ایک سال بیت گیا۔
لگتا ہے صدیاں بیت گئیں۔ میرا گھر سے نکلنا تقریباً بند ہو گیا۔ دوپہریں بور ہو گئیں۔ میری ذہنی نشوونما کا سفر تھم گیا ہے۔ ان کی موت کے بعد کسی سے بات کرنے کو جی نہیں چاہتا تھا۔ شہر میں نظر دوڑائی کہ اب کس کا دروازہ کھٹکھٹائوں۔ کس در پر دستک دوں‘ جس سے نئی کتاب کا ذکر سنوں، جس کے دفتر جائوں تو وہ ہاتھوں میں کتاب لیے بیٹھا جگجیت اور چترا کی غزلیں دھیمی آواز میں سن رہا ہو یا پھر اپنے کمپیوٹر پر انگریزی اخبارات کے لیے مضمون لکھ رہا ہو۔ کوئی ایسا ہو جس سے نئی بات کا پتہ چلے۔ کوئی ایسا جسے میں گھنٹوں سنتا رہوں۔ کوئی جو روزانہ نئی کہانی سنائے‘ ماضی کا کوئی بُھولا بسرا واقعہ۔ وہ جو سول سروس، زراعت، کرکٹ پر اتھارٹی ہو۔ جو بہادر ہو اور کمزور کے ساتھ کھڑا ہونے کی جرات رکھتا ہو۔ کبھی خوشی جس کے چہرے سے پھوٹ رہی ہو تو کبھی یوں لگے کہ گوتم بدھ کی طرح چُپ کا روزہ رکھا ہوا ہے اور صدیوں تک بات کرنے کا موڈ نہیں۔
کئی دفعہ ایسا ہوا کہ میں ان کے دفتر گیا‘ اور محسوس ہوا کہ ڈاکٹر صاحب بات چیت کرنے کے موڈ میں نہیں۔ کتنی ہی دیر ہم ایک دوسرے سے بات کیے بغیر بیٹھے رہتے۔ وہ اپنی کتاب میں گم‘ اور میں دفتر میں پڑی کتابوں میں سے کوئی کتاب اٹھا کر اس میں گم۔ وہ صرف اتنا کرتے کہ گھنٹی بجا کر لڑکے کو بلاتے اور کہتے: چائے لائو۔ پھر ہم دونوں کتابوں میں گم ہو جاتے۔ کچھ دیر بعد پھر اور چائے‘ اور پھر اور چائے۔ چائے کے دور پر دور چلتے رہتے‘ لیکن ہم دونوں چپ، بالکل خاموش۔ پھر خاصی دیر بعد اس وقت دونوں دنیا میں واپس آتے جب خانساماں کہتا: کھانا لگا دیا ہے۔ دونوں چپ چاپ کتاب رکھتے اور میز پر جا کر کھانا کھانے بیٹھ جاتے۔ کھانے کے بعد میں روانہ ہونے لگتا تو کہتے: یار کل جلدی آ جانا، نواب یوسف تالپور آ رہے ہیں۔ میں اتنا جواب دیتا: بریگیڈیر محمود کو بھی بُلوا لیجئے گا۔
اکثر مجھے دن بارہ بجے ہی فون آ جاتا: کدھر ہو بھائی! جاتا ہے تو دور سے نعرہ لگاتے: کہاں غائب تھے؟ کہیں مرغی کی دعوت تو نہیں تھی ہماری دال پسند نہیں آتی۔ میز پر جب تک چھ سات لوگ نہ ہوتے‘ وہ کھانا شروع نہ کرتے۔ سردیوں میں سُوپ تو گرمیوں میں لسی۔ سب کے پیالوں میں سوپ خود ڈالتے۔ جب تک اپنی باری آتی سوپ ختم ہو چکا ہوتا۔ مزید منگواتے اور کسی کا پیالہ ختم دیکھتے تو پھر بھر دیتے۔ آخر میں کچھ بچ جاتا تو ڈال لیتے‘ ورنہ خاموشی۔ اکلوتی بیٹی فریحہ کا موڈ بگڑتے دیکھتے تو مسکرا پڑتے۔ فریحہ کو فکر رہتی تھی کہ وہ خود تو کچھ نہیں لے رہے۔ گرمیوں میں آم آتے تو سب کو دعوتِ شیراز دی جاتی۔ انہیں پتہ تھا‘ مجھے آم بہت پسند ہیں‘ لہٰذا میرے سامنے رکھتے جاتے اور ظاہر ہے کہ میں کھاتا جاتا۔ خود ایک کے بعد دوسرا کھانے لگتے تو فریحہ شور مچا دیتی۔ کہتے: یہ چھوٹے سے تو ہیں‘ ویسے بھی شوگر کنٹرول میں ہے‘ چھوڑو یار اب بندہ آم بھی نہ کھائے۔ فریحہ کا دبائو کم کرنے کے لیے اپنے والد چوہدری الطاف کا ذکر شروع کر دیتے کہ وہ باقاعدہ تہبند باندھ کر پانی سے بھری بالٹی میں بہت سارے آم رکھ کر کھاتے رہتے تھے۔ فریحہ باتوں میں لگ جاتی‘ اور ڈاکٹر صاحب چپکے سے دو تین اور آم کھا لیتے۔
وہ بولتے رہتے۔ میں سنتا رہتا۔ پرانی کتابوں کی کہانیاں۔ کرکٹ کے قصے۔ بھٹو، جنرل ضیائ، بینظیر بھٹو، نواز شریف اور جنرل مشرف دور کے واقعات۔ مجال ہے اُن کی باتیں سن کر آپ بور ہوں۔ وہ سب کچھ برداشت کر لیتے لیکن کسی کی بونگیاں دیر تک برداشت نہ کرتے تھے۔ چاہے کوئی کتنا ہی بڑا آدمی ہو‘ غلط بات کرتا تو اس کو جواب ضرور دیتے‘ لیکن پھر انہیں خیال آتا کہ وہ تو میزبان ہیں‘ لہٰذا خاموش ہو جاتے۔ شاید وہ اس لیے بھی چڑ جاتے تھے کہ خود کتاب کی دنیا کے انسان تھے۔ وہ معیشت سے لے کر تاریخ اور گورننس، فلاسفی پر چھپنے والی پرانی اور نئی کتابیں پڑھتے رہتے تھے‘ لیکن ان کا سامنا ان لوگوں سے ہوتا‘ جنہوں نے درسی کتب کے علاوہ زندگی میں کوئی کتاب نہ پڑھی ہوتی۔ مجھے پتہ تھا کتاب ان کی کمزوری ہے۔ وہ ایک لمحے میں اپنی ساری جائیداد میرے نام لکھ کر دے سکتے تھے‘ لیکن کتاب نہیں دیتے تھے۔ اگر میری نظر ان کی کتاب پر دیر تک ٹھہر جاتی تو مسکرا پڑتے۔ اگلے دن جاتا تو سکینہ یا نصرت اس کتاب کی کاپی خوبصورت کتابی شکل میں لے کر آتیں‘ اور وہ مجھے پیش کر دیتے۔ اکثر کہتے: زندگی میں ایک دفعہ بہت غربت کا احساس ہوا‘ امریکہ میں کتابوں کی ایک دکان پر بہت سارے والیم کی ایک کتاب پسند آ گئی‘ قیمت پوچھی تو تین سو ڈالرز تھی‘ جیب میں دیکھا تو ڈیڑھ سو ڈالرز تھے۔ مرتے دم تک افسوس کے ساتھ ذکر کرتے رہے: یار کیسی عمدہ کتاب ہاتھ سے نکل گئی۔
