"RKC" (space) message & send to 7575

شوکت عزیز کی ڈبہ فلم

ہر کتاب سے بندہ کچھ نہ کچھ سیکھتا ہے،کچھ نیا ملتا ہے۔ اور جب کتاب کسی ایسے انسان کی لکھی ہوئی ہو جو پانچ برس ملک کا وزیرخزانہ اورتین برس وزیراعظم رہا ہو تو آپ اس کی آٹوبائیوگرافی سے بہت کچھ جاننے اور سیکھنے کی توقع رکھتے ہیں۔ 
تین سو سے زیادہ صفحات کی کتاب ختم کرنے کے بعد، جس میں درجنوں صفحات صرف ہاتھ ملاتے تصویروں سے بھرے ہوں، میں حیرت زدہ ہو کر سوچ رہا ہوں کہ اس میں سے کیا پایا،کیا جانا ؟
یا تو آپ کتاب کو سمجھ نہیں سکے کیونکہ آپ کی علمی سطح پست تھی یا پھر لکھنے والے کو ہی علم نہ تھا کہ اسے کیا لکھنا چاہیے تھا۔ کتاب خریدنے کا کبھی افسوس نہیں ہوا لیکن شوکت عزیزکی آپ بیتی خریدنا یقیناً مایوس کن تجربہ رہا۔ مجھے یاد آیا، میرے دوست ڈاکٹر ظفرالطاف کیوں اپنی آپ بیتی لکھنے سے گریزاں تھے؛ حالانکہ کئی دفعہ ان کے ساتھ منصوبہ بھی بنا کہ لکھی جائے۔ ان کے دو ہی لاڈلے تھے، مشہور کالم نگار ارشاد بھٹی اور دوسرا میں۔ ارشاد بھٹی نے سنجیدگی سے کام بھی شروع کیا۔ میں نے کئی دفعہ ارادہ کیا لیکن بات وہیں رہ گئی۔ ڈاکٹر صاحب کہتے، چھوڑو یار کیا کرنا ہے۔ اگر بندہ لکھے تو پورا سچ لکھے۔ اگر اپنی شان میں خود ہی قیصدے لکھنے ہیں تو پھر بہتر ہے رہنے دیا جائے۔ زندگی کا بڑا پچھتاوا یہ ہے کہ ڈاکٹر ظفرالطاف کی بھرپور اور خوبصورت زندگی کو کتابی شکل میں نہ ڈھال سکا جبکہ میں اٹھارہ برس تک روزانہ ان کے ساتھ لنچ کرتا رہا۔ بہت وقت تھا، لیکن شاید سوچا نہ تھا، وہ اتنے جلدی چلیں جائیںگے۔ 
میں حیران ہوں، شوکت عزیز کے پاس آٹھ برسوں کی حکمرانی کے بارے میں کچھ ایسا نہ تھا جو وہ پاکستانی لوگوں کے ساتھ شیئر کرتے، جن کے ٹیکسوں پر وہ اتنا عرصہ عیاشی کرتے رہے۔ اور تو اور، انہیں ملنے والے بارہ سوکے قریب سرکاری تحائف جن کی مالیت کروڑوں میں تھی وہ بھی لندن جاتے وقت اپنے ساتھ جہاز میں ڈال کر لے گئے۔ ان کا لندن کا گھر کروڑوں کے انہی قیمتی تحائف سے جگما رہا ہے۔ 
شوکت عزیز کی کتاب 'میں‘ سے شروع ہوتی ہے اور 'میں‘ پر ختم ہوتی ہے۔ انہیں کیسے جنرل مشرف نے نیویارک فون کر کے پاکستان بلا کر ان کی گود میں وزارت خزانہ ڈال دی، یا پھر نواز شریف کی جلاوطنی کے دنوں میں جنرل مشرف کے ساتھ وہ سعودی عرب حج کرنے گئے تو اچانک وہاں نواز شریف سے ملاقات ہوگئی جنہوں نے انہیں آواز دے کر بلایا، یا پھر کیسے بل کلنٹن نے جب اپریل 2000 ء میں پاکستان کا دورہ کیا تو وہ کون سی پانچ شرائط جنرل مشرف کے لیے رکھی گئیں جنہیں ہر حالت میں قبول کیا گیا؛
حالانکہ پتا بھی تھا وہ ذلیل ہو رہے ہیں۔ ویسے نواز شریف نے کبھی کھل کر بل کلنٹن کا شکریہ ادا نہیں کیا ورنہ اس کتاب سے لگتا ہے نواز شریف کو پھانسی سے بچانے کا کریڈٹ بل کلنٹن کو جاتا ہے۔ شوکت عزیز لکھتے ہیں، جب اسلام آباد میں بل کلنٹن کے ساتھ ملاقات شروع ہوئی توکلنٹن نے کہا انہیں پاکستان کی سیاسی تاریخ پر شدید تشویش ہے کیونکہ اس کے لیڈروں کا انجام کچھ اچھا نہیں ہوا۔ جنرل مشرف کو دیکھ کر کلنٹن نے کہا، جنرل آپ کو بہت احتیاط کی ضرورت ہے۔ ایسی بات دوبارہ نہ ہو۔ بہتر ہوگا کہ رحم دلی سے کام لیا جائے۔ جنرل مشرف نے بل کلنٹن کو جواب دیا، میں انتقام پر یقین نہیں رکھتا اور میں آپ کی بات سمجھ رہا ہوں، نواز شریف کی زندگی کو کوئی خطرہ نہیں ہوگا۔ شوکت عزیز لکھتے ہیں کہ بل کلنٹن کے اس پانچ گھنٹے کے دورے کا ایک ہی مقصد تھا، نواز شریف کو رہا کر کے پاکستان سے جانے دیا جائے اور وہ اپنا پیغام اچھی طرح جنرل مشرف کو پہنچا گئے اور جنرل مشرف بھی سمجھ گئے۔ اس کے بعد سعودی عرب نے رول ادا کرنا شروع کیا۔ سعد حریری طیارہ لے کر پاکستان آتے اور وہ سیدھے اٹک قلعے جا کر نواز شریف سے ملاقات کرتے۔ نواز شریف جنرل مشرف سے دس سال کی ڈیل پر راضی ہوگئے۔ یوں بل کلنٹن اور شاہ عبداللہ اور حریری کی ذاتی کوششوں سے نواز شریف پھانسی سے بھی بچ گئے اور پاکستان سے بھی جانے کی اجازت مل گئی۔ اس ڈیل کے تحت نواز شریف سعودی عرب سے باہر سفر نہیں کر سکیں گے اور سیاسی سرگرمیوں میں بھی حصہ نہیں لیںگے۔اسی طرح شوکت عزیز نے اپنے وزیراعظم بننے کا ذکر کیا ہے۔ 2004ء میں ایک دن طارق عزیز ان کے پاس آئے اور بولے آپ کو وزیراعظم بنانا چاہتے ہیں۔
بش، واجپائی اور کولن پاول کے ساتھ ان کی ملاقاتوں کے بہت احوال آپ کو ملیں گے لیکن آپ کو اس کتاب میں ایسی کوئی خبر نہیں ملے گی جو آپ بیس پونڈ خرچ کر کے توقع رکھتے ہیں۔ کتاب میں اسامہ بن لادن کے پاکستان سے پکڑے جانے کی کہانی وہی لکھی گئی ہے جو آپ سب پڑھ چکے ہیں۔ شوکت عزیز نے ایک رپورٹر کی طرح ان واقعات کو رپورٹ کیا؛ حالانکہ جن امریکی جرنیلوں اور سفارت کاروں کا انہوں نے اپنی کتاب میں حوالہ دیا ہے انہوں نے 2014ء یا 2015ء میں شوکت عزیز کو یہ سب باتیں بتائیں کہ کیسے انہوں نے اسامہ بن لادن کو پکڑا اور مارا۔ یہ افراد سب کچھ اپنی اپنی کتابوں میں بھی لکھ چکے ہیں ۔ 
