ایک دفعہ پھر ملتان آیا ہوں۔
ویک اینڈ پر کہیں جانے کو جی نہیں چاہتا۔ کتابیں پڑھنے‘ فلمیں دیکھنے‘ اور بچوں کے ساتھ گپ شپ میں ہی وقت گزر جاتا ہے۔ ملتان سے شکیل انجم کا فون تھا۔ کہنے لگا: ملتان کے ایک سکول میں تقریب ہے‘ تم آ جائو۔ شکیل انجم سے دوستی ہوئے بیس برس سے زیادہ ہو گئے ہیں۔ ایک شاندار اور خوبصورت دوست‘ یارِ غار۔ اتفاق دیکھیں‘ اسلام آباد میں جس سے دوستی کا دعویٰ ہے وہ بھی شکیل انجم ہے۔ ملتان کا شکیل انجم ملتان پریس کلب کا صدر‘ تو اسلام آباد کا شکیل انجم اسلام آباد پریس کلب کا صدر۔ دونوں کیا کمال دوست ہیں۔
اپنا ویک اینڈ ہاتھ سے نکلتے دیکھ کر میں سوچ میں پڑ گیا کہ کیسے شکیل کو انکار کروں۔ اگر ویک اینڈ نہ ہوتا تو بہانہ چل جاتا کہ رات کو ٹی وی شو کرنا ہے۔ مجھے سوچ میں ڈوبے محسوس کرکے شکیل بولا: میری خیر ہے‘ آمنہ کے سکول کا فنکشن ہے۔ مجھے یاد آیا‘ برسوں پہلے شکیل ہمارے گھر آیا تھا تو آمنہ چند ماہ کی تھی۔ اب بچے بڑے ہو گئے ہیں۔ میں نے کہا: اب انکار کی گنجائش نہیں رہی۔
جمعہ کی شام ملتان پہنچا۔ رات کو شکیل انجم اور ظفر آہیر سے طویل گپ شپ کا دور چلا‘ تو ملتان یونیورسٹی دور کی یادیں گھنٹوں تازہ ہوتی رہیں۔ دوست یاد آتے رہے۔ ظفر آہیر اس وقت ملتان میں ایک بڑے اردو اخبار کا ایڈیٹر ہے... بہت بدل گیا ہے۔ وہ ملتان یونیورسٹی میں شروع میں جمعیت کا کارکن تھا۔ پھر ایسا بدلا کہ جمعیت کے خلاف ہی دھڑا بنا لیا۔ ظفر آہیر سوا چھ فٹ کا خوبصورت‘ کڑیل نوجوان تھا۔ اس وقت ابوبکر ہال پر جمعیت کا قبضہ تھا۔ ظفر نے عمر ہال پر قبضہ کر لیا۔ جمعیت کے لاہور سے آئے گروپ اور ملتان کے گروپ میں تنازعے شروع ہوئے۔ ظفر آہیر‘ جو ملتان کی ایک نواحی بستی سے تعلق رکھتا تھا‘ نے
لاہور سے آئے گروپ کے خلاف بغاوت کی‘ جو بقول اس کے ان کے ساتھ ماسٹر اور ملازم والا سلوک کر رہے تھے۔ ظفر آہیر کی بغاوت کے بعد وہ لوگ سنبھل نہ سکے۔ پُرتشدد کارروائیاں شاید اس وجہ سے زیادہ نہ تھیں کہ اس وقت ناظم عبدالقادر بزدار جیسے لوگ جمعیت میں موجود تھے۔ بعد میں ناظم اعجاز بھٹی کا دور بھی نسبتاً اچھا تھا۔ ہمارے جیسے ''ناپسندیدہ عناصر‘‘ کو جمعیت کے ہاتھوں سے بچانے میں ان کا بھی بڑا ہاتھ تھا۔ میں نے ظفر سے پوچھ لیا: آج کل عبدالقادر بزدار صاحب کہاں ہوتے ہیں‘ میں ابوبکر ہال میں 99B نمبرکمرے میں رہتا تھا۔ اسی ہال میں بزدار صاحب کا بھی قیام تھا۔ ظفر ہنس پڑا اور بولا: آج تمہیں ایک مزے کی بات بتائوں‘ ایک دفعہ جمعیت کی کمیٹی میں تمہارے خلاف شکایت ہوئی کہ رئوف اپنی کلاس فیلو لڑکی کے ساتھ اکثر کینٹین پر پایا جاتا ہے‘ اس طرح تو ماحول خراب ہو گا‘ اس کا تدارک ہونا چاہیے۔ مطلب یہ کہ پہلے اسے سمجھایا جائے‘ اور پھر پھینٹی لگائی جائے۔ اس پر عبدالقادر بزدار بولے: میرا خیال ہے اس کی ضرورت نہیں‘ رئوف کو میں جانتا ہوں‘ شریف سٹوڈنٹ ہے‘ اور سنا ہے وہ اس لڑکی سے شادی بھی کرنا چاہتا ہے۔ یوں عبدالقادر بزدار کی وجہ سے‘ جو جمعیت میں نہایت عزت اور احترام سے دیکھے جاتے تھے‘ میری پھینٹی کا منصوبہ ترک کر دیا گیا۔ میں نے ظفر سے کہا: کبھی بزدار صاحب سے ملاقات ہو تو ضرور بتائیے گا کہ میں نے ان کے اعتماد کو ٹھیس نہیں پہنچائی‘ جیسے اکثر طالب علم یونیورسٹی میں کرتے تھے کہ کسی کو بھی ماں بہن بنا لو‘ یا پھر منگیتر ظاہر کر دو اور گھنٹوں گپیں لگائو۔ میں نے کہا: وہ لڑکی‘ جس کے ساتھ کینٹین پر بیٹھتا تھا اور انہوں نے انتہائی اعتماد سے جمعیت کے اندرونی اجلاس میں مجھے کُٹ سے بچانے کے لیے میری ضمانت دی تھی‘ آج میرے دو بچوں کی ماں ہے۔
بہرحال عبدالقادر بزدار صاحب کی مہربانی۔ اس واقعے کا مجھے کل رات یعنی چوبیس برس بعد ظفر آہیر کے ذریعے پتہ چلا ہے۔ کیسے کیسے اچھے انسان ہوتے ہیں‘ جو آپ کو کسی مشکل سے بچا لیں تو بھی احسان نہیں جتاتے۔ بزدار صاحب انہی میں سے ایک تھے۔ اکثر ابوبکر ہال میں ان سے ملاقات ہوتی تھی‘ مجال ہے جو کبھی ذکر کیا ہو کہ آپ کے خلاف شکایت آئی تھی اور میں نے ویٹو کر دی تھی۔
میں نے ظفر سے کہا: باقی چھوڑیں‘ آپ لوگ اس وقت غنڈے بنے ہوئے تھے، آپ نے ابوبکر ہال کے سامنے بے چارے لالے کی کینٹین کھول کر رات کو کھانے پینے کا سامان چرا لیا تھا‘ کوئی ایسے بھی کرتا ہے۔ ظفر بولا: یہ غلط ہے۔ پھر اس نے پوری کہانی سنائی تو سبھی ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو گئے۔
لالہ کی کینٹین توڑنے کی کہانی سے مجھے ابوبکر ہال کے دائیں جانب واقع ایک اور کینٹین یاد آئی۔ اس کینٹین کے پیچھے کھیتوں کا ایک سلسلہ شروع ہوتا تھا۔ دور دور تک وسیع و عریض کھیت اور اوپر چھایا نیلا آسمان۔ کچھ تنہائی تنہائی سی، کچھ اداسی اداسی اور دور تک پھیلے کھیتوں کا منظر، درمیان میں خاموش درخت اور درختوں کے نیچے کرسی پر خیالات میں گم، میں چائے کے سِپ لیتے کافی دیر یونہی خاموش بیٹھا رہتا تھا۔ وہاں ایک دس بارہ برس کا لڑکا کینٹین پر کام کرتا تھا۔ اکثر وہ بھاگا آتا اور ناشتہ دے جاتا۔ اس لڑکے سے ایک دن پوچھا کہ وہ کہاں سے ہے اور یہاں کام کیوں کر رہا ہے؟ سکول کیوں نہیں جاتا؟ بولا: باپ مر گیا ہے‘ گھر میں بڑا ہوں‘ بہن بھائیوں کے لیے کماتا ہوں‘ روزانہ بیس روپے ملتے ہیں‘ رات کو بارہ بجے کینٹین بند ہوتی ہے تو وہیں کینٹین کے اندر فرش پر کسی کونے میں سو جاتا ہوں‘ صبح چھ بجے کینٹین کھولنی ہوتی ہے تاکہ آپ سب کو ناشتہ دوں۔ اس نے بتایا کہ کینٹین کا مالک صبح سویرے ناشتے کا سامان لے آتا ہے‘ اور سات بجے ناشتہ دینا شروع کرتے ہیں۔ کچھ پیسے بل سے بچ جاتے اور میں اسے کہتا رکھ لو تو ڈر کے مارے کہتا: جی میری جیب سے نکل آئے تو کینٹین کا مالک سمجھے گا‘ میں نے اس کے پیسے چوری کیے ہیں۔ میں نے پوچھا: گائوں کب جاتے ہو؟ بولا: پندرہ بیس دن بعد جاتا ہوں۔ میں نے کہا: چلو جب گائوں جانے لگو تو بتانا اس وقت دوں گا۔
ایک صبح وہ بہت خاموش اور اداس تھا۔ میں نے پوچھا: کیا بات ہے؟ بولا: میرے چھوٹے بھائی کو بڑا شوق تھا کہ یہاں کینٹین پر مجھ سے ملنے آئے۔ کئی دفعہ منع کیا‘ لیکن آج صبح صبح بغیر بتائے آ گیا‘ بھوکا تھا‘ بسکٹ کا چھوٹا پیکٹ اٹھا لیا۔ اسی وقت کینٹین کا مالک آ گیا‘ اور بسکٹ کھاتے دیکھ کر میرے سامنے چھوٹے بھائی کو تھپڑ مار دیا‘ مجھے بھی گالیاں دیں۔ یہ کہہ کر بچہ رونے لگا۔ پھر بولا: کیا فرق پڑ گیا تھا‘ کیوں مارا میرے بھائی کو‘ میرے بیس روپوں سے پیسے کاٹ لیتا‘ مجھے تھپڑ مار دیتا‘ میرے چھوٹے بھائی کو نہ مارتا۔ میں نے کہا: کہاں ہے تمہارا بھائی؟ اسے بلائو‘ ہم اکٹھے ناشتہ کرتے ہیں۔ اس نے بتایاکہ وہ تو تھپڑ کھانے کے بعد اسی وقت واپس چلا گیا تھا۔ وہ آنسو پوچھتے لوٹ گیا تاکہ کسی اور گاہک کو ناشتہ پیش کرے‘ جو وہ اپنے چھوٹے بھائی کو نہیں کھلا سکتا تھا۔
میں تصور میں درختوں کی اوٹ سے‘ اس کے گائوں کے کچے راستے پر چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتے اور بار بار مڑ کر اپنے بڑے بھائی کی کینٹین کو تکتے اس چھوٹے بچے کر دیکھتا رہا جو کتنے شوق سے صبح صبح یہ سوچ کر کینٹین پر آ گیا تھا کہ اس کا بھائی پتہ نہیں کتنی بڑی کینٹین کا مالک ہے‘ جہاں اس کا چھوٹا بھائی اپنی مرضی سے کوئی بھی چیز اٹھا کر کھا سکتا ہے۔
برسوں بعد اسلام آباد میں ٹام ہارڈی کی فلم lawless دیکھی تھی تو اس وقت بھی یہ ملتانی کینٹین بوائے ذہن میں آیا تھا‘ اور آج ملتان یونیورسٹی کا ذکر چھڑا تو بھی وہی لڑکا آنکھوں کے سامنے آ گیا۔ ٹام ہارڈی کی وہ فلم دیکھ کر اندازہ ہوا تھا کہ بڑے بھائی کے لئے آنسو تو معمولی بات ہوتی ہے، وہ تو اپنے چھوٹوں کے لیے جان پر بھی کھیل جاتے ہیں۔
چوبیس برس گزرنے کے بعد بھی اس ملتانی کینٹین بوائے کے آنسو خشک نہیں ہوئے۔ بعض حادثات کے نشانات اور نقوش کو وقت کے صحرا میں چلنے والی آندھیاں بھی نہیں مٹا سکتیں۔