہوجائے گی۔ کہنے لگیں باقی چھوڑیں، انہوں نے امتحانی سینٹرزکے باہر کھڑے ہوکر طالب علموں سے پوچھا ہے، جو امتحانی سینٹر میں لکھ کر آتے ہیں، باہر نکل کر بھول چکے ہوتے ہیں، لیکن اے گریڈز لیتے ہیں۔ ایسے اے گریڈزکا کیا کیا جائے کہ بچے کو پتا ہی نہیں اس نے کیا پڑھا اورکیا لکھا تھا۔ جو رٹا تھا وہ لکھ دیا۔ 
میڈم فلورا محمود کے بقول کئی ایسے بچے دیکھے ہیں جنہیں بیرون ملک یونیورسٹی میں داخلے ملے حالانکہ ان کے اے گریڈز نہیں تھے لیکن ان بچوں کی مکمل شخصیت کو دیکھ کر داخلہ دیا گیا۔ مکمل شخصیت کس سے بنتی ہے؟فلورا نے جو اگلی بات کی وہ بہت کم والدین کو سمجھ آئی۔ جو بات وہ والدین کو سمجھانے کی کوشش کر رہی تھیں وہ سب کے سروں کے اوپر سے گزر رہی تھی۔ اس وقت مجھے اپنا بھائی عامر خاکوانی اور اس موضوع پراس کے لکھے درجنوںکالم یاد آ رہے تھے۔ وہ بولیں، ان کے نزدیک بچے کا چاہے سی گریڈ ہو یا اس سے بھی کم، لیکن اسے لٹریچر ضرور پڑھناچاہیے۔ انگلش لٹریچر ہو یا کوئی بھی ادب، یہ بچے کو مکمل شخصیت دیتا ہے۔ لٹریچر انسان کے اندر کی بات کرنے اور چیزوں کو ایک مختلف انداز میں دیکھنے کی راہ دکھاتا ہے۔ وہ زندگی کو دوسروں سے ہٹ کر دیکھتا اورگزارتا ہے۔ ادب انسان کو بدل کر رکھ دیتا ہے۔ وہ بولتی رہیں کہ لٹریچر بچوں کو بڑا ہوکرکیسے مکمل انسان بناتا ہے۔ مجھے لگا فلورا محمود لٹریچر پر لیکچر دیتے ہوئے کہیں کھوگئی ہیں۔ میں نے اپنے اردگرد دیکھا تو مجھے کوئی بھی ان کی باتوں سے متاثر نہ نظر آیا کیونکہ سب کو علم تھا لٹریچر میں سی گریڈ تک نمبر آتے ہیں جبکہ سب کو اپنے بچوں کے لیے اے گریڈ چاہئیں۔ میں سنتا رہا کیونکہ مجھے علم تھا اب لٹریچر کوئی نہیں سمجھتا۔ لٹریچر اس معاشرے کے لیے بیکار چیز سمجھی جاتی ہے۔کہانی پڑھنا ختم ہوگیا ہے، ناول تو دور کی بات ہے۔
ایک والد نے کلاس میں ایسی بات کہہ دی کہ دل دکھ سے بھرگیا۔ بولے، وہ سائنسدان ہیں لیکن وہ پچھتاتے ہیں۔ انہیں بھی بیوروکریٹ بننا چاہیے تھا۔ آج جب وہ اپنے بیوروکریٹ دوستوںکو دیکھتے ہیں تو لگتا ہے وہ زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہ گئے ہیں۔ وہ حسرت سے بتاتے رہے، ان کا فلاں دوست اس وقت بڑا بیوروکریٹ ہے اور مزے کی زندگی گزارتا ہے۔ یہ ہمارے اندرکی خواہشات ہیں۔ ہمیں طاقت اور پیسہ چاہیے۔ ہم اس پروفیشن میں بچوں کو بھیجنا چاہتے ہیں جس میں طاقت اور پیسہ ہو۔ اس کی شخصیت سے ہمیں کچھ لینا دینا نہیں۔ 
کلاس ختم ہونے کے بعد میں نے اس باپ کو پکڑا اور کہا آپ کی بات سن کر دکھ ہوا۔ آپ کا خیال ہے سائنسدان ہونا چھوٹی چیز ہے، آپ ایک بیوروکریٹ ہوتے تو آپ کی زندگی بدل جاتی۔ آپ کیا کرتے؟ ملک کو نوچتے، لوگوں کو لوٹتے اور اپنے بچوں کو اچھی زندگی فراہم کرتے؟ پیسہ لوٹ کر دبئی میں جائداد خرید لیتے؟ میں نے اس بیوروکریٹ کلاس کو بڑے قریب سے دیکھا ہے۔ اس ملک کو تباہ کرنے میں اس کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ سب ایگزیکٹو پاورز ان کے پاس ہیں۔ ان کی مرضی کے بغیر وزیراعظم چائے تک نہیں پی سکتا۔ وزیرگاڑی نہیں لے سکتا اگر سیکرٹری دستخط نہ کرے۔ انہوںنے اس ملک کے لیے کون سا ایسا کارنامہ انجام دیا ہے جو آپ نہ دے سکے؟ ہاں، آپ نے بہت مال بنانا تھا، بیرون ملک دولت اکٹھی کرنی تھی، وزیراعظم کے ایک قریبی بیوروکریٹ کی طرح پنڈی میں پلازہ کھڑا کرنا تھا تو پھر واقعی آپ ایک ناکام انسان ہیں۔ اسی بیوروکریسی نے آج اس ملک کا یہ حشر کر دیا ہے جسے آپ کو جوائن نہ کرنے کی بڑی حسرت ہے۔ وہ مجھے حیرت سے دیکھ کر چلے گئے۔ 
جب کامیابی اور ناکامی کا معیار اے گریڈ رہ گیا ہو تو پھر کون سا ادب اور کون سی ادب کی کتابیں۔ ہم سب نے اپنے بچوں کے ساتھ ظلم کیا ہے۔ ہم نے بچوں کو بیڈ ٹائم پرکہانیاں نہیں سنائیں اور نہ ہی پڑھائیں۔ انہیں ہم نے ادب پڑھنے کی عادت ہی نہیں ڈالی۔ ہم کیسے عادت ڈالتے جب ہمیں کسی نے بیڈ ٹائم اسٹوری نہیں پڑھائی، ہم کیسے اپنے بچوں کو پڑھاتے؟ ہم سمجھتے ہیں بچے کو ڈاکٹر، انجینئر، یا بیوروکریٹ بنانا ہے تو اس کے لیے لٹریچر کی کیا ضرورت ہے؟ لٹریچر ہماری زندگیوں سے نکل چکا ہے اور اس کے ساتھ ہمارے اندر موجود تخلیقی صلاحیتیں اور قدریں بھی دم توڑ گئی ہیں۔ دنیا بھر میں ادب پڑھنا اس طرح ضروری ہے جیسے سانس لینا، کھانا اور سونا۔ ہمارے ہاں کتاب ہماری زندگیوں میں شامل ہی نہیں۔
بازی گر کے لکھاری شکیل عادل زادہ سے پوچھا سب رنگ دوبارہ کیوں نہیں نکالتے؟ بولے، اب کہانی نہیں لکھی جاتی۔ ادیب مر گئے اور اس کے ساتھ کہانی بھی مرگئی۔ نئے ادیب پیدا نہ ہوئے، چھاپیں کیا؟ کہاں سے لائیں کرشن چندر، بلونت سنگھ، غلام عباس، قاضی ستار، آغا بابر، ابوالفضل صدیقی یا شوکت صدیقی جو کہانی لکھیں۔ سب کچھ ختم۔اب بچے کھچے ادیب، شاعر اور ڈرامہ نگار اخباروں میں کالم لکھتے ہیں اور زیادہ مشہور اور مالدار ہیں۔ 
میں نے عرصے بعد فلورا محمود کی شکل میں استاد دیکھا جو والدین کو قائل کرنے کی کوشش کر رہی تھیں کہ اپنے بچوں کو لٹریچر پڑھائیں، گریڈ بھول جائیں، بچے کو لٹریچر کی گریڈ سے زیادہ ضرورت ہے۔ لیکن لگتا ہے ہمیں اپنے بچوں کی مکمل شخصیت سے کوئی غرض نہیں ہے۔ ہمیں ایک مشین چاہیے جو بیس یا بائیس اے گریڈ لے، ہم اس کی خبریں اخبارات میں چھپوائیں، ٹی وی پر انٹرویوز چلوائیں، اس پر کالم لکھوائیں، اس کا رزلٹ کارڈ فیس بک پر شیٔر کریں، دنیا بھر سے مبارکبادیں لیں۔ لیکن فلورا محمود کے بقول انہوں نے ایسے بچوں کی شخصیت میں گیپ دیکھے ہیں۔ وہ دو درجن گریڈز لے کر بھی مکمل نہیں ہو پاتے۔
میں نے سب کے چہروں پر نظر دوڑائی۔ بوریت سے بھرپور چہروں پر واضح لکھا ہوا تھا، ہمارے بچوں کو گریڈ اے چاہیے، لٹریچر سے پیدا ہونے والی مکمل شخصیت نہیں۔۔۔۔!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں