کرنل نے جب قائد اعظم کو بیماری کی سنگینی کے بارے میں بتایا تو وہ خاموش اور پُرسکون رہے۔ بات ختم ہوئی تو کرنل الٰہی بخش سے سوال کیا، کہیں آپ نے مس جناح کو تو نہیں بتا دیا؟ کرنل نے کہا، بتا دیا ہے۔ اپنی بات کی جلدی سے وضاحت کرتے ہوئے ڈاکٹر بولا: میرا خیال تھا کہ آپ کو اس بیماری کے بارے میں نہ بتایا جائے، اس لیے میں نے ان کو اعتماد میں لینا ضروری سمجھا۔ قائد اعظم نے کرنل کو اپنی بات پوری نہیں کرنے دی۔۔۔۔ 'آپ کو یہ بالکل نہیں کرنا چاہیے تھا۔ کچھ بھی ہو، بہرحال وہ ایک عورت ہے‘۔ کرنل الٰہی بخش نے شرمندگی کا اظہار کیا کہ انہوں نے قائد کی بہن کو تکلیف پہنچائی؛ تاہم کہا: اور کوئی چارہ بھی تو نہیں تھا‘ میڈیکل کی اخلاقیات کا تقاضا تھا کہ خاندان کے کسی فرد کو اعتماد میں لیا جائے‘ چونکہ ان حالات میں فاطمہ جناح کے علاوہ خاندان کا کوئی دوسرا فرد موجود نہ تھا‘ اس لئے فاطمہ جناح کو بتایا‘ اور انہوں نے کہا: بہتر ہو گا قائد اعظم کو بھی بیماری کے بارے میں بتا دیا جائے تاکہ علاج میں ان کی مدد لی جا سکے۔ کرنل ایک شدید مشکل کا شکار تھا۔ قائد اعظم نے کرنل کی بات سنی اور کہا: چلیں چھوڑیں، اب کیا ہو سکتا ہے، جو ہونا تھا وہ تو ہو چکا‘ یہ بتائیں میری تندرستی کے کتنے امکانات ہیں، علاج کتنا عرصہ جاری رہے گا؟ مجھے کل تک بتائیں، کوئی بات چھپانے کی ضرورت نہیں ہے، سچ سچ بتانا۔ کرنل ہچکچا کر بولے کہ اتنے کم وقت میں انہیں سب کچھ بتانا ممکن نہیں ہو گا کیونکہ ان باتوں پر وقت لگتا ہے اور وہ اپنی حتمی رائے دینے میں وقت لیں گے۔ کرنل نے محسوس کیا کہ بری خبر سنانے کے باوجود قائد اعظم نہیں گھبرائے۔ اس بات نے کرنل کو بہت متاثر کیا کہ انہوں نے کس طرح بری خبر سنی اور برداشت کی۔
کمرے سے نکلتے ہی کرنل نے لاہور میو ہسپتال سے ڈاکٹر ریاض شاہ، ڈاکٹر عالم، ایکسرے ماہر اورکلینیکل پیتھالوجسٹ غلام محمد کو زیارت بلوا لیا اور کہا کہ اپنے ساتھ ضروری آلات بھی لائیں۔ کرنل کو علم نہ تھا کہ انہیں ایک اور مسئلے کا سامنا بھی کرنا ہو گا۔ کرنل نے فاطمہ جناح سے کہا کہ وہ ایک نرس رکھ لیں کیونکہ وہ اپنے بھائی کی ہمہ وقت خدمت کر کے تھک جائیں گی۔ کرنل کو خطرہ تھا کہیں فاطمہ جناح ٹوٹ نہ جائیں اور اگر ایسا ہوا تو قائد اعظم کے لیے صدمے کا باعث ہو گا جو ان کی صحت افورڈ نہیں کر سکتی۔
