"RKC" (space) message & send to 7575

تاریخی نوٹ

پاناما سکینڈل کی سماعت عروج پر تھی۔ ارشد شریف کے ہاتھ میں کتاب دیکھ کر چھین لی۔ ارشد شریف نام کی طرح شریف بھی ہے‘ لہٰذا اس نے کتاب میرے حوالے کر دی۔ ارشد شریف سے کئی ایسی کتابیں چھین چکا ہوں۔ اس کتاب کا نام ہے: ''Judging with passion‘‘ اور یہ لکھی ہے سپریم کورٹ کے جج جسٹس آصف سعید کھوسہ نے۔ 
اس کتاب کے دبیاچہ نے مجھے چونکا دیا‘ جب میں نے جسٹس کھوسہ کے والد فیض محمد خان کھوسہ کے اپنے بیٹے جسٹس آصف سعید کھوسہ کے بارے میں ریمارکس پڑھے۔ وہ لکھتے ہیں '' میرا بیٹا آصف سعید بچپن سے ہی اپنے فیصلے اپنی مرضی سے کرتا تھا۔ اس نے اپنی زندگی کے فیصلے خود کیے اور ان پر قائم رہا۔ اپنی زندگی میں اپنے چوائس بھی خود کیے اور وہ کسی سے متاثر ہو کر فیصلے یا چوائس کرنے اور دبائو میں آنے والا نہیں ہے۔ ‘‘ 
فیض محمد کھوسہ لکھتے ہیں '' آصف سعید نے ساری عمر وہی کچھ کیا جو اس کے خیال میں درست تھا اور وہ ہمیشہ سے آزاد اور مستقل مزاج رہا۔ اس کا یہ آزادانہ مزاج بچپن سے سامنے آنا شروع ہو گیا تھا۔ اسے کوئی بھی دھمکی نہیں جھکا سکتی تھی‘ نہ ہی کوئی اس کی قوتِ فیصلہ پر اثرانداز ہو سکتا تھا۔ میں آصف کو سی ایس پی افسر بنانا چاہتا تھا (ویسے کھوسہ صاحب کے دو بھائی سابق ڈی جی ایف آئی اے طارق کھوسہ اور سابق چیف سیکرٹری ناصر کھوسہ سی ایس پی ہیں) لیکن آصف نے خود ہی وکیل بننے کا فیصلہ کیا۔ وہ کسی کا غلام یا نوکر نہیں بننا چاہتا تھا۔ حکومتوں کا ماتحت بن کر نوکری نہیں کرنا چاہتا تھا‘ کیونکہ اس کا خیال تھا کہ سول سروس میں بھی حکومت کے نیچے لگ کر کام کرنا پڑتا ہے۔ اسے اس خیال سے ہی چڑ تھی کہ کوئی اس کا باس بن کر اسے حکم دے‘ حتیٰ کہ جب اس کا نام جج کے لیے زیرِ غور تھا تو وہ بہت ہچکچاہٹ کا شکار تھا اورجج نہیں بننا چاہتا تھا۔ میں نے مرحوم اعجاز بٹالوی کو درخواست کی‘ جس کی آصف بہت عزت کرتا تھا‘ کہ وہ اسے راضی کریں اور وہ لاہور ہائی کورٹ کا جج بن جائے۔ بٹالوی صاحب کئی روز تک آصف کو سمجھاتے رہے اور آخرکار آصف سعید کو یہ دلیل دے کر راضی کیاکہ '' جج کسی کے نیچے نہیں ہوتا اور نہ ہی وہ کسی کا ماتحت ہوتا ہے اور تو اور چیف جسٹس بھی اس کا باس نہیں ہو گا کیونکہ وہ سب برابر ہی سمجھے جاتے ہیں۔‘‘ اس طرح آصف سعید کھوسہ لاہور ہائی کورٹ بینچ کے جج بنے۔
