"RKC" (space) message & send to 7575

ساڈے نال رہو گے تو عیش کرو گے ..... (2)

مجھے بعد میں احساس ہوا کہ ابھی تو اور بہت کچھ سننے کو تھا۔ ریفارم ایکٹ کا مطلب تھا لوٹ مار! میں نے میاں نواز شریف کے پہلے دور حکومت میں بنائے گئے اس حیران کن قانون کی کاپی لے کر پڑھنا شروع کی تو ششدر رہ گیا۔ 
اس قانون کے تحت جو 28 جولائی1992ء کو نواز حکومت نے پارلیمنٹ سے منظور کرایا تھا، کوئی بھی پاکستانی فارن کرنسی اکائونٹ کھول کر اس میں جتنی مرضی چاہے ڈالرز رکھ سکتا تھا۔ یہاں تک تو ٹھیک تھا، لیکن وہ چاہے تو پاکستان کے اس اکائونٹ میں جمع کرائے گئے ڈالرز بیرون ملک لے جائے، اس سے کوئی کچھ نہیں پوچھے گا۔۔۔۔چاہے وہ ایک ڈالر لے جائے یا ایک ارب ڈالر۔ اس سے یہ بھی نہیں پوچھا جائے گا کہ وہ یہ ڈالر کہاں سے لایا تھا، اسے قانون پورا تحفظ دے گا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ ایف بی آر، ایف ائی اے یا عدالت کسی سے نہیں پوچھ سکتی تھی کہ اس کے پاس ایک ارب ڈالرکہاں سے آئے؟ اور اس نے کوئی ٹیکس دیا یا نہیں؟ اس نے یہ دولت ٹارگٹ کلنگ سے کمائی، بھتہ لیا، وہ کرائے کا قاتل تھا یا اس نے بینکوں سے قرضہ معاف کرا کے اربوں ڈالر اکھٹے کیے یعنی یہ حرام کی کمائی کے ڈالر تھے یا حلال کی کمائی کے۔ اس قانون کے تحت کوئی کسی سے کوئی سوال نہیں پوچھ سکتا تھا۔ اس قانون کے بنتے ہی ایک سال کے اندر اندر مریم نواز، حسن نواز اور حسین نواز نے آف شورکمپنیاں بنالیں اور ہمیں آج پتا چل رہا ہے کہ شریف خاندان کے ان تین بچوںکی ایک ارب پونڈکے قریب جائیداد لندن میں ہے۔ یہ قانون یقیناً شریف خاندان نے بہت کچھ سوچ سمجھ کر بنایا تھا اور یقیناً انہوں نے خود ہی اس سے فائدے اٹھائے۔ 
ذہن میں رکھیں کہ یہ قانون اس وقت بنایا گیا جب کسی عام شہری کی جیب سے ایک ڈالر بھی برآمد ہوجاتا تو اسے فوراً کرنسی ایکٹ کے تحت جیل بھیج دیا جاتا تھا، باقاعدہ مقدمہ درج ہوتا کہ اس کی جیب میں ڈالرکیوں ہیں۔ وہ کسی دشمن ملک کا جاسوس تو نہیں۔۔۔۔لیکن دوسری طرف انہی دنوں نواز شریف صاحب اربوں ڈالر ملک سے باہر لے جانے کا قانون لائے اورکسی کو پتا بھی نہ چلنے دیا۔
اجلاس میں ایک سینیٹر نے سٹیٹ بینک سے پوچھا، ایک پاکستانی کتنے ڈالر ملک سے باہر لے جاسکتا ہے؟ ڈپٹی گورنر سعید احمد نے کہا، ایک آدمی دس ہزار ڈالر، پانچ ملین تک سٹیٹ بینک کی اجازت سے جبکہ اس سے زیادہ کی اجازت ای سی سی دیتی ہے۔ پوچھا گیا، اگر اجازت نہ لی جائے تو؟ سعید احمد نے کہا، قانون میں کوئی پابندی نہیں، جو جتنے ڈالر پاکستان سے لے جانا چاہے لے جائے۔ تو کیا آپ ایک ارب ڈالر بھی لے جاسکتے ہیں؟ ہاں، لیکن آپ نے سٹیٹ بینک سے پوچھ لیا تو پھر پانچ ملین ڈالر۔ نہ پوچھیں تو آپ پانچ بلین ڈالر بھی باہر لے جائیں، قانون کے تحت اجازت ہے۔ سب دنگ رہ گئے! ویسے بتاتا چلوں، سعید احمد وہی ہیں جن کا نام اسحاق ڈار نے منی لانڈرنگ سے متعلق نیب کو دیے گئے بیان حلفی میں لیا تھا کہ وہ ان کے ذریعے یہ کام کرتے تھے؛ تاہم ڈار صاحب آج کل اس سے انکاری ہیں۔ ادھر سٹیٹ بینک کے گورنر اشرف صاحب پر الزام ہے کہ جب وہ ایک نجی بینک میں ملازم تھے تو انہوں نے نواز شریف خاندان کے لیے بیس ملین ڈالرکے ایک متنازع قرضے کا بندوبست کیا تھا۔ یوں سٹیٹ بینک کو وہ لوگ چلاتے ہیں جن کے کسی نہ کسی حوالے سے میاں نواز شریف کے ساتھ سکینڈلز میں نام آتے ہیں یعنی جو لوگ ماضی میں مبینہ طور پر شریف خاندان کے لیے منی لانڈرنگ کرتے رہے وہی آج سٹیٹ بینک چلا رہے ہیں۔ پہلے وہ چھوٹے موٹے بینکر تھے لیکن شریف خاندان کے لئے خدمات کے صلے میں الحمدللہ سٹیٹ بینک ان کے حوالے کر دیا گیا کہ مزے کرو۔ ساڈے نال رہوگے تو عیش کروگے!
