حکومت کی طرف سے سپریم کورٹ اور ججوں کے خلاف تیزی سے بنتا حکومتی محاذ دیکھ کر سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی یاد آتے ہیں۔ ان کے دور میں کرپشن کے سکینڈل رپورٹ ہونے شروع ہوئے تو وہ ہر بات پر کہتے، آپ لوگ عدالت کیوں نہیں چلے جاتے؟
ان کے اعتماد کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ ہم کچھ غلط نہیں کر رہے، یہ سب کچھ میڈیا کا کیا دھرا ہے۔ تاہم گیلانی صاحب برداشت کا مادہ بہت رکھتے تھے۔ اگر ان پر کرپشن سکینڈلز نہ ہوتے تو یقین کریں ان کا شمار پاکستان کے ان اچھے وزرائے اعظم میں ہوتا جن میں انکساری اور دوسروں سے اچھی طرح ملنے کی صلاحیت اور اپنے مخالفوں کو حکمت سے ڈیل کرنے کی صلاحیت تھی۔ جب معاملہ عدالت پہنچا تو پھر جو کچھ ہوا وہ سب کے سامنے ہے۔ خیر ان کے ساتھ زیادتی ہوئی۔ یہ ایک آئینی تشریح کا معاملہ تھا جس پر انہیں برطرف کر کے گھر بھیج دیا گیا۔ جن الزامات پر انہیں گھر جانا چاہیے تھا وہ عدالت میں لائے ہی نہیں گئے کیونکہ پاکستان میں کرپشن پر کسی بڑے کو سزا دینا ممکن نہیں رہا۔ عدالتوں نے شروع میں کوشش کی لیکن پھر نیب، ایف آئی اے اور دیگر اداروں کے سربراہوں نے اس میں ایسی رکاوٹیں ڈالیں کہ کچھ نہ ہو سکا۔ میں کتنا عرصہ سپریم کورٹ جا کر عدالتی کارروائی دیکھتا رہا۔ پیپلز پارٹی کے بڑے ہر دور میں یہ شور مچاتے رہے کہ ان کے ساتھ عدالتوں نے انصاف نہیں کیا۔ بھٹو کی پھانسی ہو یا بینظیر بھٹو کی دو بار حکومت برطرف کرنے کا معاملہ، ہر دفعہ فیصلہ پیپلز پارٹی کے خلاف آیا۔ بینظیر بھٹو اور ان کے رفقا کہتے رہے کہ 1990ء کے انتخابات میں انہیں آئی ایس آئی کے چودہ کروڑ روپے کے ذریعے ہرایا گیا۔ ان کا یہ بھی شکوہ رہا کہ کسی عدالت نے طاقتور لوگوں پر ہاتھ نہیں ڈالا۔ لیکن جب چیف جسٹس افتخار چوہدری نے ہاتھ ڈالا اور جنرل اسلم بیگ اور جنرل درانی کو بلا کر ان پر سارا مدعا ڈال کر ایف آئی اے کو کہا کہ ان کے خلاف مزید کارروائی کی جائے، کمشن بنایا جائے، تو پیپلز پارٹی مکر گئی۔ اس وقت پیپلز پارٹی کی حکومت تھی جب یہ فیصلہ آیا۔ بینظیر بھٹو کو ہرانے کے لیے نواز شریف سمیت دیگر سیاستدانوں کو پیسے دیے گئے تھے۔ اس وقت پیپلز پارٹی ڈرگئی۔ فیصلہ نہیں آیا تھا تو روزانہ عدالتوں پر تبرا کیا جاتا تھا اور جب عدالت نے حکم دیا کہ ان سیاستدانوں کے خلاف کارروائی کی جائے تو وہی پیپلز پارٹی دم دباکر بھاگ گئی۔ شاید یہ سب لوگ انصاف نہیں چاہتے بلکہ شور شرابا کرنا چاہتے ہیں تاکہ وہ لوگوں کی ہمدردیاں سمیٹتے رہیں۔ قمر زمان کائرہ نے فرمایا، ہم نواز شریف کی داڑھی ایف آئی اے کے ہاتھ نہیں دینا چاہتے۔ کمال فرار اور کمال جملہ!