شاید ارشد شریف بھی یہ سب کچھ پڑھ کر چند دوستوں سے شرط لگا بیٹھا تھا کہ وزیر اعظم کا پاناما سکینڈل سے بچنا مشکل ہے اور وہ برطرف ہوں گے‘ کیونکہ جو کچھ کھوسہ صاحب کے بارے میں ان کے والد فیض محمد کھوسہ نے لکھا تھا‘ اس کے بعد یہی توقع تھی۔ ارشد کی شرط کھوسہ صاحب کی حد تک درست نکلی۔ جسٹس کھوسہ نے اپنے مرحوم والد کی اپنے بارے میں دی گئی رائے کو درست ثابت کیا کہ وہ کسی سے ڈرنے والے نہیں اور نتائج کی پروا کیے بغیر فیصلہ کرنے کی قوت رکھتے ہیں۔ وہ شاید اس تاریخی جملے پر یقین رکھتے ہیں کہ ''آسمان گرتا ہے گرنے دو‘ انصاف ہونا چاہیے‘‘۔ بہت مشکل کام تھا جو جسٹس آصف سعید کھوسہ اور جسٹس گلزار نے کر دکھایا۔ بہت بڑا مقدمہ تھا۔ حاکمِ وقت کے خلاف فیصلہ بھلا کب کس نے کیا ہے؟ نوعیت ہی کچھ ایسی تھی۔ کتنے ہی بیانات دیے گئے‘ بلیک اینڈ وائٹ فیصلے کی ہدایات دی گئیں۔ لہو تک حاضر ہونے کی پیشکش کی گئی۔ ڈرانے کے لیے ہر طرح کے حربے استعمال کیے گئے۔
اب محسوس ہوتا ہے کہ جسٹس کھوسہ کے خلاف دھیرے دھیرے ایک نیا محاذ بنایا جا رہا ہے تاکہ ان کے اختلافی نوٹ کی اہمیت کو کم کیا جائے‘ جس میں انہوں نے شریف خاندان کی مبینہ کرپشن کا پوسٹ مارٹم کیا ہے اور کچھ ایسا کیا ہے کہ آج تک نہیں ہوا ہو گا۔ حکمرانوں کی کئی دہائیوں کی کرپشن کی تفصیلات کا جائزہ لیا گیا ہے کہ کیسے وہ بڑے بڑے مقدمات اپنے خلاف اقتدار میں آتے ہی عدالتوں کے ذریعے سیٹل کرا لیتے ہیں اور صاف بچ نکلتے ہیں۔ پاناما کیس میں شریف خاندان کی طرف سے پیش کیے گئے قطری خطوط اور ان کے ٹی وی انٹرویوز کا تقابلی جائزہ بھی لیا گیا‘ جو اپنی جگہ ایک کلاسک ہے۔ اب دو اعتراضات آ رہے ہیں‘ یہ کہا جا رہا ہے کہ رائے کا آغاز قرآن پاک کی بجائے ''گاڈ فادر‘‘ کے ایک فقرے سے کیوں کیاگیا‘ کیا جواز ہے! جن لوگوں کے خلاف وہ ججمنٹ لکھ رہے تھے‘ وہ اگر قرآن سے ڈرتے ہوتے تو ان کی دنیا بھر میں اتنی جائیدادیں ہوتیں جن کی تفصیلات کا انہیں خود بھی علم نہیں کہ کون سی کب خریدی اور وہ کس کے نام پر ہے؟ اگر قرآن پاک گھروں میں موجود ہے اور اس کی موجودگی لوگوں کو آخرت کے عذاب سے نہیں ڈرا سکتی تو کیا ججمنٹ میں ذکر کرنے سے یہ ڈر جاتے اور سب توبہ تائب ہو کر جائیدادیں بیچ کر پیسے پاکستان کے خزانے میں جمع کرا دیتے؟ ویسے اگر پوری ججمنٹ پڑھی جائے تو اندازہ ہو گا کہ غالباً یہ کوئی ایسی مافیا کی کہانی ہے جس کی جیب میں جج، صحافی، پولیس اور غنڈے تک سب موجود ہیں۔ جو اپنے خلاف کوئی مقدمہ جب چاہے خارج کرا سکتا ہے۔ کھوسہ صاحب کی ججمنٹ پڑھیں تو لوگوں کو اندازہ ہو گا کہ جب انہوں نے گاڈ فادر کا حوالہ دیا تو ان کے ذہن میں کیا چل رہا تھا۔ ماریو پزو زندہ ہوتا اور اس پورے سکینڈل کی تفصیلات اس تک پہنچتیں تو شائد گاڈ فادر سے بھی بڑا ناول جنم لیتا۔
دوسرا اعتراض یہ آ رہا ہے کہ اس ججمنٹ پر اتنا ہنگامہ کیوں؟ اسے کیوں اتنی اہمیت مل رہی ہے؟ جن لوگوں کو اس ججمنٹ سے کھوسہ صاحب کے پاپولر ہونے سے تکلیف ہو رہی ہے‘ انہیں ذہن میں رکھنا چاہیے کہ یہ لوگ یعنی عوام ہوتے ہیں جو ججوں کے فیصلوں کو پاپولر یا مستردکرتے ہیں۔ میڈیا لاکھ چاہے وہ کوئی ایسی چیز کو عوام کو نہیں بیچ سکتا جو بکنے کے قابل نہ ہو۔ اگر یہ ہو سکتا تو جنرل ضیا بھٹو کے خلاف ججمنٹ کو تاریخ میں اعلیٰ درجہ دلوا دیتا۔ 
