ملتان کی نئی ہائوسنگ سوسائٹی میں ایک خوبصورت گھر کی گھنٹی بجا کر پوچھا: سعود نیاز کا گھر یہی ہے؟
پرانے ملتانی دوست سعود نیاز کی والدہ فوت ہو گئی تھیں اور میں اسلام آباد سے ملتان تعزیت کرنے آیا تھا۔ میرے صحافی دوست شکیل انجم نے ڈرائیور ساتھ بھیج دیا تھا تاکہ گھر ڈھونڈنے میں آسانی رہے۔ کبھی سعود کا گھر ملتان شہر کے اندر ہوتا تھا۔ اب وہ یہاں شفٹ ہو گیا تھا۔ وہ پرانا گھر جہاں جب جی چاہتا جاتے‘ اماں جی کچھ کھانے کو ضروت دیتیں۔ وہ خوبصورت پنجابی میں میٹھی گالیاں دیتیں اور کہتیں: کنجرو جب تمہاری بیگمات آئیں گی تو تم لوگوں نے مجھے مڑ کر پوچھنا تک نہیں۔ وہ سعود کی نہیں ہم سب کی ماں تھیں۔ ایک دن میں نے ٹنڈ کرا لی۔ مجھے کچھ دیر دیکھتی رہیں‘ پھر ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو گئیں۔ سعود حیران کہ اماں کو کیا ہو گیا۔ پھر ایک ہلکی سی گالی دیتے ہوئے پوچھا: ایہہ کی کیتا ای اپنے نال۔ سعود نے کہا: اوہ اماں جی تسی کی کہہ رہے او۔ سعود کو بولیں: ہٹ پرے‘ اے میرا پتر اے‘ جو میرا جی چاہے گا کہوں گی۔ جب بھی گھر جاتا تو انہیں پتہ ہوتا تھا ملتان میں اکیلا رہتا ہوں لہٰذا گھر کا کھانا نہیں ملتا ہو گا۔ باروچی خانے میں جا کر ان کے ساتھ بیٹھ کر گرم گرم روٹیاں کھاتے۔ جب شادی ہوئی اور بیگم کے ساتھ ان کے گھر گیا تو بولیں: مجھے پتہ ہے تم میرے طعنے سے بچنے کے لیے آئے ہو۔ دیکھوں گی کب تک آتے رہو گے۔ وہی ہوا اسلام آباد تبادلہ ہو گیا اور پھر آنا جانا کم ہو گیا۔ وقت کتنی تیزی سے گزر جاتا ہے۔ کیسی کیسی یادیں ملتان کی ہر گلی، نکڑ اور سڑک پر بکھری پڑی ہیں۔ اب ان کی وفات کی خبر پر ان کے گھر کے باہر کھڑا گھنٹی بجا رہا تھا۔ میرے خیالات کی رو اس وقت ٹوٹی جب جواب ملا: سعود تو گھر پر نہیں ہیں۔ میں نے پوچھا: چوہدری نیاز صاحب ہیں؟ گھریلو کام پر مامور خاتون نے سرائیکی میں کہا: وہ تو پچھلے سال فوت ہو گئے تھے۔ مجھے ایک شدید جھٹکا لگا۔ کب‘ کیسے؟ مجھے کیوں پتہ نہیں چلا؟ ایک سال قبل تو میں ان سے ڈیرہ اڈہ پر سعود کے شوروم پر مل کر گیا تھا۔
کمزور ہو گئے تھے۔ سعود نے بتایا‘ رئوف آیا ہے‘ تو قریب کرکے گلے لگایا۔ مجھے شدید صدمہ ہوا‘ سعود نے بتایا تک نہیں تھا کہ چوہدری نیاز فوت ہو گئے تھے۔ سعود نیاز ڈیرہ اڈہ پر اپنے شو روم پر تھا۔ رانا اشرف کو کہا: چلیں ڈیرہ اڈہ چلتے ہیں۔ میں دوبارہ گاڑی میں بیٹھا اورکئی برس پرانے ملتان لوٹ گیا جب یہاں خالی ہاتھ خواب دیکھتے اور سڑکیں ناپتے تھے۔ کیا کیا دوست بنائے، ان کی محبتیں سمیٹیں۔ صرف دوست نہیں ان کے گھر والے بھی اتنا ہی پیار کرتے۔ مختار پارس ہو، جمشید رضوانی، ذوالکفل بخاری، سعود نیاز یا دیگر دوست۔ ان کا گھر میرا اپنا گھر ہوتا تھا۔ مختار پارس کے والد باقر شاہ نے جتنا پیار دیا‘ شاید زندگی بھر نہ ملا ہو۔ بعض دفعہ مجھے محسوس ہوتا‘ وہ اپنے بچوں سے بھی مجھے زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ پارس نے ایک دفعہ بتایا: ابو کہتے تھے‘ یار دل چاہتا ہے رئوف کو بھی دیگر بچوں کی طرح اپنی جائیداد میں حصہ دوں۔ کئی دفعہ بحث ہو جاتی تو خوبصورتی سے موضوع بدل دیتے۔ پارس اور میری اکثر لڑائی ہوتی تو وہ میرا ساتھ دیتے اور مسکرا کر کہتے: دوست سے صلح ہوئی یا میں کچھ کروں۔ میں کہتا: کچھ آپ ہی کریں۔ ہر دفعہ غلطی پارس کی ہی نکالتے‘ میں سچا ٹھہرتا۔ تین برس قبل کسی چھوٹی بات پر مختار پارس ناراض ہو گیا۔ اسے منانے کی کوشش کی‘ نہ مانا‘ کیونکہ اب شاہ جی نہیں رہے جو مجھے سچا اور اسے جھوٹا کرتے۔ ویسے بھی شاہ جی کے بغیر یہ صلح کیسے ہو سکتی تھی۔ لہٰذا مختار پارس کی مستقل ناراضی چل رہی ہے۔ مختار پارس ہر وقت شعیب اور مجھ سے ناراض رہتا کہ تم دونوں کرتے کراتے کچھ نہیں، الٹا عشق پال رکھے ہیں۔ اس کا خیال تھا کہ ہم زندگی کو مذاق کے طور پر لیتے ہیں۔ اس کی ناراضی بھی بجا تھی لیکن پروا ہم نے بھی اس کی کبھی نہ کی تھی۔
جب پارس کی والدہ فوت ہوئیں اور ملتان تعزیت کے لیے گیا‘ تو شاہ جی کچھ بوڑھے بوڑھے لگ رہے تھے۔ گھر کے لان میں بیٹھے تھے۔ مجھے دیکھا تو گلے سے لگایا اور کافی دیر لگا کر کھڑے رہے۔ بیٹھے تو مجھے لگا جیسے میرے گال گیلے ہو گئے ہیں۔ ان کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔ پارس نے بعد میں بتایا‘ جب سے امی فوت ہوئی ہیں پہلی دفعہ تم سے مل کر روئے ہیں‘ ورنہ ہم سب کو تسلیاں دے رہے تھے۔ یہ شاہ جی کی مجھ سے محبت کا انداز تھا۔ نعیم بھائی فوت ہوئے تو ملتان سے لیہ جیسل کلاسرا آئے۔ انہیں پتہ تھا‘ اس وقت مجھے ان کی ضرورت ہے۔ میں بھی ان کے گلے لگ کر کافی دیر تک روتا رہا تھا اور وہ پیار کرتے رہے۔ شاہ جی‘ ایک نورانی چہرہ۔ ان کے دروازے سے کوئی خالی ہاتھ نہ جاتا۔ سب کو حکم تھا کہ گھر آئے سوالی کو کبھی جھڑکنا بھی نہیں اور نہ ہی خالی ہاتھ جانے دینا ہے۔ چاہے جوان ہو یا بوڑھا‘ جو دروازے پر آ گیا اسے کچھ دے کر بھیجو۔ بڑے سالوں بعد میں نے ایک دن اپنی بیوی سے پوچھا: اگر کسی شام ہمارے بڑے بیٹے کا دوست اپنا بیگ اٹھا کر ہمارے گھر آئے اور وہ کہے‘ میرے پاس رہنے کو جگہ نہیں اور میں نے آپ کے گھر رہنا ہے تو ہم کیا کریں گے؟ میری بیوی خاموش رہی۔ میں بولا: جب میں اپنا بیگ اٹھا کر ان کے گھر گیا تھا تو شاہ جی نے ایک لمحہ بھی نہیں سوچا تھا اور مجھے کہا تھا: تم اب یہیں رہو گے‘ یہ تمہارا گھر ہے۔
کیسے کیسے لوگ تھے‘ کیا خوبصورت طبیعت تھی‘ کیا کمال شخصیت!!
جب ان کی وفات پر ڈاکٹر افتخار پارس کے پاس تعزیت کے لیے ملتان گیا تو اسی ڈرائنگ روم میں بیٹھنا کتنا مشکل تھا جہاں وہ ایک رمضان میں میرے لیے خود روزے کے ساتھ گھر والوں سے چھپا کر چائے بنا کر لائے کہ تمہیں پارس کی کمی محسوس نہ ہو۔ ان کا اشارہ اس طرف تھا کہ پارس رمضان میں بھی امی سے چھپ کر میرے لیے چائے بنا لاتا تھا۔ کبھی میں سوچتا‘ والد ہو تو شاہ جی اور چوہدری نیاز جیسا ہو۔ محبت‘ فیاضی‘ اور رحم دلی کا پیکر۔ دوپہر کا وقت ہوتا تو سعود کا فون آ جاتا کہ ابا جی انتظار کر رہے ہیں‘ گھر سے کھانا آ گیا ہے۔ گھر سے دو تین لوگوں کا کھانا آتا اور پتہ چلتا ہم سعود نیاز کے لفنٹر اور آوارہ گرد دوست اکٹھے ہو گئے ہیں اور سب کھانا ہم کھا جاتے۔ چوہدری نیاز اور ان کا بیٹا سعود خود ہوٹل سے منگوا رہے ہوتے۔ اخبار پڑھنا ان کی عادت تھی، اسی وجہ سے انہوں نے مجھے پسند کرنا شروع کیا تھا۔ وہ میری خبریں پڑھتے اور جب اسلام آباد آ گیا تو بھی خبریں اور کالم پڑھتے۔ ایک دفعہ رات کو ان کے گھر کے باہر گاڑی سے ایک چور ٹیپ ریکارڈ چوری کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ نماز پڑھ کر لوٹے تو اسے دیکھا‘ دھیرے سے اس کے پاس گئے‘ کہا: بیٹا ٹھہرو گھر کے اندر سے پلاس لاتا ہوں‘ اس کی مدد سے اسے کھول لو‘ تمہیں شاید پیسوں کی ضرورت ہے۔ ہوشیار پور ہندوستان سے ہجرت کرکے ملتان کو مستقل اپنا ٹھکانہ بنانے والے چوہدری نیاز ایسے ہی مزاج کے انسان تھے‘ چور ہکا بکا رہ گیا۔
شاہ جی اور چوہدری نیاز کے بعد ذوالکفل بخاری کے والد صاحب میں بھی ایک عجیب کشش اور نورانیت تھی۔ گھنٹوں ذوالکفل کے گھر گزرتے۔ ذوالکفل بخاری برصغیر کے اعلیٰ مقرر عطااللہ شاہ بخاری کا نواسہ تھے۔ کیا اعلیٰ گفتگو ہوتی۔ کفیل بخاری کی اعلیٰ حس مزاح اور ذوالکفل بخاری کے چٹکلے‘ اور ایک دن پتہ چلا ذوالکفل بخاری مکہ میں حادثے میں چل بسا ہے۔ ایک اعلیٰ ذہن، ایک خوبصورت دماغ اور انسان نہ رہا۔
سعود نیاز سے ملنے اور تعزیت کرنے کے لے ڈیرہ اڈہ کی طرف جاتے ہوئے ملتان کے وہ نو برس ایک لمحے میں آنکھوں کے سامنے سے گزر گئے جو یہاں گزارے تھے۔ میری بیوی اکثر مجھے کہتی تھی: چاہے تم نے اسلام آباد میں بیس سال گزار دیے لیکن تمہارے اچھے دوست اب بھی ملتان کے ہیں۔ شکیل انجم، جمشید رضوانی، ظفر آہیر، علی شیخ ، فیاض، طاہر ندیم، عمران مرزا‘ وحید الرحمن اور کیا کیا دوست بنائے، اور کیا کیا محفلیں برپا کیں۔
ملتان کتنا بدل گیا تھا۔ ملتان کا آسمان چھن گیا تھا۔ میٹرو بس کی سروں پر ڈالی گئی چھت نے سب حسن چھین لیا تھا۔ ایک رومانٹک بوسن روڈ اب سریے اور سیمنٹ کے بوجھ تلے دب گیا تھا۔ پھر سوچا‘ شاید ملتان اب بھی ویسے ہی ہو۔ بیس برس میں، میں بدل گیا ہوں گا۔ ویسے بھی وہ ملتان بھلا کیسے وہی ہو سکتا ہے جہاں باقر شاہ نہ ہوں، چوہدری نیاز صاحب نہ ہوں، جہاں ذوالکفل نہ ہو۔ وقت ہم سب کو روند کر نکل گیا تھا۔ وقت کے صحرا نے بھلا کس کو بخشا ہے۔ باقر شاہ جی، چوہدری صاحب اور ذوالکفل کے بغیر ملتان اداس اور اکیلا لگتا ہے‘ سڑکیں خالی لگتی ہیں۔ کیسے کیسے خوبصورت انسان کسی اور جہاں میں جا بسے۔ ایک ایسی دنیا میں پہنچ گئے جہاں ان سے ملنے کے لیے مرنا پڑتا ہے۔ صدیوں پرانے اپنے ملتان کی خالی سڑکوں پر رواں دواں زندگی کے سفر میں جہاں کبھی عمر کا ایک بڑا حصہ گزرا تھا، خود کو اپنے ماضی میں گم، افسردہ اور خاموش پایا۔ مجید امجد یاد آئے۔ میں روز ادھر سے گزرتا ہوں، کون دیکھتا ہے۔ میں جب ادھر سے نہ گزروں گا کون دیکھے گا!