"RKC" (space) message & send to 7575

ملتان، نیویارک، وائٹ ہائوس اور تحائف کی بارش!

ابھی اسحاق ڈار کا بیان پڑھا جس میں انہوں نے وزیر اعظم نواز شریف اور پوری قوم کو مبارک دی ہے کہ پاکستان کے فارن ریزرو اب ماشاء اللہ چوبیس ارب ڈالر ہوگئے ہیں۔ اس کی وجہ سکوک بانڈزکے نام پر لیا گیا ایک ارب ڈالرکا نیا قرضہ ہے جس کے بدلے پاکستان کے اثاثے گروی رکھے گئے ہیں۔ بھارت کی ایک نجی کمپنی کو یہ قرضہ ڈھائی فیصد سود پر ملا تھا جبکہ ڈار صاحب ساڑھے پانچ فیصد پر لائے۔ پچھلے سال وہ یہ قرضہ آٹھ فیصد سے بھی زیادہ مارک اپ پر لائے تھے۔ بقول سینیٹر سلیم مانڈوی والا خفیہ طور پر پچھتر ملین ڈالر پاکستان سے بھیج کر وہ بانڈز خریدے گئے کیونکہ منافع بے پناہ تھا۔ 
یقینا قوم مبارکباد کی مستحق ہے کہ فارن ریزروز ایک ارب ڈالر کے نئے قرضے کے بعد چوبیس ارب ڈالر ہوگئے اور پاکستان کی ایکسپورٹس پچھلے تین برسوں میں چوبیس ارب ڈالرز سے کم ہوکر بیس ارب ڈالر ہوگئی ہیں۔ قرضہ دن رات بڑھتا جا رہا ہے اور ایکسپورٹس کم ہوتی جا رہی ہیں۔ یہ ہے ہماری معیشت کی مختصر کہانی!
اس قوم کو بیوقوف بنانا آسان ہے۔ ایک نامعلوم امریکی رسالے کو چند ہزار ڈالرکا اشتہار پاکستانی اداروں کی طرف سے دلوا کر اپنے آپ کو بہترین وزیرخزانہ کا ایوارڈ دلوایا اور اسے شہرت یہ دی کہ ایوارڈ آئی ایم ایف نے دیا ہے۔ بات یہیں تک ختم ہوجاتی تو بھی ٹھیک تھا لیکن پچھلے ہفتے نواز لیگ کی سنٹرل ورکنگ پارٹی کا اجلاس ہوا تو وزیراعظم نے شرکا کو خوشخبری سنائی کہ اسحاق ڈار کو آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک نے بہترین وزیرخزانہ کا ایوارڈ دیا ہے۔ شرکا نے تالیاں بجائیں اور ڈار صاحب نے انکساری کے ساتھ سر جھکا کر سب کی شاباش اور مبارکباد قبول کی۔ بعد میں آئی ایم ایف نے جو وضاحت جاری کی اس میں بتایا گیا کہ ان کا اس رسالے سے کچھ لینا دینا نہیں۔ جس کا جی چاہے اس رسالے کو چند ہزار ڈالر ادا کر کے اپنے آپ کو دنیا کا بہترین ادیب، وزیر، وزیراعظم، ٹی وی اینکر ڈیکلر کرا لے۔ شرط چند ہزار ڈالرکا اشتہار ہے جو کسی سے دلوا دیں یا اپنی جیب سے اس کی ادائی کر دیں۔ اس وضاحت کے بعد ہم شرمندہ ہوگئے لیکن مبارکباد دینے، وصول کرنے اور طبلچیوں کو کوئی شرمندگی ہوئی نہ ہوگی۔ 
اسحاق ڈار کے خریدے گئے اس ایوارڈ سے مجھے ایک واقعہ یاد آیا۔ میں 1990ء کی دہائی میں ملتان میں رپورٹنگ کر رہا تھا۔ ابدالی روڈ پر بینک میں ڈاکو گھس گئے۔ اس وقت وہاں سے ایس ایس پی عبدالقدیر بھٹی گزر رہے تھے۔ انہوں نے پولیس فورس بلا لی۔ مقابلہ ہوا اور ایک ڈاکو مارا گیا۔ اس کے بعد جو ہوا کسی کے خواب و خیال میں بھی نہ تھا۔ کسی نے مشورہ دیا بھٹی صاحب دلا بھٹی کے بعد آپ کو موقع ملا ہے، آپ جھنڈے گاڑ دیں۔ پوچھا کیسے۔ خوشامدیوں نے بھٹی صاحب کی بہادری کے بینرز اور پوسٹرز پورے شہر میں لگوا دیے۔ ہر اخبار میں ان کی بہادری کے اشتہار لگنے لگے۔ مقامی اخبارات کے نمائندے اشتہار کے لیے قدیر بھٹی کے دفتر پہنچ جاتے۔ بھٹی صاحب کا پی اے کسی ایس ایچ او کو فون کردیتا۔ یوں ہر تھانیدارکی ڈیوٹی لگ گئی، جس اخبار کو اشتہار دلوانا ہوتا وہ اسے کاروباری لوگوں سے لے دیتا۔ چھ مہینے یہ ڈرامہ چلتا رہا۔ بھٹی صاحب کی شان میں اشتہار چھپتے رہے کیونکہ سب کو کچھ نہ کچھ مل رہا تھا۔ آج اگر کوئی قدیر بھٹی صاحب کو جانتا ہو تو مجھے بھی بتادے۔ شاید ملتان میں میرے صحافی دوستوں جمشید رضوانی، شکیل انجم، ظفر آہیر یا کسی اور کو ان کا نام یاد ہو ورنہ کسی ملتانی کو یاد نہیں ہوگا کہ کبھی قدیر بھٹی یہاں ایس ایس پی ہوا کرتے تھے۔ میں نے بھی گزشتہ بیس برس میں ان کا نام نہیں سنا۔ 
بہادری، قابلیت اور عزت کے میڈلز اشتہاروں سے نہیں دل و جان سے جیتنے پڑتے ہیں۔ بھگت سنگھ، اشفاق خان ، بسمل، منگل پانڈے (یا رنجیت سنگھ) کے خلاف ملتانی نواب مظفرخان شہید نے اپنی بہادری کے اشتہارنہیں لگوائے تھے، مگر آج بھی لوگ ان کے نام کی مالا جپتے ہیں۔ اصل ایوارڈ وہ ہوتے ہیں جو عوام دیتے ہیں۔
اور سنیں! امریکی صدر اوباما نے اپنے صدارتی ادوار میں ملنے والے تمام تحائف کی تفصیل اوپن کر دی اور سب تحائف سرکاری خزانے میں جمع کرادیے ہیں۔ عابدہ حسین اپنی کتاب میں لکھتی ہیں، جب وہ امریکہ میں پاکستان کی سفیر تھیں تو اس وقت کے آرمی چیف جنرل آصف نواز جنجوعہ پینٹاگون میں ایک عہدے دار سے ملنے گئے، غالباً ڈک چینی سے۔ جنرل جنجوعہ ان کے لیے ایک قیمتی تحفہ لے گئے۔ امریکی عہدیدار کو تحفہ پسند آیا اور انہوں نے فوراً اس کی قیمت پوچھی کیونکہ وہ ایک حد سے زائد مالیت کا تحفہ اپنے پاس نہیں رکھ سکتے تھے۔ اس سے پہلے کہ جنرل آصف نواز بولتے، سیدہ عابدہ جو امریکی قوانین سے واقف تھیں فوراً بولیں، اچھا ہے لیکن قیمت زیادہ نہیں، آپ رکھ سکتے ہیں۔ 
اب اپنے ملک کی طرف لوٹتے ہیں، یہاں کیسے قیمتی تحائف لوٹے جاتے ہیں۔ شوکت عزیز کو بارہ سو قیمتی تحائف ملے جن کی مالیت دس پندرہ کروڑ سے زیادہ تھی۔ وہ توشہ خانے کے ملازمین کی ملی بھگت سے معمولی قیمت ادا کرکے یہ سب تحفے اپنے ساتھ لندن لے گئے۔ حتی کہ تحفے میں ملنے والے انڈر گارمنٹس، بنیان، جرابیں، ٹی شرٹس، شیونگ کریم تک ساتھ لے گئے۔ نیپال کے گورنر نے دو سلکی سکارف ان کی بیگم کو دیے توکابینہ ڈویژن نے ان کی قیمت پچیس روپے فی سکارف لگائی۔ بہت غریب گورنر تھا، کیاس اس نے ہمارے وزیراعظم کی بیگم کو لنڈے سے خریدا ہوا سکارف دیا؟ تف ہے! شہزادہ چارلس 2006 ء میں پاکستان آئے تو مسز شوکت عزیز کے لیے ایک بیگ لائے۔ اس کی قیمت تین سو روپے لگائی گئی۔ شاید برطانوی ولی عہد مشرقی لندن میں الفریڈ کی پائونڈ شاپ سے وہ بیگ خرید کر لائے ہوں گے! یہی کچھ جنرل مشرف نے کیا۔ ساڑھے چار سو تحائف مل چکے اور توشہ خانہ کو رپورٹ ہوچکے تو بولے یہ کیا تماشہ ہے بھائی، تحائف مجھے ملتے ہیں اور رپورٹ توشہ خانہ کوکرنی پڑتی ہے۔کچھ نہ کچھ روپے دینے پڑتے تھے لیکن انہوں نے قصہ ہی ختم کردیا۔ آخری پانچ برس میں انہوں نے کیا کچھ دنیا سے لیا، اس کا کہیں ریکارڈ ہی نہیں ہے۔ بیگم مشرف کو ہیرے جواہرات، سونے اور ہیرے کے سیٹ تحفے میں ملتے رہے۔ سب انہی کے پاس ہیں۔ ہاں، پرویز مشرف دل کے سخی تھے۔ امریکی سیکرٹری دفاع نے جنرل مشرف کو دو پستول تحفے میں دیے۔ انہوں نے ایک پستول خود رکھ لیا اور دوسرا اپنے پیارے دوست امیرمقام کو دے دیا۔ جی ہاں، آپ درست سمجھے ہیں، وہی امیرمقام جو آج کل میاں نواز شریف پر جان چھڑکتے ہیں۔ 
زرداری صاحب کا دور آیا تو انہوں نے اعلان کیا انہیں دبئی سے مرسیڈیز اور بی ایم ڈیبلو کے تحائف ملے ہیں۔ تحائف کی یہ خوبی ہوتی ہے کہ ان پرکوئی ڈیوٹی نہیں لگتی ۔ اندر کی کہانی کچھ اور تھی۔ وہ بھی سب کچھ گھر لے گئے۔ گیلانی صاحب بھلا کیوں پیچھے رہتے۔ چوہدری شجاعت حسین کچھ دن کے لیے وزیر اعظم بنے تو انہیں بھی سعودی عرب کے دورے میں ایک آدھ چیز ہاتھ لگ گئی۔ تاہم نواز شریف سب سے زیادہ سمجھدار نکلے۔ 2013ء میں وزیراعظم بنے تو کابینہ ڈویژن کے رولز تبدیل کر دیے گئے۔ کہا گیا وزیر اعظم کو جوتحائف ملتے ہیں وہ انتہائی حساس معلومات کے دائرے میں آتے ہیں، لہٰذا ان کی تفصیلات کسی کو نہیں دی جاسکتیں۔ کوئی میرے جیسا سر پھرا وفاقی محتسب کے پاس جا پہنچا کہ اسے ان تحائف کے بارے میں معلومات تک رسائی نہیں دی جا رہی۔ پتا نہیں چل رہا کہ میاں نواز شریف کوکیا تحائف مل رہے ہیں اور آیا وہ گھر لے جا رہے ہیں یا انہیں توشہ خانے میں جمع کرایا جا رہا ہے۔ کابینہ ڈویزن نے وفاقی محتسب کو لکھ بھیجا کہ جناب یہ حساس معلومات ہیں، عوام کے ساتھ انہیں شیئر نہیں کیا جا سکتا۔ عوام کون ہوتے ہیں بادشاہ کے بارے میں اتنی حساس معلومات جاننے والے۔معاملہ ٹھپ ہوگیا۔ آج اوباما کو ملنے والے تحائف کی فہرست پڑھی تو یاد آیا کہ ہمارے جمہوری بادشاہ کیا کچھ گھر لے جاتے ہیں۔ مشرف نے کوئی چیز ریکارڈ پر نہیں آنے دی۔ نواز شریف ان سے بھی زیادہ سجھدار نکلے کہ رولز ہی بدل ڈالے۔
سوچ رہا ہوں اس موضوع پر کتاب لکھوں کہ پچھلے چالیس برس میں کس حکمران کو کیا تحائف ملے اورکون کیا کچھ لے گیا۔کروڑوں روپے کے تحائف باپ کا مال سمجھ کر لے جائے گئے۔ان کی اپنی حالت یہ ہے کہ گھر کا ملازم اگر دس روپے کی بھی گڑبڑ کرے تو بیگم صاحبہ وہ درگت بناتی ہیں کہ اللہ معافی! شوکت عزیز شہزادہ چارلس کے دیے ہوئے بیگ کی قیمت تین سو روپے لگوا کر اپنی بیگم کو مفت میں دلوا دیتے ہیں۔ وہی شوکت عزیز جنہوں نے اپنے گوشواروں میں سات ارب روپے کے اثاثے اور دولت ڈیکلیرکی تھی۔
ارب پتی بن جانے سے بندے کی بھوک، لالچ یا حرص ختم نہیں ہوتی۔کردارکا دولت سے کیا تعلق۔ کوئی ارب پتی بن جائے پھر بھی اندر کا چھوٹا پن ختم نہیں ہوتا جبکہ اوباما جیسا دنیا کا طاقتور ترین صدر لاکھوں ڈالر مالیت کے تحائف واپس کر کے منصوبہ بنارہا ہوتا ہے کہ ریٹائرمنٹ کے بعد اس نے کسی امریکی شہر میں لائبریری قائم کر کے امریکی نسلوں کے لیے وراثت چھوڑ کر جانی ہے!
آج کی کہانی کا اخلاقی سبق کیاہوا؟ 
عزت جیتی جاتی ہے، کمائی جاتی ہے، اسے کمانے کے لئے سات دریا اور سات جنگل عبور کرنے پڑتے ہیں ۔ یہ امریکی رسالے میں چند ہزار ڈالر کے عوض اشتہار لگوا کر یا کروڑوں روپے کے تحائف چپکے سے گھر لے جانے سے نہیں ملتی!

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں