لاہور میں پچھلے ویک اینڈ رات کے تین بجے عامر متین اور مجھے بھوک لگی تو روم سروس سے پتہ چلا‘ سینڈوچ ہی مل سکتے ہیں۔ عامر کے چھوٹے بھائی عاطف متین کی طرف دیکھا تو بولا: لاہور کو بدنام مت کرو۔ رات کو تین بجے گاڑی پر نکل پڑے۔ لاہور کی یہ بڑی شان ہے۔ دن ہو یا رات، اندھی ہو یا طوفان ہر قسم کے کھانے، ہر وقت‘ ہر جگہ سے مل جاتے ہیں۔ فیصلہ ہوا‘ لکشمی چوک چلتے ہیں۔ میں خود بھی 1996 کے دنوں میں لاہور کی سڑکیں چھاپ چکا تھا‘ جب صحافی بننے کا جنون ملتان سے لاہور لے آیا تھا‘ اور اخبار میں نوکری نہ ملتی تھی۔ میرے لیہ کے دوست رفیق اختر مجھے ہر اخبار میں لے کر گئے‘ لیکن سب چائے پلا کر روانہ کر دیتے تھے۔ میرا میانوالی کا دوست شعیب بھی کئی سفارشیں ڈھونڈ کے باوجود ناکام رہا۔ کہیں ٹیسٹ میں فیل ہوا تو کہیں جگہ خالی نہ ہونے کا جواز راہ کی رکاوٹ بن گیا۔ چھ ماہ لاہور کی سڑکوں پر مارے مارے پھرتے رہے لیکن کہیں بات نہ بنی۔ خیر اللہ بھلا کرے‘ فکشن ہائوس لاہور کے دوستوں رانا سرور، ظہور احمد اور رانا عبدالرحمن کا‘ جن کی وجہ سے دوپہر کو دانشوروں کی محفل میں ہر روز بہترین دال کھانے کو مل جاتی‘ اور سب سے بڑھ کر ان کا پیار اور خلوص۔ رات گئے لاہور کی تقریباً خالی سڑکوں پر گھومتے ہوئے‘ بیس برس پرانے وہی دن یاد آ گئے۔ ماضی کتنا اچھا لگتا ہے! کیونکہ یہ لوٹ کر نہیں آ سکتا۔ میں عامر متین سے بولا: لاہور آج سے بیس برس قبل کتنا پُرسکون ہوتا تھا‘ کھلا ہوتا تھا‘ اتنا رش اور اتنی گندگی اور آبادی کا زور نہیں تھا‘ اب تو لاہور آتے ہوئے ڈر لگتا ہے۔
جونہی عاطف متین نے گاڑی لکشمی چوک کی طرف موڑی تو اس کی حالت دیکھ کر عامر متین کی جیسے چیخ نکل گئی ہو۔ کچھ سنبھل کر بولا: یار یہاں بٹ کڑاہی کا مالک ان کا دوست ہوا کرتا تھا۔ گاڑی جس جگہ پارک کی‘ وہاں سامنے ایک ہوٹل تھا۔ اس کا مالک دوڑ کر آیا کہ آئیں ہمارے پاس۔ عاطف متین کا اصرار تھا کہ بٹ کڑاہی ہی چلیں گے۔ مالک نے کہا: ایک دفعہ چیک کر لیں‘ مایوس نہیں کریں گے۔ عاطف کا اصرار جاری رہا۔ عامر بولا: عاطف صاحب! یا تو آپ گاڑی اس کے ریسٹورنٹ کے آگے کھڑی نہ کرتے‘ اب کر دی ہے تو بُرا لگتا ہے۔ میں نے بھی عامر کی ہاں میں ہاں ملائی کہ ہماری دیہی کہاوت کے مطابق یہ تو کٹا بھینس کی آنکھوں کے سامنے ذبح کرنے کے مترادف ہے کہ گاڑی یہاں پارک کریں اور کھانا دوسری طرف جا کر کھائیں۔ اس نوجوان نے واقعی کہیں پڑھ رکھا تھا کہ کسی کو گڑ سے مارا جا سکتا ہے۔ میٹھے لہجے اور اخلاق میں بھرپور طاقت ہوتی ہے۔ بلاشبہ دیسی مرغی کی کڑاہی اعلیٰ تھی‘ اور ہمیں مروت کے مارے کئے گئے اس انتخاب پر پچھتانا نہیں پڑا۔
وہاں بیٹھ گئے تو عامر متین نے ادھر ادھر دیکھنا شروع کر دیا۔ ان کی آنکھوں میں پہلے حیرت اور پھر غم نے جگہ لے لی۔ یار یہ واقعی لکشمی چوک ہے؟ ایک طرف اورنج ٹرین کے بڑے بڑے پِلر ایستادہ تھے‘ تو دوسری طرف لکشمی بلڈنگ دور سے اجڑی نظر آ رہی تھی۔ ہر طرف گند ہی گند۔ لکشمی چوک‘ جو کبھی فلمی دنیا کا مرکز ہوتا تھا‘ اور جہاں ہر طرف فلمی پوسٹرز اور فلمی دفاتر نظر آتے تھے‘ اس وقت اجڑی ہوئی بیوہ لگ رہا تھا‘ جس پر اورنج ٹرین چڑھا دی گئی تھی۔ میں حیران ہوا کہ ہر جگہ کیوں ہم نے لاہور کے اوپر چھائے آسمان کو اتنا چھوٹا اور محدود کر دیا ہے۔ کیوں تاریخی عمارتوں اور جگہوں کے ہم دشمن ہو گئے ہیں۔ لندن میں آج بھی آکسفورڈ اسٹریٹ کی عمارتیں وہی ہیں، پیرس جائیں، یا یورپ انہوں نے کسی پرانی عمارت کو نہیں گرایا اور نہ ہی اسے خراب ہونے دیا ہے۔ انہی پرانی عمارتوں نے تو یورپ کی خوبصورتی کو رنگ لگایا ہوا ہے۔ وہاں بھی میٹرو بسیں اور ٹرینیں چلتی ہیں۔ وہاں اگر سو سال پہلے مرنے والے لوگ لوٹ آئیں‘ تو بھی انہیں آج کے لندن اور پرانے لندن میں زیادہ فرق نظر نہیں آئے گا۔ انہوں نے تاریخی یادوں کو محفوظ کرکے رکھا ہوا ہے‘ لیکن ہم نے ترقی کے نام پر سب کچھ تباہ کر دیا ہے۔
عامر متین ماضی میں کھوئے بتاتے رہے کہ لکشمی چوک کی لاہوریوں کی سماجی، فلمی اور ثقافتی زندگیوں میں کیا اہمیت تھی۔ اتنی دیر میں دو نوجوان تیل ہاتھ میں لیے ہمارے قریب پہنچے۔ یہ بھی لاہور کا کلچر ہے کہ مالش کرائی جائے۔ ان مالشیوں کی بھی راتیں جاگتی ہیں۔ عامر متین نے سر پر تیل ڈلواتے ہوئے پوچھ لیا: آپ دونوں کہاں سے آئے ہیں۔ وہ سرائیکی لہجے میں بولا: سائیں بہاولپور سے آیا ہوں‘ ویسے لودھراں گائوں ہے۔ عامر نے میری طرف دیکھا تو‘ میں نے ان دونوں سے سرائیکی میں گفتگو شروع کر دی۔ دونوں نے بتایا کہ غربت کے مارے وہ بہاولپور چھوڑ کر یہاں آ گئے تھے۔ عامر نے پوچھا: ملتان کیوں نہ گئے؟ بولے: وہاں مزدوری نہیں ملتی۔ پتہ چلا کہ ایک کے چار بچے ہیں جو سکول میں پڑھتے ہیں۔ دوسرے کی ایک بیٹی تھی۔ میں نے کہا: عامر! ایک زمانہ تھا‘ جب بہاولپور ریاست اس خطے کی امیر ترین ریاست تھی۔ قائد اعظم نے آخری دنوں میں کراچی رہنا تھا‘ تو نواب بہاولپور کا بنگلہ انہیں پیش کیا گیا۔ مرسیڈیز گاڑی تک دی‘ جو آج اسلام آباد میریٹ ہوٹل ڈسپلے پر لگی ہوئی ہے۔ پاکستان بننے کے بعد سرکاری ملازمین کی تنخواہیں تک نواب بہاولپور نے ادا کی تھیں‘ اور آج اسی ریاست کے باشندے لاہور میں مزدوریاں کر رہے ہیں۔ کبھی ہندوستان بھر سے لوگ بہاولپور مزدوری کرنے جاتے تھے۔
مزدوری کہیں بھی کرنا گناہ نہیں‘ لیکن سوال یہ ہے کہ بہاولپور اتنا غریب کیسے ہو گیا؟ پچاس ساٹھ سالوں میں اس سرائیکی علاقے کی یہ حالت کس نے کر دی؟ اتنی دیر میں ہوٹل پر ہی کام کرنے والے دو اور ملازمین سے پوچھا تو پتہ چلا وہ کشمیر آئے ہیں اور لاہور میں ملازمت کر رہے تھے۔
میرا وہ کہا درست ثابت ہو رہا تھا کہ اب پورے پنجاب سے لوگ لاہور شفٹ ہو رہے ہیں۔ لاہور پھٹ رہا ہے۔ اس پر آبادی کا دبائو بڑھ رہا ہے‘ جس کے نتائج سب کو نظر آتے ہیں۔ اب سٹریٹ جرائم بڑھیں گے۔ کچی آبادیاں بڑھیں گی۔ رہی سہی کسر ملک کا وزیر اعظم لیہ یا بہاولپور میں کھڑے ہو کر پوری کر دیتا ہے کہ ترقی دیکھنی ہے تو لاہور جا کر دیکھو۔ ماشااللہ وہ سب لاہور کی ترقی دیکھنے لاہور تشریف لا رہے ہیں۔ لاہوری اب آگے بڑھ کر ان کا استقبال کریں۔ یہ تو ابھی شروعات ہیں۔ کراچی بھی کبھی ایسے شروع ہوا تھا۔ اسے بھی منی پاکستان کا درجہ دیا گیا تھا۔ کراچی نے بھی سب کو دل میں جگہ دی اور پھر سب نے مل کر پاکستان کے اس دل میں سوراخ کر دیا۔
مجھے دیوان سنگھ مفتون کی کتاب 'ناقابل فراموش‘ یاد آئی‘ جس میں اس نے نواب آف بہاولپور کا کئی دفعہ ذکر کیا ہے۔ اس امیر ریاست اور اس کے لوگوں کی فیاضی اور حسن سلوک پر کئی صفحات لکھے کہ جب بھی اسے پیسوں کی ضرورت پڑتی نواب بہاولپور کو خط لکھتا‘ اور پیسے پہنچ جاتے۔
اچانک عامر نے بہاولپور کے اس نوجوان‘ جو ان کو دبا رہا تھا‘ سے نام پوچھا تو وہ بولا: جی میرے والدین نے میرا نام نواب رکھا تھا۔ میں اور عامر چونک گئے‘ لیکن چپ رہے۔ عامر نے اس کا نام سن کر اسے کہا: بس میرے پیارے بہت ہو گیا۔ جیب سے زیادہ پیسے نکالے اور پوچھا: نواب سائیں، کافی ہیں یا اور دوں؟ وہ بولا: سائیں بہت ہیں۔
رات خاصی گزر گئی تھی۔ ہم کڑاہی کب کی ختم کر چکے تھے۔ صبح کی اذانوں کی آواز آ رہی تھی۔ میری آنکھیں ایک بار پھر لکشمی بلڈنگ کی طرف اُٹھ گئیں‘ جو بہادر شاہ ظفر کی دلی کی طرح اجڑ گئی تھی۔ وقت کے صحرا نے سب دھندلا دیا تھا۔ کہاں گئے وہ لوگ اور کہاں گئیں ان کی چھوڑی ہوئی نشانیاں؟ کچھ عرصے بعد نہ لکشمی چوک رہے گا اور نہ ہی لکشمی بلڈنگ۔ وقت نے سب کو دھول چٹا دی تھی۔ وقت شاید رحم کر جاتا، لیکن پنجاب کے حکمرانوں کے ترقی کے ماڈل نے وقت سے پہلے ہی ان تاریخی عمارتوں کا انجام لکھ دیا تھا۔
عامر متین اب بھی بہاولپور کے نواب سے باتوں میں لگا ہوا تھا۔ ہمارے دیہاتی والدین بھی بچوں کے بارے میں کیا کیا خواب دیکھتے ہیں اور کیسے نام رکھتے ہیں۔ میں سوچتا رہا کہ نام کا انسان پر بہت اثر ہوتا تھا۔ پہلی دفعہ میرا یقین ٹوٹا تھا کہ نام کچھ نہیں ہوتے، محض غریب والدین کی خواہشات کا عکس ہوتے ہیں۔ شاید شیکسپیئر درست کہتا تھا: نام میں کیا رکھا ہے؟ نام کا نواب۔ بہاولپور کے گائوں کا نواب۔ آج کل لاہور میں رات گئے ہندوستان کے آخری بادشاہ بہادر شاہ ظفر کی اجڑی دلی کی طرح اجڑے لکشمی چوک میں لوگوں کے سروں میں تیل مالش اور پائوں دبا کر اپنے گائوں سکول جاتے چار بچوں کے لیے روزی کماتا ہے۔
تھوڑی دیر کے لیے مجھے بہادر شاہ ظفر اور نواب آف بہاولپور کے درمیان مماثلت محسوس ہوئی۔ دلی انگریزوں کے ہاتھوں اجڑی تو بہاولپور ریاست کو کس نے اجاڑا؟ جسے اب سرکاری دستاویزات میں پنجاب کے غریب اضلاع میں شمار کیا گیا ہے۔ ایک لمحے کے لیے سوچا‘ لیکن پھر سر میں مالش کرتے‘ کندھے دباتے بہاولپور کے اس نواب سے رات گئے ماضی کے مزار‘ لکشمی چوک میں اس کے چار بچوں کے نام پوچھنے کی ہمت نہ کر سکا۔