بھٹو صاحب کے خلاف جب قتل کا مقدمہ چل رہا تھا تو کون سے وہ تین جج تھے جنہوں نے اس وقت حاکم وقت کی خواہشات کے برعکس فیصلہ لکھ کر بھٹو کو پھانسی دینے کے فیصلے کی مخالفت کی تھی؟ کتنا دبائو تھا ان ججوں پر بھی کہ نوکری کرنی ہے تو بھٹو کی پھانسی کے فیصلے پر دستخط کرو۔ وہ تین جج ڈٹ گئے تھے اور جنرل ضیا کی خواہشات کے برعکس نوٹ لکھے۔ چار ججوں نے کہا '' بھٹو کو پھانسی دو‘ تین نے کہا‘نہیں‘ پھانسی مت دو۔ آج لوگ کن ججوں کی دل سے عزت کرتے ہیں؟ جسٹس حلیم، جسٹس دراب پٹیل اور جسٹس صفدر شاہ کی عزت کی جاتی ہے‘ یا ان چار ججوں کی جنہوں نے اکثریتی فیصلے سے بھٹو کو پھانسی دی تھی؟ وہ تین اقلیتی فیصلے لکھنے والے جج آج بھی تاریخ میں زندہ ہیں۔ جن چار اکثریتی ججوں نے اکثریتی فیصلے سے بھٹو کو پھانسی دی تھی انہیں کوئی نہیں جانتا۔
تاریخ اپنے فیصلے خود کرتی ہے کہ کس کا نوٹ اکثریتی ججمنٹ سے بھی زیادہ اہمیت کا حامل ہو گا اور تاریخ میں محفوظ رہے گا‘ اور اکثریت بھی حاکم وقت سے ڈر کر فیصلے کرے گی تو مستقبل میں ان کی عدالتوں میں کوئی ریفرنس دینا بھی پسند نہیں کرے گا۔ یہ بھی تاریخ کا ان چار ججوں سے انتقام ہے کہ ان اکثریتی ججوں کی ججمنٹ‘ جو انہوں نے بھٹو کو پھانسی دینے پر لکھی تھی‘ کا ریفرنس اب وہی سپریم کورٹ وکیلوں کو نہیں دینے دیتی جہاں سے بھٹو کو پھانسی کا فیصلہ سنایا گیا تھا۔ اُس وقت بھی بھٹو کے بارے میں جنرل ضیا کے دبائو پر دیے گئے غلط فیصلے پر میرے جیسے طبلچیوں اور درباریوں نے چار اکثریتی ججوں کے فیصلوں پر داد دی تھی اور آج بھی دے رہے ہیں۔ وقت نے اپنا فیصلہ بھی سنا دیا بھٹو کیس میں اصل انصاف پر مبنی فیصلہ وہی تھا‘ جو تین اقلیتی ججوں نے دیا تھا۔ حاکمِ وقت کے خلاف فیصلے دے کر جسٹس آصف سعید کھوسہ اور جسٹس گلزار بھی جسٹس حلیم، جسٹس دراب پٹیل اور جسٹس صفدر شاہ جیسے بہادر ججوں کی غیرمعمولی قطار میں جا کھڑے ہوئے ہیں۔ اکثریتی فیصلے ہمیشہ درست نہیں ہوتے اور بھٹو کیس میں یہ تاریخی طور پر ثابت بھی ہو گیا۔ 
وقت کے صحرا میں برسوں بعد شاید میرے جیسا بھولا بھٹکا سادھو سنت فقیر بھی جسٹس گلزار اور جسٹس آصف سعید کھوسہ کے اس طرح گیت گا رہا ہو گا‘ جیسے میں آج 38 برس بعد بھی جسٹس دراب پٹیل، جسٹس صفدر شاہ اور جسٹس حلیم کے‘ ان کی وفات کے بعد بھی گا رہا ہوں۔ تاریخ کا فیصلہ یہ ہے کہ اکثریتی فیصلے ہمیشہ درست نہیں ہوتے!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں