جے آئی ٹی نے سپریم کورٹ میں انکشاف کیا ہے پاناما سکینڈل تحقیقات کے دوران باقی مشکلات اپنی جگہ لیکن سرکاری ریکارڈ کے ساتھ ٹمپرنگ کی جا رہی ہے۔
ہم کس کردار کے لوگ بن گئے ہیں۔ ہمارے سرکاری افسران اور سرکاری ادارے کس حد تک نیچے جا گرے ہیں۔ ابھی کچھ دن پہلے ہی پوری دنیا نے لائیو دیکھا کہ کانگریس کی کمیٹی کے سامنے ایف بی آئی کے سربراہ جیمز کومی پیش ہوئے اور انہوں نے بتایا کہ کانگریس نے ایک بل پاس کیا تھا جس کے تحت وہ دس سال تک ایف بی آئی کے سربراہ رہ سکتے تھے‘ لیکن ابھی ان کے چار برس ہوئے تھے کہ ایک دن انہیں صدر ٹرمپ نے بلایا‘ جو صدر کا الیکشن تو جیت چکے تھے لیکن حلف نہیں لیا تھا‘ اور باتوں باتوں میں کومی سے توقع کا اظہار کیا وہ ان کے وفادار رہیں گے۔ جیمز کومی نے جواب دیا کہ وہ ان سے وفاداری کی بجائے ایمانداری کی توقع رکھیں۔ یوں کومی نے ملازمت کے بقیہ چھ سال اپنی اس ایمانداری کو قائم رکھنے کے لیے قربان کر دیے۔
اب ہمیں بتایا جا رہا ہے کہ جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیا کے گریڈ بائیس میں ترقی کا معاملہ اگلے ہفتے بورڈ کے اجلاس میں رکھا گیا ہے‘ جس کی صدارت وزیر اعظم نواز شریف کریں گے۔ تو کیا یہ واجد ضیا کو ترغیت یا دھمکی دینے کی کوشش ہے؟ وزیر اعظم جمعرات کو ان کے سامنے پیش ہو رہے ہیں‘ تو کیا رویّے اور ترقی کا معاملہ ہے؟ کیا ہم بھی واجد ضیا سے اس رویے‘ کردار اور جواب کی توقع رکھیں جو جیمز کومی نے ٹرمپ کو دیا تھا کہ مجھ سے ایمانداری کی توقع رکھیں وفاداری کی نہیں؟
سپریم کورٹ میں گیارہ صفحات پر مشتمل جے آئی ٹی کی رپورٹ پڑھتے ہوئے مجھے لگا کہ اب جے آئی ٹی کی باری ہے اور اب ساری گولہ باری اسی پر ہو گی۔ اس رپورٹ کو‘ جسے میڈیا نے دکھانے سے زیادہ چھپانے کی کوشش کی، میں جس طرح حکومت کو چارج شیٹ کیا گیا ہے‘ وہ اپنی جگہ ایک کلاسک ہے‘ جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ معاملات حکومت کے ہاتھ سے نکل رہے ہیں۔ جس طرح حسین نواز کو مظلوم بنا کر پیش کیا گیا تھا اور جو یہ تاثر قائم کرنے کی کوشش کی گئی کہ شاید ان کو بار بار بلا کر کوئی غیرمعمولی زیادتی کی جا رہی تھی، وہ اس رپورٹ سے غلط ثابت ہوتا ہے۔ حسین نواز خود ہی پیشیاں مانگتے رہے اور ہر سوال پر نو کمنٹس کہہ کر اٹھ جاتے تھے۔
سوال اب اس معاشرے کے سامنے اور ہے۔ جب بھی اس ملک میں کسی طاقتور کا احتساب ہونے لگتا ہے تو ہم کیوں ڈر جاتے ہیں؟ ہمارے اندر کرپٹ اور کرپشن کے لیے اتنی محبت کیوں پیدا ہو گئی ہے؟ کرپشن کوئی اور کرے اور اس کا دفاع ہم کریں؟ اگر اس ملک میں جمہوریت نے چلنا ہے تو پھر یہ لوازمات آپ کو بھگتنا ہوں گے۔ جمہوریت تو نام ہے مسلسل اور روزانہ احتساب کا۔ آمریت میں آپ کسی کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے لیکن جمہوریت میں آپ کو باقاعدہ جواب دہ ہونا پڑتا ہے۔ وزیر اعظم گیلانی کے خلاف سپریم کورٹ میں چلتے مقدمات کے وقت نواز شریف اور ان کے حامی ہمیں یہ بات سمجھایا کرتے تھے کہ اسلامی نقطہ نظر سے انصاف کا بول بالا ہونا کتنا ضروری ہے۔ اور تو اور ہمیں ہمارے نبی پاکؐ کا وہ قول سنایا اور پڑھایا جاتا تھا کہ اگر میری بیٹی بھی چوری کرتی تو ہاتھ کاٹ دیے جاتے۔ لیکن اب کی دفعہ مسلسل یہ بتایا جا رہا ہے کہ ملک کے وزیر اعظم کا احتساب کرکے تباہی کا راستہ کھولا جا رہا ہے۔ اب وہ مبارک قول کسی کو یاد نہیں رہے اور نہ ہی کوئی حضرت عمرؓ کی مثالیں دیتا ہے۔ یہ سب مثالیں ہم نے پیپلز پارٹی کے احتساب کے لیے محفوظ کر رکھی ہیں۔ نواز شریف صاحب کا احتساب ہونے لگے تو ہمیں دورے پڑنے لگتے ہیں۔ وزیر اعظم کو تو خود کہنا چاہیے تھا کہ ان کا احتساب سخت سے سخت افسران سے
کرایا جائے تاکہ جب وہ کلین چٹ لے کر نکلیں تو ان پر کوئی انگلی نہ اٹھا سکے۔ پہلے مٹھائیاں بانٹی گئیں کہ جیت گئے، جیت گئے۔ اب فرماتے ہیں کہ ان کے ساتھ عدالت نے ہاتھ کر دیا ہے۔
روایت بنائی جا رہی ہے کہ فوجی حکمران ہوں یا سویلین‘ اس ملک میں جس کے ہاتھ ایک دفعہ طاقت آ گئی اس کا احتساب نہیں ہو سکتا۔ سب ریاست کا استعمال کرتے ہیں اور چن چن کر ایسے افسران اہم عہدوں پر لگاتے ہیں جو ان کے لیے جان دینے کو تیار ہوں۔ وہی پرانا طریقہ واردات ہے کہ سب ریاستی اداروں کو اپنا غلام بنا لو۔ سب کو خرید کو جیب میں ڈال لو اور پھر اکڑتے پھرو‘ یہ کہتے پھرو: کرو ثابت ہماری کرپشن۔ ہر دور میں ہمیں یہ بتایا جاتا ہے کہ جناب ہمارا تو احتساب ہوا تھا لیکن کچھ نہیں نکلا۔ یہ وہ نعرہ ہے جو ہر دور میں سننے کو ملتا ہے اور یوں لگتا ہے کہ فرشتے اس ملک پر حکومت کر رہے تھے۔ نواز شریف خاندان کا یہ مسلسل نعرہ ہے کہ ان کا احتساب ہوا تھا لیکن جنرل مشرف بھی کچھ نہ نکال سکا۔ ہنسی آتی ہے ایسے دلائل پڑھ کر۔ حکمران خاندان کے خلاف کئی ریفرنس چل رہے تھے۔ جونہی نیب ان ریفرنسوں پر فیصلہ کرنے کے قریب آیا تو ڈیل ہو گئی اور پورا خاندان سعودی عرب چلا گیا۔
ریفرنس بند کر دیے گئے۔ چلیں مان لیتے ہیں وہ جھوٹے ریفرنس ہوں گے۔ کیا مجھے کوئی بتا سکتا ہے کہ پھر نواز شریف صاحب کے نام پر حمزہ شہباز شریف نے 33 کروڑ روپے نیب کو کیوں چار قسطوں میں جمع کرائے تھے؟ یہ سب باتیں ریکارڈ پر ہیں اور میرے پاس ان کے دستاویزی ثبوت ہیں۔ اگر کچھ ثابت نہیں ہوا تھا تو پھر تنتیس کروڑ روپے نیب کو کیوں جمع کرائے گئے؟ بینظیر بھٹو اور زرداری بھی یہی کہتے تھے: کچھ ثابت نہیں ہوا تھا۔ جب جنرل مشرف کے وزیر داخلہ آفتاب شیرپائو نے بینظیر بھٹو کے ریڈ وارنٹ جاری کیے تو فوراً جنرل مشرف سے این آر او کی ڈیل کر لی گئی اور پھر سب مقدمات ختم۔ پیپلز پارٹی کے جیالے درست فرماتے ہیں کہ زرداری اور بینظیر بھٹو کے خلاف بھی کچھ ثابت نہیں ہوا۔ بینظیر بھٹو کے بعد زرداری صاحب کے خلاف این آر او مقدمات دوبارہ کھلے تو ایک دن ہم نے دیکھا‘ لندن کے ہمارے دوست صحافی مرتضیٰ علی شاہ کیمرے پر دکھا رہے تھے کہ پاکستان کے لندن میں ہائی کمشنر واجد شمس الحسن جیمز بانڈ انداز میں جنیوا سے منی لانڈرنگ کے ثبوت باکسوں سے چوری کر رہے تھے۔ کچھ دن بعد نیب عدالت کو بتایا گیا کہ زرداری کے مقدمات کی ماسٹر فائلیں غائب ہیں‘ لہٰذا زرداری بھی بری ہو گئے اور اب وہ درست فرماتے ہیں کہ ان کے خلاف بھی کچھ نہیں ملا۔
اب یہی کام نواز شریف دورِ حکومت میں ہو رہا ہے۔ یہ الزام کسی صحافی یا اخبار نے نہیں لگایا کہ حکومتی ادارے پاناما سکینڈل کی تحقیقات میں مدد کی بجائے یا تو ریکارڈ دینے سے انکاری ہیں یا پھر سرکاری ریکارڈ میں ہیر پھیر کیا جا رہا ہے۔ اب بتائیں ملزموں کو کیسے مجرم ثابت کیا جائے؟
لگتا ہے سب کے منہ بند کرا دیے گئے ہیں۔ وکلا تنظیمیں اچانک سرگرم ہوتی ہیں اور پھر اچانک خاموش ہو جاتی ہیں۔ حکمران خاندان کے حق میں ایسی ایسی تاویلیں گھڑ لی جاتی ہیں کہ حیرانی ہوتی ہے‘ یہ لوگ عدالتوں میں قانون اور انصاف کی بالادستی کے لیے پیش ہوتے ہیں؟ چند لاکھ روپے یا چند کروڑ روپے دے کر چپ کرا دیا جاتا ہے۔ یہ کام جنرل مشرف دور میں بھی ہوتا تھا اور شاید اب بھی ہو رہا ہے۔ نوٹوں کی بوریوں کے منہ کھول دیے گئے تھے یا اب لاہور اور اسلام آباد میں نوٹوں کی بارش کر دی گئی ہے۔ ویسے بعض دفعہ یہ حرکتیں دیکھ کر کراہت آتی ہے کہ کیسے ہم اپنا ہی بدن نوچ رہے ہیں۔ چند سکوں کے لیے ہم بک رہے ہیں۔ یہ ملک انصاف اور احتساب کے راستے پر چلنے لگتا ہے تو چند لوگ اپنی قیمت لگوا لیتے ہیں اور پھر ماتم شروع ہو جاتا ہے جمہوریت خطرے میں ہے، سیاست خطرے میں ہے‘ معاشرہ خطرے میں ہے۔
دوسرا نعرہ ہوتا ہے فوجیوں کا احتساب کیوں نہیں ہوتا؟ کیا فوجیوں کا احتساب عوام نے کرنا ہوتا ہے یا عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والوں نے کرنا ہوتا ہے؟ اگر کوئی فوجی افسر غلط کام کر رہا ہے تو اسے برطرف کرنے کے اختیارات وزیر اعظم کے پاس ہیں یا میرے گائوں کے خدا بخش قصائی کو یہ طاقت ملی ہوئی ہے جو وہ استعمال نہیں کر پا رہا؟
ویسے آپ کتنے بھی ادارے کرپٹ کر لیں، سرکاری افسران کو ڈرا لیں یا ساتھ ملا لیں، یا بقول دوست ہارون الرشید بھاڑے کے ٹٹوئوں کو اپنے دفاع پر بھرتی کرلیں، ایک دن سورج نے ڈوبنا ہی ہوتا ہے۔ جولیس سیزر نہ رہا، فرعون، قارون تک غرق ہو گئے۔ وہ تک نہ رہے جن کی سلطنت پر سورج غروب نہیں ہوتا تھا۔ آپ سب کو خرید لیں۔ سب کو جیب میں ڈال لیں، لیکن پھر بھی کہیں دور سات آسمانوں پر تقدیر بیٹھی مسکرا رہی ہوتی ہے... کہ اے انسان تو خسارے میں ہے... کب تک یہ چالاکیاں چلیں گی؟ کب تک پرچون کی دکان پر سودے طے ہوں گے۔ کب تک ضمیر بکیں گے۔ کتنے لوگ بکیں گے اور کتنے میں بکیں گے؟
ایک دن اقتدار کے سورج نے ڈوب ہی جانا ہوتا ہے... یہی ہزاروں سال پرانی انسانی تاریخ کا سبق بھی ہے اور فانی انسان کے عروج و زوال کا المیہ بھی!