"RKC" (space) message & send to 7575

تین لیڈرز، تین انقلاب، تین کہانیاں ۔۔۔۔ (5)

جنرل مشرف پر دبائو بڑھانے کے لیے نواز شریف، نوابزادہ نصراللہ خان کو بھی میدان میں اتار چکے تھے‘ جنہوں نے ایک دفعہ پھر سیاستدانوں کا رہبر بننے کا فیصلہ کر لیا ؛ حالانکہ انہیں معلوم تھا کہ جس سیاسی ریوڑ کے ساتھ وہ چل رہے ہیں وہ اس پر بھروسہ نہیں کر سکتے۔
نوابزادہ کو ماضی میں بہت تلخ تجربہ ہو چکا تھا‘ جب جنرل ضیاء کے مارشل لا کے خلاف جدوجہد کے بعد الیکشن ہوئے تو بینظیر بھٹو نے وزیر اعظم بنتے ہی صدارت کے لیے انہیں ووٹ دینے کے بجائے جنرل کے قریبی ساتھی غلام اسحاق خان کو صدر بنا دیا۔ نوابزادہ‘ جو جنرل ضیاء دور میں ایم آر ڈی کے کرتا دھرتا تھے‘ منہ دیکھتے رہ گئے۔ اسی اسحاق خان نے بینظیر بھٹو کی حکومت اٹھارہ ماہ بعد یہ کہہ کر توڑ دی کہ کرپٹ ہے۔ اپوزیشن پارٹیاں نوابزادہ کو ہر دور میں استعمال کرتی آئی تھیں۔ مظفر گڑھ کے روایتی سرائیکی نواب کو اپنے سیاسی چیلوں سے دھوکا کھانے کی اتنی عادت ہو گئی تھی کہ جب بھی سیاسی محاذ بننے لگتا‘ وہ سب سے آگے ہوتے۔ بینظیر بھٹو سے لے کر نواز شریف تک‘ سب نے ان کی سیاسی ساکھ اور ان کی سیاسی بصیرت کو استعمال کیا‘ لیکن مجال ہے کہ اس مرد مومن نے کبھی کسی سے گلہ کیا ہو۔ کوئی پوچھتا تو سرائیکی نواب ہمیشہ اپنا کوئی شعر سنا کر ٹال جاتے۔ 
جنرل مشرف کے مارشل لا نے نوابزادہ کو ایک اور موقع فراہم کر دیا تھا کہ وہ ایک اور سیاسی الائنس کی تیاری کریں‘ اور اسی طرح جدوجہد شروع کریں‘ جیسے انہوں نے کبھی جنرل ضیا کے خلاف شروع کی تھی؛ تاہم نوابزادہ کو سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ آگ اور پانی کو کیسے اکٹھا کیا جائے۔ نواز شریف نے بینظیر بھٹو پر مقدمے بنائے اور زرداری کو جیل میں ڈالا۔ پھر نواز لیگ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو رہی تھی۔ ہر طرف سیاسی انتشار تھا۔ نیب نے قیامت مچائی ہوئی تھی۔ جو بھی نظر آتا‘ گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا جاتا۔ جب تک وہ جنرل مشرف کی وفاداری کا حلف نہ اٹھاتا‘ اسے آسمان دیکھنا نصیب نہ ہوتا۔ ان حالات میں نوابزادہ نے اپنے سیاسی کرتب دکھانا تھے۔ 