فاطمہ جناح تیار ہو گئیں؛ تاہم کہا، اس کے لیے قائد اعظم کو تیار کرنا پڑے گا کیونکہ وہ اپنے لیے نرسنگ پسند نہیں کرتے۔ وہی ہوا جس کا خطرہ تھا۔ جب قائد اعظم سے بات کی گئی تو انہوں نے فوراً یہ تجویر مسترد کر دی۔ کرنل نے بڑے آرام سے بات سمجھانے کی کوشش کی کہ ایک تجربہ کار نرس کا ان کے پاس ہونا کتنا ضروری ہے جو ان کے ٹمپریچر اور پَلز (نبض) کا ہر چار گھنٹے بعد ریکارڈ رکھ سکے۔ اس کے جواب میں قائد اعظم بولے کہ ان کے ٹمپریچر اور پَلز کا ریکارڈ تو ڈاکٹرکا اسسٹنٹ بھی رکھ سکتا ہے، اس کے لیے نرس کی کیا ضرورت ہے؟ تاہم کرنل نے قائد اعظم کی تجویز کے برعکس نرس کا بندوبست کر لیا۔ اگلی صبح جب وہ معائنہ کرنے گئے تو فاطمہ جناح نے کہا، یہ نرس تو زبردست اور قابل ہے۔ جب پچھلی رات قائد اعظم نے پوچھا کہ ان کا ٹمپریچر کتنا ہے تو وہ بولی سوری سر! میں ڈاکٹر کی اجازت کے بغیر نہیں بتا سکتی۔ جب وہ چلی گئی تو قائد اعظم نے فاطمہ جناح سے اس نرس کی تعریف کی۔ قائد اعظم کیونکہ خود اصول پسند تھے اس لیے ایسے لوگوں کو پسند کرتے تھے۔
اسی دن امریکہ میں پاکستان کے سفیر حسن اصفہانی قائد اعظم سے ملنے آئے۔ کرنل سے بھی ملاقات ہوئی۔ انہوں نے قائد اعظم کی بیماری کی نوعیت کے بارے میں جاننا چاہا‘ لیکن کرنل نے بتانے سے انکار کر دیا۔ اصہفانی بولے، اگر امریکہ سے کسی بھی میڈیکل مدد کی ضرورت ہو تو وہ فوراً خصوصی طیارے کے ذریعے وہاں سے بھجوا سکتے ہیں۔ جب اصفہانی قائد اعظم سے مل کر واپس لوٹے تو کرنل نے محسوس کیا کہ وہ جذباتی تھے۔ کرنل کو امید تھی کہ قائد اعظم سے ملاقات کے وقت انہوں نے اپنے جذبات کو قابو میں رکھا ہو گا۔ جاتے وقت اصفہانی نے دوبارہ کہا، امریکہ سے کوئی بھی میڈیکل مدد چاہیے تو وہ فوراً حاضر کر دیں گے۔
اسی شام کرنل نے فاطمہ جناح کو کہا، قائد اعظم مناسب گرم کپڑے نہیں پہن رہے‘ جس سے ان کے سینے کو سردی پکڑ سکتی ہے۔ انہوں نے کراچی سے فوراً کپڑے منگوائے تاکہ قائد اعظم کے سلک کے پاجامے کو تبدیل کر کے وہ کپڑے پہنائے جائیں۔ اگلی صبح جب وہ قائد اعظم سے ملنے گئے تو بولے، سر! آپ نے جو پتلا ریشمی پاجامہ پہن رکھا ہے یہ آپ کو سردی سے بچانے کے لیے کافی نہیں، آپ کو سردی لگ سکتی ہے۔ جناح بولے، میرے پاس سلک کا ایک ہی پاجامہ ہے، میری خواہش ہے کہ میں ہینڈ لوم کپڑے سے مزید کچھ بنوا لوں۔ کرنل بولے، لیکن سر کاٹن سے بھی کام نہیں چلے گا‘ آپ کو وولن کپڑوںکی ضرورت ہے۔ جناح بولے، لیکن میں نے آپ کو بتا دیا ہے، میرے پاس ابھی نہیں ہیں۔ کرنل بولے: لیکن میرے خیال میں آپ کے پاس ہونے چاہئیں‘ آپ کی اجازت کے بغیر میں نے کراچی سے منگوا لیے ہیں۔ قائد اعظم سنجیدہ ہو کر بولے، سنو ڈاکٹر صاحب! میری بھی ایک تجویز لے لو۔ جب بھی پیسے خرچ کرو تو پہلے دو دفعہ سوچ لو، آیا یہ پیسے اس چیز پر خرچ کرنے ضروری بھی ہیں یا نہیں‘ بلکہ یہ سوچو، واقعی بہت ضروری ہے؟ کرنل بولے، سر! آپ کے کیس میں تو میں جب بھی کوئی فیصلہ کرتا ہوں دو دفعہ سوچتا ہوں۔ آپ کے لیے وولن پاجامے لینا بہت ضروری ہیں۔ اگر یہ بات ہے تو پھر ٹھیک ہے، قائد اعظم نے کہا۔ یہ بات انہوں نے مسکرا کر کہی جس سے کرنل کو بھی حوصلہ ملا۔ کرنل کو پتا چل چکا تھاکہ کسی وقت قائد اعظم غیرضروری ضد بھی کر جاتے ہیں۔ اگرکرنل کو بات منوانا ہوتی تو ضروری تھا کہ وہ مناسب جواز پیش کریں۔ قائد اعظم ایک ذہین انسان تھے۔ انہیں لفاظی سے مطمئن نہیں کیا جا سکتا تھا۔ وکیل تھے، لہٰذا دلیل دینا ضروری تھا۔
اگلے روز نو بجے پہنچے تو ڈرائنگ روم میں کرنل کی ملاقات وزیر اعظم لیاقت علی خان سے ہو گئی۔ وہ سیکرٹری محمد علی کے ساتھ قائد سے ملنے آئے ہوئے تھے۔ لیاقت علی خان نے بے تابی سے قائد اعظم کی طبیعت کے بارے میں پوچھا۔ امید کی کہ وہ جلد تندرست ہو جائیں گے۔ لیاقت علی خان نے کرنل سے پوچھا، آخر ان کی مسلسل بیماری کی کیا وجہ ہے۔ کرنل الہی بخش، وزیر اعظم لیاقت علی خان کی اپنے پرانے چیف اور کامریڈ قائد اعظم کے لیے بے تابی اور پریشانی سے متاثر ہوئے۔ اسی شام لاہور سے ڈاکٹر ریاض بھی پہنچ گئے۔ قائد اعظم نے مسکرا کر ڈاکٹر کا استقبال کیا۔ ایکسرے کے لیے مسئلہ تھا۔ قائد اعظم بہت کمزور تھے اور وہ ایک لحمے کے لیے بھی سانس نہیں روک سکتے تھے اور نہ ہی بستر میں بیٹھ سکتے تھے؛ تاہم جو ایکسرے لیا گیا اس سے اندازہ ہوا کہ پھیپھڑوںکو ان کے اندازے سے کہیں زیادہ نقصان پہنچ چکا ہے اور یہ بیماری دو سال سے ان کے اندر پل بڑھ رہی تھی۔ یہ رپورٹ دیکھ کر ڈاکٹر مایوس ہوئے کہ شاید دیر ہو چکی ہے۔ اگلے دن قائد اعظم کی طبیعت بہتر ہو گئی تاہم دو تین دن بعد پھر بگڑ گئی۔ ضروری ہو گیا کہ انہیں زیارت سے کوئٹہ لے جایا جائے۔ ان کے گردوں پر اثرات مرتب ہو رہے تھے۔ مسئلہ یہ تھا کہ قائد اعظم کو کیسے تیار کیا جائے کیونکہ وہ اتنے آرام سے کوئی بات نہیں مانتے تھے۔ کافی سوچ بچار کے بعد کرنل، جناح کے کمرے میں گئے اور کہا، پچھلے کچھ دنوں سے آپ کے پائوں میں سوجن ہے اور پیشاب بھی کم آ رہا ہے، اس لیے آپ کو کوئٹہ لے جانا ضروری ہو گیا ہے۔ پریشانی کی کوئی بات نہیں لیکن اگر سوجن بڑھ گئی تو یہ دل کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔ زیارت اونچائی پر واقع ہے اس لیے کوئٹہ جانا ضروری ہے۔
