میرا اس موضو ع پر مزید لکھنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا کیونکہ تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہوئی ہے جہاں اقتدار کے لیے بڑے پیمانے پر خون بہایا گیا ۔ ہمیں جو تاریخ سکول میں پڑھائی گئی ہے اس کا دور دور تک اس سے تعلق نہیں ہے جو اصلی تاریخ ہے۔ ترک، افغانی، ایرانی حملہ آوروں نے جو قتل عام ہندوستان میں کیے اور بربریت کے مظاہرے کیے وہ انسان کو دہلا کر رکھ دیں۔ آپ مقامی آبادیوں اور ہندوئوں کے قتل عام کو ایک طرف چھوڑیںکہ کیسے انہیں گاجر مولیوں کی طرح کاٹ کر رکھ دیا گیا، جو کچھ ان ترکوں اور افغانوں نے اپنے خاندانوں، مائوں، بچوں اور بھائیوں کے ساتھ کیا وہ اپنی جگہ ظلم کی داستان ہے۔ ویسے ترکوں، افغانوں، عربوں اور ایرانی حملہ آوروں کے ظلم و ستم کی داستانیں مسلمان مورخوں نے ہی لکھی ہیں جو کبھی ہماری درسی کتب کا حصہ نہ بن سکیں ۔ لیکن خوشگوار حیرت ہوئی بہت سارے قارئین نے اصرار کیا کہ اس سلسلے کو جاری رکھا جائے کیونکہ یہ ان کے لیے تاریخ کا نیا رخ ہے۔
محمد تغلق دور کا سب سے بڑا مورخ ضیاء الدین برنی کو سمجھا جاتا ہے جس کے دلی سلطنت میں بہت اہم تعلقات تھے۔ وہ خود بھی ایک اچھے خاندان سے تعلق رکھتا تھا اور دربار تک اس کی رسائی تھی۔ محمد تغلق بھی اسے پسند کرتا تھا۔ وہ چودہ برس تک سلطان کے دربار میں رہا اگرچہ اس نے کوئی عہدہ نہ لیا۔ سلطان تغلق کے درباری ہونے کے اپنے فائدے اور نقصانات بھی تھے۔ اس کو فائدہ یہ ہوا کہ اس نے بڑے قریب سے تغلق دربار کو دیکھا اور بہت سارے واقعات اس کے سامنے پیش آئے۔ تاہم برنی کو بہت احتیاط کرنی پڑی تھی کہ وہ کیا لکھ رہا ہے کیونکہ اسے ہر وقت خطرہ رہتا کہ کہیں سلطان کا غضب اس پر نازل نہ ہوجائے۔ برنی اس بات کا اعتراف کرتا ہے اگر ہم درباریوں نے سچی بات کرنی تھی تو اس کا مطلب تھا کہ آپ غدار ہیں۔ وہ لکھتا ہے، ہمیں کالے کو سفید لکھنا پڑتا تھا کیونکہ دولت کی ہوس نے سب کو منافق بنا دیا تھا ۔ جب وہ سب دربار میں سلطان کے سامنے کھڑے ہوتے اور انسانوں کو غیرقانونی سزائیں مل رہی ہوتیں وہ سب خاموش رہتے اور کوئی حق کی بات نہ کرتا کیونکہ جہاں سب کو اپنی جانوں کی فکر ہوتی وہیں انہیں اپنے عہدے اور دولت چھن جانے کا خوف بھی زبانوں پر تالے لگا کر رکھنے پر مجبور کر دیتا ۔
تاہم جب ضیاء الدین برنی تاریخ لکھنے بیٹھا تو پھر اس پر محمد تغلق کاکوئی خوف نہیں تھا کیونکہ اس وقت تک تغلق مر چکا تھا اور وہ خود بھی زندگی کے آخری دن گزار رہا تھا۔ اس لیے برنی نے بڑے بے رحمانہ انداز میں سلطان تغلق دور میں ہونے والی بربریت کے واقعات کھل کر لکھے ہیں۔ اگرچہ برنی نے تغلق کے اچھے کاموں کی تعریف بھی کی ہے۔ ابن بطوطہ نے برنی سے بھی بڑھ کر تغلق کی بربریت کے بارے میں لکھا ہے کیونکہ جب اس نے اپنی کتاب لکھی تو اس وقت وہ دنیا کا سفر ختم کر کے مراکش لوٹ چکا تھا۔
