یہ یاد کرنے کے لیے کہ میں نے پہلی بار اظہارالحق صاحب کو کب پڑھا، مجھے اپنے دماغ پر زیادہ زور دینے کی ضرورت نہیں۔
وہ انیس سو نوے کی دہائی میں ایک قومی روزنامے میں کالم لکھتے تھے۔ دیگر کالم نگاروں کے علاوہ انہیں بھی ڈھونڈ کر پڑھتا تھا۔ ان کے اس زمانے کے خیالات اور تجزیے تو مجھے اس وقت یاد نہیں، لیکن جو بات میرے شعور میں اب تک موجود ہے‘ یہ ہے کہ اردو پر ان کی گرفت نے مجھے بے حد متاثر کیا تھا۔ کوئی ایک فقرہ بھی ایسا نہ ہوتا جسے غیرضروری کہہ کر ایڈیٹ کیا جا سکتا۔ وہ مختصر لکھتے ہیں اور اچھا بھی۔
میں نے انہیں اچھی اردو کی وجہ سے ہی پڑھنا شروع کیا تھا۔ ہارون الرشید، اظہر سہیل، مجیب الرحمن شامی صاحبان کی بھی زبان پر گرفت نے ہی مجھے ان کے کالم پڑھنے کی طرف مائل کیا تھا۔ جمیل الدین عالی کے ادب پر طویل ترین کالموں نے بھی اسی لیے کبھی بور نہ کیا۔ شکیل عادل زادہ کا ''بازی گر‘‘ ہمارے سر پر جنوں کی طرح سوار تھا۔ ان دنوں اردو کے کلاسک قلم کار قاضی عبدالستار، ابوالفضل صدیقی، شوکت صدیقی، عبداللہ حسین، اسد محمد خان، بلونت سنگھ، جوگندر پال، غلام عباس اور منٹو کی شاہکار تحریریں ایک الگ ہی دنیا میں لے جاتی تھیں‘ اس لیے غیر شعوری طور پر اردو کالم نگار بھی وہی متاثر کر پائے جن کی زبان پر گرفت مضبوط تھی۔
درمیان میں اظہارالحق کہیں غائب ہو گئے۔ ان دنوں دنیا ابھی ٹویٹر، فیس بک یا نجی ٹی چینلز کے دور میں داخل نہیں ہوئی تھی لہٰذا یہ پتہ نہ چلا کہ وہ کہاں چلے گئے۔ میں بھی اپنی زندگی کے سفر میں گم ہو گیا۔ مجھے پہلی دفعہ اندازہ ہوا کہ خوبصورت تحریریں اور پسندیدہ لکھاریوں کے کالم بھی ایک عادت بن جاتے ہیں‘ جنہیں چھوڑنا اتنا آسان نہیں ہوتا۔
برسوں بعد ایک دن خالد مسعود کی بدولت اسلام آباد ان سے ملاقات ہوئی تو گفتگو میں اتنی ہی روانی اور خوبصورتی پائی جتنی ان کی تحریروں میں تھی۔ پتہ چلا کہ وہ اس وقت بائیسویں گریڈ کے افسر تھے‘ لیکن شخصیت میں ایک عجب بے نیازی اور زندگی کا اطمینان تھا‘ جو میں نے کم افسروں میں دیکھا ہے۔ میں نے انہیں بتایا کہ میں ان کی تحریروں کو مِس کرتا ہوں۔ مسکرا کر بولے: اب سرکار کی نوکری سے فارغ ہو کر ہی لکھیں گے۔
یہ کریڈٹ معروف کالم نگار ہارون الرشید کو جاتا ہے کہ انہوں نے ''دنیا‘‘ اخبار شروع ہونے کے بعد ایسے کالم نگار ڈھونڈ نکالے جو لکھنا چھوڑ چکے تھے یا جنہوں نے نیا لکھنا شروع کیا تھا۔ اظہارالحق ان میں سے ایک ہیں‘ جنہوں نے لکھنا چھوڑ دیا تھا اور پھر شروع کیا۔
مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ سرکاری نوکریوں سے ریٹائرمنٹ کے بعد اب تک جتنے سرکاری افسران نے قلم سے ناتہ قائم کیا‘ اور ان میں سے جتنے بھی اپنے ضمیر کے مطابق لکھتے ہیں‘ اظہارالحق ان میں سرفہرست ہیں۔ اپنے قلم کو تلوار کی طرح استعمال کرکے وہی ریٹائرڈ سرکاری افسر لکھ سکتا ہے جس نے ساری عمر صاف ستھری نوکری کی ہو۔ جس کے ضمیر پر کوئی بوجھ نہ ہو اور جس نے اپنے من کو خوش کرنے کے لیے نوکری کی ہو‘ نہ کہ حکمرانوں کا خوشامدی بن کر۔ انہوں نے وقتاً فوقتاً اپنے کالموں میں جس طرح اپنی بیوروکریٹ کلاس کا پوسٹ مارٹم کیا‘ وہ میرے جیسے انویسٹی گیٹو رپورٹر بھی شاید نہ کر سکیں‘ جو دن رات انہی موضوعات پر لکھتے ہیں۔
اظہارالحق صاحب کے حوالے سے کچھ باتیں مشترک محسوس ہوتی ہیں‘ جو کسی بھی لکھاری کی تخلیقی قوت کو جلا بخشتی اور مہمیز کرتی ہیں۔ اظہارالحق کوہاٹ کے ایک خوبصورت گائوں سے ہیں اور ان کے اندر سے ان کا گائوں اور پوٹھوہار کی خوبصورت دھرتی‘ دونوں نہیں نکلتے اور ان دونوں سے جڑا صدیوں پرانا نسٹلیجا۔ جس لکھاری کے اندر نسٹلیجا نہیں وہ تخلیق نہیں کر سکتا اور اس سے بڑھ کر یہ کہ ایک اچھا تخلیق کار ہی اس نسٹلیجا کو اپنی تحریروں میں امر کر سکتا ہے۔ جتنے خوبصورت کالم اظہارالحق صاحب نے اپنے گائوں کی زندگی‘ پرانے دور کے بزرگوں اور ان کی روایات پر لکھے ہیں‘ اس کی اور کوئی مثال نہیں ملتی۔ وہ کالم اپنی جگہ ایک نیا جہان ہیں۔ ان کے وہ کالم پڑھ کر آپ اس محاورے پر ایمان لے آتے ہیں: Past is another country
اظہار صاحب کا کمال یہ ہے کہ وہ ماضی کو آپ کے سامنے لا کھڑا کرتے ہیں اور لگتا ہے یہ ان کا گائوں نہیں‘ یہ ان کا بچپن کے واقعات نہیں، یہ ان کے گائوں کی گلیاں اور کھیتوں کی پگڈنڈیاں نہیں بلکہ آپ کا گائوں‘ آپ کا بچپن‘ آپ کے گائوں کی گلیاں اور کھیتوں کی پگڈنڈیاں ہیں‘ جن کا ذکر وہ کر رہے ہیں۔ قدیم ادوار کے لوگ، حویلیاں، راستے‘ گرمیوں کی دوپہریں‘ دور کسی گھنے درخت کی کسی شاخ پر تنہا بیٹھی فاختہ کا دُکھ بھرا گیت، مٹی کے بنے انسان کی زندگی کی طرح غیر ہموار راستوں‘ کٹھن منزلوں اور کمزور گھروندوں کی داستانیں... یہ ہمیں اپنی کہانیاں‘ اپنی داستانیں لگتی ہیں۔ ہم سب کی کہانیاں۔ ہمارے اپنے اندر کی کوئی بات۔ ہم سب کا مشترکہ ماضی۔ ہمارا اپنا ترکہ ہے۔
وہ جب آسٹریلیا میں مقیم اپنے چھوٹے پوتوں‘ حمزہ اور تیمور کو یاد کرتے ہیں تو پوٹھوہاری گیت گا کر صرف خود ہی نہیں روتے‘ ہمیں بھی رلا دیتے ہیں۔ ''میرا داغستان‘‘ کی تشریح وہ جس طرح کرتے ہیں اور اس میں اپنی ماں بولی، اپنا گائوں اور گلیاں جس انداز میں ڈھونڈتے ہیں‘ وہ ہمارے ہاں شاید اور کوئی نہ کر سکے۔ اپنی دھرتی، اپنی مٹی، ماں بولی، بھولی بسری روایتوں اور لوک کہانیوں کو جتنے پیار سے وہ بیان کرتے ہیں‘ وہ آپ کو ایک الگ دنیا میں لے جاتا ہے اور پھر آپ اس دنیا کے اتنے گرویدہ ہو جاتے ہیں کہ اس میں سے شاید نکلنا ہی نہ چاہیں۔
