2010 ء کے سیلاب کے بعد پہلے ہالی ووڈ کی خوبصورت اداکارہ انجلینا جولی نے ہمارا پول اپنی رپور ٹ میں کھولا تھا، رہ سہی کسر اب اقوام متحدہ کے ترقیاتی ادارے کے پاکستان میں سربراہ مارک آندرے نے پوری کر دی ہے۔
مارک آندرے نے اپنا دل کھول کر رکھ دیا ہے۔ سب حیران ہیں کہ ایک غیرملکی کو پاکستان اور اس کے غریبوں سے اتنی محبت کیسے ہوگئی۔ وہ ان کا درد کیونکر محسوس کرتا ہے جن سے اس نے ووٹ نہیں لینا، جن کے ٹیکسوں پر اس نے عیاشی نہیں کرنی اور نہ ہی ان کے ملک کے پیسے سے لندن، دبئی یا پاناما میں جائیدادیں بنانی ہیں۔ آندرے کو یہ خوف بھی دامن گیر نہیں ہواکہ وہ ایک حکومت، سول ملٹری بیوروکریسی، سیاستدانوں اور امیر طبقات کو اپنا دشمن بنا رہا ہے جو اس کی اقوام متحدہ کے سربراہ سے شکایت بھی کر سکتے ہیں کہ وہ ہمیں ننگا کرنے پر تل گیا ہے جو اس کے مینڈیٹ میں شامل نہیں۔
آخر مارک کو اس دشت کی سیاحی میں کیا ملے گا۔ وہ کیوں طاقتور لوگوں سے بگاڑ کر پاکستان سے جا رہا ہے۔ اسے پاکستان کے غریبوں کی بات کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ وہ کیوں رومن جنرل سیزرکی لاش پر مارک انٹنی جیسی شہرہ آفاق تقریرکرہا ہے۔ وہ کیوں رومن شہریوں کی طرح پاکستانی غریبوں کی لاشوں پر آنسو بہا رہا ہے۔ وہ کیوں دہائی دے رہا ہے کہ اگر پاکستانی اشرافیہ کی لوٹ مار اسی طرح جاری رہی تو ایک دن پاکستانی معاشرہ اس کے بدترین اثرات بھگتے گا۔ اس نے کتنی دکھ بھری آواز میں کہا کہ ملک ایسے نہیں چلتے جیسے پاکستانی اشرافیہ چلا رہی ہے۔
یہی بات جولی نے کہی تھی جو اب تک پاکستان کو زلزلے اور سیلاب کی تباہ کاریوں کے متاثرین اور افغان مہاجرین کے لیے پچاس ملین ڈالر (پانچ ارب روپے) کا چندہ دے چکی ہے۔ جولی کو بھی پاکستان پہنچ کر جھٹکا لگا تھا، جب وزیراعظم ہائوس میں اس کے سامنے کھانوںکی طویل میز سجائی گئی تھی۔ اس وقت کے گورنر خیبر پختونخوا نے جگتیں ماری تھیں۔ ہر کوئی جولی کے ساتھ تصویریں بنوانے کے چکر میں تھا۔ اسے متاثر کرنے کی کوششیں کی جا رہی تھیں۔ جولی جاتے وقت سیلاب زدگان کے لیے پانچ ملین ڈالر کا عطیہ دے گئی تھی۔ اس نے ٹوٹے دل کے ساتھ اقوا م متحدہ کے لیے رپورٹ لکھی جس میں حیرت ظاہر کی کہ وہ اپنی آمدن میں سے اس ملک کے لیے پچاس ملین ڈالر کا عطیہ دے آئی ہے مگر وہاں کسی کو پروا نہیں کہ غریب مرے یا جییے۔کیمپوں میں لوگ مر رہے تھے اور وزیراعظم ہائوس میں کھابوںکی طویل فہرست تھی جو ختم ہونے میں نہیں آ رہی تھی۔
کیا ہماری اشرافیہ کو جولی کی رپورٹ پڑھ کر شر م آئی تھی کہ اب مارک آندرے کی دل سے کہی ہوئی باتوں پر یہ طبقہ شرما جائے گا؟ مارک آندرے چار سال تک پاکستان میں اقوام متحدہ کے ادارے کا سربراہ رہا۔ اس نے اس دوران چاروں صوبوں کا دورہ کیا۔ فاٹا کے علاوہ ملک کے ان حصوں میں بھی گیا جہاں جانا انتہائی دشوار تھا۔ اسے سکیورٹی کی وارننگ بھی نہ ڈرا سکی۔ معلوم نہیں کب اسے پاکستان کے غریب لوگوں سے پیار ہوگیا۔ ان کے دکھ دردکا احساس ہوا۔ مارک آندرے کو لوٹ مارکرنے والے اشرافیہ سے چڑ ہوگئی۔ وہ حیران تھا کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے۔ پاکستانی اشرافیہ ملک کو کیسے چلا رہی ہے۔کیا ملک ایسے چلائے جاتے ہیں۔ اس ملک کی اشرافیہ اپنے ہم وطن غریبوں کو لوٹ کر لندن، دبئی، نیویارک اور نامعلوم کہاں کہاں جائیدادیں خرید رہی ہے۔ انہیں اس ملک کے باسیوں کی کوئی فکر نہیں۔ آندرے کا کہنا ہے ایسی اشرافیہ کا اچار ڈالا جائے جو پیسے بنانے کے لیے سستی اور غیر تعلیم یافتہ لیبر کا استحصال کرتی ہے! ایسی اشرافیہ نہیں ہونی چاہیے جو جشن منانے اور موج مستی کے لیے لندن جائے اور خریداری دبئی جا کر کرے۔ مارک کا کہنا ہے پاکستان کے امیر طبقے کو اپنے آپ سے پوچھنے کی ضرورت ہے کہ انہیں پاکستان چاہیے یا نہیںکیونکہ جس طرح کی لوٹ مار ہو رہی ہے اس طرح ملک نہیں چلتے۔ مارک کے مطابق وہ ایسے بہت سے پاکستانی زمینداروں اور جاگیرداروں کو جانتا ہے جنہوں نے صدیوں غریبوںکا استحصال کیا۔ یہ لوگ اقوام متحدہ جا کرمطالبہ کرتے ہیں کہ انہیں پانی، صفائی اور تعلیم کے لیے امداد دی جائے حالانکہ ان کی اپنی جائیدادیں بیرون ملک موجود ہیں۔
آندرے کے دل میں تکلیف کو آپ سب محسوس کرسکتے ہیں جب وہ یہ کہتا ہے کہ پاکستانی لوگ بہت قابل ہیں لیکن وہ اتنی ترقی نہیں کر پا رہے جتنی ان میں صلاحیت ہے۔ وہ کہتا ہے کہ جس ملک میں آٹھ کروڑ لوگ غریب ہوں وہ ایسے نہیں چل سکتا۔ وہ کراچی کی صورت حال کو خطرناک قرار دیتا ہے۔ اس کا کہنا ہے اگر کراچی کو ملکی فائدے کے لیے استعمال کرنا ہے تو پھر وہاں عوامی مفاد کے لیے کچھ کرنا ہوگا۔ مارک خبردار کرتا ہے کہ پاکستان میں حالات اب صحارا (افریقہ) جیسے لگتے ہیں۔ چند اضلاع کو دیکھ کرافریقہ یاد آ جاتا ہے۔ باقی چھوڑیں، پاکستان اب تک مردم شماری نہیں کرا سکا۔ فاٹا جائیں تو لگتا ہے وہاں کے لوگ سترہویں صدیں میں جی رہے ہیں۔ وہاں اصلاحات کے لیے کوئی کام نہیں کیا گیا۔ اقلیتوں، عورتوں اور فاٹا کے لوگوں کے بنیادی حقوق محفوظ نہیں ہیں۔ حالت یہ ہے کہ بلدیاتی ادارے تو بنا دیے گئے ہیں لیکن نہ ان کے پاس اختیار ہے نہ فنڈ۔ تاہم خیبر پختونخوا میں مارک کے بقول کچھ اچھا کام ہوا ہے ۔ ایک تو خیبر پختونخوا کا بلدیاتی اداروںکا قانون پنجاب اور سندھ سے بہت بہتر ہے، دوسرے وہاں بلدیاتی اداروںکو اربوں روپے کا فنڈ دیا جا رہا ہے۔ اس کے برعکس پنجاب اور سندھ میں بہتر قانون بنایا گیا نہ ان اداروں کو فنڈز دیے گئے ۔ مارک کے مطابق لوکل گورنمنٹ کا مطلب صرف یہ نہیں کہ آپ الیکشن کرادیں اور پھر بات ختم۔ آپ انہیں اختیارات دیں، فنڈز دیں۔
مارک پہلا اور آخری غیرملکی نہیں جو پاکستانی اشرافیہ کی لوٹ مار اور بے حسی پر پھٹ پڑا ہے۔ اداکارہ جولی کے بعد برطانیہ کے ہائوس آف کامنز میں بھی اس طرح کی تقریریں سننے کو ملیں۔ برطانیہ پاکستان کے سوشل سیکٹر کے لیے تقریباً ایک ارب پائونڈ امداد دیتا ہے۔ ہائوس آف کامنز میں بحث ہوئی تھی کہ اس امداد کا پاکستان کے عام لوگوں کوکیا فائدہ ہو رہا ہے۔ برطانیہ اپنے لوگوںکے ٹیکسوں سے جمع ہونے والی آمدن سے پاکستان کو ڈیرھ سو ارب روپے امداد اس لیے دیتا ہے کہ اس کے غریب پڑھ جائیں، انہیں بہتر زندگی میسر ہو۔ برطانوی ارکان نے پوچھا تھا کہ اگر پاکستان اتنا غریب ہے تو پھر پاکستانی حکمران لندن میں اربوںکی جائیدادیں کیسے خرید لیتے ہیں؟ پاکستانی عوام پر جو لوگ حکمرانی کرتے ہیں وہ سب کچھ لوٹ کر برطانیہ لے آتے ہیں اور یہاں جائیدادیں بناتے ہیں۔