کرنل کی بات سننے کے بعد قائد اعظم نے پوچھا، کب آپ لے جانا چاہتے ہیں؟ کرنل نے کہا، اگلے دن، بارہ اگست کو۔ قائد اعظم بولے، وہ اس پر سوچ کر شام کو بتائیں گے۔ شام کو یہ موضوع چھیڑا گیا تو انہوں نے اگلے دن کوئٹہ چلنے سے انکارکر دیا۔ کہا، انہیں پیکنگ کے لیے مناسب وقت چاہیے۔ ڈاکٹر نے کہا‘ تیرہ اگست بہتر رہے گا۔ قائد اعظم فوراً بولے، ڈاکٹر تمہیں پتا ہے چودہ اگست آزادی کا پہلا سال ہے۔ تم چاہتے ہو اس شام میں یہاں سے چلا جائوں۔ یہ ناممکن ہے۔ جلدی سے جلدی پندرہ اگست تک میں تیار ہو سکتا ہوں۔ ڈاکٹر کے چہرے پر پریشانی پھیل گئی اور بولے، یہ بہت لیٹ ہو جائے گا۔ کرنل نے کہا، ایک ڈاکٹر اس طرح کے فیصلے بہت سوچ سمجھ کر کرتا ہے۔ جب قائد نے ڈاکٹر کی بات سنی تو وہ تیار ہو گئے اور پوچھا پھر ہم کب چلیںگے؟ کرنل کہا، اگلے روز ساڑھے تین بجے۔ اس پر قائد بولے، کیوں نہ دو بجے چلیں؟ اس پر ڈاکٹر نے کہا، وہ ڈیرہ بجے لنچ کریں گے اور دوگھنٹے بعد سفر کریں گے۔
سب خوش ہو گئے۔ کرنل سمجھ گئے تھے کہ جب قائد اعظم سمجھ لیتے ہیں کہ وہ درست ہیں تو دنیا کی کوئی طاقت انہیں اپنا فیصلہ بدلنے پر مجبور نہیں کر سکتی تھی، لیکن اگر انہیں پتا چلے کہ وہ غلط ہیں تو اپنا فیصلہ بدلنے میں دیر بھی نہیں لگاتے۔ کوئٹہ جانے کی تیاری مکمل تھی۔ قائد کو گاڑی میں بٹھایا گیا۔کرنل نے پوچھا، آپ کمفرٹ ایبل ہیں؟ بولے، مجھے جلدی کوئٹہ لے چلو! صرف ایک پروٹوکول گاڑی ملک کے بانی اور گورنر جنرل کی گاڑی کے آگے لگ چکی تھی۔ راستے میں ہر طرف لوگوں کا ہجوم اپنے قائد کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے امڈ آیا تھا۔ کرنل لوگوںکا اس قدر ہجوم دیکھ کر پریشان ہو گئے کیونکہ پوری کوشش کی گئی تھی کہ اس خبرکو خفیہ رکھا جائے کہ قائد اعظم کوئٹہ جا رہے ہیں لیکن پھر بھی خبر نہ صرف باہر نکل گئی بلکہ اب اتنی تعداد میں لوگ سڑک کے کنارے کھڑے تالیاں بجارہے تھے، جبکہ گاڑی کے اندر قائد اعظم زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہے تھے۔
کرنل کو کچھ پتا نہیں تھا کہ یہ خبر کیسے باہر نکلی! (جاری)