پانچ دسمبر کو ڈاکٹر ظفرالطاف کو بچھڑے دو سال بیت گئے۔
کچھ عرصہ پہلے لاہور سے میاں خالد بھائی کا فون تھا ۔ انہیں بھی کتابوں کا جنون ہے۔ بولے: آپ کے لیے ایک چیز رکھی ہے۔ بھیج رہا ہوں۔ کسی محمد اقبال دیوان نے ڈاکٹر ظفر الطاف پر ایک مضمون سویرا ادبی میگزین میں لکھا ہے۔ کہنے لگے‘ اقبال دیوان نے کیا شاندار لکھا ہے اور کمال دل کو چھو لینے والا اندازِ تحریر ہے۔
دو دن بعد اس ادبی میگزین کی کاپی میرے پاس پہنچ چکی تھی۔ میں اس طویل مضموں کے سحر میں کئی دن گرفتار رہا ۔ میرا خیال تھا شاید جو کچھ میں نے ڈاکٹر ظفر الطاف پر لکھ دیا تھا‘ اس کے بعد اور کیا لکھا جائے گا ۔ لیکن ہمارے ڈی ایم جی کے دوست محمد اقبال دیوان کا لکھا گیا مضمون پڑھ کر اندازہ ہوا ڈاکٹر ظفرالطاف پر مجھ سے بہتر اور خوبصورت پروفائل کراچی کے میمن نے لکھا تھا ۔ شاید فرق یہ تھا میری ڈاکٹر صاحب سے رفاقت اٹھارہ برس اور کراچی کے میمن افسر کی اڑتیس برس تھی۔
اقبال دیوان سے میرا تعارف ان سے ذاتی طور پر ملنے سے بہت پہلے ہوچکا تھا۔ ڈاکٹر صاحب جس کو پسند کرتے تھے بہت کرتے تھے اور اس کا ذکر اکثر پیٹھ پیچھے بھی کرتے اور جسے ناپسند کرتے اور کوئی ذکر کرتا تو کہتے چھوڑو یار۔اقبال دیوان بھی ان افسران میں سے تھے جن کے ڈاکٹر صاحب دیوانے تھے۔
کئی دن سوچتا رہا ان دوبرسوں پر کیا لکھوں گا۔ ویک اینڈ پر لاہور گیا تو گلبرگ بلیوارڈ پر Readings میں گھس گیا ۔ جہاں دیگر کتابیں خریدیں وہیں پھر سویرا کے اس شمارے پر نظر پڑی جس میں اقبال دیوان کا مضمون چھپا تھا ۔ سویرا کے اوربھی پرانے شمارے رکھے تھے۔ ان میں اقبال دیوان کا نام پڑھا تو سب خرید لیے۔ اسلام آباد واپسی کا سفر درپیش تھا ۔ میں نے اقبال دیوان کا وہ بیس صفحات پر مشتمل خاکہ پھر نکال کر پڑھنا شروع کیا ۔
آپ بھی کچھ اقتباسات پڑھیں :
''خاتون بے حد قابل مگر قدرے کھٹورسی ہیں۔ میرے انکشاف پر ظفرالطاف اللہ کو پیارے ہوگئے اس شام روئے چلی جاتی تھی ۔ بی بی کے آنسو تھمے تو انگریزی میں کہنے لگیں: مجھے اس شخص سے ملنے کا دو تین دفعہ اتفاق ہوا۔ نیب کے ایک بریگیڈئیر کو انہیں جیل بھجوانے کا ذمہ دیا گیا تھا مگر نیب والے فوجی افسر اسٹاک ہوم سنڈروم کا خود شکار ہو کر الٹا ڈاکٹر ظفرالطاف کے مریدِ خاص بنے اور وہ ان سے ملوانے پر مصر ہوگئے۔ میں بیوروکریسی سے بہت خائف رہتی ہوں۔ ان کی اکثریت جاہل، متعصب ، زبان اور ڈومیسائل کی ڈسی ہوئی اور حرص اور ہوس کی ماری ہوتی ہے۔ تمہار کرایا ہوا تعارف پہلے سے پلے پڑا ہوا تھا تو میں نے بھی بریگیڈئیر کے اصرار پر ڈاکٹر ظفرالطاف سے ملاقات کی ہامی بھر لی۔ ہائے کیا آدمی تھا ۔ پاکستان نے کیا گوہرِ نایاب کھو دیا۔ ان کم بخت سیاستدانوں اور فوجی آمروں نے اپنے ذاتی ایجنڈے کے لیے پاکستان کو برباد کردیا ۔
یہ بی بی کراچی کی بڑی نامور وکیل ہیں ۔ ڈاکٹر صاحب سے ان کا غائبانہ تعارف میں نے کرایا تھا ۔ یہ ڈاکٹر ظفر الطاف کے خلاف جنرل مشرف دور کی کارروائی سے پہلے کی بات ہے جب نواز شریف وزیراعظم تھے۔ اس کا سبب اللہ نے بنایا۔ ہوا یوں اس خاتون وکیل کے کسی جاننے والے کو مجھ سے کام تھا ۔ تب لیاری کا انتظام میرے پاس تھا ۔ سائل کی خدمت ہوگئی تو وہ ممنون ہوگئیں۔ انہوں نے اپنے ماتحت کو بھیجا‘ اپنے دفتر اور گھر کا نمبر عنایت کروں۔ میں نے گھر کے فون نمبر سے پہلے تو لکھا "آستانہ عالیہ" اور دفتر کے فون سے پہلے لکھا "کارخانہ خراب"۔ دونوں اصطلاحات ان کے دل میں گھر کر گئیں۔ ضد کرنے لگیں‘ آکر چائے پیو۔ ایک دن خیال آیا ان کا دفتر تو میرے راستے کا پڑائو ہے۔
وکیل صاحبہ ملیں تو بہت خندہ پیشانی سے مگر ظالم نے پانچ منٹ تک اپنے سامنے رکھی تحریر سے نظر نہ اٹھائی ۔ پنسل سے جا بجا کاٹ چھانٹ کرتی رہیں ۔ جب میرے لیے چائے آئی تو معذرت کرکے کہنے لگی ‘یار ایک مقدمے کا بریف تیار کررہی تھی۔ صبح سیف الرحمن چیئرمین احتساب بیورو کو دینا ہے۔ انگریزی میں کہنے لگیں:
He wants to shred someone to pieces. someone called Zafar Altaf. A doctor of some sort
خاکسار کو اس وکیل صاحبہ کو اس کیس کے محرکات اور اس کے پس پردہ سندھ کے ایک کڑوے کسیلے افسر کی سازش بارے سمجھانے میں صرف دو منٹ لگے۔ دکھ کی بات تھی‘ اس انا پرست اور خودغرض افسر جس کی سازش سے مقدمہ تیار ہورہا تھا‘ اس کی ڈاکٹر صاحب نے مشرقی پاکستان میں جان بچائی تھی۔ ہمیشہ کے تاولے اس افسر نے کسی میٹنگ میں جانا تھا ۔ اس کی سرکاری جیپ تیزی سے بھگاتے ہوئی الٹ گئی۔ موصوف زخمی حالت میں سڑک کنارے پڑے ملے ۔ تب ڈاکٹر الطاف کو دنیا پور کے ایس ڈی او بذریعہ تھانہ اطلاع ملی تو ڈاکٹر صاحب فوراً پہنچے۔ علاج معالجے تک موجودرہے۔ اس کے دماغ میں موجود رسولی کا آپریشن بھی ہوا ۔ دفتر کے کسی کم بخت کاسہ لیس نے ان کی ماتحت افسر بتول سے منسوب کر کے یہ جملہ ان تک پہنچایا: وہ لنچ پر افسروں میں بیٹھ کر ٹھٹھول کر کے کہتی ہے۔سیکرٹری صاحب کا جو آپریشن ہوا اس میں ڈاکٹر نے رسولی چھوڑ دی ۔ برین نکال کر پھینک دیا ۔ اس وجہ سے وہ اس قدر اذیت پسند ہیں ۔ اس کی قیمت ڈاکٹر صاحب کو بہت بھگتنا پڑی۔ وکیل صاحبہ نے میری وضاحت بہت دھیرج اور کھلے ذہن سے سنی اور بہت آہستگی سے جتلایا کہ مجھے تم پر پورا بھروسہ ہے۔ اگلے ہی لمحے اس نے احتساب بیورو فون کر کے کسی افسر کو کہا چیئرمین کو بتادیں اس کیس میں کوئی جان نہیں ہے۔ مقدمہ محکمے کے گلے پڑے گا اور وہ الٹا ہمارے پر مقدمہ کردے گا۔ اگر سیف الرحمن باز نہ آئے تووہ ڈاکٹر ظفرالطاف کی جانب سے پیروی کریں گی۔
اگلے دن جب وکیل صاحبہ سیف الرحمن سے ملیں تو بہت بحث ہوئی اور موصوف مان گئے‘‘
اقبال دیوان لکھتے ہیں ''ڈاکٹر ظفر الطاف کا موازنہ عام سی ایس پی افسران سے کرنا شدید ناانصافی ہوگی اور اس قبیلے پر غیرضروری عنایت۔ یہ بالکل ایسا ہی ہوگا کہ armani silk کا مقابلہ کفن کے کورے لٹھے سے اس لیے کریں کہ دونوں کا شمار کپڑے میں ہوتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب افسروں کی آرمانی سلک تھے۔ ظفر الطاف میں وہ تمام اوصاف موجود تھے جن سے ان کے گروپ افسران کی اکثریت بالعموم محروم ہوتی ہے‘‘۔
آج بھی میرے سیل فون پر ان کا یہ نام فیورٹ کنٹیکٹ میں اہل خانہ کے اسمائے گرامی کے ساتھ درج ہے۔ مگر میں نے یہ نام ZA کے طور پر محفوظ کیا ہے۔ ان کے قریب ترین دوست انہیں ایسے ہی یاد کرتے تھے۔ یہ واحد بددیانتی ہے جو میں نے ان سے کی ہے۔ اس کا انہیں علم تھا کیونکہ میرا فون کئی دفعہ کراچی کے دورے میں ان کی تحویل میں رہتا تھا‘ اس کا انہوں نے کبھی برا نہیں مانا۔
پانچ دسمبر دو ہزار پندرہ کو جب وہ اسلام آباد میں دم توڑ رہے تھے تو میں وہاں ہوتا تو انہیں جتلاتا کہ وہ ابھی کوئی ایسے خاص بڑے نہیں۔ کُل74 برس ہی کے ہیں اور ملک الموت سے غالب کے لہجے میں ضرور احتجاج کرتا۔ ع
کیا تیرا بگڑتا جو نہ مرتا کوئی دن اور
ڈاکٹر ظفرالطاف کو میں نے بے حد احترام اور بے مثال بے تکلفی کے باجود کبھی ZA کہہ کر نہیں پکارا۔ ان کا یہ مختصر سا نام پہلے ان کے بڑے بھائی جاوید الطاف، بعد میں ان کی بہن ندرت الطاف اور پھر کچھ بہت پرانے دوستوں اور عبدالحفیظ کاردار کے منہ سے ہی سنا۔ اپنے بیٹے کو ایم بی بی ایس کی بجائے سی ایس ایس پی کرنے کا مشورہ دیا تو اس کے پاس اس تجویز پر عمل نہ کرنے کا صرف ایک ہی بہانہ تھا ۔ ''اس کی کیا گارنٹی ہے مجھے بھی آپ کی طرح ظفرالطاف جیسا رول ماڈل ملے گا ‘‘۔
میں نے سویرا میں اقبال دیوان کی ڈاکٹر ظفرالطاف پر سردیوں کی شاموں میں افسردہ کردینے والی تحریر پھر پڑھی، دوبارہ پڑھی اور پھر آنکھیں موند کر اپنی بیڈ سائیڈ پر رکھ دی‘ پھر کسی اور دن پڑھنے کے لیے۔ ڈاکٹر ظفرالطاف کی یادوں سے بھرپور اُداسی دور کرنے کے لیے۔ مجھے اس لمحے احساس ہوا چاہے کچھ لوگ خود دم توڑ جائیں لیکن ان سے جڑی یادیں کبھی دم نہیں توڑتیں۔
کیا کہیں کتنے مراسم تھے ہمارے اس سے
وہ جو ایک شخص ہے منہ پھیر کے جانے والا