نواب زادہ نہیں جانتے تھے کہ دونوں پارٹیاں اور ان کے لیڈر تیار بیٹھے ہیں کہ وہ گھوڑا تیار کریں اور جنگ کی تیاری کریں۔ بینظیر دبئی تو نواز جیل میں تھے۔ دونوں کو سیاسی گھوڑا چاہیے تھا‘ جس پر سب پارٹیاں متفق بھی ہو جائیں۔ نظر انتخاب نوابزدہ پر پڑی۔ لاہور میں ان کے گھر جنرل مشرف کے خلاف پیپلز پارٹی اور نواز لیگ نے مشترکہ الائنس کا فیصلہ کیا۔ یہ بہت بڑا بریک تھرو تھا۔ بینظیر بھٹو نے جنرل مشرف کے مارشل لا کے فوراً بعد بی بی سی سے انٹرویو میں کہا تھا کہ جو ہونا تھا وہ ہو گیا‘ اب جنرل مشرف کو ان سے بات کرنا چاہیے۔ بی بی کا اشارہ اس طرف تھا کہ ماضی میں جب وزیر اعظم کی چھٹی کرائی جاتی‘ تو صدر یا آرمی چیف فوری طور پر اس حکومت یا وزیر اعظم کی اپوزیشن سے رابطہ کرکے نگران حکومت بناتا تھا۔ جنرل ضیاء نے بھی بھٹو کی حکومت برطرف کرنے کے کچھ عرصے بعد مجلس شوریٰ اور کابینہ میں اپوزیشن کے ارکان کو وزیر بنایا تھا۔ انیس سو نوے میں غلام اسحاق خان نے بینظیر بھٹو کی حکومت برطرف کی تو پارلیمنٹ میں اپوزیشن کے نامزد غلام مصطفیٰ جتوئی کو نگران وزیر اعظم اور بہت سارے اپوزیشن ممبران کو نگران وزیر بنایا گیا تھا۔ انیس سو ترانوے میں غلام اسحاق خان نے نواز شریف کی حکومت برطرف کی تو بینظیر بھٹو کے مشورے پر میر بلخ شیر مزاری کو نگران وزیر اعظم اور زراری کو نگران وزیر کا درجہ دیا گیا تھا۔ یہی کچھ انیس سو چھیانوے میں ہوا‘ جب صدر فاروق لغاری نے بینظیر حکومت برطرف کی‘ تو اپوزیشن لیڈر نواز شریف کے مشورے اور آشیرباد سے یہ سب کچھ ہوا تھا اور ان کی مرضی سے ہی نگران وزیر اعظم معراج خالد کو لگایا گیا تھا۔ اس لیے ماضی کی روایت کو سامنے رکھتے ہوئے بینظیر بھٹو بھی یہ توقع رکھتی تھی کہ جنرل مشرف نواز شریف کا اپوزیشن لیڈر ہونے کے ناتے ان سے مشورہ کرکے چلیں گے۔ 
اسی لیے بینظیر بھٹو نے جنرل مشرف کے خلاف اس وقت تک سخت موقف اختیار نہیں کیا تھا۔ جنرل مشرف کی شکل میں انہیں موقع نظر آ رہا تھا۔ زرداری کو رہائی ملی تو نواز شریف دور کے مقدمے بھی ختم ہو سکتے تھے اور وہ سوئس بنکوں میں پڑے چھ ارب روپے بچا سکتے تھے‘ جن کی سماعت بینظیر بھٹو اور زرداری کے لیے درد سر بن چکی تھی۔ دراصل جنرل مشرف اور ان کے ساتھی تفریح طبع کر رہے تھے۔ وہ بھلا کیوں ایک وزیر اعظم کو جیل میں ڈالنے کے بعد بینظیر بھٹو کو دبئی سے لا کر وزیر اعظم ہائوس لے جاتے؟ جنرل مشرف کا تو نعرہ ہی یہ تھا کہ بینظیر بھٹو اور نواز شریف کرپٹ تھے‘ اور دونوں کا احتساب ہو گا۔ لیکن بینظیر بھٹو کو اب بھی امید تھی۔ بینظیر بھٹو اور جنرل مشرف میں مشترک چیز نواز شریف تھا۔ دونوں کا دشمن ایک تھا۔