برنی اور ابن بطوطہ کو پڑھنے کے بعد محمد تغلق کی جو تصویر بنتی ہے وہ عجیب و غریب ہے۔کسی وقت وہ بربریت کی انتہا کردیتا تھا تو دوسرے دن وہ مہربان لگتا۔ کبھی اس کے اندر کا شیطان تو کسی دن فرشتہ نمودار ہوتا ۔ فرشتہ لکھتا ہے سلطان تغلق وہ بادشاہ ہے جو لوگوں کو تحفے دینے اور ان کا خون بہانے کا شوقین ہے۔ کسی وقت وہ مغرور تو کبھی انکساری کا مظاہرہ ۔ اس کے دروازے پر کبھی غریب لوگ امیر ہورہے تھے تو اسی جگہ انسانوں کے سر بھی کٹ رہے ہوتے تھے۔ ان ابتدائی مسلمان مورخین کو پڑھیں تو آپ کو لگے گا کہ محمد تغلق ایک ایسا صوفی تھا جس کے دل میں شیطان کا دل تھا یا ایک ایسا شیطان جس کا دل صوفی کا تھا ۔
اگرچہ اس نے بھی علائو الدین خلجی کی طرح ریفامز کرنے کی کوشش کی لیکن اس میں وہ صبر نہیں تھا جو ضروری تھا ۔ وہ چاہتا تھا اس نے عوام کے لیے جو نئی چیز ایجاد کر دی ہے اس پر فوراً عمل ہو۔ عمل نہ ہونے کی صورت میں اس کے اندر انسانوں کے لیے نفرت بڑھتی گئی۔ وہ کڑھتا رہتا کہ یہ لوگ کیوں نہیں سمجھتے وہ جو کچھ کر رہا ہے اس سے ان کا بھلا ہوگا۔ عوام کے نام پر متعارف کرائی گئی ان اصلاحات میں محمد تغلق کو کوئی خرابی نظر نہ آتی بلکہ وہ اس کا ذمہ دار عوام کو سمجھتا اور ان پر مزید ظلم و ستم کرنا شروع کردیتا کہ یہ لوگ اس قابل نہیں ہیں کہ اس کی ان ریفارمز کو سمجھ کر عمل کر سکیں۔ ایک دفعہ برنی کو محمد تغلق نے بتایا کہ میں اپنی رعایا کو اس لیے سزا دیتا ہوں کیونکہ یہ سب میرے دشمن بن چکے ہیں۔ میں نے ان کے درمیان بہت دولت بانٹی ہے لیکن وہ میرے دوست اور وفادار نہیں بنتے۔ مجھے پتہ ہے وہ مجھے پسند نہیں کرتے۔ میرا مذاق اڑاتے ہیں۔
یوں محمد تغلق کے اندر اپنی رعایا سے نفرت بڑھتی گئی اور سزائوں میں بھی اضافہ ہوتا گیا۔ چھوٹے چھوٹے جرائم پر اس نے بڑی سزائیں دینا شروع کردیں اور لگتا تھا کہ بادشاہ رعایا کے خون کا پیاسا ہوگیا تھا ۔ تغلق سزا دیتے وقت یہ نہیں دیکھتا تھا کہ جرم کی نوعیت کیا ہے۔ ملزم کسی اچھے خاندان سے ہے یا ادیب ہے، شاعر ہے، لکھاری ہے۔ ہر روز اس کے دربار میں سینکڑوں لوگ لائے جاتے ۔ سب لوہے کی زنجیروں میں جکڑے ہوتے۔ جن کا سر قلم ہونا تھا وہ سرقلم ہوتے، جن پر تشدد کا حکم ہوتا ان پر تشدد ہوتا اورجن کو مارپٹائی کرنی ہوتی ان کی پٹائی ہوتی تھی۔
مورخ برنی لکھتا ہے کہ کوئی ایسا دن نہ جاتا تھا جب تغلق کے دربار میں بے تحاشہ انسانی خون نہ بہایا جاتا ۔ محل کے داخلی دروازے کے سامنے خون کی ندی بہہ رہی ہوتی تھی۔ جن کے سر قلم ہوتے تھے ان کی لاشوں کو عموما محل کے اوپر سے نیچے پھینک دیا جاتا تھا تاکہ دوسروں کو عبرت ہو اور وہ سلطان کے وفادار رہیں۔ جمعہ کے دن کے علاوہ یہ سزائیں ہر روز دی جاتی تھیں۔ جمعے کا دن قیدی سانس لے سکتے تھے۔
تغلق سمجھتا تھا یہ بھیانک سزائیں انصاف پر مبنی اور بہت ضروری تھیں۔ وہ کہتا تھا کہ آج کے دور میں بہت برے انسان پائے جاتے ہیں۔ ان کا ایک ہی حل ہے اور وہ ہے تلوار۔ اور وہ یہ کام اپنے مرتے دم تک کرتا رہے گا۔
اگرچہ اس دور کے بادشاہوں کو دیکھا جائے تو تغلق زیادہ پڑھا لکھا سمجھا جاتا تھا لیکن بربریت میں اس کا کوئی مقابلہ نہیں کرسکتا تھا ۔ برنی لکھتا ہے کہ ایک دفعہ اس نے ہندوستان کے ایک راجے پر حملہ کیا ۔ راستے میں اسے جو انسان نظرآیا اس نے اسے قتل کیا۔ ہندو ڈر کے مارے جنگل میں چھپ گئے۔ تغلق نے جنگل کا محاصرہ کر لیا اور چن چن کر سب کو قتل کیا ۔ایک دفعہ اس کے کزن بہائو الدین نے اس کے خلاف بغاوت تو نہ صرف اس کی زندہ کھال کھنچوائی گئی بلکہ اس کا گوشت چاولوں کے ساتھ پکا کر اس کی بیوی اور بچوں کو بھیجا گیا کہ وہ کھائیں۔ بطوطہ لکھتا ہے ایک دفعہ ایک نیک دل صوفی نے کہا سلطان تغلق ظالم ہے جو رعایا پر ظلم کرتا ہے تو اسے بلا کر کہا گیا وہ اپنے الفاظ واپس لے۔ جب اس نے انکار کیا تو حکم ہوا کہ اسے انسانی فضلہ کھلایا جائے۔ تغلق کے حکم پر اس صوفی کو سپاہیوں نے زبردستی لٹا کر پانی میں انسانی فضلہ ملا کر زبردستی پلایا۔
مغل دور کا مورخ نورالحق لکھتا ہے کہ محمد تغلق کی بربریت تمام تر انسانی سوچ سے بھی آگے تھی؛ تاہم مورخ ابراہم ارلی لکھتا ہے دلی کے سب سلطان ظالم تھے لیکن تغلق اور ان میں فرق صرف ڈگری کا تھا کہ کون زیادہ اور کون کم ظالم ہے۔ دلی سلطنت پر 32 بادشاہوں نے حکومت کی ان میں سے دو تین ہی ایسے سلطان تھے جو بربریت نہیں کرتے تھے۔
ان ترکوں، افغانیوں کے ہندوستانیوں پر بربریت کی ایک اور وجہ مورخ یہ بھی لکھتے ہیں کہ وہ ہندوستان پر حملہ آور ہوئے تھے۔ وہ تھوڑی تعداد میں تھے اور ایک ایسے ملک میں تھے جو بہت بڑا تھا لہٰذا فوج سے بڑی تعداد میں رعایا کو قابو رکھنے کا ایک ہی حل تھا کہ روزانہ ان کا لہو بہایا جائے اور اس بربریت کے ساتھ بہایا جائے کہ وہ دیگر ہتھیار اٹھانے کا سوچ ہی نہ سکیں۔ مورخ فرشتہ دلی کے بادشاہ محمد تغلق کی تعریف بھی کرتا ہے کہ وہ پڑھا لکھا اور کلچرڈ شہزادہ تھا ۔ لیکن فرشتہ لکھتا ہے ان تمام اچھی خوبیوں کے باوجود وہ انسانی لہو کا پیاسا تھا اور اس کی دی ہوئی سزائیں نہ صرف بربریت کا نمونہ ہوتیں بلکہ وہ انصاف کے تقاضوں کے بھی خلاف ہوتی تھیں۔ جب وہ انسانوں پر ظلم کررہا ہوتا تو اس کی انکھوں سے اتنی نفرت نظر آتی تھی کہ لگتا وہ خدا کی مخلوق کودھرتی سے ختم کرہی دم لے گا۔
16ویں صدی کا مسلمان مورخ محمد حنفی بھی سلطان تغلق کے ظلم کی ایک کہانی لکھتا ہے۔ ایک دفعہ محمد تغلق نے قاضی کمال الدین کی عدالت میں مقدمہ کیا کہ شیخ زادہ جام نے اسے ایسا بادشاہ کہا ہے جو انصاف نہیں کرتا ۔ اسے بلا کر پوچھا جائے کہ وہ اسے کیوں ظالم سمجھتا ہے۔ اس پر شیخ کو عدالت میں بلایا گیا۔ شیخ نے قاضی کو بتایا کہ یہ درست ہے اس نے سلطان کے بارے میں یہ الفاظ کہے ہیں۔ شیخ نے وضاحت کی کہ سلطان کے سامنے جب کسی ملزم یا مجرم کو لایا جاتا ہے تو وہ آپ کے رحم و کرم پر ہوتا ہے کہ اسے کیا سزا دی جائے۔چاہے وہ سزا درست ہو یا غلط۔ لیکن سلطان آپ اس سے بھی ایک قدم آگے چلے جاتے ہیں۔ آپ اس مجرم کے بیوی بچوں کو بھی جلاد کے حوالے کردیتے ہیں۔ یہ کس مذہب میں لکھا ہے کہ آپ یہ ظلم کریں۔ اگر یہ ظلم نہیں ہے تو پھر کیا ہے۔
یہ سن کر سلطان محمد تغلق چپ رہا اور قاضی کی عدالت سے باہر نکل گیا ۔ باہر نکل کر اس نے حکم دیا کہ شیخ زادہ کو ایک پنجرے میں بند کر دیا جائے۔ کچھ دن بعد اس شیخ زادہ کو جس نے تغلق کو ظالم کہا تھا، اسے قاضی کمال الدین کی عدالت کے باہر ہی ذبح کر دیا گیا۔! (جاری)