اس ہفتے دو چیزیں بڑی اہم ہوئی ہیں۔ برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون مستعفی ہوگئے اور لوگوں نے اسے جمہوریت کی فتح سے تعبیر کیا۔ سندھ اسمبلی میں ہفتہ کے روز وزیراعلیٰ قائم علی شاہ نے تقریر کرتے ہوئے ایم کیو ایم کو کہا، انہیں سب پتا ہے 12 مئی 2007ء کو انہوں نے کیسے پچاس لوگوں کا چیف جسٹس افتخار چوہدری کی کراچی آمد پر قتل عام کیا تھا، لیکن پیپلز پارٹی نے 2008ء میں حکومت میں آنے کے بعد جان بوجھ کر انہیں کچھ نہیں کہا اور نہ ہی ان پر اس قتل عام کے مقدے بنائے۔ قائم علی شاہ نے اسے جمہوریت کی فتح قرار دیا۔
ایک ہی آسمان کے نیچے رہنے والے انسانوں کی جمہوریت کی تعریف اور اس سے جڑی ذمہ داریاں اتنی مختلف کیوں ہیں؟ ڈیوڈ کیمرون نے تاریخ میں نام بنا لیا اور مستعفی ہوگئے؛ حالانکہ ان سے کوئی مطالبہ بھی نہیں کر رہا تھا اور نہ ہی اتنے بڑے فرق سے ان کے موقف کو ہار ہوئی تھی، پھر کس چیز نے کیمرون کو مجبور کیا کہ وہ اپنی بے بسی کی تصویر بنی بیگم کے ساتھ پریس کانفرس کرتے ہوئے دکھی دل کے ساتھ وزارت عظمی چھوڑ دیں!
ایک انسان کو بڑے فیصلے کرنے پر کیا چیزیں مجبور کرتی ہیں؟ اپنے آپ کو دوسروں سے ممتاز کرنے کا خیال کیسے دل میںآتا ہے؟ کیا یہ سوچ مجبور کرتی ہے کہ اگر خدا نے کروڑوں لوگوں میں صرف آپ کو اتنی بڑی عزت دی ہے تو پھر آپ اس عزت کو قائم رکھیں۔آپ کو دوسروں پر ثابت کرنا چاہیے کہ آپ ان سے کیونکر بہتر تھے، اسی لئے ان کے بادشاہ بنے اور اب وقت ہے کہ پتا چلے کیوں وہ اس اعلیٰ عہدے کے حقدار تھے؟
ہمارے ہاں ایساکیوں نہیں ہوتا، سب کچھ یورپ میں ہی کیوں ملتا ہے۔ بل کلنٹن ایک جھوٹ بولتا ہے اور پوری کانگریس اس کا ٹرائل شروع کردیتی ہے۔ پوری دنیا براہ راست دیکھتی ہے۔ ہمارے ہاں چونتیس برس تک جھوٹے بیان حلفی پر فوج سے پنشن لینا عام رواج ہے، اس میں بھلا کون سی ایسی بات ہے جس پر شور مچایا جا رہا ہے۔ ان کے حامی کالم نگار اور صحافی کاغذ سیاہ کر رہے ہیں کہ سیکرٹری داخلہ اور چیئرمین نیب ہوتے ہوئے بھی یہ حلف ملٹری اکائونٹس کو دینا کہ وہ بیروزگار ہیں، انہیں پینشن دی جائے، ایک روٹین کا معاملہ ہے۔ یہ ہے ہمارا کردار، ہماری جمہوریت اور ہمارے لیڈرز اور ہمارے رول ماڈلز۔
میں آج کل netflix پر انگلینڈ، فرانس، اٹلی کے بادشاہوں، پادریوں اور پوپ پر بنائے گئے شاندار شوز دیکھ رہا ہوں۔ حیران ہوتا ہوں ان معاشروں نے بربریت سے سفر شروع کیا اور کہاں جا پہنچے۔کہاں بادشاہ سلامت کا کہا ہوا لفظ کسی کو زندگی اور موت دے سکتا تھا اور بادشاہ یا ملکہ جہاں سے گزرتے لوگ جھکتے جاتے اور کہاں آج اسی انگلینڈ کا وزیراعظم انہی عوام کی مرضی کے آگے جھک جاتا ہے۔ اور یہ وہی انگلینڈ کا تخت ہے جہاں سب بادشاہ کے آگے جھکتے تھے اور جو نہیں جھکتے تھے ان کے سر ٹاور آف لندن میں تلوار سے اڑ دیے جاتے تھے۔ یورپ کی ترقی میں پرنٹنگ پریس نے بہت اہم کردار ادا کیا ۔ انسانوں کی غلامی کی زنجیریں ایک ایک کر کے ٹوٹتی چلی گئیں، ذہن آزاد ہوتے گئے، معاشروں میں بحث مباحثہ کا کلچر پروموٹ ہوا، چرچ کے کردار اور ظلم و ستم پر سوالات اٹھائے گئے۔ وہی چرچ جو سوال پوچھنے پر کسی کو زندہ جلا سکتا تھا آج وہ ایک عمارت میں بند ہے۔ ہر اتوار کو لوگ وہاں جا کر عبادت کرتے ہیں۔ کتاب کے کلچر نے یورپ کو بدل کر رکھ دیا۔یورپ کا ڈارک دور آج ایک جدید لائٹ میں بدل چکا ہے۔ وہاں ذہنوں کی آزادی نے نئی راہیں کھول دی ہیں۔ کتاب نے شعور دیا، سوچنے کی نئی راہیں دیں، انقلاب کے راستے کھولے، بادشاہوں کی بادشاہت ختم کی، یہ تصور ختم ہوا کہ بادشاہ سے کوئی سوال نہیں پوچھا جاسکتا کیونکہ بادشاہ کوئی غلط کام کر ہی نہیں سکتا۔ لیکن اب بادشاہ غلط فیصلے بھی کرسکتا ہے اور اس کی جواب طلبی بھی ہوسکی ہے اور اس سے اقتدار چھن بھی سکتا ہے۔ سب کچھ ممکن ہوا اور کتاب نے یہ کر دکھایا۔ معاشرے میں ہر موضوع پر گفتگو کرنے کی اجازت ملی۔ مذہب سے لے کر بادشاہ، وزیر اور بادشاہ کے چمچوں کڑچھوں سمیت سب کے خلاف بات ہوسکتی ہے۔ یوں ایک ایسا معاشرہ تخلیق پایا جس میں سب برابر ٹھہرے۔گویا ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود و ایاز!
ہمارے ہاں مذہب کے نام پر قتل عام شروع ہوگیا ہے جو کبھی یورپ میں چرچ کرتا تھا۔ ہمارے ہاں مذہب کے نام پر روزانہ قتل ہو رہے ہیں۔ میرا خیال تھا کہ ٹی وی آنے کے بعد معاشرے میں کچھ بحث شروع ہوگی، کچھ ذہنی مباحثے شروع ہوں گے لیکن ٹی وی چینلز نے الٹا کام کیا۔ مذہبی جنونیت کو اتنی ہوا دی کہ اب آپ کوئی بات نہیں کرسکتے۔ ٹی وی چینلز پر مختلف فرقوں کے اینکرز، مولویوں اور فنکاروں نے قبضہ کر لیا ہے۔ پاکستان اس دور میں چلا گیا جس سے نکلنے کے لئے یورپ نے صدیوں چرچ سے جنگ لڑی۔ آپ کوئی بات کریں، اگلے دن امجد صابری کی طرح مارے جائیں گے۔ جب یورپ میںمذہب کے نام پر قتل عام ہو رہا تھا، اسلام برداشت اور اعلیٰ تعلیمات کی وجہ سے پوری دنیا میں پھیل رہا تھا۔ یورپ کو کتاب اور بحث مباحثے اور سوال کی آزادی نے جدید بنایا۔ لندن جائیں تو ہر برطانوی کے ہاتھ میں کتاب ملے گی۔ اگر کوئی خالی آنکھوں سے ٹرین یا بس میں بیٹھے گھوریاں ڈال رہا ہوتو وہ کوئی ایشین ہوگا۔کتاب نے ان میں کردار پیدا کیا، اخلاقیات بہتر کی، ذہنوں کو وسعت دی،کتابوں سے انہوں نے سیکھا۔ بڑے اخلاقیات کے لوگ ہی بڑے ہوتے ہیں۔ عام انسانوں اور وزیراعظم کے کردار میں اگر کوئی فرق نہیں تو پھر وہ اس قابل نہیں کہ وہ حکمرانی کر سکے۔
ہمارے ہاں کون کتابیں پڑھتا ہے؟ مجھے کئی دفعہ وزیراعظم ہائوس جانے کا اتفاق ہوا، میں نے کبھی کسی وزیراعظم کی میز پر کتاب نہیں دیکھی۔ سب نوٹوں کی گنتی میں لگے ہوئے ہیں۔ میں حیران ہوتا ہوں ہمارے مبینہ لیڈر کیسے اس دنیا میں لیڈ کرسکتے ہیں جب انہیں معلوم ہیں نہیں کہ دنیا میں جدید رجحانات کیا ہیں، نئے خیالات کیسے دنیا کو بدل رہے ہیں، پرانے تصورات ٹوٹ رہے ہیں۔ نوے سال کی عمر میں بھی سرتاج عزیز بچوں کی طرح امریکہ سے گلہ کر رہے ہیں۔ انہیں اس عمر میں بھی پتا نہیںکہ ملکوں کی دوستیاں ان کے مفادات کی بنیاد پر ہوتی ہیں۔ سرتاج عزیز کو یہ بات سمجھ نہیں آئی کیونکہ موصوف جدید سفارت کاری پر کچھ پڑھتے ہی نہیں۔ یہی حال پورے فارن آفس کا ہے۔ میں نے فارن آفس کے کسی بابو سے کبھی کسی اچھی کتاب کا ذکر نہیں سنا۔ سب کو اپنے بچوں کو باہر سیٹل کرنے کی فکر ہے۔ تکے بازی چل رہی ہے۔ نواز شریف نے زندگی میں کب کتاب پڑھی کہ انہیں علم ہو ڈیوڈ کیمرون جیسا فیصلہ کرنے کے لئے کتنی جرأت اور پختہ کردار کی ضرورت ہوتی ہے! عمران خان نے چند اسلامی کتابیں پڑھ رکھی ہیں، وہی دہراتے رہتے ہیں۔ ہمارے اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کے منہ سے کبھی کسی کتاب کا حوالہ نہیں سنا۔ ذوالفقار علی بھٹو اور اس کے بعد بینظیر بھٹو کتاب کی شوقین تھے۔کوئی پوچھ سکتا ہے بینظیر بھٹو کو کتاب بینی سے کیا ملا؟ وہ بھی تو طالبان کو ہی سپورٹ کرتی پائی
گئیں، وہ بھی سکینڈلزکا شکار رہیں، وہ بھی تو سرے محل خریدتی رہیں۔ اب اسی پارٹی کے قائم علی شاہ فرماتے ہیں کہ انہیں سب پتا ہے کہ بارہ مئی کو کیسے پچاس انسانوں کو ایم کیو ایم نے مارا۔ انہیں نام بھی معلوم ہیں لیکن انہوں نے کسی کو کچھ نہیں کہا۔
پاکستان اس حالت کو پہنچ چکا ہے کہ اب عام لوگ تبدیلی چاہتے ہیں، اس ملک کو بہتر بنانا چاہتے ہیں، اعلیٰ اخلاقیات چاہتے ہیں، قانون کی حکمرانی چاہتے ہیں، وہ بھی یورپ جیسی ترقی چاہتے ہیں، وہ بھی کیمرون جیسے لیڈر چاہتے ہیں لیکن یہ سیاستدان، سول ملٹری بیوروکریسی تبدیلی کے لیے تیار نہیں۔
معاشروں میں یہ ہوتا ہے کہ لیڈر قوم کو بہتر تبدیلیوں کے لے تیار کرتے ہیں۔ اس کے لئے محنت کرتے ہیں کہ کیسے قانون و انصاف سب کے لئے ضروری ہیں۔ ہمارے ہاں الٹی گنگا بہہ رہی ہے۔۔۔۔ عوام اپنے لیڈروں کو تیار کر رہے ہیں کہ ملک میں قانون و انصاف آنے دیں، لوٹ مار بند کریں، لیکن لیڈر سب سے بڑی رکاوٹ بن گئے ہیں کیونکہ یہ مافیا کی طرح حکمرانی کر رہے ہیں، ایک دوسرے کو بلیک میل کر کے حکمرانی کررہے ہیں۔ ایم کیو ایم کو بارہ مئی کے قتل عام کے باوجود اقتدار میں شریک کرتے ہیں اور جب ایم کیو ایم سندھ میں نئے صوبے کا مطالبہ کرتی ہے تو بلیک میل کرتے ہیں کہ ہمیں پتا ہے کہ بارہ مئی کوایم کیو ایم کے کس لیڈر نے پچاس انسانوں کا قتل کرایا، لہٰذا بہتر ہے کہ خاموش رہیں۔
مجھے ان لیڈروں کی عوام کے تیزی سے جاگتے شعورکے سامنے رکاوٹیں ڈالنے کی کوششوں سے اپنے گائوں کا ایک غریب یاد آیا جسے کسی نے کہا خدا نے تمہیں غریب بنایا ہے، اللہ کی مرضی پر صبرشکر کرو۔ وہی تمہیں کچھ نہیں دے رہا۔ اس نے جواب دیا تھا،خدا سائیں تاں روزی ڈینڈا ، خان اگوں نہیں ڈینڈا۔۔۔۔!
(خدا تو سب کو روزی دیتا ہے لیکن علاقے کا خان آگے کچھ نہیں دیتا)