کیا پاکستان کے اچھے دن آنے والے ہیں یا پھر مزید مشکلات ہمارا انتظار کر رہی ہیں؟ ملک کے وزیراعظم کو کرپشن پر سپریم کورٹ نے نکال دیا ہو، بچوں کے وارنٹ نکل چکے ہوں، وزیرخزانہ اسحاق ڈار پر فرد جرم عائد ہو چکی ہو تو پھر اس ملک میں قانون کی بالادستی اس سے زیادہ اور کیا ہو سکتی ہے؟ یہ تو ملک کے لیے اچھی نشانیاں ہوتی ہیں کہ جمہوریت کا مطلب بھی طاقتور لوگوں کو گرفت میں لا کر سزائیں دینا ہی ہوتا ہے۔
یہ سوال جب میں نے سابق کمشنر اسلام آباد طارق پیرزادہ کے گھر بیٹھے چکوال کے ہمارے چوراسی سالہ دوست پروفیسر غنی جاوید سے کیا تو انہوں نے میرے سوال کا جواب دینے کی بجائے طارق پیرزادہ کی طرف دیکھا اور بولے: میں بولوں گا تو پیرزادہ صاحب ناراض ہو جائیں گے کہ ہر وقت منہ سے بری باتیں ہی نکالتا ہے‘ یہ کہتے ہیں لوگوں کو اچھی خبریں سنایا کرو۔ پروفیسر صاحب نے اپنی بات جاری رکھی۔ بولے: میں کیسے کسی کو جھوٹ بتائوں، جب لوگ مجھے پیسے ہی اس لیے دیتے ہیں کہ انہیں مجھ پر اعتبار ہے کہ میں انہیں سچی بات بتائوں چاہے اس میں ان کا نقصان ہی کیوں نہ ہو۔ اگر میں لوگوں کو خوش کرنے کے لیے جھوٹ گھڑنے شروع کر دوں گا تو کچھ عرصے بعد یہی لوگ کہیں گے کہ پروفیسر جھوٹ بولتا ہے، اسے کچھ پتہ نہیں، میں اپنی ساکھ کیسے خراب کر لوں؟ ان کی اس بات پر طارق پیرزادہ مسکرائے اور بولے: میں امریکہ سے پروفیسر کے لیے کتاب بھی لایا تھا جس میں تفصیل سے بتایا گیا تھا کہ ایک آسٹرالوجسٹ کو کیسے لوگوں کو بری خبریں بھی اچھے انداز میں بتانی چاہئیں... لیکن وہ پروفیسر ہی کیا جو کتاب پڑھ کر اپنے رویوں پر نظرثانی کریں... وہ اب بھی سیدھی بات ٹھک کر کے مارتے ہیں، اگلا مرے یا جیے اس کی قسمت۔
میں نے کہا: پیرزادہ صاحب! اب پروفیسر صاحب کی عمر چوراسی برس ہونے کو آئی ہے۔ اب وہ کیا لوگوں کو میٹھی گولیاں دیں۔ سب کو علم ہے‘ یہ وہ ڈاکٹر ہے جو کڑوی گولیاں ہی دیتا ہے۔
اس دوران پروفیسر صاحب کو لندن سے ایک فون آ گیا۔ اس بندے نے کچھ پوچھا۔ پروفیسر صاحب نے اسے اچھی باتیں بتائیں لیکن وہ ماننے کو تیار نہ تھا۔ پروفیسر صاحب اسے سمجھاتے رہے، وہ آگے سے بحث کرتا رہا۔ فون بند کرنے کے بعد پروفیسر صاحب نے ہم دونوں کی طرف دیکھا اور بولے: اب بتائیں... یہ موصوف اچھی خبر سننے کو تیار نہیں تھے۔ اس کے اچھے دن آ رہے ہیں‘ لیکن وہ نہیں مان رہا۔ ہم دونوں مسکرا کر چپ رہے۔ انسان کے مزاج میں ہے کہ بری خبر اسے ڈرا دیتی ہے‘ لہٰذا وہ فوراً اس کو قبول کر لیتا ہے۔ برے حالات میں اچھی خبر اسے تسلی نہیں دیتی لیکن اچھے حالات میں بری خبر سن کر وہ اچھے حالات بھول جاتا ہے۔
بہرحال پروفیسر صاحب پاکستان کے حالات سے اگلے تین سال تک مطمئن نہیں، مطمئن ہونا تو کجا وہ اس حوالے سے باقاعدہ خوفزدہ تھے۔ کہنے لگے: اگلے سال جنوری سے اس خطے میں ایسا کام شروع ہو سکتا ہے جس کا انجام خدانخواستہ اچھا نہیں ہو گا۔ وہ بتاتے رہے کہ کیا کیا بربادی ہو سکتی ہے۔ میں اور طارق پیرزادہ خاموش رہے۔ طارق پیرزادہ ہمیشہ کہتے ہیں کہ بری پیش گوئی گویا انتظار کر رہی ہوتی ہے کہ کب پروفیسر کے منہ سے نکلے اور فوراً عملی صورت اختیار کر لے۔
اس بات پر پروفیسر غنی چڑتے ہیں‘ لیکن داد دینی پڑے گی طارق پیرزادہ کو جو برا نہیں مناتے۔ ویسے آپ بتائیں‘ اپنے چوراسی برس کے دوست کی بات کا بھلا کون برا منا سکتا ہے۔ پروفیسر غنی ہمارے ایک اور دوست سینیٹر طارق چوہدری کی دریافت ہیں۔ پروفیسر مان جائیں تو ان کی زندگی پر ایک ایسی کتاب لکھی جا سکتی ہے جو بیسٹ سیلر ہو‘ کیونکہ انہوں نے بھی کئی حکومتیں بنتے بگڑتے دیکھی ہیں، بڑے لوگوں کے ہاتھ پڑھے ہیں، ان کی قسمتوں کو اپنے سامنے سنورتے اور بگڑتے دیکھا ہے۔
پروفیسر صاحب نے دو سال پہلے بھی خبردار کیا تھا کہ دنیا بہت خطرناک فیز میں داخل ہو رہی ہے۔ دنیا میں جنگیں، بربادیاں، تباہ کاریاں، زلزے اور طوفان زیادہ ہوں گے۔ اس وقت ٹرمپ ابھی امریکی صدر نہیں بنے تھے۔ پروفیسر صاحب کا اب بھی یہی کہنا ہے کہ آنے والے برسوں میں دنیا بھر میں مشکلات بڑھیں گی، جنگ و جدل بڑھے گا‘ اور انسان مزید تکلیفیں اٹھائیں گے۔ پاکستان بھارت کی فکر ان کو سب سے زیادہ ہے۔ انہوں نے اس حوالے سے جو لفظ استعمال کیے‘ وہ میں یہاں نہیں لکھ سکتا۔ قصہ مختصر یہ کہ دونوں ملک خطرناک تباہی کی طرف بڑھ رہے ہیں اور کوئی بھی اس تباہی کا ادراک نہیں کر رہا۔ دونوں اطراف سے اپنے اپنے عوام کو خوش کرنے کے لیے بڑھ چڑھ کر دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ پروفیسر غنی سمجھتے ہیں کہ بہتر ہے‘ ہم بریک لگائیں۔ پھر بڑبڑائے، کوئی اب کر بھی کیا سکتا ہے جب آسمان ہی دشمن ہو چکا ہو۔ وہ انیس سو اکہتر سے بھی زیادہ بڑی مشکلات کا ذکر کرتے ہیں۔ وہ بار بار کہتے ہیں: انہیں سمجھائو‘ رک جائیں‘ پیچھے لوٹ آئیں‘ دنیا سے ٹکر نہ لیں‘ پاکستان یعنی اپنے گھر کو ہی بچا لیں تو بڑی بات ہے۔ میں نے کہا: پروفیسر صاحب پہلے بھی آپ کے کہنے پر میں تین کالم لکھ چکا ہوں، لوگ مذاق اڑاتے ہیں کہ کس کام پر لگ گئے ہو؟ وہ بولے: مذاق اڑانے دو‘ تم لکھا کرو۔ تمہارے بارے میں جو باتیں میں نے بتائیں وہ سچی تھیں یا جھوٹی؟ تمہیں تو پتہ ہے میں غلط باتیں نہیں کرتا۔ پیر صاحب (طارق پیرزادہ) کو بھی علم ہے، طارق چوہدری بھی جانتا ہے کہ میں کتنا سچا یا جھوٹا ہوں۔
میں نے کہا: پروفیسر کیا کریں؟ ہمارے پاس ان مسائل پر توجہ دینے کا وقت ہی نہیں‘ جن کا رونا آپ رو رہے ہیں۔ ملک اور خطرات ایک طرف یہاں تو ڈیڑھ سال وزراء اور بیوروکریسی ملک کے وزیر اعظم اور ان کے بچوں کی کرپشن چھپانے اور ان کے دفاع میں لگی رہی۔ جب ملک کے وزیروں کا کام نواز شریف اور ان کے بچوں کی کرپشن کا دفاع ہو ملک کو بچانا نہیں تو پھر وہاں کون ان باتوں کی طرف توجہ دے؟ اگر کوئی کہہ بھی دے کہ ہمیں گھر درست کرنے کی ضرورت ہے تو چوہدری نثار اور عمران خان توپیں لے کر میدان میں آ جاتے ہیں کہ ایسا کہنے کی جرات کیسے کی؟
پروفیسر مسکرائے اور بولے: تو پھر ٹھیک ہے یہ سب بھگتیں گے۔ میں نے کہا: پروفیسر صاحب! مجھے بعض دفعہ آپ کا انداز ان قدیم یونانیوں کی طرح کیوں لگتا ہے جو سمجھتے تھے قسمت کا لکھا اٹل ہے۔ کوئی تبدیلی نہیں آ سکتی... کوئی گنجائش؟ پروفیسر صاحب بولے: یونانی بھی یہی سمجھتے تھے کہ سب تقدیر کا لکھا ہے... میں بھی یہی سمجھتا ہوں کہ خدا نے جو لکھ دیا ہے وہی کچھ ہو گا اور لگ رہا ہے ہم نے سدھرنا نہیں اور تقدیر نے ہمارے ساتھ رعایت نہیں کرنی۔
پروفیسر صاحب کو پنڈی کی وردی والی سرکار پھر بہت مضبوط ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ ان کا ستارہ انہیں اکتوبر میں عروج پر جاتا لگ رہا ہے۔ اکتوبر اور اس کے بعد خاکی پھر عروج پانے والے ہیں۔ میں نے کہا: پروفیسر صاحب یہ تو ستر سال پرانی کہانی ہے۔ ہر دور میں وہی عروج پر رہے ہیں‘ سویلین تو لوٹ مار کرکے سائیڈ پر ہو جاتے ہیں۔ دس برس وہ آتے ہیں پھر سویلین... دونوں باریاں لے کر خوش ہیں اور ان خطرات کا کوئی تدارک یا سدباب نہیں ہے جن سے آپ ڈرا رہے ہیں۔
پروفیسر صاحب آنے والے تین برسوں کا ڈرائونا نقشہ کھینچتے رہے جبکہ میں اور طارق پیرزادہ سہمے ہوئے پرندوں کی طرح ان کی باتیں سنتے رہے کیونکہ یہ قوم اور اس کے لیڈر اس کبوتر کی طرح ہیں جو سمجھتے ہیں آنکھیں بند کر لینے سے بلی کا خطرہ ختم ہو جاتا ہے۔
ہم نے آنکھیں بے شک بند کر لی ہوں لیکن پروفیسر غنی چوراسی برس کی عمر میں بھی آنکھیں کھول کر بیٹھے ہیں۔ وہ حیران بھی ہیں، پریشان بھی اور اس سے بڑھ کر خوفزدہ بھی۔