فنکشن ہو، سیمینار ہو، کالج ہو یا کوئی یونیورسٹی میں لیکچر دینے سے گریز کرتا ہوں۔ اگرچہ یہ اچھی بات نہیں‘ بہت سارے دوست ناراض ہو جاتے ہیں۔ بیرون ملک سے بھی دعوتیں ملتی ہیں لیکن پھر وہی مزاج کی خرابی کہ کون وعظ فرمائے اور طویل سوال و جواب اور بحث مباحثہ کا سامنا کرے۔ کسی کے خیالات آپ ایک گھنٹے میں نہیں بدل سکتے۔ اس لیے اکثر معذرت کر لیتا ہوں۔ ہمارے ہاں کتاب پڑھنے کا کلچر زیادہ نہیں‘ لہٰذا جس نے جو کچھ درسی کتب میں پڑھ رکھا ہے وہ اس پر قائم رہے گا اور فخر کرے گا کہ اس نے کسی محفل میں آپ کو جھوٹا ثابت کر دیا۔ رہی سہی کسر ڈاکٹر ظفر الطاف نے پوری کر دی تھی جن کے ساتھ اٹھارہ سال کا ساتھ رہا۔ روزانہ نئی کتاب، نئی بات، نئی بحث اور کیا کیا لوگ ان کے بڑے دستر خواں پر ملتے۔ ان کی وفات کے بعد میں گھر سے باہر نہیں نکلا۔
ایک دن اپنے آپ کو سمجھایا کہ اب ڈاکٹر ظفر الطاف نے تو لوٹ کر نہیں آنا اور اس جیسا کوئی ملنا نہیں پھر کب تک گھر میں بند رہیں گے؟ پہلے بھی ملتا تھا لیکن اب میجر عامر اور بابر اعوان سے ملاقاتیں بڑھا دیں کہ ان دونوں سے اختلاف اپنی جگہ لیکن دونوں ذہین اور بہادر ہیں اور ایسے لوگ میری ہمیشہ سے کمزوری رہے ہیں۔ اسی دوران علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے وائس چانسلر شاہد صدیقی سے اتفاقاً ملاقات ہوئی تو لگا کسی برسوں پرانی روح اور دوست سے ملاقات ہو گئی۔ ایک نفیس انسان اور ادب کا رسیا۔ گردن میں کوئی سریا نہیں، وائس چانسلر ہونے پر کوئی فخر نہیں۔ ادب پر ایسی گفتگو سننے کو ملتی کہ کمال۔ ان کے پاس بھی نایاب اور خوبصورت کتابوں کا ذخیرہ‘ شکیل عادل زادہ ہم دونوں کا مشترکہ عشق نکلا۔ کہنے لگے: شکیل عادل زادہ کو اسلام آباد بلانا ہے۔ ان کی خاطر پورا میلہ رچایا ہے‘ یونیورسٹی میں لٹریری ویک منایا جائے گا۔ شکیل صاحب کا انٹرویو کرنے کا پروگرام بنا اور سب سوالات شاہد صدیقی نے خود لکھے اور کچھ میرے حوالے کر دیے۔ سب رنگ کے انعام راجہ کا ذکر کافی دیر چلتا رہا۔ شاہد صدیقی کے گھر کھانے کی میز پر رات گئے صدیقی صاحب نے اچانک پوچھ لیا: شکیل صاحب یہ بتائیں ''بازی گر‘‘ کے کردار مولوی صاحب کا کیا مسئلہ ہے؟
یہ بابر زمان کو کورا کیوں نہیں مل پا رہی؟ کہیں مولوی صاحب کا اپنا دل تو کورا پر نہیں آ گیا لہٰذا وہ ہر جگہ اسے لیے لیے پھرتے ہیں۔ بابر زمان اور بٹھل اس کی تلاش میں جہاں پہنچتے ہیں وہ کچھ لمحے پہلے ہی وہاں سے نکل گئے ہوتے ہیں۔ چاہتے تو مولوی صاحب اپنا اتا پتہ چھوڑ جاتے لیکن خوبصورت لڑکی لے کر غائب ہیں۔ شکیل عادل زادہ نے ایک لمحہ کھانے سے ہاتھ روکا، آنکھیں اٹھا کر شاہد صدیقی کو دیکھا اور بولے ہاں بھائی یہ ہو بھی سکتا ہے مولوی صاحب کو خود کورا سے عشق ہو گیا ہو‘ ممکن ہے، شکیل صاحب پھر بولے اور آہستہ آہستہ دہراتے رہے ہو سکتا ہے۔
