اب کہا جا رہا ہے سب قصور وکیلوں کا تھا‘ ہمارے پاس تو بہت ثبوت تھے لیکن ان نکمے وکیلوں نے مروا دیا۔
حیران ہوتا ہوں وکیل کہاں سے ثبوت لاتے اور عدالت کو مطمئن کرتے کہ لندن میں جو جائیدادیں خریدی گئی تھیں‘ ان کے لیے استعمال ہونے والا جائز پیسہ تھا؟ شرطیہ کہتا ہوں کسی ایک وکیل کو بھی اصلی صورت حال نہیں بتائی گئی ہو گی۔ کون ان وکیلوں پر اپنی اربوں ڈالرز کی جائیداد کی اصل تفصیلات شیئر کرکے رسک لیتا کہ اس کی فیملی کے اربوں ڈالرز کے راز کچھ لوگوں تک پہنچ جائیں۔
شاید حکمران خاندان نے وکیلوں پر بھروسہ کرنا اس دن سے چھوڑ دیا تھا‘ جب سے ان کے پرانے وکیل اعتزاز احسن نے اپنی توپوں کا رخ ان کی طرف کر دیا تھا۔ جنرل مشرف دور میں جب کوئی بھی نواز شریف فیملی کا مقدمہ لینے کو تیار نہیں تھا ، یہ اعتزاز احسن ہی تھے جنہوں نے بہادری دکھائی اور ان کے کچھ مقدمات لڑے۔ یہی وجہ تھی جب 2007ء میں اعتزاز احسن لندن گئے اور جلاوطنی میں بینظیر بھٹو اور نواز شریف سے ملے تو انہیں شریف فیملی نے بی بی سے زیادہ پروٹوکول دیا تھا جب کہ بی بی کچھ دن تو اعتزاز سے نہ ملیں۔ اگرچہ عزت افزائی کی فوری وجہ اعتزاز احسن کا چیف جسٹس بحالی تحریک کا لیڈر ہونا تھا ۔ بی بی ان سے خوش نہیں تھیں جبکہ شریفوں کو اس تحریک میں اپنا فائدہ نظر آتا تھا کہ مشرف کے کمزور ہونے اور افتخار چوہدری جیسے جج کی واپسی ان کے لیے بھی راستے کھول سکتی تھی ۔ شریف خاندان کو بلاواسطہ دو چیزوں کا بہت فائدہ ہوا۔ ایک بے نظیر بھٹو کی جنرل مشرف سے این آر اوڈیل‘ جس نے شریف خاندان کی واپسی کا بھی راستہ کھولا اور دوسرے افتخار چوہدری کی بحالی‘ کیونکہ بحال ہونے کے بعد افتخار چوہدری کی عدالت سے ہی نواز شریف پر جنرل مشرف دور میں دی گئی عمر قید کی سزا اور دیگر مقدمات کو نو برس بعد ختم کردیا گیا۔
تاہم ایک دن جب میں نے سعد رفیق کو سینٹ میں اعتزاز احسن پر شدید تنقید کرتے ہوئے سنا کہ وہ چوروں ڈاکوئوں، قبضہ گروپس مافیا اور ایل پی جی کنگ جیسے کرپٹ لوگوں کی وکالت کرتے ہیں تو کہہ بیٹھا شاید انہیں پتہ نہیں کہ اعتزاز احسن کبھی شریف خاندان کے بھی وکیل رہے ہیں۔ خیر اعتزاز احسن کو یقینا ان دنوں میں وکیل ہونے کی حیثیت سے شریف خاندان کے اندورنی کاروبارکی سب نہیں تو کچھ اطلاعات یقینا ملی ہوں گی تاکہ وہ ان کا مقدمہ لڑ سکیں ۔ اس لیے اعتزاز احسن جب شریف خاندان کے کٹر مخالف کے طور پر سامنے آئے تو انہوں نے ہی سب سے زیادہ نقصان انہیں پہنچایا ۔وزیر اعظم کے غیرمعمولی امیر ہونے کے باوجود صرف پانچ ہزار روپے سالانہ ٹیکس کی بات بھی اعتزاز احسن نے شروع کی۔ اس لیے اب کی دفعہ آپ نے محسوس کیا ہوگا کہ ہاوس آف شریف خاندان نے وکیلوں پر وہ بھروسہ نہیں کیا‘ جو انہیں کرنا چاہیے تھا اور اعتماد میں لے کر ان سے مشورہ کر کے کوئی جواب تیار کر کے عدالت میں جمع کراتے۔ اس لیے شیخ اکرم کو کہنا پڑ گیا اسے جو ہدایات کلائنٹ کی طرف سے ملتی تھیں وہ عدالت میں اس کے مطابق اپنا رویہ رکھتے تھے۔ وہ کہتے ہیں انہیں کہا گیا کہ وہ یہ لفافہ عدالت میں بند کر کے پیش کریں اور انہوں نے اسے نہیں کھولا اور ویسے کا ویسے ہی عدالت میں پیش کردیا۔ ان کی بات میں وزن ہے کیونکہ جسٹس کھوسہ کا نوٹ پڑھیں تو صاف پتہ چلتا ہے کہ کس انداز میں وہ قطری خط عدالت میں پیش کیا گیا۔ جسٹس کھوسہ لکھتے ہیں کہ انتہائی ڈرامائی انداز میں وہ خط عدالت میں پیش کیا گیا۔ یہ اور بات ہے کہ اس قطری خط کا جس طرح پوسٹ مارٹم پانچوں ججوں نے کیا اور سب سے بڑھ کر جسٹس کھوسہ نے کیا وہ اپنی جگہ ایک کلاسک ہے۔ کھوسہ صاحب نے تو یہاں تک لکھا جس نے بھی شریفوں کو یہ خط عدالت میں جمع کرانے کا مشورہ دیا‘ اس نے ان سے کوئی دوستی نہیں نبھائی۔ اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے اگر شریف خاندان اپنے وکیلوں پر اعتماد کرتا اور ان سے مشورہ کرتا کہ آیا انہیں قطری خط پیش کرنا چاہیے اور اگر کیا تو عدالت کا کیا ردعمل ہوگا تو شاید یہ حالت نہ ہوتی جو اس خط کے بعد ہوئی کہ اپنے اوپر تمام دروازے بند کردیے گئے۔ اس سے صاف پتہ چلتا ہے وکیلوں سے مشورہ کم کیا گیا اور
انہیں اوپر سے محض ہدایات دی جاتی رہیں کہ انہوں نے کیا کرنا اور کہنا ہے۔ اس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ لہٰذا اس وقت وکیلوں پر ملبہ ڈالنا شاید مناسب نہیں ہوگا ۔
یاد پڑتا ہے کہ ایک ٹی وی شو میں قطری خط کے حوالے سے میں نے سوال اٹھایا تھا کہ کیا وکیلوں کی کوئی اخلاقیات ہوتی ہیں کہ اس طرح کے بڑے مقدمات میں وہ اپنے کلائنٹ سے فیس کے علاوہ بھی کچھ طے کرتے ہیں؟ کیا فیس طے کرنے سے پہلے وہ یہ دیکھتے ہیں کہ جس مقدمہ کی پیروی انہوں نے کرنی ہے کیا اس کے لیے اتنے ثبوت موجود ہیں کہ انہیں عدالت میں جج کے سامنے اپنے کلائنٹ کا مقدمہ لڑتے پریشانی نہیں ہوگی اور نہ ہی اس پر طنز کے تیر برسائے جائیں گے؟ مان لیتے ہیں کہ وکیل کرنا ہر ملزم یا انسان کا حق ہے اور اسے اپنے دفاع کے لیے ہر قسم کے ذرائع بروئے کار لانے چاہئیں ۔ تاہم یہ بھی شاید اخلاقیات میں شامل ہوتا ہے کہ اگر آپ کا کلائنٹ آپ کو پورے ثبوت نہیں دے پاتا جس کی بنیاد پر آپ اس کا مقدمہ جیت سکیں اور آپ کو پتہ ہے کہ آپ کا کلائنٹ واقعی اس الزام میں ملوث ہے تو پھر آپ اسے کہتے ہیں کہ جناب عدالت میں اعتراف کریں وہ انہیں کم سے کم سزا دلانے کی کوشش کریں گے۔ عدالت سے ایماندارنہ اعتراف کے بدلے میں رعایت لے کر دیں گے اور ایسی رعایتیں دنیا بھر میں جج ملزم کو دیتے ہیں ۔
اگر میرے پاس کوئی خبر یا سکینڈل لاتا ہے تو بھلا میں کیسے دستاویزات کے بغیر وہ سکینڈل فائل کرسکتا ہوں؟ کل کلاں کو جب مجھ سے پوچھا جائے کہ اس سکینڈل کا ثبوت دو تو میں کیسے کہہ سکتا ہوں کہ جناب یہ تو سب سنی سنائی بات ہے ۔ میرے پاس کوئی ثبوت نہیں۔ تو کیا میری بات پر یقین کر لیا جائے گا؟ اب تک تو کسی نے یقین نہیں کیا۔ کتنی دفعہ مجھے پیمرا طلب کرچکی کہ سکینڈل کے ثبوت دو۔ سپریم کورٹ نے پانچ دفعہ بلایا کہ جو سکینڈل فائل کیے ہیں‘ ان کے ثبوت پیش کرو۔ اگر میں ثابت نہ کرسکتا تو مجھے ساکھ کھونے کے علاوہ بہت سا جرمانہ اور ہرجانہ بھی بھرنا پڑسکتا تھا۔ اس لیے جب ایک صحافی کو یہ رعایت حاصل نہیں کہ وہ بغیر مناسب دستاویزات اور ریسرچ کے کوئی سکینڈل فائل نہیں کرسکتا ایسا ہی وکیل پر بھی کچھ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس طرح کا مقدمہ جس میں کوئی عام آدمی نہیں بلکہ ملک کا وزیراعظم اور اس کے بچے ملوث ہوں وہ یہ کیس اس وقت لیتے جب پوری طرح مطمئن ہوتے کہ واقعی ان کے پاس اتنے ثبوت ہیں کہ وہ کیس جیت جائیں گے۔
اب کہا جاسکتا ہے بھلا وکیلوں کے بغیر وہ کیسے اپنا مقدمہ لڑتے چاہے وہ غلط اور جھوٹے ہی کیوں نہیں تھے؟ میرا خیال ہے کئی ایسی مثالیں موجود ہیں جہاں ملزم اور مدعی تک اپنا مقدمہ خود لڑ لیتے ہیں ۔ شیخ رشید نے بھی مدعی ہوکر اپنا مقدمہ خود پیش کیا اور بہتر پیش کیا اور ان کے دلائل کا ججوں کے نوٹس میں بہت ذکر ہے۔ ویسے یہ بات طے ہے کہ ملزموں کو اس وقت وکیلوں کی ضرورت نہیں رہتی ‘جب وہ خود مقدمہ لڑنے کا فیصلہ کرتے ہیں‘ جب انہیں اپنی بے گناہی کا یقین ہوتا ہے۔ جب آپ کو پتہ ہوتا ہے کہ آپ تنگ گلی میں پھنس گئے ہیں تو پھر آپ کوایک چھوڑیں درجنوں وکیلوں کی ضرورت پڑتی ہے۔ ایک ٹیم ہٹا کر دوسری لاتے ہیں لیکن پھر بھی مقدمے کے بعد سارا ملبہ وکیلوں پر ڈال دیتے ہیں۔ویسے معذرت کے ساتھ عرض کروں گا، شریف خاندان کے ان بڑے بڑے وکیلوں نے بھی تگڑی فیسوں کو دیکھا۔ اگرچہ انہوں نے بھاری فیس کی شکل میں ملنے والے نوٹوں کے اصلی ہونے کی تسلی یقیناکی ہوگی ۔ اگر اس دل جمعی سے وہ پاناما سکینڈل کے ثبوتوں کو دیکھ کر یہ کیس پکڑتے تو آج ان کی سرعام اتنی''عزت افزائی‘‘ نہ ہورہی ہوتی ۔ نہ انہیں یہ سننے کو ملتا کہ ہمارے پاس تو ثبوتوں کے انبار تھے لیکن ظالموں نے کیس ہروایا دیا ‘پھنسوا دیا۔ پانامہ سکینڈل جیسے بڑے مقدمے میں‘جس پر پوری دنیا کی نگاہیں لگی ہوئی تھیں‘ پروفیشنل ساکھ ، ٹھوس ثبوت اور بھاری فیسوں میں سے کسی ایک چیز کا انتخاب ہوسکتا تھا ۔ ہمارے قابل احترام وکیل دوستوں کی فوج ظفر موج نے شاید پروفیشنل ساکھ اور ٹھوس ثبوتوں کو ایک طرف رکھ کر، بھاری فیس کا انتخاب کیا ۔