برطانیہ کے ہائوس اف کامنزکے بعد اس طرح کی گفتگو امریکی کانگریس میں بھی سننے کو ملی جب وہاں پاکستان کو ایف سولہ طیارے رعایتی نرخوں پر دینے کے بل پر بحث ہوئی۔ اس بل کے تحت امریکہ، پاکستان کو پانچ سو ملین ڈالر اپنی طرف سے ایف سولہ بنانے والی کمپنی کو دینے پر راضی تھا۔ پاکستان نے سات سو ملین ڈالرکی اس ڈیل میں ڈھائی سو ملین ڈالرادا کرنے تھے؛ تاہم کانگریس نے اس کی منظوری نہ دی جب رکن نے کھڑے ہوکر پاکستانی اشرافیہ کو ننگا کر دیا اور پوچھا کہ امریکی عوام کا پیسہ پاکستان کی کرپٹ اشرافیہ کو عیاشی کے لیے کیوں دیا جا رہا ہے۔ اگر پاکستان کو جہاز چاہئیں تو وہ پوری رقم ادا کرے۔ امریکی لوگوں کے ٹیکسوں سے اکٹھی کی گئی دولت میں سے پاکستان کو پانچ سو ملین ڈالرکی خیرات کیوں دی جائے؟ سب اس رکن کی تقریر سے متاثر ہوئے اور بل روک دیا گیا۔
پانچ سو ملین ڈالرمعمولی رقم نہیں ہوتی۔ گزشتہ برس اسحاق ڈار نے پانچ سو ملین جمع کرنے کے لیے یورو بانڈ کے نام پر دنیا کا مہنگا ترین قرضہ نیویارک میں لیا جس پر دس برس میں پاکستان چار سو دس ملین ڈالر سود ادا کرے گا۔ یہ اورکہانی ہے جو سینیٹ کے کمیٹی میں دم توڑ گئی۔ بتایا گیا تھا کہ پاکستان کے کون سے شرفا نے پچھتر ملین ڈالر پاکستان سے بھیج کر یہ مہنگے یورو بانڈ خریدے جو دس برس بعد لمبا مال کمائیںگے۔ سیکرٹری خزانہ ڈاکٹر وقار مسعود نے سلیم مانڈوی والا اورکمیٹی کے ممبران کو ایسا ڈرایا کہ انہیں دوبارہ پوچھنے کی جرأت نہ ہوئی۔
ایک عالمی این جی او اکسفام نے بھی سندھ میں پیپلز پارٹی کی ایک خاتون لیڈر کی سیلاب متاثرین کے لیے دی گئی امداد میں لوٹ مار پر کا رونا رویا تھا۔ جو پیسہ بیرون ملک سے سندھی سیلاب زدگان کے لیے بھیجا گیا وہ ادی اور ادی کے حواری کھاگئے۔
بیرونی قرضوں کی یہ حالت ہوچکی ہے کہ تین برسوں میں چوبیس ارب ڈالرکا قرضہ لیا گیا۔ آئی ایم ایف سے جو قرضہ لیا گیاوہ سب اس نے اپنے پچھلے قرضے کی ادائیگی میں ایڈجسٹ کر لیا۔ ماہر معاشیات اشفاق حسن کہتے ہیں کہ اسحاق ڈار نے بیرونی قرضوں کی بارودی سرنگیں بچھا دی ہیں۔ حفیظ پاشاکو سنیں تو رات کو نیند نہیں آتی کہ کتنا قرضہ لیا جا رہا ہے اورکس بے دردی سے خرچ ہو رہا ہے۔ انور بیگ کہتے ہیںکہ انہیں ایک مغربی سفارت کار نے خبردارکیا ہے کہ جب پاکستان کا قرضہ نوے ارب ڈالر تک پہنچے گا تو دنیا پاکستان کے نیچے سے قالین چھین لے گی اور نیوکلیر پروگرام ختم کرنے سے کم پر ڈیل نہیں ہوگی۔ حفیظ پا شا کہتے ہیںکہ 2018ء تک یہ قرضہ نوے ارب ڈالر تک پہنچ جائے گا۔ رہے نام اللہ کا۔
دوسری طرف وزیر اعظم نواز شریف کی تقریریں سنیں اور شہبا ز شریف کی چین سے ترکی تک کی آنیاں جانیاں دیکھیں تو لگتا ہے کہ آئی ایم ایف اور امریکہ نے پاکستان کی خوشحالی دیکھ کر پاکستان سے دس ارب ڈالرکی امداد مانگ لی ہے!