جان ایف کینیڈی اب ایسے الفاظ ڈھونڈنے کی کوششوں میں تھے جن سے ایوب خان وہ بات مان لیں جس کیلئے اتنا اہتمام کیا گیا تھا۔
دیگر مہمانوں کو حویلی کے اندر لے جایا گیا جبکہ جان ایف کینڈی، جنرل ایوب خان کے کندھے سے کندھا ملا کر چل رہے تھے۔ چلتے چلتے اچانککینیڈی نے جنرل ایوب خان کو مجمع سے علیحدہ کیا اور حویلی کے ایک کونے میں پھیلے لان میں لے گئے۔ جنرل ایوب اندازہ لگانے میں مصروف تھے کہ کون سا راز کھلنے والا ہے؛ اگرچہ انہیںکچھ اندازہ پہلے سے بھی تھا۔ جان ایف کینیڈی نے جنرل ایوب کو دیکھا اور سرگوشیوں میں وہ بات بتانے کی تیاری شروع کی جس کو منوانے کے لیے جنرل ایوب خان کو ہزاروں میل دور اسلام آباد سے بلا کر اب جارج واشنگٹن کی قدیم حویلی میں اتنی شاندار اور سہانی شام کا بندوبست کیا گیا تھا۔کچھ تو اس قدر اہم تھا کہ امریکی تاریخ میں پہلی دفعہ کسی غیر ملکی سربراہ کو جارج واشنگٹن کے گھر پر دعوت دی گئی تھی۔ تمامتر تاریخی اور شاندار مہمان نوازی کے دبائو تلے دبے جنرل ایوب کی تمام تر توجہ اب جان ایف کینیڈی کی طرف مرکوز تھی جو بالآخر وائٹ ہائوس سے دور واشنگٹن اور ورجینیا کو تقسیم کرنے والے دریا پوٹوماک کے پانیوں پر ڈوبتی ابھرتی گہری لیکن اداس اور تنہا شام ان رازوں سے پردہ اٹھانا شروع ہوچکے تھے جن کا دنیا کو علم نہ تھا۔ سی آئی اے کے خفیہ منصوبوں کی تکمیل کے لیے اس پاکستانی جنرل کا کردار بہت اہم ہوچکا تھا جس کو پاکستان پر حکمرانی کرتے ابھی تین برس ہوئے تھے۔کہانی کچھ یوں تھی:
سی آئی اے پاکستان میں میں دو خفیہ آپریشن چلا رہی تھی جن کی اجازت انہیں جنرل ایوب خان نے دی تھی۔ایک تو امریکیوں کو پشاور میں روسیوں کی جاسوسی کرنے کے لیے فضائی اڈہ فراہم کیا گیا تھا۔ ایک سال قبل امریکی پائلٹ وہ جاسوسی کا جہاز لے کر اڑاجسے روسیوں نے فضا میں ہی میزائل مار کر گرا دیا تھا۔ اسی سے پہلی بارانکشاف ہوا کہ امریکہ روس کے خلاف پاکستانی سرزمین استعمال کر رہا ہے۔ روسیوںکو جب اس جاسوسی اور پاکستان کے امریکہ کے لیے استعمال ہونے کا علم ہوا تو پیرس میں روس کے صدر خروشیف اور امریکی صدر آئزن ہاورکے درمیان طے شدہ ملاقات نہ ہوسکی۔ روس چاہتا تھا کہ امریکہ ان کی جاسوسی کرنے پر پہلے معافی مانگے لیکن امریکہ نے انکارکر دیا تھا اور یہ اہم ملاقات نہ ہوسکی۔ معافی مانگنے کا مطلب اعتراف جرم ہوتا جو امریکی کسی صورت نہیں کرنا چاہتے تھے۔ ویسے یہ بات طے ہوچکی تھی پاکستانی حکمران روسیوں کے خلاف امریکیوں کے ہاتھوں استعمال ہو رہے ہیں۔ روس کے خلاف امریکیوں کو جاسوسی کرانے کے لیے فضائی اڈے دینے سے زیادہ پاکستان امریکہ کے لیے کیا کرسکتا تھا۔ یہ اجازت جنرل ایوب خان نے ہی امریکہ کو دی تھی(جن لوگوں نے اس سال بہترین اداکاری پر آسکر ایوارڈ کے لیے نامزد بہترین اداکار ٹام ہینکس کی فلم The Bridge of Spies نہیں دیکھی، ان کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ یہ فلم شروع ہی یہیں سے ہوتی ہے۔ امریکہ کا جاسوسی جہاز پشاور سے اڑتا ہے جسے روسی سرحد کے اندر مار گرایا جاتا اور اس کے پائلٹ کو زندہ گرفتار کر لیا جاتا ہے۔ باقی ساری کہانی اسی کے اردگردگھومتی ہے۔)
دوسرا اس سے بھی زیادہ خطرناک کام جو سی آئی اے پاکستانی حکام کی خفیہ اجازت سے کر رہی تھی وہ چین کے خلاف تبت کے علاقے میں لڑنے والے باغیوںکو مشرقی پاکستان سے امریکی اسلحہ کی سپلائی تھی۔ پاکستان نے خفیہ طور پر امریکیوں کو اڈہ فراہم کر دیا جو چین کے خلاف استعمال ہو رہا تھا۔ چین کی کمیونسٹ حکومت کے خلاف یہ خفیہ آپریشن بھی امریکی صدر آئزن ہاورکے دور میں جنرل ایوب خان کی خفیہ اجازت سے شروع ہوا تھا۔ ڈھاکہ کے قریب فضائی اڈے امریکیوںکے زیراستعمال تھے۔ سی آئی اے نے پہلے ان باغیوں کو تربیت فراہم کی جنہوں نے چین کے خلاف تبت میں لڑنا تھا۔ پھر انہیں ڈھاکہ کے فضائی اڈے سے طیارے میں سوار کر کے پیراشوٹ کے ذریعے تبت کے مختلف علاقوں میں ڈراپ کیا گیا تاکہ وہ چین کے خلاف کارروائیاںشروع کر سکیں۔ مشرقی پاکستان کے اسی فضائی اڈے سے ان باغیوں کو اسلحہ، بارود اور خوراک بھی اس طرح سپلائی ہوتی تھی کہ کسی کو پتا نہ چلتا۔ ڈھاکہ کے اس اڈے سے امریکی جاسوسی جہاز بھی اڑاتے جو چین کے علاقوں کی تصویریں لیتے تاکہ مستقبل کی کارروائیوں کے لیے کام آئیں۔
یہ خفیہ مشن جاری تھے کہ جنرل ایوب خان اس بات پر ناراض ہوگئے کہ آئزن ہاورکے بعد جان ایف کینیڈی نے بھارت سے اپنے تعلقات بہتر کرنے کے لیے اسے ایک ارب ڈالرکی امداد دینے کا اعلان کیا تھا۔ جنرل ایوب خان نے فوری طور پر سی آئی اے کا ڈھاکہ میں چین کے خلاف جاری خفیہ آپریشن وقتی طور پر بند کرنے کا حکم دے کر اپنی ناراضگی امریکیوں تک پہنچا دی جس کا مطلب یہ تھا کہ اگر وہ بھارت سے دوستی کریںگے تو پاکستان ان کے لئے چین کے خلاف استعمال نہیں ہوگا۔ یعنی اگر پاکستان کو چین کے خلاف استعمال کرنا ہے تو پھر بھارت کے نہیں بلکہ پاکستان کے مفادات کو ترجیح دینا ہوگی۔ جنرل ایوب خان نے یہ قدم اٹھا کر امریکیوںکو بتا دیاکہ جنوبی ایشیا میں اگر امریکیوں کا کوئی دوست ہوسکتا تھا تو وہ پاکستان ہے، بھارت نہیں۔ جنرل ایوب خان امریکیوںکو یہ بھی بتانا چاہتے تھے کہ اگر وہ بھارت کے ساتھ دوستی کی پینگیں بڑھائیں گے توانہیں اس کی قیمت ادا کرنی پڑے گی۔ یہ سب کچھ اتنے خفیہ انداز میں ہوا کہ اس کا علم صرف تین لوگوں تک محدود تھا۔۔۔۔ جنرل ایوب خان، سی آئی اے اور جان ایف کینیڈی ۔
جنرل ایوب خان کو منانے کے لیے اتنی بڑی دعوت اور پروٹوکول کا بندوبست کیا گیا تھا۔ جنرل ایوب امریکیوں کو چین کے خلاف کارروائیوں کے لیے ڈھاکہ کا فضائی اڈہ دوبارہ دینے کے لیے تیار تھے، لیکن وہ جان ایف کینیڈی اور سی آئی اے سے یہ تسلی چاہتے تھے کہ وہ پاکستان کوبھارت سے زیادہ اہمیت دیںگے۔ بعد میں جنرل ایوب خان نے اپنی کتاب ''فرینڈز ناٹ ماسٹرز‘‘ میں لکھا کہ اس شام انہوں نے جان ایف کینیڈی کو یہ پیغام دیا کہ وہ بھارت کو خوش کرنے کی پالیسی ترک کر دیں۔ سی آئی اے کے سربراہ نے جان ایف کینیڈی کومشورہ دیا تھا، بہتر ہوگا کہ وہ جنرل ایوب خان سے اکیلے ملیں اور اپنی شخصیت کا سحر اورخوبصورت ماحول کو خوبصورت انداز میں استعمال کرتے ہوئے ڈھاکہ کا فضائی اڈہ دوبارہ امریکیوںکو لے کر دیں تاکہ پہلے والی کارروائیاں جاری رکھی جا سکیں۔
سی آئی اے کے سربراہ کا دیے ہوئے مشورے نے خوب کام کیا۔ جارج واشنگٹن کی تاریخی حویلی اور اس حسین و سحر کن شام میں جنرل ایوب خان اور جان ایف کینیڈی کے درمیان چلتے چلتے ایک اور خفیہ ڈیل ہوئی۔ جنرل ایوب خان نے کہا ٹھیک ہے، وہ سی آئی اے کو ڈھاکہ کے باہر فضائی اڈہ دوبارہ فراہم کردیںگے، اس کے بدلے انہوں نے جان ایف کینیڈی سے یہ وعدہ لیا کہ اگر چین نے بھارت پر حملہ کیا تو امریکہ اسے پاکستان سے مشورہ کیے بغیراسلحہ فراہم نہیں کرے گا۔ جان ایف کینیڈی نے فوراً ہامی بھر لی۔ جنرل ایوب نے اسی وقت سی آئی اے کو چین کے خلاف پاکستانی فضائی اڈے سے کارروائیوں کی اجازت دے دی۔ تاہم ایک برس بعد جب چین نے بھارت پر حملہ کیا تو امریکہ نے اپنے وعدے کے برعکس نہ صرف بھارت کو کھل کر اسلحہ فراہم کیا بلکہ ایوب خان سے حسب وعدہ مشورہ تو کجا پوچھنے تک کی زحمت نہ کی۔ ایوب خان کو شدید صدمہ ہوا۔
سوال یہ ہے کہ اگر امریکی صدر، جنرل ایوب خان سے مشورہ کر بھی لیتے کہ ہزایکسنسی چین اور بھارت کی جنگ شروع ہوگئی ہے، آپ کیا کہتے ہیںکہ امریکہ کو اسلحہ فروخت کرنا چاہیے یا نہیں تو جنرل ایوب خان کیا مشورہ دیتے؟ ہر دور میں یہ مفادات کا کھیل رہا ہے۔ امریکی صدر نکسن نے1971ء کی جنگ میں کھل کر پاکستان کا ساتھ دیا۔ جب اندرا گاندھی وائٹ ہائوس ان سے ملنے گئیں تاکہ پاکستان کی امداد رکوا سکیں تو صدر نکسن نے انہیں جھنڈی کرا دی اور اندرا گاندھی واپس بھارت لوٹنے کی بجائے سیدھی ماسکو چلی گئیںاور نیا اتحاد بنا کر پاکستان کو توڑ دیا۔
کیا آپ جاننا چاہتے ہیں کہ دورہ امریکہ کے دوران اندرا گاندھی اور نکسن کے درمیان کیا تلخی ہوگئی تھی جو امریکیوںکے بقول نکسن کے استعفیٰ کے بعد بھی بھارت امریکہ اختلافات دورکرنے میں دس برس سے زیادہ عرصہ لگ گیا اور اگلے صدر جمی کارٹرکو بھارت سے تعلقات بہتر کرنے کے لیے نکسن کے بوئے ہوئے کاٹنے چننے کے لئے سخت محنت کرنا پڑی۔نکسن اور اندرا گاندھی کی پاکستان کے معاملے پر ایک دوسرے سے نفرت اور لڑائی کی کہانی اپنی جگہ ایک تاریخی واقعہ ہے۔نکسن پاکستان کو بچانے اوراندرا اسے تباہ کرنے پر تلی ہوئی تھیں۔ اگرچہ اندرا جیت گئی لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا واقعی نکسن ہار گیا یا پاکستان ہی امریکیوں کی توقعات کے برعکس جلدی حوصلہ ہارکر صرف سولہ دن کے اندر ہتھیار ڈال بیٹھا؟ (جاری)