دن رات ہم سنتے ہیں کہ ووٹر پڑھا لکھا ہو تو پاکستان کی تقدیر بدل جائے گی۔ کیا لاہور میں کم پڑھے لکھے لوگ رہتے ہیں؟ انہیں مزید پڑھانے کی ضرورت ہے؟ اس پڑھے لکھے ووٹر کی تلاش کی بحث میں مجھے ڈیرہ غازی خان کے سردار فاروق لغاری یاد آئے۔
انیس سو اسی کی دہائی میں فاروق لغاری نے بہت نام کمایا تھا۔ پیپلز پارٹی کے ساتھ وفاداری دکھانے والے چند ایک زمیندار یا فیوڈلز جو بچ گئے تھے‘ وہ ان میں سے ایک تھے۔ باقی سب نے جنرل ضیا کے ہاتھوں پر بیعت کر لی تھی۔ وہ بینظیر بھٹو کے قریبی ساتھیوں میں تھے۔ اپنے بعد اگر کسی پر بینظیر اعتماد کرتی تھیں تو وہ لغاری ہی تھے۔ یہی وجہ تھی کہ جب انیس سو اٹھاسی کے الیکشن میں پیپلز پارٹی کے پاس کچھ سیٹیں آئیں‘ اور سوچا گیا کہ پنجاب سے کس کو وزیر اعلیٰ بنایا جائے تو پہلی نظرلغاری پر پڑی۔ بہت کم لوگوں کو یاد ہو گا اس وقت نواز شریف اور لغاری کا مقابلہ ہوا تھا۔ یہ سیاسی مقابلہ کم اور دولت کا زیادہ تھا۔ نواز شریف جنرل ضیاء دور میں تین سال پنجاب کے وزیر اعلیٰ رہ چکے تھے‘ اور اس وقت بھی وہ نگران وزیر اعلیٰ تھے‘ لہٰذا شہد کی مکھی کی طرح سب مٹھاس پر جا گرے۔ پنجاب کی روایت ہے کہ یہ طاقتور کے ساتھ کندھا ملا کر کھڑا ہوتا ہے۔ بغاوت کے جراثیم اس میں بہت کم ہیں۔ نواز شریف نے اپنے ایم پی ایز کو دولت کی لت لگا دی تھی۔ اے ایس آئی اور نائب تحصیلدار کی نوکریاں دھڑا دھڑ بیچی گئیں۔ سیاستدان کو کرپشن کے نئے نئے طریقے بتائے گئے۔ لوگوں کو بھی پتہ چلا کہ بیٹے کا مستقبل بنانا ہے تو وہ کہیں سے تین چار لاکھ روپے کا بندوبست کریں، چاہے زمین بیچیں، گھر میں کھڑے جانور یا پھر زیورات۔ چار لاکھ روپے کسی ایم پی اے کے پاس لے جائیں‘ اگلے دن آپ کا برخوردار پولیس کی وردی پہن کر اپنے گھر، رشتہ داروں اور محلے داروں پر رعب جھاڑ رہا ہو گا۔ ایک دفعہ کی سرمایہ کاری اور ساری عمر کا منافع ہی منافع۔ یوں فاروق لغاری اس کھیل میں ہار گئے اور نواز شریف فاتح قرار پائے۔
یہیں سے پیپلز پارٹی کے اندر یہ احساس ابھرا کہ اگر نواز شریف کے ساتھ سیاست میں مقابلہ کرنا ہے تو پھر اتنی ہی کرپشن کرنی پڑے گی، اتنا مال کمانا پڑے گا تاکہ ووٹر سے لے کر ایم پی ایز اور ایم این ایز تک سب کو خریدا جا سکے۔ منہ مانگی قیمت پر ووٹ خریدے جائیں۔ زرداری کو بینظیر بھٹو کو اس نواز شریف ماڈل پر قائل کرنے میں کچھ وقت لگا‘ لیکن آخرکار وہ بھی تیار ہو گئیں کیونکہ ایک ہی راستہ تھا کہ سیاست چھوڑ دیں یا پھر روم میں وہی کریں جو روم کے شہری کرتے ہیں۔ یوں دھیرے دھیرے سیاست کو عوام کی خدمت یا اپنے سے کمزور اور غریب لوگوں کی زندگیوں میں تبدیلی لانے سے زیادہ مال بنانے کا شارٹ کٹ سمجھ لیا گیا۔ عام لوگوں تک بھی پیغام پہنچا کہ اگر طاقت کو اپنے ہاتھ میں رکھنا ہے تو دو تین کام کرنے ہوں گے۔ پہلے تو خاندان میں سے کسی ایک بچے کو سیاست میں گُھسانا ہو گا۔ مسلم لیگ یا پیپلز پارٹی میں‘ جہاں جگہ مل جائے۔ سیاسی جگہ بن گئی تو اندازہ ہوا کہ جب تک بیوروکریسی میں بھی کوئی بچہ نہیں ہو گا‘ بات نہیں بنے گی۔یہ خواہش پیدا ہوئی کہ سیاست کے بعد ایک آدھ بچہ اے ایس پی یا اسسٹنٹ کمشنر لگ جائے۔ اس کے لیے بھی سیاسی طاقت استعمال ہوئی اور اوپر سے آرڈر ہونے پر سب کام آسانی سے ہو گئے۔ اگر گھر میں کوئی بچہ بیوروکریسی میں نہ تھا تو پھر طے ہوا بچوں کے رشتے اے ایس پی اور اے سی سے کیے جائیں۔ یوں طاقت کے نئے مراکز بنتے چلے گئے۔ پھر خیال آیا‘ چند بڑے سیاسی گھرانوں کے ساتھ مل کر پاور کو گھر کی مستقل باندی بنایا جائے۔ یوں ایک ہی گھر میں سیاست، سول و ملٹری سروس، اور سیاسی رشتے داریاں اکٹھی ہو گئیں اور ان سب نے ایکا کر لیا کہ اب کسی کو اپنے اندر نہیں گھسنے دینا اور مل کر عوام کی کھال اتارنی ہے۔ اوپر مرکز میں باپ اگر ایم این اے یا وزیر لگ گیا تو چچا نیچے صوبائی اسمبلی میں ایم پی اے بن گیا اور بیٹا کسی ضلع کا ایس پی لگ گیا تو داماد ڈپٹی کمشنر۔ ایک آئیڈیل لائف شروع ہو گئی۔ ان سب نے مل کر ایک دوسرے کو تحفط دینا شروع کیا۔ بولیاں لگنی شروع ہوئیں۔ اگر ایک وزیر اعلیٰ یا وزیر اعظم کمزور ہوا تو وہ دوسرے کے ساتھ مل گئے‘ کیونکہ خاندانی فائدہ اس میں تھا۔ ہر دور میں اقتدار میں رہنا تھا‘ ورنہ جو کچھ بنایا تھا‘ وہ بھی ہاتھ سے نکل جاتا۔ یوں ہارس ٹریڈنگ شروع ہوئی۔ دونوں اطراف سے نوٹوں کا مقابلہ ہوا۔ نواز شریف کے سیاسی مخالف ہر محاذ پر شکست کھاتے گئے۔ یہ خاندان کاروباری دنیا سے یہ گر سیکھ کر آیا تھا کہ جہاں پیسہ اور سفارش سے کام چل سکتا ہو‘ وہاں سفارش کے چکر میں نہ پڑیں۔ سیدھا سیدھا کیش دیں‘ اور سو فیصد نتائج حاصل کریں۔ یوں سب دھول چاٹتے گئے۔ شریف خاندان کو علم تھا کہ ہر ایک کی ایک قیمت ہوتی ہے۔ درمیان میں کچھ نئے سیاسی کھلاڑی ابھرے جو شریف خاندان سے یہ سب کچھ سیکھ چکے تھے۔ کچھ عرصہ بعد انہوں نے بھی نواز شریف صاحب کو ناکوں چنے چبوائے۔ ان میں پرویز الٰہی اور منظور وٹو کا نام سرفہرست ہے۔ تاہم نواز شریف کو ایک اور ایڈوانٹیج تھا‘ جو دیگر کو حاصل نہ تھا۔ شریف خاندان نے بیوروکریسی اور سیاسی گھرانوں کے بعد اب شہروں کے تاجروں کو بھی کرپٹ کرنا شروع کر دیا۔ ایسی ایسی مراعات ان کو دی گئیں‘ جو انہوں نے خواب میں نہ دیکھی ہوں گی۔ بینکوں کے اربوں روپے ایسی ایسی سکیموں سے ڈبوئے گئے‘ جن کے بارے میں پہلے سے علم تھا کہ وہ ناکام ہوں گی لیکن ان کا سیاسی کھیل اس سے چمکے گا۔ لوگوں کو دھڑا دھڑ ایزی مال ملنے لگا۔ قرضے کس نے واپس کرنے تھے۔ سب کے لیے ماحول فری فار آل ہو گیا۔ جو شریف خاندان کے لیے سروسز دے سکتا تھا‘ وہ اسے زمین سے اٹھا کر آسمان پر بٹھا سکتے تھے۔ اخلاقیات کی گنجائش ہی ختم کر دی گئی۔ دولت، پجارو، کلاشنکوف لٹکائے گاڑدز معاشرے کے نئے ہیرو اور رول ماڈل بن کر ابھرے۔ ہر کسی نے انہیں رشک بھری نظروں سے دیکھنا شروع کیا۔ ایمانداری اور اخلاقیات کی بات کرنے والے بیوقوف لگنے لگے۔ ہر ایک سوچنے لگ گیا کہ وہ کیسے اس کلاس میں داخل ہو سکتا ہے۔ سیاسی پارٹیوں اور لیڈروں کے گھروں کے چکر لگنے شروع ہوئے۔ ان سیاستدانوں کو بھی ہر گلی محلے میں کچھ غنڈے‘ تو کچھ ووٹ چاہئیں تھے‘ لہٰذا انہوں نے عوام کے ان بچوں پر ہاتھ رکھنا شروع کر دیا۔ کسی ایک کو سردار کا درجہ دے کر ان سیاسی لوگوں نے ان کے ذریعے لوگوں کو غلام بنا لیا۔ سب کو علم تھا کہ محلے میں فلاں صاحب کی وزیر صاحب تک بہت پہنچ ہے۔ یوں بچوں کی نوکری کا مسئلہ ہو، سکول‘ کالج داخلہ، بیٹی کا ٹرانسفر، تھانے میں بچہ موٹر سائیکل کے ساتھ بند ہو، زکوٰۃ لینی ہو، کسی فارم پر دستخط کرانے ہوں‘ سب کام اس کے ذمے لگے۔ اس نوجوان نے بھی اپنی مزدوری کھری کرنی شروع کر دی۔ لوگوں کو سنانا شروع کیا کہ مفت میں کام تھوڑے ہوتے ہیں‘ پیسہ خرچ کرنا پڑتا ہے۔ اور یوں سیاست میں کرپشن سرایت کرتی چلی گئی۔ عوام کو احساس ہوا کہ یہاں تو بغیر پیسہ دیے بات نہیں بنے گی‘ لہٰذا جس گھر کا بندہ کسی سرکاری محکمے میں کام کر رہا تھا‘ اس نے بھی یہ جواز ڈھونڈ لیا کہ اگر اس سے کسی کام کے پیسے لیے جا رہے ہیں تو پھر وہ دوسروں کے کام کرنے کے پیسے کیوں نہ لے؟ یوں ایک مقابلہ شروع ہو گیا کہ کون کتنا کما سکتا ہے۔ کرپشن روزانہ کی زندگی کا معمول بنتی گئی۔ اور ایک دن لوگوں کو یہ کہتے سنا گیا کہ ایسے ایماندار امیدوار کا ہم نے اچار ڈالنا ہے‘ جو اپنی قسمت نہیں بدل سکا‘ وہ ہماری خاک بدلے گا اور پھر طاقتور، کرپٹ، بیرون ملک بینک بیلنس اور جائیدادیں۔ عدالتوں سے سزا یافتہ گروہ ہی رول ماڈل ٹھہرے۔ اور ایک دن اسی فاررق لغاری کے دو ہونہار فرزند جمال خان اور اویس خان لغاری بھی نواز شریف ماڈل سے متاثر ہو کر ان کے ہاتھوں پر بیعت کر رہے تھے۔ دونوں بیٹوں نے اپنے باپ کی موت کے چار برس بعد ہی باپ کو غلط ثابت کر دیا۔ جس معاشرے میں فاروق لغاری کے فارن کوالیفائڈ بچے بھی نواز شریف‘ شہباز شریف کے سیاسی ماڈل سے متاثر ہوں، وہاں لاہور کے ووٹرز سے کیا گلہ؟ لاہور میں یاسمین راشد کی شکست پر یہ شور کیسا... کیسا ہنگامہ؟