امریکی صدر ٹرمپ کی پہلی تقریر سے ہی پتہ چل گیا ہے کہ وہ کیا چاہتے ہیں۔ اگرچہ انہوں نے پورا زور ''امریکہ فرسٹ‘‘ پر دیا جیسے کبھی جنرل مشرف نے پاکستان فرسٹ پر دیا تھا اور آخر میں اقتدار بچانے کے لیے این ار آو ڈیل کر لی تھی۔ لیکن یہ بات واضح ہے، ٹرمپ کچھ کہتے رہیں‘ وہ فارن پالیسی پر زیادہ توجہ دیں گے کیونکہ انہوں نے کھل کر کہا ہے کہ وہ مسلم دہشت گردی کو زمین سے مٹا کر دم لیں گے۔ یقیناً اب ان کا فوکس مڈل ایسٹ اور افغانستان پر ہو گا۔ جب افغانستان کی بات آتی ہے تو یقینا پاکستان کا ذکر ہو گا کیونکہ ہم اپنے آپ کو گاڈ فادر سمجھتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ کیا ہم بدلتی دنیا کے ساتھ اپنے آپ کو بدلنے کو تیار ہیں؟ یا ہم نے جو پالیسی انیس سو اسی میں اختیار کی تھی کہ ہم ہی دنیا اور مسلم امہ کے ٹھیکیدار ہیں، وہ جاری رہے گی؟
ویسے یہ بات طے ہے کہ پاکستان کا افغان طالبان پر وہ اثر نہیں رہا جو پہلے تھا اور یقینا امریکہ اور روس کو پتہ ہو گا کہ اب طالبان آزادنہ آپریٹ کرتے ہیں۔ حکمت یار سمجھدار نکلا کہ اس نے وقت پر امریکیوں سے ڈیل کر کے اپنے اسی ہزار لوگوں کے لیے مالی فوائد لیے اور کابل میں اپنے لیے جگہ بھی بنا لی۔ ہمارے پاس حقانی تھے‘ جو ہماری امریکیوں سے صلح نہ کرا سکے۔
جب ٹرمپ یہ کہہ رہے ہیں کہ وہ سب فنڈز اور پیسہ‘ جو بیرون ملک جنگوں پر لگا ہے، اپنے ملک پر خرچ کریں گے تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ کیسے پاکستان کو ہر سال ایک ارب ڈالرز کی کیری لوگر کی امداد جاری رکھیں گے؟ یا کولیشن سپورٹ فنڈ‘ جو پہلے ہی بند ہوچکا ہے‘ بحال کریں گے یا کیسے پاکستان کو سستے ریٹس پر جنگی جہاز فراہم کریں گے؟ اگر امریکہ کی طرف سے سالانہ ڈیڑھ ارب ڈالرز کے قریب کی امداد بند ہو جاتی ہے تو پھر ہم کیسے گیپ پورا کریں گے؟ کیونکہ پاکستانی ایکسپورٹس پہلے ہی کم ہو چکی ہیں۔ پانچ ارب ڈالرز کے قریب ایکسپورٹس پچھلے چار سال میں گری ہیں اور مسلسل گر رہی ہیں۔ سیالکوٹ، گوجرانوالہ اور گجرات کے چیمبرز نے چلاّنا شروع کر دیا ہے کہ سی پیک معاہدے پر دستخط کرنے سے پہلے ان سے بات نہیں کی گئی‘ اور اس کا انہیں نقصان ہو گا کیونکہ سینٹرل پنجاب کے یہ تین اضلاع پاکستان کی ایکسپورٹ کے علاقے مانے جاتے ہیں۔ میں چیمبرز کے سربراہوں کا انٹرویوز دیکھ رہا تھا۔ وہ کہہ رہے تھے کہ سی پیک سے پاکستان کی ایکسپورٹ متاثر ہوں گی اور چینی یقینا فائدے میں رہیں گے۔ ان کی بات میں وزن ہے کہ دنیا پاکستان کی مہنگی چیزیں کیوں خریدے گی‘ جب انہیں سستی چینی اشیا پاکستان کے راستے مل رہی ہوں گی؟ پاکستان کی پیداواری لاگت بہت زیادہ ہے جس کی وجہ سے اس کی اشیا عالمی مارکیٹ میں مقابلہ نہیں کر پاتی۔ یورپی یونین سے جی پلس سٹیٹس ملنے کے باوجود صرف سالانہ ایک ارب ڈالرز کا اضافہ ہوا‘ جس پر خود حکومت نے مایوسی کا اظہار کیا کہ جو فائدہ اٹھایا جا سکتا تھا، وہ نہیں اٹھایا جا سکا اور ایکسپورٹ پہلے کی نسبت کم ہو گئی ہے۔ تو پھر جب چینی پاکستان کے راستے دنیا بھر سے اپنا کاروبار شروع کریں گے تو پھر کیا حالت ہو گی؟
سی پیک کا ہمیں فائدہ صرف اس صورت میں ہو سکتا ہے کہ چین پاکستان کو سڑکیں اور موٹروے بنانے کے لیے قرضہ کی بجائے Build, Operate and Transfer کی ڈیل دے نہ کہ قرضے۔ یہ سڑکیں سب چین نے استعمال کرنی ہیں۔ پاکستانی زیادہ سے زیادہ گوادر کے شوق میں اپنی گاڑی پر طویل سفر کا شوق پورا کر سکیں گے‘ ورنہ یہ تجارتی روٹ پاکستانی تاجروں کو بہت مہنگا پڑے گا۔ جب چیینوں نے ہی یہ سڑکیں استعمال کرنی ہیں تو پھر اس کا قرضہ ہم کیوں ادا کریں؟ میرے ایک ذرائع کا کہنا ہے کہ چین سے پہلے بات کی گئی تھی کہ وہ بلڈ‘ آپریٹ اور ٹرانسفر بنیادوں پر سڑکیں بنائے لیکن انکار کر دیا گیا۔ چینیوں کا کہنا تھا چھوڑیں، آپ نئی روڈز نہ بنائیں‘ ہم پرانے روڈز پر ہی کام چلا لیں گے‘ گوادر تک۔ اس پر طے ہوا، پھر چین ہمیں قرضہ دے اور سڑکیں خود بنائے اور مفت مال گوادر تک لے جائے۔ اب مجھے سمجھائیں کہ پاکستان یہ قرضہ کیسے اتارے گا کیونکہ گوادر پورٹ پر چالیس سال تک ٹیکس فری ہے‘ لہٰذا چینی اشیا‘ جو پاکستان کے راستے دنیا بھر میں جائیں گی‘ ان پر کوئی ٹیکس یا کسٹم نہیں ہو گا۔ ابھی تک یہ نہیں بتایا گیا کہ چینی کنٹینرز سے راہدری یا ٹول پلازہ لیا جائے گا یا نہیں۔ اگر لیا جائے گا تو کتنا ہو گا؟ زیادہ امکانات یہی ہیں کہ چینی کنٹینرز‘ جو ہزاروں کی تعداد میں گزریں گے‘ پر کوئی ڈیوٹی یا ٹول ٹیکس نہیں ہو گا۔
اگر سب کچھ مفت میں ہے تو پھر ہم کہاں سے اربوں ڈالرز کمائیں گے جو ہم چین کو قرضہ واپس کریں گے؟ قرضہ واپس
کرنے کی چند صورتیں ہو سکتی ہیں کہ پاکستان کی ایکسپورٹس یکدم بیس ارب ڈالرز سے پچاس ارب ڈالرز ہو جائیں۔ پاکستان کا ٹریڈ گیپ اس وقت چھبیس ارب ڈالرز ہے۔ ہم بیس ارب ڈالرز کا مال دنیا کو بیچتے ہیں اور چھیالیس ارب ڈالرز کا خریدتے ہیں۔ بیس ارب ڈالرز کے ساتھ اٹھارہ ارب ڈالرز بیرون ملک سے پاکستانی زرمبادلہ بھیجتے ہیں۔ یوں پھر بھی آپ کا گیپ پانچ سے آٹھ ارب ڈالرز کے قریب بنتا ہے۔ وہ ہر سال ہم قرضے لے کر پورا کر رہے ہیں۔ کب تک ہم قرضے لے کر گیپ پورا کریں گے جو بڑھ رہا ہے۔ اور اب سینٹرل پنجاب کے تاجر اور ایکسپورٹر کہتے ہیں کہ سی پیک سے مزید بڑھے گا کیونکہ پاکستانی اشیا کی مانگ کم ہو گی اور پاکستانی لیبر بیروزگار ہو گی۔
یہ قرضے اتارنے کا ایک ہی حل ہے۔ مجھے یاد آرہا ہے کہ دو ہزار تیرہ میں نواز شریف کی نئی حکومت آئی تو سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے فارن افئیرز کو بریفنگ دی گئی۔ اس میں سرتاج عزیز اور سیکرٹری خارجہ جلیل عباس جیلانی بھی شامل تھے۔ وہاں صغریٰ
امام نے فارن آفس پر سخت تنقید کی۔ صغریٰ نے پوچھا کہ آپ نے جو امریکیوں کو نیٹو کنٹینرز پر راہداری دی ہوئی ہے، اس کی فی کنٹینر کتنی راہداری لے رہے ہیں؟ اس پر فارن آفس نے جواب دیا کہ جناب امریکی ہمارے دوست ہیں، ہم نے مفت میں انہیں رہداری دے رکھی ہے۔ یہ سن کر اجلاس میں سناٹا چھا گیا۔ جب صغریٰ امام نے پوچھا کہ یہ آپ کیسے کر سکتے ہیں؟ بارہ سال سے ہر سال ہزاروں کنٹینرز پاکستان سے گزرتے ہیں اور آپ نے ایک ڈالر بھی نہیں لیا؟ صغریٰ نے مزید پوچھا: پھر یہ بتائیں جب سلالہ حملے کے بعد نیٹو سپلائی بند ہو گئی تھی تو امریکیوں نے کیسے افغانستان سپلائی کی؟ فارن آفس نے سینٹرل ایشیا کے ایک ملک کا نام لیا۔ اس پر صغریٰ امام نے پوچھا: تو پھر انہوں نے فی کنٹینر کتنے پیسے لیے تھے؟ فارن آفس کے بابوئوں کا جواب تھا کہ انہوں نے سترہ سو ڈالرز فی کنٹینر امریکیوں سے لیے تھے۔ اس پر صغریٰ امام نے کہا تھا: یہ وہ ظلم ہے جو پاکستان کے سول اور فوجی حکمران اور فارن آفس کے بابو کرتے ہیں۔ امریکیوں سے راہداری لینے کی بجائے مفت میں راستہ دیا جبکہ سینٹرل ایشیا کے چھوٹے ملک نے گھر بیٹھے اربوں ڈالرز آٹھ ماہ میں کما لیے۔ ا گر پاکستان بھی امریکیوں پر ٹیکس لگاتا تو اربوں ڈالرز یہ بھی کماتا‘ لیکن محض ذاتی مفادات اور اپنے بچوں کو امریکہ میں سکالرشپس اور دیگر مراعات کے عوض ان سب نے پاکستان کو مفت میں بیچ دیا تھا۔ جو پیسے امریکیوں سے ہم قانونی طور پر کما سکتے تھے، وہ الٹا ہم ان سے بھیک میں لیتے ہیں اور امریکی اپنی ہزاروں شرائط منواتے ہیں۔
پہلے امریکیوں نے ہمیں مفت نچوڑا۔ اگرچہ امریکی جیسے تیسے بھی ہیں انہوں نے قرضے کی بجائے پاکستان کو تیس ارب ڈالرز امداد دی لیکن اپنے چینی دوستوں کا کیا کریں جو ہمیں قرضہ دے کر خود اپنے لیے سڑکیں بنا رہے ہیں‘ جس کو انہوں نے ہی خود استعمال کرنا ہے۔ چینیوں نے دنیا بھر میں کاروبار کرنا ہے‘ اور ہم نے ان سے لیے ہوئے قرضے واپس کرنے ہیں... کیسے واپس کریں گے؟ جب ایکسپورٹس گر رہی ہوں، قرضے بڑھ رہے ہوں، بجٹ کا ستاون فیصد غیرملکی قرضوں کی واپسی پر لگ رہا ہو تو پھر ہم گنجی کی طرح کیا نہائیں گے اور کیا نچوڑیں گے؟ الٹا ہمیں نچوڑا جا رہا ہے۔ اب بھی وقت ہے کہ ہم چینیوں سے کہیں کہ جناب آپ ضرور ہم سے راستہ لیں۔ اپنا کاروبار کریں، مال کمائیں، چین میں نوکریاں پیدا کریں، کوئی بات نہیں آپ ہمارے دوست ہیں‘ لیکن مہربانی فرما کر اس کاروبار میں ہمیں بھی کوئی حصہ دیں۔ آپ ہمیں فی کنٹینر دو ہزار ڈالر نہیں تو ایک ہزار ڈالرز تو دیں تاکہ جو قرضہ ہمارے اوپر آپ ہی چڑھا رہے ہیں وہ ہم اتار سکیں کیونکہ ہماری ایکسپورٹس تو آپ کی وجہ سے مزید گریں گی۔ یہ کاروبار ہے اور اچھا کاروباری جب منافع کماتا ہے تو وہ بانٹتا بھی ہے۔ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ آپ ہمیں قرضہ دے کر اپنے کاروبار کے لیے سڑکیں بھی بنا رہے ہیں اور امریکیوں کی طرح کوئی ٹیکس اور ٹول بھی نہیں دیں گے۔
امریکیوں اور چینیوں سے اپنی لازوال دوستی پر ایک لطفیہ یاد آرہا ہے۔ ایک خرگوش اور کچھوے کی دوستی تھی۔ ایک صحرا میں تو دوسری پانی کے اندر رہتا تھا۔ ملاقاتیں نہ ہو پاتیں کیونکہ وہ ایک دوسرے کو آواز دے کر نہ بلا پاتے۔ کہیں سے ایک لمبی رسی مل گئی جو ان دونوں نے اپنے اپنے پائوں سے باندھ لی کہ جب دل چاہا دریا کے کنارے پائوں سے بندھی رسی ہلا کر کچھوے کو بلا لیا یا کچھوے نے ساحل پر آ کر خرگوش کے بل کے سامنے رسی ہلا دی اور یوں ملاقات ہو گئی۔ دونوں کی دوستی چل پڑی۔ ایک دن ایک عقاب خرگوش کو جھپٹا مار کر اپنے پنجوں میں لے اڑا۔ وہ اڑا تو نیچے سے کچھوا‘ جو خرگوش کی ٹانگ سے رسی کے ذریعے بندھا ہوا تھا‘ بھی پانی سے ہوا میں لٹک کر اوپر فضا میں آ گیا۔ اب حالت یہ تھی کہ فضا میں عقاب کے پنجوں میں خرگوش تو خرگوش کے پائوں سے بندھی رسی سے نیچے کچھوا اڑ رہا تھا۔ کسی بستی سے وہ تینوں گزرے تو بچوں نے شور مچایا کہ دیکھو دیکھو قیامت کی نشانی ہے کچھوا بھی ہوا میں اڑ رہا ہے۔ کچھوا نیچے دیکھ کر بولا: احمقو، کچھوا اڑ نہیں رہا، یہ دوستیاں نبھا رہا ہے!