میرے خیال میں جو سب سے زیادہ اچھی گفتگو تھی وہ ایک بحث تھی جس میں پروفیسر فتح محمد ملک، مجاہد منصوری، سہیل وڑائچ، یاسر پیرزادہ، خورشید ندیم شامل تھے؛ تاہم میرے لیے حیرانی کی بات تھی کہ شاہد صدیقی ہمارے ساتھ سٹیج پر بیٹھنے کی بجائے اپنے طالب علموں کے ساتھ جا کر بیٹھ گئے اور ہم سب کی باتیں سنیں۔ یقین کریں اس بات نے دل پر اثر کیا۔ بھلا کیسے ایک وائس چانسلر اتنا بڑا میلہ رچا کر نیچے جا کر بیٹھ جائے اور سب کو سنے۔ خورشید ندیم نے بلاشبہ اچھے انداز میں بحث کو آگے بڑھایا۔ خورشید ندیم اچھی گفتگو کا سلیقہ جانتے ہیں‘ یاسر پیرزادہ اور سہیل وڑائچ نے بھی اچھی باتیں کیں؛ تاہم ان موقعوں پر میڈیا کو بھی بہت باتیں سننا پڑتی ہیں۔ ہمارا کام ہی ایسا ہے کہ کوئی نہ کوئی ہم سے ضرور کبیدہ خاطر ہو جاتا ہے اور ایسے موقعوں پر اپنا غصہ نکال لیتا ہے۔ ایک کی ناراضگی کا جواب سہیل وڑائچ نے دیا اور یقین کریں خوب دیا اور دوسرے کا جواب میرے ذمے لگا۔ لوگ میڈیا سے جتنے خوش ہیں اتنے ناراض بھی اور اکثر دوسروں کی ناراضگی ہمارے جیسوں پر نکلتی ہے۔
تاہم اس میلے میں جو بات سب سے زیادہ مجھے اچھی لگی وہ تین بڑے پبلشنگ ہائوسز کے مالکان کے ساتھ گفتگو تھی۔ اس میں پاکستان کے بڑے پبلشر سنگ میل لاہور کے مالک افضال احمد، آکسفورڈ پریس کی امینہ سید اور نیشنل بک فاونڈیشن کے انعام الحق جاوید تھے۔ ہمارا خیال تھا وہ تینوں کتابیں نہ بکنے کا رونا روئیں گے، وہی روایتی کہانی دہرائی جائے گی کہ آج کا نوجوان کتاب نہیں پڑھتا۔ لوگوں کے پاس کتاب کیلئے وقت یا ترجیح نہیں رہی۔ لیکن میں حیران ہوا جب ان تینوں نے کہا کہ کتابیں نہ صرف بک رہی ہیں بلکہ بہت بک رہی ہیں۔ امینہ سید نے کہا اگر کتابیں نہ بک رہی ہوتیں تو بھلا کیسے پبلشنگ ہائوسز یا کتابوں کی دکانیں زندہ رہتیں۔ افضال احمد نے بھی تفصیل سے کتاب کلچر پر روشنی ڈالی۔ وہ مہذب اور سلیقہ بھری گفتگو کرتے ہیں۔ ویسے انعام الحق جاوید کو یہ کریڈٹ جاتا ہے انہوں نے حکومتی ادارہ ہونے کے باوجود نیشنل بک فائونڈیشن کو بہت اچھے طریقے سے چلایا ہے اور اچھی کتابیں چھاپی ہیں۔ اب شاہد صدیقی نے شکیل عادل زادہ کی ''بازی گر‘‘ کے آٹھ حصے دوبارہ شائع کرنے کے لیے نیشنل بک فاونڈیشن سے معاہدہ کرایا ہے۔ سب رنگ بھی دوبارہ شروع ہو رہا ہے۔ شکیل صاحب کا معاہدہ پنڈی کی ایک پارٹی سے ہوا ہے۔ امید ہے بہت جلد ''سب رنگ ڈائجسٹ‘‘ آپ کے ہاتھوں میں ہو گا۔
میرا خیال تھا شاہد صدیقی کے پاس ایک دفعہ کے بعد دوبارہ نہیں جانا پڑے گا۔ لیکن میرا یہ خیال بہت جلد غلط ثابت ہوا۔ میڈیا فریڈم ڈے پر ایک اور سیمینار رکھ لیا۔ میں نے پھر ہزار بہانے بنا کر جان چھڑانے کی کوشش کی لیکن ناکام رہا۔ اس سیمینار میں پرویز رشید، حامد میر، عاصمہ شیرازی، شبلی فراز مدعو تھے۔ حامد میر پر اچھی ڈاکومنٹری دکھائی گئی۔
میرا خیال ہے مجھے اس ہال میں بیٹھے تمام طالب علموںِ، استادوں کو داد دینی پڑے گی جنہوں نے اتنی تمیز‘ تہذیب اور سلیقے سے ساری گفتگو سنی۔ حامد میر جتنے اچھے کالم نگار ہیں اس سے زیادہ اچھی وہ تقریر کرتے ہیں اور بلاشبہ وہ بھی کتاب پڑھتے ہیں اور یہ کتاب ان کی باتوں میں جھلکتی ہے۔ شاہد صدیقی نے خود بہت خوبصورت تقریر کی۔
سینیٹر شبلی فراز کی مشکل کا مجھے اندازہ ہے ایک بڑے باپ کے بیٹے کو اپنی شناخت بنانے میں مشکل پیش آتی ہے۔ لیکن مجھے کہنے دیں اب تک شبلی فراز نے اپنی شناخت بنائی ہے اور میں انہیں سینیٹ، پارلیمنٹ اور کمیٹی اجلاس میں سنتا رہتا ہوں میرا خیال ہے وہ ایک اچھا پارلیمنٹیرین ہے اور اسے سینیٹر بنا کر تحریک انصاف نے درست فیصلہ کیا تھا۔
میں نے کہا: لگتا ہے شاہد صدیقی کو اپنی نوکری سے چھٹی کرانے میں بہت جلدی ہے اس لیے وہ ہمارے جیسوں کو بلا لیتے ہیں۔ چلیں ہم بھی کہتے ہیں کہ انہیں نوکری سے ہاتھ دھونے کی جلدی ہے تو کیوں نہ ان کی مدد کی جائے اس لیے یہاں آجاتے ہیں۔ بہرحال شاہد صدیقی نے علامہ اقبال یونیورسٹی کو ایک یونیورسٹی کا رنگ دیا ہے‘ جہاں اب کھل کر بات ہو سکتی ہے، جہاں مختلف نظریے اور خیالات کے لوگ ایک چھت تلے جمع ہو کر ایک دوسرے سے الجھے یا لڑے بغیر بات کر سکتے ہیں۔ مجھے تو یونیورسٹی کے استادوں اور طالب علموں نے متاثر کیا جنہوں نے دھیان اور سکون سے یہ بحث مباحثے سنے ہیں۔
اسلام آباد میں علامہ اقبال یونیورسٹی میں ایسے پروگرام اور ادبی سلسلے اور مباحثے شروع ہوئے ہیں کہ دل خوش اور نہال ہے۔ میں ہمیشہ کہتا ہوں: سسٹم یا ادارے کچھ نہیں ہوتے ان اداروں اور سسٹم کو چلانے والے لوگ اہم ہوتے ہیں۔ اچھا بندہ کسی ادارے کو مل جائے وہ اس کی حالت بدل دے گا، برا آدمی کتنا اچھا ادارہ یا سسٹم ہو اسے تباہ کر دے گا۔ شاہد صدیقی نے علامہ اقبال یونیورسٹی کو یکدم اوپر اٹھا دیا ہے۔ لگتا ہے یہ ادارہ ہے جہاں بات ہو سکتی ہے، جہاں بحث ہو سکتی ہے، جہاں ایک دوسرے کو گالی یا الجھے بغیر مکالمہ ہو سکتا ہے۔ جہاں طالب علم گھنٹوں آپ کی بات کو سن سکتے ہیں، سمجھ سکتے ہیں، سوال کر سکتے ہیں۔ ایسے ادارے ہی نئے ذہن پیدا کرتے ہیں، ایک نئی فضا کا جنم ہوتا ہے۔
شکیل عادل زادہ کراچی لوٹ چکے جبکہ میں ابھی تک وہیں پھنسا ہوا ہوں کہ کیا ''بازی گر‘‘ کے مولوی صاحب کو کورا سے عشق ہو گیا ہے؟ کیا کورا کے حسن کا جادو مولوی صاحب پر بھی چڑھ گیا تھا؟ شکیل عادل زادہ کا شاہد صدیقی کے اس امکان پر کھانے سے ہاتھ روک کر انہیں غور سے دیکھ کر ہاں میں ہاں ملانا تو یہی بتاتا ہے کہ عشق کی کوئی عمر نہیں ہوتی، عشق کا کوئی نام نہیں ہوتا، عشق کی کوئی ذات نہیں ہوتی۔ ؎
عشق پر زور نہیں، ہے یہ وہ آتش غالب
کہ لگائے نہ لگے، اور بجھائے نہ بجھے