شیر زمان کو لاہور ہائی کورٹ کے احاطے سے گرفتاری سے بچنے کے لیے بھاگتے دیکھ کر یاد آیا‘ اگر ملتان ہائی کورٹ بار کے صدر نے ملتان کے نواب مظفر خان اور دیوان مول راج کے حالات زندگی پڑھے ہوتے تو شاید وہ اس طرح نہ بھاگتے۔
نواب مظفر خان کی بہادری سے تو رنجیت سنگھ تک متاثر ہوا تھا۔ کیا کیا پیشکشیں نہیں کیں کہ ہتھیار پھینک کر قلعہ حوالے کر دو۔ بوڑھا نواب لڑتا رہا اور اپنے سامنے جوان بیٹوں کو سکھوں سے لڑتے ہوئے مارے جاتے دیکھتا رہا۔ جب شکست کے بعد اس کے بیٹے کو لاہور میں رنجیت سنگھ کے دربار میں پیش کیا گیا تو سکھ سردار احترام میں کھڑا ہو گیا کہ وہ بہادر دشمن کا بیٹا تھا‘ اور ایک روایت کے مطابق اسے اپنے ساتھ تخت پر بٹھایا۔
اسی طرح ملتان کے حکمران دیوان مول راج کا ٹرائل بھی اسی لاہور کے شاہی قلعے میں ہوا تھا‘ جب اسے انگریز ملتان سے بغاوت کے جرم میں گرفتار کرکے لائے تھے۔ اس پر انگریز افسروں کے قتل اور جنگ لڑنے کا الزام تھا۔ مول راج نے بھی ملتانیوں کی لاج رکھ لی تھی۔ شاید مول راج نہ لڑتا لیکن ماں کا ایک طعنہ اسے لے بیٹھا تھا: شرم کرو تم ملتان کے حاکم ہو‘ لوگ تم پر اعتماد کرتے ہیں اور تم یہاں بھیگی بلی بن کر بیٹھے ہو۔ بیٹا بندوق پکڑے کر نکل گیا‘ اور پھر بغاوت کے جرم میں انگریزوں کے ہاتھوں عمر قید کی سزا بھگتی۔
آج کل دیوان مول راج کے اس مقدمے کی کہانی لکھ رہا ہوں۔ کچھ ریسرچ کی ہے۔ کچھ مواد ملتان سے اکٹھا کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ کیا کمال کا مقدمہ تھا۔ مول راج کو کٹہرے میں کھڑا کرکے چارج شیٹ پڑھی گئی کہ وہ سلطنت برطانیہ کا باغی ہے۔ کیسے کیسے دلائل پیش ہوئے۔ وکلاء دنوں تک ایک دوسرے سے لڑتے رہے۔ انگریز پھانسی دینا چاہتے تھے لیکن دلائل نے مجبور کر دیا کہ سزا عمر قید تک محدود رکھی جائے۔
شیر زمان پر ایک الگ طرح کا الزام تھا‘ نواب مظفر اور دیوان مول راج کی طرح بغاوت اور جنگ کا نہیں۔ نہ ہی اسے سزائے موت کا ڈر تھا جیسے مول راج کے سر پر شاہی قلعے میں بغاوت کے مقدمے کی سماعت کے دوران تلوار لٹک رہی تھی۔
شیر زمان کو بھاگتے دیکھ کر مزہ نہیں آیا۔ شیر زمان کو پتہ ہونا چاہیے تھا کہ ملتان اور تخت لاہور کا یہ ایشو بہت پرانا ہے۔ اگر شیر زمان نے بھاگنا ہی تھا تو پھر بہتر تھا کہ وہ عدالت میں پیش ہو کر معافی مانگ لیتا۔
مجھے لگتا ہے کہ تخت لاہور کا رویہ رنجیت سنگھ کی فتحِ ملتان کے بعد اس طرح کا رہا ہے جیسے مفتوح علاقوں کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ جنوبی پنجاب کے ساتھ یہ رویہ محض یہیں تک محدود نہیں۔ آپ کو ہر شعبے میں یہ امتیاز نظر آئے گا۔ پہلے ہمارے وہاں موجود پنجابی اور اردو سپیکنگ دوست سمجھتے تھے کہ سرائیکی تعصب کرتے ہیں۔ ان کے صوبے کے مطالبے پر انہیں بہت خدشات تھے۔ پہلے وہ مذاق اڑاتے تھے۔ اب ان کی اپنی نئی نسلیں جوان ہوئی ہیں تو انہیں احساس ہوا ہے کہ واقعی جنوبی پنجاب کے ساتھ بہت زیادتی ہو رہی ہے اور ہر لیول پر ہو رہی ہے۔ اب انہیں جنوبی پنجاب صوبے کا مطالبہ جائز لگتا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اب سرائیکیوں سے زیادہ ہمارے پنجابی دوست نئے صوبے کے حامی ہیں۔ مسئلہ نام کا تھا۔ اب بھی بہت سارے لوگ سرائیکی کے نام سے چڑتے ہیں۔ چلیں سرائیکی نہ سہی آپ ملتان صوبہ بنا لیں۔ مجھے ملتان سے ہی ایک نوجوان ایڈووکیٹ صفدر علی چوہدری کا میسج آیا ہے: میں پنجابی سپیکنگ ہوں اور صوبے کا حامی ہوں۔
میں ہمیشہ اپنے سرائیکی دوستوں سے کہتا تھا: جب تک پنجابی اور اردو سپیکنگ طبقات کو احساس نہیں ہو گا جنوبی پنجاب میں نیا صوبہ نہیں بنے گا۔ جو کچھ ملتان میں وکیلوں کے ساتھ ہوا‘ اس کے بعد وہاں نئے صوبے اور علیحدہ ہائی کورٹ کے مطالبے نے زور پکڑا ہے۔ باقی چھوڑیں ہائی کورٹ کے سابق جسٹس ارشد جہانگیر ارشد نے بھی لاہور سلمان اکرم راجہ کو خط لکھا ہے۔ جسٹس جہانگیر ارشد لکھتے ہیں: جو کچھ وکیلوں نے لاہور میں کیا اسے وہ ہرگز اچھا نہیں سمجھتے۔ اس کی مذمت کرتے ہیں لیکن جو کچھ ملتان کے ساتھ ہوا‘ کیا وہ درست تھا؟ جہانگیر ارشد نے پوچھا: جب آپ زیادتیاں کریں گے تو کیسے توقع رکھ سکتے ہیں کہ جنوبی پنجاب کے لوگ آپ کو عزت دیں گے؟ آخر میں سابق جج لکھتے ہیں کہ وہ اب جنوبی پنجاب کو علیحدہ صوبہ بنانے اور علیحدہ ہائی کورٹ کے مطالبے کو درست سمجھتے ہیں۔
مجھے اس وقت حیرانی ہوئی جب عاصمہ جہانگیر، سلمان اکرم راجہ، علی ظفر جیسے لوگ عدلیہ کی حرمت میں نعرے لگاتے ہوئے سامنے آئے۔ یہ تینوں اس وقت نواز شریف حکومت کے ساتھ کھڑے تھے جب سپریم کورٹ کے ججوں کو سرعام دھمکیاں دی جا رہی تھیں۔ عاصمہ جہانگیر خاندان حکومت سے پانچ کروڑ روپے کا قرضہ معاف کرا چکا ہے اور آج کل نواز حکومت انہیں دھڑا دھڑ سرکاری مقدمات دے کر بھاری فیسوں سے نواز رہی ہے‘ حالانکہ اس نے تو سپریم کورٹ کے ججوں کے خلاف سٹینڈ لیا ہوا ہے۔ یہ تین محترم وکلا اسلام آباد میں سپریم کورٹ کے ججوں کے خلاف ہیں اور حکومت کے ساتھ ہیں‘ لیکن لاہور کے ججوں کے حق میں ہیں... کمال نہیں ہو گیا؟ کیسے سمجھدار وکیل ہیں یہ سب۔ عاصمہ جہانگیر اور علی ظفر تو ماشاء اللہ سپریم کورٹ بار کے صدر بھی رہے ہیں لیکن انہیں سپریم کورٹ کے جج برے لگتے ہیں اور ان کو جو بھی دھمکاتا رہے اس پر یہ چوں تک نہیں کریں گے لیکن لاہور کے جج اچھے ہیں۔
عاصمہ جہانگیر کے سپریم کورٹ کے ججوں پر غصہ کرنے کی وجہ بڑے عرصے بعد سمجھ آئی‘ جب یہ انکشافات ہونے لگے کہ کیسے موصوفہ کے خاندان نے کروڑوں روپے کے قرضے معاف کرائے اور انہوں نے خود حکومت سے بڑے بڑے مقدمات کے عوض فیسیں کھری کیں۔ اب فرماتی ہیں کہ وہ وکیل ہیں اور ان کا کچن فیس سے چلتا ہے۔ کمال کا یُوٹرن ہے۔ کبھی ہیومن رائٹس کے یہ چمپیئن ظالم اور جابر حکمرانوں کے خلاف بے چارے انسانوں کے مقدمے لڑتے تھے۔ اب وہ حکومت کے ساتھ کھڑے ہو کر مظلوموں کے خلاف عدالتوں میں لڑتے ہیں۔ ای او بی آئی کے سکینڈل میں جتنی بھاری فیسیں عاصمہ جہانگیر سمیت لاہور کے وکلاء نے وصول کی تھیں‘ اس پر سپریم کورٹ نے بھی سوو موٹو لیا تھا کہ اٹارنی جنرل کے ہوتے ہوئے کیوں وکیل رکھے گئے؟ ان سرکاری فیسوں کا یہ اثر ہوا ہے اب محترمہ فرماتی ہیں: کیا ہوا اگر نواز شریف نے عدالت یا پارلیمنٹ میں جھوٹ بولا‘ سب بولتے ہیں‘ ملک کا وزیر اعظم جھوٹا ہے تو کون سی قیامت آ گئی۔ اب وہ کہتی ہیں: لاہور میں وکلاء نے بہت برا کیا اور وہ عدلیہ کے ساتھ کھڑی ہیں۔ وہ اسلام آباد میں سپریم کورٹ کے ساتھ کیوں کھڑی نہیں ہوتیں؟
سلمان اکرم راجہ اسلام آباد میں کیوں عدلیہ کے ساتھ کھڑے نہیں ہوئے جب طلال چوہدری، خواجہ سعد رفیق، دانیال عزیز اور دیگر نے کھلم کھلا ججوں کو پاناما سکینڈل کی سماعت پر دھمکیاں دیں۔ نہال ہاشمی جب ججوں کے بچوں کو بھی نشان عبرت بنانے کی بات کر رہے تھے تو بھی یہ تینوں خاموش تھے۔
مجھے یاد ہے‘ جب منصور علی شاہ چیف جسٹس بنے تھے اور عدلیہ اور وکیلوں کو درست کرنے کی بات کی تھی تو یہی گروہ ان کے خلاف ہو گیا تھا۔ میں اور عامر متین نے اس پر پروگرام کیا تھا۔ بابر اعوان کو فون پر لیا تھا اور بابر اعوان نے کھل کر اس گروہ کے خلاف چیف جسٹس کو سپورٹ کرنے کی بات کی تھی۔ آج وہی گروہ چیف جسٹس کا جھنڈا اٹھائے ہوئے ہے۔
ملتان ہائی کورٹ بار کے صدر شیر زمان کو بھاگنا نہیں چاہیے تھا۔ وہ لاہور ہائی کورٹ کے حکم پر گرفتاری دے دیتے تو شاید ایسی صورتحال پیدا نہ ہوتی۔