اس کتاب کو پڑھتے ہوئے میری سب سے زیادہ دلچسپی اس بات میں تھی کہ شوکت عزیز اس دور کی سیاسی نقشہ بیان کریں گے۔ جو سازشیں خود کرتے تھے یا ان کے خلاف ہوتی تھیں، ان پر سے پردہ اٹھائیں گے۔ بہت سے ایسے واقعات جو ہم اخبارات میں پڑھتے تھے ان پر وہ تفصیل سے بات کریں گے۔ ہر کوئی یقیناً پڑھنا چاہتے ہوگا کہ لال مسجد کے بحران کے دنوں میں کیا واقعات ہوئے اورکہاں کس سے غلطی ہوئی۔ وہ اس وقت وزیر اعظم تھے لیکن مجال ہے آپ کو اس کا کتاب میں اس کا ذکر ملتا ہو۔ صرف یہی نہیں انہوں نے بھول کر بھی کسی وزیر یا پارلیمنٹ کا ذکر نہیں کیا۔ لگتا ہے آٹھ برس میں انہیں کوئی اچھا سیاستدان یا بیوروکریٹ نہیں ملا جس کا وہ اچھے لفظوں میں ذکر کر دیتے۔ اسی طرح چیف جسٹس افتخار چوہدری کی برطرفی کا واقعہ بھی انہی کے دور میں ہوا اور اسی سے ان کی اپنی حکومت اور پھر جنرل مشرف کا زوال شروع ہوا۔ شوکت عزیز نے اپنے دور کے اس تاریخی واقعے کو بھی نظرانداز کر دیا؛ حالانکہ جنرل مشرف اور ان کے قریبی ساتھی آج بھی یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ چیف جسٹس افتخار چوہدری کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کا فیصلہ اور محرک کوئی اور نہیں شوکت عزیز خود تھے۔ وہ روزانہ جنرل مشرف کو افتخار چوہدری کے خلاف بھڑکاتے کہ وہ ان کی حکومت کو نہیں چلنے دے رہا۔ اس طرح تین نومبر کی ایمرجنسی پر بھی کوئی تفصیل سے روشنی نہیں ڈالی گئی؛ حالانکہ اس کی بنیاد پر جنرل مشرف کے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج ہوا۔ وہ اس وقت وزیراعظم تھے لیکن اس کا ذکر بھی کتاب سے غائب ہے۔ اقتدار چھوڑنے کے بعد ان کے جنرل مشرف سے اختلافات بھی ہوئے لیکن وہ بھی کتاب سے غائب ہیں۔ وہ ایک عدد کابینہ کے سربراہ تھے لیکن مجال ہے آپ کو کابینہ اجلاسوں کے اندر کی کہانی پڑھنے کو ملے۔ ہاں یہ طعنہ انہوں نے حسب عادت ضرور دیا ہے کہ وہ ایسی کابینہ کے سربراہ تھے جس میں وزیراعظم بننے کے کئی امیدوار موجود تھے، لہٰذا ان سے انہیں ذرا محتاط رہنا پڑتا تھا۔ شوکت عزیز دورکے معاشی سکینڈلز پر بھی ایک لفظ نہیں ملے گا۔ 
اس کتاب میں آپ کو اورکیا نیا پڑھنے کو مل سکتا ہے؟ ہاں جنرل مشرف کی بینظیر بھٹو سے جنوری 2007ء میں ہونے والی چارگھنٹوں پر محیط ملاقات جو ابوظہبی میں ہوئی، یا پھر لندن میں طارق عزیز اور حامد جاوید اور بعد میں جنرل کیانی کی ملاقاتیں۔ یہ بھی ہم سب پہلے سے جانتے ہیں۔ کوئی نئی بات نہیں ملے گی۔ ہاں اگر نئی بات ہوسکتی ہے تو وہ یہ تھی بینظیر بھٹو اور جنرل مشرف کے درمیان پاکستان آنے پر جو اختلاف ہوا تھا وہ شاید یہ تھا کہ جنرل مشرف سمجھتے تھے کہ انہوں نے بی بی کوکہا تھا کہ وہ الیکشن سے پہلے پاکستان نہیں آئیںگی۔ بی بی سمجھیںکہ اس کا مطلب یہ تھا کہ جنرل مشرف کے دوبارہ صدارتی الیکشن تک وہ نہیں آئیںگی اور جب وہ الیکشن ہوگیا تو وہ آسکتی تھیں۔ یہاں سے سارے مسائل شروع ہوئے۔ یہ کتاب شوکت عزیز نے عالمی قوتوں اور عالمی قارئین کو سامنے رکھ کر لکھی ہے، جو انہیں دوبارہ کہیں نوکری دلوا سکتے ہیں ورنہ مجھ سے پاکستانی قاری ہونے کے ناتے پوچھیں تو ماسوائے پندرہ بیس صفحات کے باقی کتاب ان کی ذاتی قیصدہ گوئی، اپنی قابلیت کے جھنڈے گاڑنے کی کہانیاں، عالمی لیڈروں سے ہاتھ ملاتے ہوئے سینکڑوں تصویروں تک محدود ہے۔ واجپائی کے ساتھ جنرل مشرف کا کشمیر پر طے کیا گیا فارمولہ بھی کتاب کا حصہ ہے۔ اگر یہ طے ہوجاتا تو شاید کشمیرکا معاملہ حل ہو جاتا۔ بقول شوکت عزیز بی جے پی آخری لمحے پر رک گئی کیونکہ بھارتی اسٹیبلشمنٹ بھی کشمیر کے مسئلے کو اتنی جلدی حل کرنے کے موڈ میں نہیں تھی۔ میں ذاتی طور پر شوکت عزیز کی یہ آٹوبائیوگرافی پڑھ کر مایوس ہوا ہوں۔ جو کچھ میں پڑھنے کی توقعات لگائے بیٹھا تھا وہ پوری نہیں ہوئیں۔ جس ادیب سے کتاب لکھوائی گئی وہ بھی ڈھنگ سے نہیں لکھ سکا۔ لگتا ہے آپ درسی کتب پڑھ رہے ہیں اور امتحان دینا ہے کیونکہ ہر صفحے پر کوئی نہ کوئی سرخی جمائی گئی ہے۔
میں نے کچھ عرصہ قبل عابدہ حسین کی کتاب پڑھی تھی۔کیا کمال کتاب ہے! شاید میں شوکت عزیز سے اس سے بہتر کتاب کی توقع وابستہ کر بیٹھا تھا۔ شوکت عزیزکی کتاب بھی شوکت عزیزکی حکمرانی کی طرح ناکام اور ڈبہ پکچر ہی نکلی ہے۔ آپ کو اس کتاب میں چین، افغانستان، ایران، سعودی عرب، لیبیا، امریکہ کے مسائل کا حل ملے گا، دنیا بھر کے فوجی اور معاشی بحرانوں کا حل بھی ملے گا لیکن نہیں ملے گی تو ان آٹھ برسوں کی تفصیل جب موصوف حکمران تھے اور جس دوران بڑے بڑے بحران بحران پیدا ہوئے تھے۔ کوئی اندورنی بات نہیں ملے گی جو آپ بیتی لکھنے کے لئے شوکت عزیز کا اصل مقصد ہونا چاہیے تھا۔ ویسے جن درجنوں لوگوںکا شوکت عزیز نے کتاب کے آخر میں شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے انہیں کتاب لکھنے میں مدد دی اور مشورہ دیا، یقیناً وہ بھی یہ کتاب پڑھ کر شرمندہ ہوںگے۔ 
واقعی ایک بینکر وزیراعظم بھی بن جائے تو وہ رہتا بینکر ہی ہے۔ اعداد و شمار اور گنتی میں لگا رہتا ہے اور سب سے بڑھ کر وہ بینکر کی طرح ہی کتاب لکھتا ہے! اگر آپ پھر بھی یہ کتاب پڑھنے کے لئے بضد ہیں تو پھر آپ اسے سٹی بینک کے ملازم بینکر کی آٹوبائیوگرافی سمجھ کر پڑھیں جو اچانک وزیراعظم بن گیا تھا۔ انہیں ملک کا سابق وزیرخزانہ اور سابق وزیراعظم سمجھ کر یہ کتاب نہ پڑھیں۔ اس طرح آپ کو میری طرح تکلیف نہیں ہوگی۔
شوکت عزیز کی آٹوبائیوگرافی ان کے دور حکمرانی کی طرح ڈبہ پکچر ہی نکلی۔کھودا پہاڑ نکلا چوہا۔۔۔!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں