ایک دفعہ پھر لیہ میں واقع اپنی بستی جیسل کلاسرا کا سفر درپیش تھا۔
جب نعیم بھائی نے گیبریل گارشیا کا ناول ''تنہائی کے سو سال‘‘ کا اردو ترجمہ کیا تھا تو وہ اس ناول کی بستی کا موازنہ اپنے گائوں اور اس کے کرداروں سے کرتے۔ راتوں کو بہاولپور وکٹوریہ ہسپتال کی کنٹین پر ڈاکٹر نعیم بھائی گھنٹوں مجھے اس عظیم ناول اور اپنی جیسل بستی کے میرے جانے پہچانے کرداروں کی کہانیاں سناتے۔ وہ گھنٹوں سناتے اور میں سنتا رہتا اور میرا دل چاہتا وہ کبھی خاموش نہ ہوں‘ لیکن ایک دن وہ خاموش ہو گئے اور میرے اندر کی تنہائی مزید بڑھ گئی۔
میں نے سر کو جھٹک کر ماضی کو ایک طرف کرکے سوچا۔ لیہ کا ایک طویل اور اکتا دینے والا سفر جو پانچ گھنٹوں میں طے ہو سکتا تھا اگر تلہ گنگ سے ملتان‘ میانوالی (4 سو کلومیٹر سے زائد) روڈ پر اسلام آباد کی صرف چند کلومیٹر سڑکوں کی طرح پچھلے چار سالوں میں ستر ارب نہیں بلکہ سات ارب ہی لگ جاتے تو لاکھوں لوگوں کی زندگی بہتر ہو سکتی تھی۔ سینکڑوں زندگیاں ہر سال بچ سکتی تھیں جو اس ٹوٹے پھوٹے روڈ پر ہونے والے خونیں حادثات میں ضائع ہو جاتی ہیں۔ یہ وہ روڈ ہے جو کراچی سے افغانستان تک تجارت کے لیے استعمال ہوتی ہے۔
موٹروے للّٰہ انٹرچینج سے باہر نکل کر دور دور پھیلے پہاڑوں کے درمیان سر جھکائے چرتے جانور اور کسی جھاڑی کے سائے میں تپتے سورج سے پناہ کی تلاش میں سرگرداں گڈریے دیکھ کر انگریزی ناول یاد آئے۔ پھر خیال آیا کہ گاڑی کے اندر سے زندگی ایسے خوبصورت لگتی ہے۔ پہاڑوں اور ان کے دامن میں دور دور تک پھیلی سبز جھاڑیاں مجھے ہمیشہ اپنے اندر تک محسوس ہوتی ہیں۔ اپنے اندر کا خالی پن ایسے مناظر میں کھو جاتا ہے۔ پہاڑ اور صحرا اپنی طرف کھینچتے ہیں اور اپ کھینچتے چلے جاتے ہیں۔ گاڑی کی ونڈو سے سر ٹیک کر دل چاہتا ہے بس یہ منظر رک جائے۔ پہاڑ اور پہاڑوں کے دامن میں سرسبز جھاڑیاں اور ان جھاڑیوں کے درمیان مسافروں کو ان کے گھروں تک لے جانے والی پُراسرار پگڈنڈیاں۔ بچپن میں حیران ہوتا تھا کہ میرے بابا کو ان پگڈنڈیوں اور جھاڑیوں یا جنگل میں سے راستہ کیسے یاد رہتا ہے۔ ان کے ساتھ چلتے ہوئے میں ڈرتا رہتا کہ کہیں ہم جنگل میں کھو ہی نہ جائیں۔ راستہ بھول نہ جائیں۔ کئی دفعہ بابا سے پوچھنے کا سوچا کہ انہیں اتنے طویل راستے کیسے یاد رہتے ہیں۔ کیا انہوں نے ان راستوں پر بہت سفر کیا تھا؟ پھر سوچتا پتہ نہیں‘ ہو سکتا ہے وہ بھی کئی دفعہ بھٹک گئے ہوں گے اور پھر انہی راستوں پر چلتے اونٹ کی نکیل تھامے کسی مسافر نے اشارے سے بتایا ہو کہ منزل اس طرف ہے۔ مجھے دکھ ہوتا کہ پتہ نہیں بابا کتنی دفعہ بھٹکے ہوں گے۔ پھر اچانک خیال آتا‘ ہو سکتا ہے وہ کبھی بھی نہ بھٹکے ہوں۔ جیسے میں ان کے ساتھ ان جنگلوں میں سے گزرتا ہوں اور مجھے ان راستوں کو یاد رکھنے کی ضرورت نہیں کیونکہ میرے بابا ان پگڈنڈیوں سے واقف ہیں، ایسے ہی ہو سکتا ہے میرے دادا اور ان کے بابا اور ان کے دادا انہیں ساتھ لے جاتے ہوں۔ میں سوچتا‘ کیا ایک دن میں اپنے بچوں کو اس طرح ان جنگلوں سے لے کر جائوں گا۔ پھر میں فوراً راستے یاد رکھنے کی کوششوں میں لگ جاتا کہ جب میرے بچے میرے ساتھ ہوں تو راستہ نہ بھول جائوں۔ وہ بھی اسی طرح میرے اوپر اعتماد کرکے ان جنگلوں کا سفر کریں گے جیسے میں بابا کے ساتھ کر رہا تھا۔ لگتا ہے یہ تو صدیوں کا سفر ہے‘ نہ ختم ہونے والا۔ جس پر ہم سب باری باری مسلسل سفر کر رہے ہیں۔
اچانک گاڑی نے موڑ کاٹا تو میں نے خود کو پہاڑوں سے نکل کر دور دور تک پھیلے تھل صحرا کے درمیان پایا جہاں انسان زندہ رہنے کی جنگ لڑتے ہیں۔ صحرا کی مٹی کی اپنی کشش ہوتی ہے جہاں دن انسانوں کو جلاتا ہے تو رات کی ٹھنڈی لیکن تیز ہوا لوری دے کر اپنی گود میں سلاتی ہے۔ جہاں انسانوں کا انحصار بے رحم آسمان کے مزاج پر ہے۔ صحرا کی گرم نرم مٹی بھی بارش کے پہلے قطرے کی اسی طرح متلاشی رہتی ہے جیسے ایک خوبصورت دوشیزہ اپنے محبوب کی منتظر ہو۔ ان صحرائوں میں بارش کے انتظار میں نہ ختم ہونے والی رات طویل ہو جائے تو جہاں کئی انسانی المیے جنم لیتے ہیں تو وہیں حیوانی زندگیاں بھی دائو پر لگ جاتی ہیں۔ جیسے کبھی کچے گھڑے کے ساتھ دریا پار کرنے والی سوہنی کی لگ گئی تھی۔ عاشق کچا پکا بھلا کب دیکھتے ہیں۔ میرے خیالات کی رو اچانک ٹوٹ گئی جب دور صحرا میں ایک سرسبز کھیت میں ایک بوڑھے کسان کو دیکھا۔ میں نے رانا اشرف سے کہا‘ گاڑی روکو۔ ہارون بھائی کو اشارہ کیا اور ہم اتر گئے۔ گاڑی رکی تو وہ کسان بابا گاڑی کی طرف دوڑتا ہوا آیا کہ چلیں کھیت سے ہی آپ کو ہندوانے (تربوز) توڑ کر دیتا ہوں۔ سستے اور اچھے دوں گا۔
اس کسان بابا کے پیچھے کھیت میں چپ چاپ صحرا کی گرم مٹی اور کچے ہندوانوں سے بچتے بچاتے چلتے چلتے اپنے بابا یاد آئے جو اس طرح اپنی زمین پر ہندوانے کاشت کرتے اور وہ ہم بچوں کو گرمیوں کی چھٹی میں لے جاتے کہ اب ان کی رکھوالی بھی کرو۔ قریبی جنگل کے باسی گیدڑ رات کو ہندوانوں پر حملہ آور ہوتے اور ظالم صرف ان ہندوانوں کو کھاتے جو پک کر لال ہو چکے ہوتے۔ ہم صبح اٹھتے تو کئی ہندوانے کٹ چکے ہوتے۔ غصے سے کتوں کی طرف دیکھتے جن کا کام کھیتوں کی رکھوالی کرنا ہوتا تو وہ شرمندہ ہو کر دوسری طرف منہ کر لیتے جیسے کہہ رہے ہوں کیا نیند اور سکون صرف انسانوں کی قسمت میں لکھا گیا تھا۔ میں حیران ہوتا بابا تو یہ چیک کرنے کے لیے کہ کچا ہے یا پکا اس ہندوانے کی کھال پر انگلیاں بجاتے یا پھر کان کے قریب لے جا کر اسے دباتے کہ آواز سن کر اندازہ لگ جاتا کہ ہندوانہ پکا تھا یا کچا۔ تو کیا یہ گیدڑ بھی اپنے پنجوں سے ہندوانے کو بجا کر چیک کرتے تھے یا پھر کان لگا کر؟ انہیں کیسے انسانوں سے بہتر پتہ چل جاتا تھا کہ کون سا ہندوانہ پکا تھا اور اسے کھانا تھا۔ ایک دن میں نے معصومیت میں یہ سوال بابا سے پوچھ لیا تو پہلے وہ مجھے خاموش دیکھتے رہے۔ پھر بڑی دیر تک ہنستے رہے اور بولے: یار یہ تو کبھی نہیں سوچا۔ کسی دن گیدڑ کی دعوت کرکے یہ راز پوچھتے ہیں۔ وہ کسان بابا اپنے اس صحرائی کھیت سے ہندوانے چن چن کر توڑتے رہے۔ ساتھ میں وہ بولتے بھی رہے۔ میں خاموش کھڑا انہیں دیکھتا رہا۔ میں نے پوچھا: آپ کو پتہ ہے میں کیوں رکا ہوں؟ وہ بولے کیونکہ آپ کو ہندوانے چاہئیں تھے۔ میرا بھائی ہارون مسکرا پڑا۔
ہارون کو علم تھا‘ میں اس وقت یہاں صحرا کے بیچ اس ہندوانے کے کھیت میں تپتی دوپہر کیوں رکا تھا۔ اور میرے اوپر کیا گزر رہی تھی۔ میں، ہارون اور چھوٹا بھائی خضر بابا کے ساتھ مل کر ہندوانے کے کھیت کی رکھوالی کرتے اور دل کھول کر خود کھاتے۔ ماضی کے مزار میری آنکھوں کے سامنے آن کھڑے ہوئے تھے۔ ایک قدم بھی اٹھانا مشکل لگ رہا تھا۔
مجھے پتہ تھا‘ ابھی طویل سفر باقی تھا۔ ماضی کی طرف کا سفر‘ اپنے گھر کی طرف کا سفر‘ ایک تکلیف دہ سفر جس کے راستے میں کئی پگڈنڈیاں، کئی طویل جنگل اور دریا عبور کرنے تھے۔ مجھے خاموش دیکھ کر وہ کسان بابا حیران ہوئے لیکن پوچھا نہیں کہ پھر کیوں رکے تھے۔ کسان بابا ہندوانے توڑتے رہے۔ میں انہیں دیکھتا رہا۔ میں نے بھی نہیں روکا۔ جب وہ توڑ توڑ کر تھک گئے تو میں نے ان کے ایک اور ملازم سے کہا اب یہ سب گاڑی میں رکھ دو۔ جتنے پیسے انہوں نے مانگے میں نے جیب سے نکال کر دیے اور چل پڑا۔
ماضی کتنا ہی تلخ کیوں نہ رہا ہو ہمیشہ اچھا لگتا ہے۔ کل کی ہی بات لگتی ہے۔ ماضی کے سب کردار آپ کے سامنے آن کھڑے ہوتے ہیں۔ آپ ان سے جیسے چاہیں کھیلیں، باتیں کریں سرگوشیاں کریں، پیار کریں، ان کی گود میں لیٹیں وہ کہیں نہیں جاتے۔ آپ کو آپ کا حال ہی ان سے دور کر دیتا ہے۔ ماضی کی طرح گھر کا راستہ کتنا ہی دور کیوں نہ ہو وہ بھی کبھی نہیں بھولتا چاہے راستے میں ہزار موڑ آئیں یا سینکڑوں پراسرار پگڈنڈیاں یا طویل جنگل کی بھول بھلیاں‘ آپ کا راستہ کھوٹا کرنے کی کوشش کریں۔ ایک ایسا طویل گھنا جنگل جہاں کسی گرم دوپہر ایک طویل قامت درخت کی تنہا ٹہنی پر ایک اداس فاختہ دکھ کا گیت گاتی ہو اور مسافر راستہ بھول جاتے ہوں۔ اپنے ماضی کی طرف لوٹنے‘ اپنے بچپن کے گھر کی طرف سفر دوبارہ شروع کرنے سے پہلے کھیت میں رک کر میں نے تاحد نظر پھیلے اس تپتے صحرا کی اداس دوپہر کو اپنے اندر محسوس کرکے سمونے کی کوشش کی تو پتہ نہیں کیوں سرائیکی زبان کے بڑے شاعر رفعت عباس کا شعر یاد آیا اور میں نے اپنے ماضی کے ان گم شدہ اور بھولے بھٹکے قدیم مزاروں کے طویل روحانی سفر کی طرف پہلا قدم بڑھایا۔ ؎
کیویں ساکوں یاد نہ رہسی اوندے گھر دا رستہ
ڈو تے سارے جنگل اسن ترائے تے سارے دریا