کالم نگار دوست ارشاد بھٹی اور میری ان سے پہلی ملاقات ان کے فیڈرل سیکرٹری کے دفتر میں انیس سو اٹھانوے میں ہوئی تھی۔ وہیں سے دوستی شروع ہو گئی۔ بھٹی مرکزی پنجاب‘ تو میں جنوبی پنجاب سے آیا تھا۔ ارشاد بھٹی اور میری کہانی ملتی جلتی تھی۔ ڈاکٹر صاحب ارشاد بھٹی کو اس کی ذہانت، جملے بازی، مذاق اور جگت بازی کی وجہ سے پسند کرتے تھے۔ بھٹی کی بے ساختہ جگت کے وہ بہت بڑے مداح تھے۔ جب ڈاکٹر صاحب فیڈرل سیکرٹری کے عہدے سے ہٹائے گئے‘ تو بھٹی کئی دن نظر نہ آیا۔ عرصے بعد وہ دوبارہ سیکرٹری لگے تو بھٹی نمودار ہوا۔ فریحہ نے کہا: لو جی آ گئے۔ بھٹی بولا: جی ہمارا او ایس ڈی یا ریٹائرڈ افسران سے کیا کام... ہم تو حاضر سروس افسران سے بنا کر رکھتے ہیں۔ آپ دوبارہ افسر لگ گئے اور ہم فوراً حاضر۔ یہ سن کر ڈاکٹر صاحب کو اتنے زور کی ہنسی آئی کہ ان کے ہاتھ سے سُوپ کا پیالہ گرتے گرتے بچا۔ فریحہ سے کہا: دیکھو کتنی سچی بات کی ہے‘ سُوپ کا حقدار تو بنتا ہے۔
بہادر، انسان دوست ڈاکٹر ظفر الطاف نے زندگی اپنی شرائط پر گزاری۔ نواز شریف، جنرل مشرف، شوکت عزیز، آصف زرداری‘ سب نے انہیں جھکانے کی کوشش کی۔ ان کے خلاف مقدمے قائم ہوئے۔ گرفتاری کے لئے کوششیں ہوئیں۔ نیب کی پیشیاں بھگتنا پڑیں۔ لیکن ان کے پائے استقامت میں کوئی لغزش نہ آئی۔ بعد میں نیب کے سابق چیئرمین فصیح بخاری نے انہیں وہ عزت دی‘ جس کے وہ حقدار تھے۔ مجال ہے کبھی اپنے خلاف کارروائیوں پر کوئی شکایت کی ہو۔ ہاں جب حکمرانوں نے ان پر 'ہلہ دودھ‘ کو تباہ کرنے کے لیے اینٹی کرپشن کے ذریعے پرچے درج کرائے اور چھاپے مار کر گرفتاری کی کوششیں کیں‘ تو بہت افسردہ ہوئے تھے۔ کہتے: میرے والد چوہدری الطاف اتفاق فائونڈری کے پہلے لیگل ایڈوائز تھے۔ دونوں خاندان اچھی طرح ایک دوسرے کو جانتے ہیں۔ سیاست میں آنے سے قبل دونوں بھائی پنجاب میں ان کے انڈسٹریز کے صوبائی دفتر میں اپنے کاموں کے لیے بیٹھے رہتے تھے‘ اور آج وہی انہیں گرفتار کرنا چاہتے ہیں۔ اس صورتحال پر وہ افسردہ ہو جاتے تھے۔ کہتے: کچھ تو تعلقات کا خیال رکھا جاتا۔ جب فوت ہوئے تو بھی اپنے خلاف بنائے گئے مقدموں میں پیشیاں بھگت رہے تھے اور ضمانت پر تھے۔ چوہتر برس کی عمر میں عدالت میں پیش ہوتے۔ جرم یہ تھا کہ انہوں نے ہلہ ادارے کے ملازمین پر بنائے گئے جھوٹے مقدمات پر حکمرانوں کے اس پیغام کو مسترد کر دیا کہ آپ ان کی پیروی سے دور رہیں۔ بولے: کیسے دور رہوں؟ جو کچھ کرنا ہے کر لو! پنجاب حکومت نے اینٹی کرپشن کے ذریعے مقدمے درج کرا دیے۔ مقدموں کا سن کر وہ مسکرا دیے‘ اور بولے: ساٹھ برس سے زائد کے تعلق کا خیال بھی نہ رہا۔ میں کہتا: سر! اقتدار بھلا کب تعلقات دیکھتا ہے‘ یہاں تو بھائی بھائی کا گلا کاٹ دیتے ہیں‘ ڈاکٹر صاحب! آپ کس کھیت کی مولی ہیں؟گزشتہ برس جب ڈاکٹر صاحب کو زبردستی اسلام آباد کے ایک ہسپتال میں لے جایا گیا‘ تو نصرت نے میری ان سے بات کرائی۔ میں اپنے گائوں میں تھا۔ وہ ہسپتال میں داخل ہو رہے تھے۔ بولے: کدھر ہو بھائی... کب آ رہے ہو؟ یہ مجھے پکڑ کر ہسپتال لے آئے ہیں! میری آواز میں پریشانی محسوس کی تو بولے: سب کچھ ٹھیک ہو جائیگا۔ میں نے کہا: ڈاکٹر صاحب! میں آ جائوں؟ بولے‘ ''کوئی جلدی نہیں... آرام سے سوموار کو دوپہر تک آ جائو‘ کھانا اکٹھے کھائیں گے‘‘۔
یہ ان کے آخری الفاظ تھے۔ لہجے میں وہی توانائی اور جوش‘ اور میرے لیے بے پناہ پیار صاف جھلک رہا تھا۔ میں نے بیوی کو فون کیا اور کہا کہ فوراً ہسپتال جائو‘ لیکن جانے سے پہلے ان کے لیے بکرے کا صدقہ دو۔ اگلے روز میری بیوی نے مجھے فون کیا... پانچ دسمبر کا دن۔ گائوں میں بلدیاتی الیکشن تھا۔ میں پولنگ سٹیشن پر سب کے درمیان بیٹھا تھا‘ لیکن دل و دماغ ڈاکٹر صاحب کی طرف لگا ہوا تھا... ڈرتے ڈرتے فون اٹھایا۔ اسے پتہ تھا‘ میری زندگی میں نعیم بھائی کے بعد ڈاکٹر صاحب کی کیا اہمیت ہے۔ وہ خود حوصلہ نہ کر سکی۔ صرف اتنا بولی: ڈاکٹر صاحب کے بھتیجے رافع الطاف سے بات کرو۔ رافع سے بات کی تو اس کے منہ سے سسکی نکلی۔ انہونی ہو چکی تھی۔ ڈاکٹر صاحب چلے گئے تھے۔
دسمبر وچھوڑے کا سمے ہوتا ہے‘ چاہے انسان انسانوں سے بچھڑ رہے ہوں یا پھر طویل گھنے جنگلوں میں دور دور تک پھیلے زرد پیلے پتے سال بھر کی رفاقت کے بعد نہ چاہتے ہوئے بھی اس شجر سے جھڑ کر مٹی میں گم ہو رہے ہوں‘ جس نے کبھی انہیں جنم دیا تھا۔ اس اداس موسم میں انسان ہوں یا جنگل کے زرد پتے‘ سب بے بسی سے بکھر جاتے ہیںِ۔ سرد موسم کی تاب نہ لا کر اپنی اپنی ٹہنیوں سے بکھر کر زمین کی اتھاہ گہرائیوں میں گم ہو جاتے ہیں۔ درختوں کے پتے تو بہار کے اگلے موسم میں دوبارہ شجر پر اُگ آتے ہیں‘ لیکن اپنے ہاتھوں سے منوں مٹی تلے دفن کیے ہوئے انسان قبروں سے دوبارہ نہیں اُگتے۔
اُداس رتوں میں بچھڑے ڈاکٹر ظفر الطاف اور نعیم بھائی جیسے خوبصورت انسانوں سے ملنے کے لیے مرنا پڑتا ہے!