یہی کچھ نواز شریف کے حامی کر رہے ہیں۔ اُس وقت عدالتیں اچھی تھیں جب نواز شریف اور شہباز شریف کالے کوٹ پہنچ کر سپریم کورٹ پہنچ گئے اور پیپلز پارٹی حکومت کے خلاف میمو گیٹ سکینڈل پر وطن دشمن ہونے کا الزام لگوا کر کمشن بنوالیا۔ اگر اُس وقت زرداری اور گیلانی کے خلاف میمو گیٹ پر کمشن بنوانا جائز تھا یا گیلانی کو برطرف کرنے کی حمایت کرنا درست تھا تو اب کیسے نواز شریف کے حامی ان کے خلاف چلنے والے کیس پر شور مچاتے ہیں؟ ان کے بقول، اگر عدالتیں منتخب ارکان کا احتساب نہیں کرسکتیں تو گیلانی اور زرداری کا احتساب کیونکر ہوا؟ نواز لیگ عدالتوں کے ذریعے احتساب کروا رہی تھی، وزیر اعظم برطرف ہورہے تھے اور حسین حقانی کو نوکری چھوڑنے پر مجبور کیا جا رہا تھا۔
دوسرے یہ کہ اگر عدالتیں منتخب لوگوں سے پوچھ گچھ نہیں کرسکتیں کہ وہ جو چاہیں کرتے رہیں، تو پھر بتایا جائے کہ ایک عام آدمی کو کیسے عدالت بلاسکتی ہے؟ انصاف کا اصول تو یہ بنایا گیا تھا کہ معاشرے کے طاقتور لوگ اگر کوئی غلط کام کریں تو ان پر ہاتھ ڈالا جائے تاکہ کمزور لوگ معاشرے میں اپنے آپ کو بے بس اور تنہا محسوس نہ کریں ۔ پھر ایک معاشرہ بنانے کی ضرورت ہی کیوں پیش آئی، اگر سب طاقتور لوگ جو چاہیں بد مست ہاتھی کی طرح کرتے پھریں؟ اگر یہ بات مان لی جائے تو پھر نواز لیگ کو ان تمام عدالتوں کو ختم کردینا چاہیے اور جو پیسہ وہاں خرچ ہو رہا ہے اسے باہر لے جائیں، جیسے پہلے پاناما لے گئے تھے۔
تو کیا معاشرے کے چند طاقتور طبقات کی خوشنودی کے لیے پورے معاشرے کو الٹ پلٹ کردیا جائے؟ یہ کام تو امریکہ میں ایک جج نے نہیں ہونے دیا۔ جج نے ٹرمپ کے اقدام کو ایک لمحے میں یہ کہہ کر باہر پھینک دیا کہ وہ اس بات کی اجازت نہیں دے سکتے کہ دنیا کے سات مسلمان ملکوں کے لوگوں پر سفری پابندی لگا دی جائے۔ اس فیصلے کے خلاف ٹرمپ نے وہی ردعمل دیا جو پاکستانی حکمران دیتے ہیں کہ وہ جو چاہیں کر سکتے ہیں۔ در اصل سب حکمران ایک جیسے ہوتے ہیں کہ لوگوں نے ووٹ دے دیا اب وہ جو چاہیں بد مست ہوکر معاشرے کے ساتھ کرتے پھریں۔
آج کل ایک بڑی بات ہو رہی ہے کہ شاید عدالت کے ساتھ وہی حشر کیا جائے جو 1998ء میں چیف جسٹس سجاد علی شاہ کے ساتھ کیا گیا تھا۔ ان کی عدالت پر اس وقت حملہ ہوا تھا جب اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کو بلا کر توہین عدالت کے مقدمے کی سماعت شروع کی گئی تھی۔کچھ عرصہ بعد ججوں میں بغاوت کرادی گئی جس کے نتیجے میں سجاد علی شاہ کی چھٹی ہوگئی۔
میرا خیال ہے، اُس وقت اور اِس وقت میں بہت فرق ہے۔ اس وقت بینظیر بھٹو، نواز شریف کے ساتھ مل چکی تھیں کیونکہ ان کی حکومت کے خلاف سازشیں کرنے والوں میں فاروق لغاری کے ساتھ چیف جسٹس سجاد علی شاہ بھی شامل تھے۔ ان کی حکومت برطرف ہوئی اور بحال نہیں کی گئی تھی۔ اس پر بینظیر بھٹو اپنے سندھی چیف جسٹس سے بہت ناراض تھیں کہ انہوں نے جسے چیف جسٹس بنایا وہی ان کے خلاف ہوگیا۔ بینظیر بھٹو نے سوچا کہ وہ نواز شریف سے بعد میں نمٹ لیں گی، پہلے انہیں فاروق لغاری اور سجاد علی شاہ کو فکس کرنا چاہیے۔ اس لیے انہوں نے نواز شریف کے ساتھ مل کر آٹھویں ترمیم ختم کروا کے فاروق لغاری کی حکومت توڑنے کے اختیارات ختم کرا دیے، انہیں ڈمی بنادیا۔ لہٰذا سجاد علی شاہ کی عدالت پر حملے کے خلاف کوئی بڑا ردعمل نہ دیا۔ یوں ان کے دونوں مخالف فارغ ہوگئے۔
لیکن اب حالات مختلف ہیں ۔ عمران خان کی میدان میں موجودگی کی وجہ سے نواز لیگ وہ نتائج حاصل نہیں کرسکے گی جو ماضی میں عدالت پر حملے کر کے حاصل کیے گئے تھے۔ معاشرہ بہت بدل گیا ہے۔ اب کچھ سوچ سمجھ کر ہی عدالت کو ڈیل کرنا ہوگا۔
نواز شریف کے کچھ سیانوں کی دھواں دھار تقریریں سن کر مجھے ایک سرائیکی کہاوت یاد آ رہی ہے۔ ایک بچہ گائوں کے کنویں میں گر گیا۔ گائوں والوں نے ایک سیانے کو بلایا کہ اسے کیسے نکالا جائے۔ اس نے کہا کون سی مشکل بات ہے۔ اس نے ایک آدمی کو رسی دے کر کنویں میں اتارا، بچے کی کمر سے رسی باندھی اور لوگوں کو کہا اوپر کھینچ لو۔ بچہ زندہ سلامت باہر نکل آیا۔ کچھ دن بعد وہی بچہ درخت پر چڑھ گیا اور نیچے نہیں اتر سکتا تھا۔ پھر اس سیانے کو بلایا گیا۔ اس نے کہا ابھی اتارتے ہیں۔ ایک بندے کوکہا رسی لے کر درخت پر چڑھ جائو، بچے کی کمر کے گرد رسی باندھو، جب رسی بندھ گئی تو نیچے کھڑے لوگوں سے کہا، اب نیچے کھینچو، بچہ دھڑام سے گرا اور مرگیا۔گائوں والوں نے کہا، او سیانے! تیرا بیڑا غرق ، بچہ مار دیا۔ سیانا بولا، اس بچے کی قسمت خراب تھی۔ اسے موت آئی ہوئی تھی ورنہ تم سب گواہ ہو، میں نے چند دن پہلے اس کو اسی طریقے سے کنویں سے زندہ نکال لیا تھا!