اظہار صاحب نے ادب پڑھا ہے۔ ہر طرح کا ادب، چاہے وہ اردو کلاسک ہو، انگلش یا پھر فارسی‘ اور اس سے حاصل ہونے والے خزانوں کا استعمال بھی وہ بخوبی جانتے ہیں‘ جس سے ان کے کالموں کی خوبصورتی بڑھ جاتی ہے۔ ادب سے محبت نے انہیں اس قابل بنایا ہے کہ وہ نئے نئے موضوعات پر بھی کچھ اس انداز میں لکھ سکیں کہ قاری بوریت کا شکار نہ ہو۔
اسلام اور مسلم دنیا کے عروج و زوال پر ان کی بعض تحریریں تو ایسی ہیں‘ جنہیں شاید ہمارے نصاب کا حصہ ہونا چاہیے۔ انہوں نے جس طرح اپنے شاندار ماضی میں زندہ رہنے والے مسلمانوں کو آئینہ دکھانے کی کوشش کی‘ وہ بھی آسان کام نہیں تھا۔ وہ بھی ایک ایسے معاشرے میں جہاں عدم برداشت کا یہ عالم ہے کہ گورنر کی حفاظت پر مامور گارڈ ہی اسے گولی مار کر ہیرو بن جاتا ہے۔ طالبان کے خلاف لکھے گئے ان کے کالم بھی اپنی جگہ اہمیت رکھتے ہیں۔ ان کے قلم نے کسی کے ساتھ رعایت نہیں برتی۔ کسی کو نہیں بخشا۔ حتیٰ کہ خود کو بھی نہیں۔ جو چیز انہیں اردو کالم نگاروں میں ممتاز کرتی ہے‘ یہ ہے کہ ان کے اندر یورپی ملکوں کے خلاف وہ روایتی تعصب نہیں ہے‘ جو ہمارے اکثر لکھاریوں اور کالم نگاروں میں ملتا ہے۔ وہ اگر بیرون ملک گئے تو ان ملکوں کی اچھی چیزوں اور روایات کا پرچار کیا۔ ان مغربی معاشروں کو نصیحتیں کرنے یا مشرقی روایات کی عظمت کے گیت گانے کی بجائے الٹا ہمیں یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ ہم ان سے کیا سیکھ سکتے ہیں۔ ان کے نقش قدم پر چل کر کیسے آگے بڑھ سکتے ہیں۔
ان کی تحریروں میں آپ کو نئے خیالات ملتے ہیں، ایک نئی دنیا ملتی ہے‘ جہاں ماضی، حال اور مستقبل گلے ملتے ہیں۔ کوئی بھی ان کے قلم کی کاٹ محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ درد ہے، انسان دوستی ہے، گائوں کی برستی بارش میں کچی مٹی کی بھینی بھینی خوشبو ہے، صدیوں پرانی روایات کا حیا ہے اور سب سے بڑھ کر اپنے سے طاقتور کے خلاف بولنے کی جرات ہے۔ اظہارالحق صاحب کے قلم نے کسی کا خیال رکھا تو صرف اور صرف اپنے ضمیر، اپنے قاری اور اپنی دھرتی کے مفادات کا۔
ان کی تحریریں آنے والے زمانوں میں بھی پڑھی جائیں گی اور میرے جیسی نسٹلیجا کا شکار، صدیوں کے سفر کا بوجھ اٹھائے، بوڑھی روحیں اس وقت بھی ان کے بعض کالموں پر اپنی پلکیں بھیگی کیے بغیر نہ رہ سکیں گی!
(یہ دیباچہ اظہارالحق کے ''دنیا‘‘ اخبار میں چھپنے والے کالموں کے مجموعے ''تلخ نوائی‘‘ کے لیے لکھا گیا۔)