بینظیر یہ بات بھانپ چکی تھیں کہ جنرل مشرف انہیں کوئی ڈیل نہیں دیں گے۔ اس لیے جب نوابزادہ نصراللہ حسب عادت درمیان میں کودے تو وہ پہلے سے تیار بیٹھی تھیں؛ تاہم انہوں نے روایتی سیاسی انداز میں نوابزادہ کو احسان جتلایا کہ دیکھیں انہیں کیا فرق پڑتا ہے‘ جنرل مشرف رہے یا نہ رہے کیونکہ وہ (بے نظیر) تو ملک سے باہر ہیں اور ان کے بچوں کا باپ جیل میں‘ لہٰذا انہیں جنرل مشرف کے مارشل لا سے کچھ فائدہ ہی ہو گا نقصان نہیں کیونکہ جنرل مشرف کا رخ نواز شریف کی طرف ہو گا۔ تاہم بینظیر بھٹو کو اچھی طرح پتا تھا الائنس کے بعد اہمیت بڑھ جائے گی کیونکہ جنرل مشرف اور نواز شریف کی دشمنی تو اب ذاتی ہو چکی تھی‘ لہٰذا ان کے درمیان صلح کا امکان نہیں تھا۔ اگر اس الائنس کے دبائو کو استعمال کیا گیا تو جنرل مشرف کسی سٹیج پر داخلی اور عالمی دبائو پر بینظیر بھٹو کے ہی ساتھ کوئی بہتر بارگین کر سکتے تھے۔ 
ادھر نواز شریف صاحب کو علم تھا کہ اس وقت ان کی بقا اس میں ہے کہ ساری اپوزیشن کو اپنے ساتھ ملا کر رولا ڈالیں‘ اگرچہ انہوں نے اپوزیشن کا حشر کر دیا تھا اور خود امیرالمومنین بننے کی کوشش میں تھے۔ اخبارات اور اپوزیشن کے ساتھ بُرا سلوک ہوا تھا۔ ایک بڑے اخباری گروپ کے خلاف بغاوت کے پرچے نے تو بینظیر بھٹو کو ملک سے بھاگنے پر مجبور کر دیا تھا۔ فوج کے حلقوں سے بھی کسی ہمدردی کی امید نہ تھی۔ اس لیے نواز شریف صاحب جانتے تھے کہ انہیں میڈیا اور اپوزیشن سے کوئی زیادہ ہمدردی نہیں ملنے والی؛ تاہم اور کوئی چارہ نہ تھا کہ وہ دوبارہ اپنی سیاسی برادری کے پاس جائیں‘ اور ان کی مدد سے اپنی جان بچانے کی کوشش کریں۔ اس وقت نواز شریف کا بنیادی مقصد پھانسی سے بچنا تھا۔ وہ یہ بھی جانتے تھے کہ اگر اپوزیشن ان کے ساتھ مل جائے تو ان کا انجام بھٹو جیسا نہیں ہو گا۔ 
یوں نوابزادہ کا لاہور میں کرائے کا روایتی گھر (جسے پچھلے دنوں اورنج ٹرین کی وجہ سے گرا دیا گیا) ایک دفعہ پھر سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بن گیا۔ بینظیر بھٹو اور نواز شریف‘ دونوں نے اپنے آپ کو نوابزادہ کے حوالے کر دیا تھا۔ ایسے اداکاری کی جا رہی تھی جیسے ان کی وجہ سے وہ الائنس بنانے پر تیار ہو گئے ہیں‘ حالانکہ دونوں کے اپنے اپنے مفادات تھے‘ جو انہیں قریب لائے تھے۔ نوابزادہ سب سمجھتے ہوئے بھی بھولے بنے رہے کیونکہ ان کا اپنا پرانا شوق پورا ہو رہا تھا۔ بڑے عرصے بعد نوابزدہ کے گھر کی دیواروں پر سوئی سیاسی اداسی اور تنہائی کو اچانک سیاسی اور میڈیا کی توجہ مل گئی تھی۔ 
اسی اثنا میں جنرل مشرف کو اس وقت دھچکا لگا‘ جب امریکی صدر بل کلنٹن نے پاکستان کا چند گھنٹوں کا دورہ کرنے کی چند شرائط رکھیں۔ جنرل مشرف اس وقت ہر طرح کی شرط ماننے پر تیار تھے‘ کیونکہ انہیں امریکی صدر کے ساتھ ہاتھ ملانے کا موقع چاہے تھا تاکہ ان پر داخلی اور عالمی دبائو کم ہو۔ جب مشرف کی ملاقات ہوئی تو بل کلنٹن نے پہلی بات یہ کی کہ نواز شریف کو پھانسی نہیں ہونی چاہیے تھے۔ جنرل مشرف کو یہ پیغام مل گیا تھا کہ وہ نواز شریف کو بھٹو کے انجام سے دوچار نہیں کر سکتے۔ جب وہ نواز شریف کو ختم نہیں کر سکتے تھے‘ تو پھر انہیں جیل میں رکھ کر مظلوم اور سیاسی شہید بنانے کا کیا فائدہ؟ مشرف کو علم تھا وہ زیادہ دیر تک نواز شریف کو جیل نہیں رکھ سکیں گے کیونکہ بل کلنٹن نے جاتے ہی سعودیوں کے ذمے لگا دیا تھا کہ وہ نواز شریف کو باہر نکالیں۔ سعودیوں نے قطریوں کے ذریعے بات چلائی۔
قطری شہزادے کی اٹک قلعے میں نواز شریف سے ملاقاتیں ہو رہی تھیں۔ کلثوم نواز بھی پیغام رسانی کر رہی تھیں۔ ڈیل تقریباً ہو چکی تھی۔ ان سے بے خبر بینظیر خوش تھیں کہ اس نئے الائنس کی وجہ سے بہت جلد مشرف ان کے آگے گھٹنے ٹیک دیں گے‘ اور نواز شریف جیل میں بیٹھا دن گنے گا۔ انہیں نہیں پتہ تھا کہ نواز شریف یہ بازی جیت چکے تھے۔ جنرل مشرف نے درست فیصلہ کیا تھا۔ مشرف بھلا کیونکر دو سابق وزیر اعظموں کو اپنے خلاف متحد ہو کر تحریک چلانے کا موقع دیتے۔ ان دونوں کا اتحاد توڑنا ضروری تھا۔ نواز شریف کے ساتھ ڈیل کے بعد اب طویل عرصے تک ان کی حکمرانی کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہ تھی۔ بینظیر پہلے ہی باہر تھیں اور اب نواز شریف بھی اگلے دس برس کے لیے باہر ہو گئے تھے۔ گلیاں واقعی سنجیاں ہو گئی تھیں اور اب ان گلیوں میں جنرل مشرف مرزا یار کی طرح پھرنے والے تھے۔ وہی ہوا‘ امریکہ، سعودی، قطری سب راضی۔ ایک ہی تیر میں جنرل مشرف نے کئی شکار کر لیے تھے۔ (جاری)

 

دسمبر دو ہزار کی ایک صبح نواز شریف جنرل مشرف کو معافی نامہ لکھ کر جدہ نکل گئے۔ بینظیر بھٹو ششدر رہ گئیں۔ ایک طرف ان سے الائنس کرکے مشرف کو نکالنے کا پلان بن رہا تھا‘ اور اندر کھاتے ان کی مشرف سے خفیہ ڈیل چل رہی تھی۔ نواز شریف نے بینظیر بھٹو کو بری طرح استعمال کر لیا تھا‘ اور انیس سو ترانوے کا بدلہ لے لیا تھا‘ جب بینظیر بھٹو نے بھی وزیر اعظم نواز شریف کی صلح کی پیشکش کے زور پر غلام اسحاق خان سے ڈیل لے کر نواز شریف کی حکومت تڑوا دی تھی۔ نواز شریف نے اس کا بدلہ لے لیا تھا۔ وہ ڈیل کرکے باہر نکل گئے تھے اور بینظیر بھٹو کے جنرل مشرف کے ساتھ اقتدار کی ڈیل کے سارے خواب چکنا چور کر گئے تھے۔ 
بینظیر بھٹو دبئی میں اپنے سیاسی زخم چاٹ رہی تھیں تو لاہور میں نوابزادہ نصراللہ کے منہ سے اس اچانک سیاسی دھوکے پر نواز شریف کے بارے میں ایک ایسا تاریخی جملہ نکلا‘ جو آنے والے دنوں میں ضرب المثل بن گیا۔ (جاری) 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں