وزارت پانی و بجلی کے ایڈیشنل سیکرٹری جامی صاحب تو بم گرا کر نکل گئے، لیکن اپنے پیچھے ایک داستان چھوڑ گئے۔ ان کے الفاظ نے مجھے 27 جون 2013ء یاد دلا دیا جس روز اسحاق ڈار صاحب نے ایک گھنٹے میں 340 ارب روپے کے گردشی قرضوں کی ادائیگی کر دی تھی۔ میری طرح شہر کے دوسرے رپورٹر بھی اس کھوج میں لگ گئے کہ پیپلز پارٹی تو کہتی تھی ادائیگی کے لئے پیسے نہیں ہیں مگر نواز شریف صاحب نے‘ جنہیں وزیر اعظم بنے ابھی دو ہفتے بھی نہیں ہوئے، کیسے راتوں رات ساڑھے تین ارب ڈالرکا بندوبست کر لیا؟ قارون کا خزانہ کہاں چھپا ہوا تھا؟ پتا چلا، ڈاکٹر وقار مسعود نے‘ جو زرداری صاحب کو مال پانی کا کھیل سمجھانے کے جرم میں کچھ عرصہ جیل رہ چکے تھے، اسحاق ڈار کو قمیتی مشورہ دیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ صاحب! ہم آپ کو گردشی قرضوں کی ادائیگی کا طریقہ بتاتے ہیں، سانپ بھی مر جائے گا‘ اور لاٹھی بھی نہیں ٹوٹے گی، بلکہ کچھ لکشمی گھر بھی آ جائے گی۔
جو کھیل کھیلا گیا وہ یہ تھا: سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی وزارت کے پاس یو ایس ایف نام کا ایک فنڈ ہوتا ہے جو دراصل وہ ٹیکس ہوتا ہے جو آئی ٹی کمپنیاں صارفیں سے وصول کر کے حکومت کو دیتی ہیں تاکہ پس ماندہ علاقوں میں آئی ٹی کے منصوبے شروع کیے جائیں۔ اس فنڈ میں 62 ارب روپے پڑے تھے۔ اسحاق ڈار اور ڈاکٹر وقار مسعود نے مل کر وہ رقم نکلوائی اور اسے سٹیٹ بینک کے Consolidated fund میں ڈال دیا۔ کئی سرکاری اداروں سے کہا گیا وہ اپنی پنشن، بچت اور دیگر رقوم اس فنڈ میں ڈال دیں۔ کچھ اداروں سے یہ بھی کہا گیا کہ وہ راتوں رات بینکوں سے کمرشل قرضہ لیں اور وہ پیسہ بھی اسی اکائونٹ میں ڈال دیں۔ اس کے ساتھ ہی اسحاق ڈار صاحب نے گورنر سٹیٹ بینک کو ان تمام آئی پی پیز کے ناموں کی فہرست بھیج دی‘ جنہیں ادائیگی ہونا تھی۔ سٹیٹ بینک سے کہا گیا کہ یہ ادائیگی consolidated fund سے کر دیں۔ یہ پتا نہیں چلتا تھا کہ اس فنڈ میں پیسے کہاں سے آئے کیونکہ اس میں کھربوں روپے ہوتے ہیں‘ جس سے حکومت ادائیگیاں کر رہی ہوتی ہے۔ اس سمندر میں 340 ارب روپے کا کس کو پتا چلتا کہ کہاں سے آئے، کتنے سود پر کس بینک سے لیا گیا اور اپنے کس بینکار دوست کو فائدہ پہنچایا گیا؟ سٹیٹ بینک کو جو فہرست بھیجی گئی‘ اس میں کمپنی کا نام اور اس کے سامنے رقم کی مقدار درج تھی جو اسے ادا کی جانا تھی۔ سٹیٹ بینک نے ایک گھنٹے کے اندر ادائیگی کر دی‘ جس نے جو مانگا وہ دے دیا گیا، کسی سے کوئی سوال جواب نہیں ہوا۔
حکومت نے یہ خبر فخر سے قوم کو سنائی تو آڈیٹر جنرل اختر بلند رانا نے فوراً اس کا نوٹس لیا‘ اور اکائونٹنٹ جنرل سے پوچھا کہ کیا 340 ارب روپے ان کی اجازت اور دستخطوں سے ان کمپنیوں کو جاری ہوئے ہیں؟ اکائونٹنٹ جنرل نے کہا: انہیں پریس کانفرس سے پتا چلا ہے کہ یہ ادائیگی کر دی گئی ہے، ان سے نہیں پوچھا گیا۔ قانون کے مطابق ضروری تھا کہ وزارت پانی و بجلی ان کمپنیوں کے 340 ارب روپے کے بلوں کی کاپیاں اکائونٹنٹ جنرل کو بھیجتی، وہ اس کا جائزہ لیتے کہ آیا بل درست ہیں؟ وہ سب رسیدیں چیک کرتے۔ وہ یہ بھی جائزہ لیتے کہ بجلی کے کتنے ارب یونٹ ان کمپنیوں سے خریدے گئے تھے، ان میں سے کتنے عوام کو بیچے گئے، کمپنیوں نے کہیں بل بڑھا چڑھا کر تو نہیں بنا لیے اور کمپنیوں کو کتنی ادائیگی ہو چکی ہے اور کتنی باقی ہے۔ اس کے بعد اکائوٹنٹ جنرل نے سٹیٹ بینک کو لکھنا تھا کہ یہ رقم انہیں ٹرانسفر کر دی جائے۔ وہ ایک چیک لکھتے اور پھر رقوم ریلیز ہوتیں۔
لیکن ڈار صاحب نے اس طویل عمل سے جان چھڑائی اور ایک ہی ہلے میں 340 ارب روپے کی ادائیگی ایک گھنٹے میں کر دی۔ اس پر آڈیٹر جنرل نے فوراً گورنر سٹیٹ بینک کو خط لکھا اور انکوائری شروع کر دی کہ یہ غیر قانونی کام کیسے کیا گیا۔ یہ ادائیگی خلاف آئین تھی۔ گورنر نے یہ خط اسحاق ڈار کو بھیج دیا اور ڈار صاحب نے بلند اختر رانا کو سبق سکھانے کا فیصلہ کر لیا۔ ادھر بلند اختر رانا نے بھی معاملے کی تہہ تک پہنچنے کی ٹھان لی اور حکم دیا کہ راتوں رات کی گئی اس ادائیگی کا آڈٹ کیا جائے۔ آڈٹ میں روڑے اٹکانے کی کوشش کی گئی لیکن وہ ڈٹے رہے۔ اس دوران اسحاق ڈار نے بڑی چالاکی سے فیصلہ کیا کہ بلند اختر رانا کو اکیلا کر کے اس تمام معاملے سے جان چھڑا لی جائے؛ چنانچہ آڈیٹر جنرل کے اختیارات وزارت خزانہ نے استعمال کرنا شروع کر دیے۔ وزارت نے افسروں کے تبادلے کر دیے۔ فوری طور پر اکائونٹنٹ جنرل کو آڈیٹر جنرل کے کنٹرول سے نکال کر ایک علیحدہ محکمہ بنا دیا گیا اور اس کا سربراہ ایک خاتون کو مقرر کر دیا گیا جس نے پری آڈٹ کے بغیر بھاری رقوم میٹرو بس اور دیگر منصوبوں کے لیے جاری کرنا شروع کر دیں۔ اس کے ساتھ ہی رانا اسد امین کے مشورے سے‘ جو ریٹائرمنٹ کے بعد وزارت خزانہ میں کنٹریکٹ پر تعینات تھے‘ آڈیٹر جنرل کے دفتر کو تباہ کرنے کا منصوبہ بنا لیا گیا۔ بلند اختر رانا نے مزاحمت کی تو ڈار صاحب نے خاموشی سے ایک اور کام کیا۔ فوری طور پر قومی اسمبلی میں ایک سطری قانون کا بل لایا گیا کہ وزارت خزانہ مسقبل میں جو بھی ادائیگی کرے گی اس کے لیے اکائوٹنٹ جنرل کے پری آڈٹ یا بلوں کو کلیئر کرنے کی ضرورت نہیں ہو گی، وزارت براہ راست سٹیٹ بینک کو ہدایات دے گی۔ کسی رکن پارلیمنٹ نے اس بل کو نہ سمجھا، سب نے اندھا دھند دستخط کر دیے۔ یوں کرپشن کا ایک اور بڑا دورازہ کھل گیا۔ درمیان میں چیک اینڈ بیلنس کا جھنجھٹ ہی غائب کر دیا گیا۔
اس کے بعد اسحاق ڈار نے ایک طویل مدتی منصوبے پر کام شروع
کر دیا کہ ریاست کے وہ اہم ادارے جو ریاست کے مالی امور کو ریگولیٹ کرتے ہیں، ان پر اپنے وفادار بٹھائے جائیں۔ وفاداروں کی تلاش شروع ہوئی تو قرعہ فال پرانے ساتھیوںکے نام کا نکلا۔ ایک کا نام سعید احمد تھا جو ڈار صاحب کے نیب کو دیے گئے رضاکارانہ بیان حلفی کے مطابق، نواز شریف صاحب کی مدد کرتے رہے تھے۔ دوسرے کا نام اشرف تھا‘ جو کبھی ایک نجی بینک سے نواز شریف خاندان کو بیس ملین ڈالر کا قرضہ دلوانے میں پیش پیش تھے۔ ان میں سے ایک کو سٹیٹ بینک کا گورنر اور دوسرے کو اس کا ڈپٹی لگا دیا گیا۔ سٹیٹ بینک کو جیب میں ڈالنے کے بعد اگلی باری آڈیٹر جنرل بلند اختر رانا کی تھی کہ انہیں ہٹا کر وہاں اپنا آدمی وہاں لگایا جائے۔ اس کے لیے رانا اسد امین کا انتخاب ہوا جو ''یس باس‘‘ ٹائپ آدمی ہیں۔ ڈار صاحب کو اندازہ تھا کہ اس سے بہتر ماتحت (بلکہ محکوم) انہیں نہیں مل سکے گا۔ اب سوال یہ تھا کہ بلند اختر رانا سے کیسے جان چھڑائی جائے کیونکہ یہ ایک آئینی پوسٹ ہے اور اس پر فائز شخص کو صرف سپریم جوڈیشل کونسل کے ذریعے ہی ہٹایا جا سکتا ہے؛ چنانچہ ایک نیا منصوبہ بنایا گیا۔ پبلک اکائونٹس کمیٹی کو ایک شکایت وصول ہوئی کہ بلند اختر رانا نے اپنی تنخواہ میںکچھ ہزار روپے کا اضافہ کر لیا ہے۔ اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ پہلے ہی ان سے ناراض تھے اس لئے کہ ایک تو رانا صاحب نے ان کے دور حکومت میں سپریم کورٹ کے حکم کے بعد ایم این ایز کو ترقیاتی فنڈ جاری کرنا بندکر دیا تھا‘ اور دوسرے آڈٹ رپورٹس میں وہ پیپلز پارٹی دور کی بہت سی کرپشن سامنے لائے تھے‘ جس میں خورشید شاہ کی اپنی وزارت مذہبی امور بھی شامل تھی۔ رانا صاحب کا تیسرا جرم یہ تھا کہ انہوں نے خورشید شاہ کی سابق وزارت میں کرپشن کی رپورٹ دینے کے بعد پی اے سی کے سامنے یہ کہہ کر پیش ہونے سے انکار کر دیا تھا کہ خورشید شاہ کے پاس پبلک اکائونٹس کمیٹی کا چیئرمین بننے کا اخلاقی جواز نہیں ہے‘ کیونکہ خود ان کی حکومت، ان کی وزارت اور دوسرے وزرا کے سکینڈلز انہوں نے اپنی آڈٹ رپورٹ میں شامل کیے ہوئے ہیں۔ خورشید شاہ کے پاس ان کی مخالفت کا یہ جواز ہاتھ آ گیا‘ یوں ڈار اور شاہ صاحب کے مفادات مل گئے۔
اس پر پی اے سی نے ایک انکوائری کمیٹی بنا دی جس نے چند دنوں کے اندر یہ رپورٹ دے دی کہ بلند اختر رانا نے اپنی تنخواہ میں چند ہزار روپے کا اضافہ کر کے ملک کو لوٹ لیا ہے‘ لہٰذا انہیں برطرف کیا جائے۔ رانا کا کہنا تھا کہ قانون کے تحت ان کی تنخواہ بائیس گریڈ کے سیکرٹری سے بیس فیصد زیادہ ہونی چاہیے لہٰذا اکائونٹنٹ جنرل نے یہ اضافہ ان کی تنخواہ میں شامل کر دیا۔ نقار خانے میں طوطی کی آواز کون سنتا۔ فوراً فیصلہ ہوا، ایک ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل کو بھیج دیا گیا اور چند دنوں کے اندر اندر رانا کو برطرف کر دیا گیا۔ ڈار نے سمری تیار رکھی ہوئی تھی، انہوں نے فوراً رانا اسد امین (یس باس) کو نیا آڈیٹر جنرل مقرر کر دیا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ انہی اسد امین کے خلاف ایک ماہ پہلے ایک آڈٹ رپورٹ میں انکشاف ہوا تھا کہ وہ لاکھوں روپے الائونس غیرقانونی طور پر لیتے رہے، ان سے وصولی کی جانی چاہئے۔ ملکی تاریخ میں پہلی بار یہ بھی ہوا کہ ایک ایسے شخص کو آڈیٹر جنرل بنا دیا گیا‘ جس کے خلاف کرپشن کا آڈٹ پیرا بن چکا تھا۔ اب اسحاق ڈارکھل کر اپنا کھیل کھیل سکتے تھے۔ پہلے سٹیٹ بینک کو قابوکیا، وہاں اپنے آدمی لگائے، آڈیٹر جنرل بھی ان کا خاص آدمی (بچہ جمہورا) بن گیا۔
اسلام آباد کے اقتدار کی غلام گردشیں واقعتاً 'سنجبیاں‘ ہوگئی تھیں اور 'مرزا یار‘ سٹیٹ بینک کے گورنر اور آڈیٹر جنرل کو جیب میں ڈال کر اترا اترا کر چل رہا تھا۔ اب وہ سٹیٹ بینک سے جس کو چاہیں گے مال دلوائیں گے اور آڈیٹر جنرل کے ذریعے اپنی کرپشن کی پردہ پوشی کروائیں گے؛ تاہم اسحاق ڈار بھول گئے کہ بلند اختر رانا بھی اجپوت ہے، وہ اتنی آسانی سے ہار ماننے والا نہیں۔ وہ روایتی سرکاری افسر نہیں جو برطرفی کے بعد گھر جا کر بیٹھ جائے۔ وہ جاتے جاتے خاموشی سے ایک ایسا کام کر گئے جو اب نواز شریف حکومت اور وزارت خزانہ کے گلے کا پھندہ بننے والا ہے۔ پرانی اور اصلی نسل کا راجپوت اسحاق ڈار سے بدلہ لینا نہیں بھولا تھا۔ (جاری)