کبھی کبھی خود پر حیرانی ہوتی ہے کہ کس مٹی کا بنا ہوا ہوں۔ منو بھائی کا فقرہ یاد آ جاتا ہے: ہم وہ لوگ ہیں جو مقتول کی ماں کے ساتھ بھی روتے ہیں تو قاتل کی ماں بھی ہمیں اتنی ہی مظلوم لگتی ہے۔
کچھ دن پہلے جب آسٹریلوی ٹیم کے تین کھلاڑیوں کو بال ٹمپرنگ کرتے دیکھا تو غصہ آیا۔ کیا فرق پڑ جاتا ہے اگر ایک ٹیم جیت جائے یا ہار جائے۔ کس کو آج یاد ہے کہ دس سال پہلے ایشیز سیریز کا فاتح کون تھا‘ انگلینڈ یا آسٹریلیا؟
ہاں کھلاڑی یاد رہتے ہیں جو اچھا کھیلتے رہے۔ وہ لیجنڈ کا درجہ اختیار کر لیتے ہیں۔ کیا فرق پڑتا اگر جنوبی افریقہ جیت جاتا۔ کس کو ایک سال بعد یاد رہنا تھا کون جیتا یا ہارا؟ لیکن اب غصے کی بجائے دل میں ان سب کے لیے افسوس ابھرنا شروع ہو گیا ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ آسٹریلوی کھلاڑیوں نے پاکستانی جواری کھلاڑیوں کی طرح وضاحتیں اور جھوٹ گھڑنے کی بجائے اپنی غلطیاں تسلیم کیں، کیمرے کے سامنے رو پڑے، اپنی قوم اور ملک سے معافیاں مانگیں۔ وارنر نے تو یہاں تک کہا کہ اسے اپنی بیٹیوں اور بیوی سے معافی مانگنی ہے‘ کیونکہ اس صورتحال کی وجہ سے ان کی زندگیاں مشکل ہو گئیں کہ اب وہ ساری عمر ایک ایسے باپ کی اولاد جانی جائیں گی‘ جس نے گیم میں دھوکا دیا تھا۔ آسٹریلوی کپتان اسمتھ بھی روتا رہا۔
ان سب کا جرم ایک بال کو کچھ رگڑ کر میلا کرنا تھا تاکہ وہ سوئنگ کرے اور بیٹسمین آئوٹ ہو جائے۔ کیا ہمارے ہاں واقعی ان باتوںکو جرم سمجھا جاتا ہے جس پر اتنا شدید ردعمل دیا جائے؟ وارنر نے کہا ہے کہ وہ اب کبھی کرکٹ نہیں کھیلے گا۔ اس نے ریٹائرمنٹ لے لی ہے۔ اسمتھ واپس وطن پہنچا تو اس پر ایئرپورٹ پر آوازیں کسی گئیں‘ نعرے مارے گئے۔ آسٹریلوی میڈیا نے اس کا پیچھا کیا اور 'چیٹ چیٹ‘ کے نعرے بلند کیے۔ وہ خاموش افسردہ سب طعنے سنتا درمیان سے گزر گیا۔ ہیرو ایک لمحے میں زیرو بن گئے۔
مجھے یاد پڑتا ہے‘ جب پاکستانی کھلاڑی لارڈز کرکٹ گرائونڈ لندن میں لاکھوں پونڈز لے کر جوا کھیلتے پکڑے گئے تھے‘ اور میرے جیسے چند لوگوں نے شرم دلوانے کی کوشش کی تھی تو عوام اور میڈیا کا ایک بڑا حصہ ان جواری کھلاڑیوں کی حمایت میں باہر نکل آیا تھا۔ اس وقت یہ تھیوریز بیچی گئیں کہ پاکستانی کھلاڑیوں کے خلاف یہ سازش ہے جو بھارتی لابی نے کی ہے تاکہ پاکستانی کرکٹ کو بدنام کیا جائے۔ عام پاکستانیوں نے ہمیں حب الوطنی کے ترانے سنانے شروع کر دیے کہ کیا ہوا اگر وہ جوا کھیل رہے تھے‘ اس وقت ان پر تنقید نہیں ہونی چاہیے‘ نوجوان ہیں غلطی ہو جاتی ہے‘ اب ان کا ساتھ دیں۔ ایک سینئر کالم نگار نے تو الٹا ہم سب کو مغربی قوتوں اور بھارتی لابی کا ایجنٹ قرار دے دیا تھا‘ کیونکہ ہم جواری پاکستانی کھلاڑیوں کا ساتھ نہیں دے رہے تھے۔ باقی چھوڑیں‘ کھلاڑی‘ جنہوں نے ملک کا نام اور عزت چند ہزار پونڈز کے لیے بیچ دی تھی‘ وہ بھی مکر گئے۔ انہوں نے شکر ادا کیا کہ پاکستانی قوم بہت بڑے دل کی مالک ہے کہ ان کے خلاف ملک کو بدنام کرنے کے جرم میں کوئی سخت کارروائی کرنے کی حمایت کی بجائے وہ الٹا ان کا دفاع کر رہی ہے۔ وہ سب جواری اب ٹی وی پر کرکٹ کمنٹری کرتے ہیں اور ماہر بنے بیٹھے ہیں۔ یوں ہم سب نے مل کر پوری پاکستانی قوم کا دھیان سازشوں کی طرف لگا دیا تھا کہ دیکھیں جی‘ گورے تو ہیں ہی متعصب‘ یہ تو ویسے ہی ہم سے جلتے ہیں۔ کسی جواری کھلاڑی کے منہ پر شرمندگی کا نشان تک نہ تھا۔ یہ اور بات ہے کہ مائیکل ہولڈنگ کمنٹری کرتے رو پڑا تھا کہ محمد عامر جیسے نوجوان بائولر کا کیریئر ختم ہو گیا ہے۔ ہولڈنگ کو پتا نہ تھا‘ پاکستان میں یہ کوئی جرم نہیں ہے کہ اس کا کیریئر ختم ہوتا۔ یہاں ہم سب دیہاڑی اور دائو لگاتے رہتے ہیں۔ اگر عامر اور دیگر جواری دیہاڑی لگا رہے تھے‘ تو ہمیں فرق نہیں پڑتا تھا۔ سب کھلاڑی ہشاش بشاش تھے‘ کیونکہ انہیں پتہ تھا‘ پاکستان میں ضمیر اور شرمندگی نام کی چیزیں بہت کم پائی جاتی ہیں۔ ہمارے معاشرے میں ہم غلطی نہیں مانتے۔ ہم ڈھیٹ اور ڈٹ جانے والی فلاسفی پر یقین رکھتے ہیں۔ ہمیں بچپن سے ایسے ہی تربیت دی گئی ہے‘ جہاں اخلاقیات کا کوئی آپشن نہیں ہے۔
قومیں دو قسم کی تبدیلی سے گزرتی ہیں۔ یا تو لوگ خود اتنے ہائی مورال گرائونڈ پر زندگی گزارتے ہوں کہ ان پر کوئی ایسا بندہ حکمران نہ بن سکے جو اعلیٰ کردار کا مالک نہ ہو‘ یا پھر ایسا حکمران مل جاتا ہے جو ہائی مورال گرائونڈ پر زندگی گزار کر اپنے معاشرے اور ملک کے لیے رول ماڈل بنتا ہے۔
لیکن ہمارے ہاں اس کے برعکس ہوتا ہے۔ ہمیں کوئی احساس نہیں ہوتا کہ چند کھلاڑیوں نے جس طرح اپنے ملک کی عزت کا سودا کیا‘ اس کا اثر بیس کروڑ عوام پر پڑیگا۔ سوال یہ ہے کہ کیوں پاکستانیوں کو دنیا بھر میں ایئرپورٹس پر علیحدہ کرکے کتوں کے ذریعے ان کی تلاشی لی جاتی ہے؟ اس میں یہ فیکٹرز بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ہو سکتا ہے‘ ہمارے نزدیک یہ چھوٹی بات ہو لیکن دھیرے دھیرے یہ سب باتیں اکٹھی ہو کر کسی قوم کے لیے ایک بڑا دھبہ بن جاتی ہیں کہ اور لوگ سوچنے لگتے ہیں کہ چھوڑ یار یہ تو اتنے دھوکے باز ہیں کہ کھیل میں بھی بے ایمانی کرنے سے باز نہیں آتے۔
جن پاکستانیوں نے ملک کا نام بدنام کیا‘ ان کی آنکھوں سے کبھی نہ آنسو ٹپکے‘ نہ ہی انہیں شرمندگی محسوس ہوئی۔ جیل اس لیے بھگت لی کہ وہ لندن میں پکڑے گئے تھے۔ پاکستان میں پکڑے جاتے تو کس نے ہاتھ ڈالنا تھا۔ یہاں تو ہر کوئی دیوتا بنا ہوا ہے۔ ہم سب پجاری ہیں۔ بڑا اور مشہور انسان کچھ بھی کرلے‘ ہمارے ہاں معافی ہے۔ غربت اور جہالت نے ایسا معاشرہ پیدا کر دیا ہے‘ جہاں دوسرے کو دائو لگانا، دو نمبری سے مال بنانا یا چالاکی سے لوٹ مار کر لینا صفت سمجھی جاتی ہے۔ جو جتنا بڑا لٹیرا ہے وہ اتنا بڑا ماہر اور عزت دار انسان سمجھا جاتا ہے۔ اس معاشرے میں اعلیٰ روایات حکمرانوں نے پیدا کرنی تھیں۔ حکمران خود کرپٹ نکلے۔ نواز شریف سویلین لیڈر تھا تو اس کی جیب سے اربوں ڈالرز کی جائیدادیں برآمد ہوئیں۔ جنرل مشرف فوجی لیڈر تھا تو اس نے ایک ارب روپے سعودی بادشاہ سے نقد پکڑ لیے۔ یہ تھیں ہمارے حکمرانوں کی اخلاقیات‘ جنہوں نے ایک ایماندار معاشرہ تشکیل دینا تھا۔
یہ آسٹریلوی وزیر اعظم تھا جس نے سب سے پہلے شدید ردعمل دیا اور آسٹریلوی کرکٹ بورڈ کو کہا: ان تین کھلاڑیوں کے خلاف سخت کارروائی کریں کیونکہ ان کی وجہ سے ہمارا ملک بدنام ہوا ہے۔ آسٹریلوی وزیر اعظم کا اپنا کردار صاف تھا اور اسے پتہ تھا اس کا نام پانامہ سکینڈل یا کسی لوٹ مار میں نہیں ہے‘ لہٰذا وہ افورڈ کر سکتا تھا کہ ایک ہائی مورال پوزیشن لے۔ ہمارے ہاں تو نواز شریف صاحب نے سرعام کہہ دیا تھا کہ اگر میرے بچوں کے پاس سے پانچ براعظموں میں اربوں ڈالرز کی جائیدادیں نکل آئی ہیں اور کچھ پتا نہیں کہ یہ دولت کہاں سے آئی ہے تو تمہیں کیا؟ جب ملک کا وزیر اعظم ہی اس بات پر یقین رکھتا ہو کہ تمہیں کیا؟ تو پھر وزرا اور بیوروکریسی سے کیا توقع رکھی جا سکتی ہے؟
اس قوم کا مورال ہائی کرنے کی بجائے سول ملٹری حکمرانوں نے فیصلہ کیا کہ اس سے بہتر اور کون ساملک اور معاشرہ ملے گا جہاں ہائی مورال گرائونڈز فلاسفی یا لفظ تک سے لوگ ناآشنا ہیں۔ یہاں تو جو جتنا بڑا فراڈیا ہے وہ اتنا بڑا عزت دار اور ذہین سمجھا جاتا ہے۔ اچھے کردار کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔ آسٹریلیا کا وزیر اعظم صرف بال ٹمپرنگ پر اپنے ملک کی بدنامی ہونے پر شدید ردعمل دے رہا ہے تو پاکستان کا وزیر اعظم اپنی کرپشن کا دفاع کرتے ہوئے پوچھ رہا ہے: اگر میں نے اربوں ڈالرز کما لیے ہیں تو تمہیں کیا؟
آسٹریلیا کے تین کھلاڑیوں کی آنسو بھرے چہروں سے کی گئی پریس کانفرنسز دیکھ کر سوچتا ہوں: یہ غیرمعمولی معافیاں‘ اور شرمندگی سے بھرپور اور آنسوئوں سے تر چہروں کا موسم ہمارے ہاں کیوں نہیں آتا؟ یہ شاندار انسانی جذبات سے بھرے موسم ہم سے کیوں روٹھ گئے ہیں؟ ہمارے ہاں ایسی شرمندگی کی بارش کیوں نہیں ہوتی؟ کیا موسمی تبدیلیاں ہمارے ضمیر کے ساتھ ساتھ ہمارے بچے کھچے شرمندگی کے آنسو بھی خاموشی سے خشک کر گئی ہیں؟
شرمندگی اور پچھتاوے سے سرشار آنسوئوں کے یہ خوبصورت موسم ہم سے کیوں روٹھ گئے ہیں؟