مانڈوی والا صاحب کے عزیز محمود مانڈوی والا صاحب کی بریفنگ ابھی جاری تھی۔ فرمایا، آف شورکمپنیاں بنانا کوئی مشکل کام نہیں۔ پانچ سو سے ہزار ڈالر تک فیس ہے۔ ایک غیرملکی ڈائریکٹر آپ کے نام پرکمپنی چلاتا ہے۔ آپ اسے فیس دیتے ہیں، باقی کام وہی کرتا ہے، کسی کو پتا نہیں چلنے دیتا۔ آپ پیچھے رہ کر سب کچھ کرتے ہیں۔ 
سٹیٹ بینک کا جواب سن کر سب کا رخ سکیورٹی ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کے سربراہ کی طرف ہوا کہ موصوف اپنی پوٹلی سے کیا نکال کر سب کو بیچتے ہیں۔ وہ مسکرائے اور بولے، یہ بھی کوئی بات ہے جس کا شور مچادیا گیا ہے۔ آف شورکمپنیاں تو معمول کی بات ہے۔ پاکستان میں بھی تقریباً دو سو آف شور کمپنیاں کام کر رہی ہیں۔ سب چونک گئے۔ لیکن ایس ای سی پی کے افسر بھلا کیسے ایسی بات کہہ سکتے تھے جو وزیرخزانہ اسحاق ڈار کے مفادات کے خلاف جاتی ہو۔ ان کا مقصد تو آف شور کمپنیوں کے سکینڈل کے غیارے سے ہوا نکالنا تھا۔ 
اجلاس میں شریک سینیٹرز بھی یہ سب کچھ سننا چاہتے تھے، لہٰذا کسی نے ایس ای سی پی کے باس سے پوچھا کہ حضورکچھ تو بتائیں، آف شورکمپنیاں کہاں سے پاکستان میں آئی ہیں، کونسی ہیں، کہیں ہمارے اپنے سیاستدانوں کا لوٹا ہوا پیسہ ان آف شور کمپنیوں کے ذریعے دوبارہ وائٹ کرنے کے لیے تو استعمال نہیں ہو رہیں؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ پہلے سیاستدان خود یہ پیسہ باہر لے گئے اور اب آف شور کے ذریعے سرمایہ کاری کے نام پر واپس لائے ہیں تاکہ وہ مالِ حرام حلال ہوجائے؟ یہ کمپنیاں کن ممالک سے تعلق رکھتی ہیں، ان کے مالک کون ہیں؟ یہ کہاں رجسٹرڈ ہیں؟ ایس ای سی پی جس کا کام کمپنیوں کو رجسٹر کرنا ہے، اس کے پاس تمام معلومات ہونی چاہئیں، لیکن صاحب بہادر نے دو تین مزاحیہ فقروں میں ساری کہانی گول کر دی۔ میں اسحاق ڈار کو داد دیے بغیر نہ رہ سکا۔
ایک طرف اسحاق ڈار نے الیکشن کمیشن کے چار ممبران اور چیئرمین کو ڈرافٹ بل کے ذریعے قابوکیا ہوا تھا اور ان کے سروں پر پانچ کروڑ روپے کی غیرقانونی تنخواہ کی تلوار لٹکائی ہوئی تھی اور دوسری طرف انہوں نے ریگولیٹری اداروں میں ایک نیا کلچر متعارف کرایا ہوا تھا کہ تمام بڑے عہدوں پرکوئی تعیناتی نہ کرو، بلکہ جونیئر افسر کو ایکٹنگ چارج دے کر کام نکلوائو۔ جونیئر افسر بڑی پوسٹ پا کر کچھ بھی کرنے کو تیار ہوجاتا ہے۔ جو بتائو وہ سر جھکا کر کردیتا ہے۔ آپ کے تمام گند صاف کرتا ہے کیونکہ اسے پتا ہے، اگر اس نے اسحاق ڈار کی تال کے ساتھ سُر نہ ملائی تو یہ عہدہ اس سے چھن جائے گا۔ یہی کام وزیراعظم ہائوس میں بھی کیا گیا جہاں تمام جونیئر افسروں کو سینئر افسروںکی پوسٹنگ دی گئی۔ بھلا کوئی سوچ سکتا ہے، الیکشن کمیشن کے ممبران کے ساتھ وزرات خزانہ ایک خفیہ ڈیل کرے کہ انہیں ہر ماہ چھ لاکھ روپے پنشن کے علاوہ ساڑھے آٹھ لاکھ روپے تنخواہ ملے گی، لیکن اگر بل پاس نہ ہوا تو وہ سب پیسے واپس کرنے ہوںگے۔ یہ ڈرافٹ بل پانچ سال تک پاس ہی نہیں ہوا۔ ریٹائرڈ جج فوراً اس تحریری ڈیل پر راضی ہوجاتے ہیںکہ انہیں ہر ماہ غیرقانونی پیسہ ملتا رہے۔ یوں الیکشن کمیشن تباہ ہوکر رہ گیا۔ 
نواز شریف کے 1992ء میںلائے گئے ریفارم ایکٹ پر ابھی قہقہے جاری تھے کہ سلیم مانڈوی والا کے منہ سے نکل گیاکہ ''وہ‘‘ بھی تو اس قانون کی وجہ سے چھوٹ گئی تھی! ان کا اشارہ ایان علی کی طرف تھا۔ سمجھدار تھے فوراً چپ ہوگئے کہ میڈیا بیٹھا ہے۔ کسی نے زیادہ غور نہ کیا کہ کمیٹی کے چیئرمین نے کیا سنہری انکشاف کیا ہے۔ 
جب بات کرپشن کی ہونے لگی تو سینیٹر الیاس بلور بولے، جنرل ضیاء دور میں یہ کام شروع ہوا تھا۔ کسی نے کہا، نواز شریف بھی آمریت کی گود سے نکلے تھے۔ سینیٹر مشاہد اللہ سے رہا نہ گیا، فوراً بولے، رہنے دیں، انہیں سب پتا ہے کہ کرپشن کب اور کہاں سے شروع ہوئی۔ بولے، یہ کام سکندر مرزا سے شروع ہوا۔ کسی کو نہیں پتا کہ ایوب خان دور میں کس بڑے لیڈر نے فاطمہ جناح کے خلاف ووٹ کی قیمت اٹھارہ ہزار روپے وصول کی تھی؟ نام تو نہ بتایا لیکن اشارہ سب سمجھ گئے۔ مشاہد اللہ بولے، بھٹو دور سب کو بھول گیا ہے کہ کیسے پرمٹ کا کلچر شروع ہوا اور اپنی پارٹی کے لوگوں کو دھڑا دھڑا پرمٹ دیے گئے۔ اسی دور میں ہی انہیں نئی نئی گاڑیاں دی گئیں۔ مشاہد اللہ نے کہا شاید لوگ بھول گئے ہیں کہ جنرل مشرف سے پہلی ملاقات اے این پی کے اجمل خٹک نے ہی کی تھی۔ سب خاموش کیونکہ مشاہد اللہ بات درست کر رہے تھے۔
میں نے سوچا کافی ہوگیا ہے۔ میں نے اپنے نوٹس سنبھالے، اٹھنے لگا تو وزارت پانی و بجلی کے ایڈیشنل سیکرٹری ناصر جامی نے اجلاس میں ایسا بم چھوڑا کہ میرے قدم وہیں جم گئے اور میں دوبارہ اپنی کرسی پرگر سا گیا۔ ناصر جامی کو شاید احساس نہ ہوا کہ اس نے کتنا بڑا انکشاف کر دیا ہے۔ شاید اسے معلوم ہی ہو کہ وہ کیاانکشاف کر رہا ہے، لیکن اس گھاگ زکوٹا جن نے ایسے اداکاری کی جیسے وہ چند روپوں کی بات ہو۔ میں نے اپنی نظریں فوراً جامی پر جما لیں۔ مجھے پتا تھا عمرو عیار جیسی سرکاری زنبیل سے کچھ نکلنے والا ہے ۔ میرا اندازہ درست نکلا۔ جامی نے اپنی بات چند لفظوں میں ختم کی اور اجلاس سے تیز تیز قدموں سے فائلیں اٹھا کر نکل گیا اور مڑ کر بھی نہ دیکھا کہ کہیں کوئی سینیٹر اس انکشاف کے بعد چونک کر سوال نہ پوچھ لے۔ 
وہی کچھ ہوا جس کا مجھے پچھلے چھ ماہ سے ڈر تھا، لیکن مجھے اپنی بیوقوفی کے ساتھ ساتھ اپنی سستی پر بھی غصہ آیا۔ ایک رپورٹر کو اتنا سست نہیں ہونا چاہیے۔ مجھے پہلے کیوں پتا نہیں چلا؟ یہ بم چلے تو ایک ماہ سے زائد ہوگیا تھا۔ شاید مجھے اندازہ نہیں تھا کہ اتنا بڑا راز آج یہاں کھلے گا۔۔۔۔(جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں