"RKC" (space) message & send to 7575

سیاست گھاٹے کا سودا؟

پاکستان میں ایک مِتھ بنی ہوئی ہے کہ یہاں سیاست کرنا بہت مشکل کام ہے۔ یہاں جیلیں، تھانے، پھانسی گھاٹ... سب سیاستدانوں کے لیے ہی ہیں۔ اپنی اس بات میں وزن پیدا کرنے کے لیے کئی مثالیں بھی دی جاتی ہیں‘ خصوصاً بھٹو صاحب کی پھانسی سے لے کر بینظیر بھٹو کے قتل اور زرداری، نواز شریف سے لے کر یوسف رضا گیلانی کی سزا تک۔ کیا واقعی ایسا ہے؟ 
احتساب عدالت کے باہر نواز شریف کو مشاہد حسین سیّد کے ساتھ کھڑے دیکھ کر بہت کچھ یاد آیا۔ وقت بدل گیا تھا یا پھر یہ دونوں اور یہ مِتھ مجھے کچھ بیکار سی محسوس ہوئی۔ جب مشاہد حسین سے سوال کیا جاتا تھا کہ وہ نواز شریف کو دھوکا دے کر جنرل مشرف کے ساتھ کیوں مل گئے تو وہ چڑ جاتے تھے۔ فوراً کہتے کہ ہم تو پاکستان چھوڑ کر نہیں بھاگے۔ شریف خاندان نے رات کے اندھیرے میں ڈیل کرکے جدہ کی راہ لی۔ وہ ہمیں دھوکا دے کر بھاگ گئے اور ہم نے مصیبتیں جھیلیں۔
باقی کی بات بعد میں کرتے ہیں‘ مجھے ذرا یہ بتائیں کہ مشاہد حسین کے لیے سیاست کب گھاٹے کا سودا رہی؟ نواز شریف سے وزارت لے کر بسم اللہ کی، جنرل مشرف تک پہنچے، وہاں سے گجرات کے چوہدریوں کے ساتھ آرام دہ وقت گزارنے کے بعد اب دوبارہ نواز شریف کے دربار میں پہنچ گئے ہیں۔ ایک کشتی سے اترے تو دوسری میں سوار ہو گئے اور ساری عمر کشتی کی سیر ہی کرتے رہے اور خشکی کا منہ تک نہ دیکھا۔
اس طرح نواز شریف یا دیگر سیاستدانوں نے کب سیاست میں گھاٹے کا سودا کیا؟ پہلی بات تو یہ ہے ہر کوئی مرضی سے اپنا پیشہ چنتا ہے۔ اگر میں کالم نگار ہوں تو مجھے کوئی گھر دعوت دینے نہیں آیا تھا کہ آپ کالم نگار یا صحافی بنیں۔ میری چوائس تھی۔ اب میں اس پروفیشن میں مسائل کا سامنا کرتا ہوں تو کیا مجھے شور مچانا چاہیے یا اپنی چوائس یا خود کو ذمہ دار سمجھنا چاہیے کہ میں ہی نالائق نکلا جو اس پروفیشن کی ضروریات پر پورا نہیں اتر سکا؟ مجھے اپنی نالائقی کا بدلہ پورے معاشرے یا اپنے پروفیشن سے لینا چاہیے؟ اگر ایک سیاستدان سب کچھ فیس کرتا ہے تو آخر کوئی ایسی گیدڑ سنگھی، لالچ یا چمک اس پروفیشن میں موجود ہے جو ایک اچھے خاصے انسان کو سیاستدان بنا کر موت کے منہ تک لے جاتی ہے لیکن وہ پھر بھی باز نہیں آتا۔ سب جانتے ہیں کہ پاکستان جیسے ملکوں میں سیاست کبھی بھی معاشرے اور ملک کے مفاد میں نہیں کی جاتی۔ کوئی دور ہوتا تھا جب معاشرے کے کچھ عزت دار اور پیسے والے لوگ سمجھتے تھے کہ انہیں اپنی جیب سے خرچ کر کے آگے آنا چاہیے اور معاشرے کو بہتری کی طرف لے جانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ وہ سیاست کب کی ختم ہو چکی۔ جنرل ضیاء کے دور سے سیاست میں پیسہ گھس آیا۔ نظریات ختم اور نودولتیا پن شروع۔ جنرل ضیاء کو بھٹو کے خلاف ایک کلاس کی ضرورت تھی جو بھٹو کی پالیسیوں کے ڈسے کاروباری طبقے نے پوری کر دی۔ بچے کھچے جاگیرداروں کو جنرل ضیاء دور میں ترقیاتی فنڈز کے نام پر لاکھوں روپے ملنے گئے اور ان کے منہ کولہو لگ گیا۔ نتیجہ سامنے ہے۔ سب کو محسوس ہوا کہ سیاست تو عوامی خدمت نہیں بلکہ تگڑا مال بنانے کا نام ہے۔ یوں ایک دوڑ شروع ہو گئی۔ سب کو پیسہ نظر آیا۔ کنٹریکٹ، ٹھیکے اور کمیشن۔ صنعتکاروں نے بھی سیاست میں سرمایہ کاری شروع کی اور یوں سیاسی اخلاقیات کا بیڑہ غرق ہوا۔ اچھی تقریر اور گفتگو کی جگہ جگت بازی اور پھکڑ پن نے لی لے۔ رہی سہی کسر ٹی وی چینلز نے پوری کر دی اور ایسی ایسی براہ راست لڑائیاں سننے اور دیکھنے میں آئیں کہ سب دنگ رہ گئے۔ اخبار کا فائدہ یہ تھا کہ سب پر پردہ پڑا ہوا تھا۔ ٹی وی چینلز نے وہ پردہ ہٹایا تو اندر سے ہم سب کا ایک مکروہ چہرہ برآمد ہوا۔ شروع میں لوگ سیاستدانوں کو مرغوں کی طرح لڑتے دیکھ کر حیران ہونے لگے کہ یہ واقعی وہی لوگ ہیں جنہوں نے ملک چلانے کا بیڑہ اٹھایا ہوا ہے؟ دھیرے دھیرے یہ حیرانی انٹرٹینمنٹ میں بدلنے لگی۔ بحث اس بات پر ہونے لگی کہ بڑا کرپٹ کون ہے اور کس نے کیا لوٹا ہے۔ ایک نے کہا تمہارے لیڈرز نے زیادہ لوٹا ہے تو جواب ملا کہ تمہارے کون سے فرشتے تھے۔ تردید کرنے کی کسی نے ضرورت ہی محسوس نہ کی۔ اگلے مرحلے میں لوگوں نے ان پر جگتیں کسنا شروع کر دیں۔ سیاستدان پھر بھی نہ سمجھے اور یوں نوجوان نسل یہ کردار دیکھ کر بددل ہوتی چلی گئی اور اتنی مایوس ہوئی کہ آج سیاستدان کہتے ہیں کہ نئی نسل بگڑ گئی ہے، ٹویٹر پر گالیاں دیتی ہے، ان کا لہجہ خراب ہوگیا ہے۔ یہ نہ سوچا نوجوان تلخ کیوں ہوا اورگالم گلوچ پر کیوں اترا؟ وہ پہلے گالی اس لیے نہیں دیتا تھا کیونکہ اسے پتا نہیں تھا کہ پاکستان میں کیا ہو رہا ہے۔ وہ اپنی دنیا میں مگن تھا۔ اب موبائل فونز، ٹی وی چینلز اور اخبارات کے اجرا نے نئی نسل پر ایک نئی دنیا کا دروازہ کھول دیا ہے۔ اب سیاستدان تو وہی ہیں‘ جو چار اخبارات اور پی ٹی وی کے دور میں پلے بڑھے اور یہی سمجھتے آئے کہ اگر میں نے بیان غلط بھی داغ دیا ہے تو اگلے دن مکر جائوں گا اور سارا ملبہ اخبار پر ڈال دوں گا کہ اس نے پوری بات ہی نہیں سنی اور سیاق و سباق سے ہٹ کر میرا بیان شائع کیا۔ اللہ غرق کرے ٹی وی کیمرے کو کہ اس نے سب کچھ ریکارڈ کر کے رکھ لیا۔ نواز شریف نے کب سوچا ہو گا کہ جب شہباز شریف ڈی جی خان میں جلسہ کریں گے اور وہاں اویس لغاری اور جمال لغاری شہباز شریف کی شان میں ایسے ایسے قصیدے پڑھ رہے ہوں گے کہ سننے والے حیران ہو جائیں گے‘ عین اسی وقت کچھ چینلز نواز شریف کی وہ تقریر چلا رہے ہوں گے کہ جب انہوں نے چوٹی زیریں جا کر فاروق لغاری کے خلاف جلوس نکال کر تقریر کی تھی کہ لغاری ایک بددیانت انسان ہے۔
اس طرح جب نوجوان نسل کو مشاہد حسین کی تقریر کے وہ ٹوٹے دکھائے جاتے ہیں کہ جب وہ جنرل مشرف کی شان میں قصیدے پڑھتے تھے اور شریف خاندان کی دھوکا دہی کی کہانیاں سناتے تھے اور آج نوجوان نسل انہیں پھر نواز شریف کے ساتھ کھڑے دیکھتی ہے تو یقیناوہ مایوس ہوتی ہے۔ وہ اس طرح کی سیاست نہیں سمجھ سکتی۔ یا پھر امیر مقام‘ جنہیں جنرل مشرف نے امریکی وزیر دفاع رمز فیلڈ سے ملنے والے دو پستولوں میں سے ایک پستول تحفے میں دیا تھا‘ وہ نواز شریف زندہ باد کے نعرے اُس جلسے میں لگاتے ہیں کہ جس میں نواز شریف جنرل مشرف کا ٹرائل نہ ہونے کا گلہ کرتے ہیں تو بھی نوجوان نسل کو یہ سیاست سمجھ نہیں آتی اور اس کے اندر تلخی بڑھتی ہے کہ اس کو کیوں بیوقوف بنایا جا رہا ہے۔
مان لیتے ہیں کہ بھٹو سے لے کر بینظیر بھٹو تک سیاستدان مارے گئے، زرداری، یوسف رضا گیلانی، نواز شریف جیلوں میں گئے، سزائیں بھگتیں۔ جلاوطنی کا سامنا کیا۔ پھر بھی کوئی سیاست سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں ہے۔ آخر سیاست کے اندر کیا رکھا ہے کہ جس کی کشش پھانسی کے پھندے تک پہنچا دیتی ہے۔ اگر سیاست جان جوکھوںکا کام ہے تو اسے یہ لوگ ترک کیوں نہیں کر دیتے؟ ایک جواز یہ ہو سکتا ہے کہ یہ سب انقلابی ہیں تو کیا انقلابیوں کو‘ ان کے بیٹے سوا ارب روپے کے نقد تحائف دیتے ہیں یا انقلابیوں کے بچوں کی دنیا کے پانچ براعظموں میں جائیدادیں اور پاکستان میں چھیالیس کے قریب کارخانے ہوتے ہیں یا سوئس بینکوں میں ان کے چھ ارب روپے پڑے ہوتے ہیں؟
یہ مان لیں کہ پاکستان میں سیاست ایک سرمایہ کاری ہے۔ اس ہاتھ دے اس ہاتھ لے والا نقد سودا ہو رہا ہے۔ جیل جانا یا مقدموں کا سامنا کرنا ان سب کے نزدیک سرمایہ کاری کا حصہ ہے۔ جتنا گڑ ڈالیں گے‘ اتنا ہی میٹھا ہو گا۔ جتنی مشکلات ہوں گی‘ اتنا یہ عوام سے پریمیم وصول کریں گے۔ یہ سب بہت سوچ سمجھ کر سیاست میں آئے ہیں۔ اگر سیاست گھاٹے کا سودا ہوتی تو یقین کریں یہ کبھی نہ کرتے۔ یہ اچھے کاروباری لوگ ہیں جو فائدہ دیکھ کر ہی کسی کام میں ہاتھ ڈالتے ہیں۔ ان کے حامی دل چھوٹا نہ کریں۔ یہ کاروبار ہے اور کبھی کاروبار میں مندا چلتا ہے تو کبھی تیزی۔ کبھی کے دن بڑے تو کبھی کی راتیں۔ آج کل اگر کسی کا مندا چل رہا ہے تو بہت جلد یہ لمبا ہاتھ مار کر اگلا پچھلا سب نقصان پورا کرلے گا۔
ویسے بات درمیان میں رہ گئی کہ پاکستان میں سیاست گھاٹے کا سودا ہے۔ کیا سیاست میں نواز شریف کو گھاٹا ہوا کہ جن کی اولاد کے دنیا کے پانچ براعظموں میں جائیدادیں ہیں یا پھر زرداری کو نقصان ہوا جن کے سوئس بینکوں میں چھ ارب پڑے ہیں یا پھر نواز شریف کی بغل میں کھڑے مشاہد حسین کو سیاست میں نقصان ہوا ہے؟

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں