"RKC" (space) message & send to 7575

نواز شریف کو بولنے دو!

لاہور ہائی کورٹ کی طرف سے نوازشریف کی تقریروں پر پابندی کے معاملے کا سپریم کورٹ نے از خود نوٹس لے لیا ہے۔ 
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ملک کے سابق وزیراعظم کبھی ذاتی فائدے نقصان کے علاوہ بھی بولنے کے شوقین ہیں؟ یہ سوال مجھے اس لیے یاد آیا کہ پچھلے سال جب ابھی نواز شریف وزیراعظم تھے ایک بل قومی اسمبلی میں پرائیویٹ ممبر ڈے پر پیش کیا گیا ۔ بل میں بتایا گیا تھا‘ چونکہ پاکستان میں جمہوریت برطانوی طرز حکومت پر لائی گئی ہے جسے مدر آف آل ڈیموکریسی کہا جاتا ہے‘ لہٰذا ضروری ہے ہم وہاں کی روایات بھی اپنی پارلیمنٹ میں متعارف کرائیں۔ برطانیہ کے ہائوس آف کامنز میں سب سے بڑی روایت یہ ہے کہ برطانوی وزیراعظم ریگولر وقفہ ٔ سوالات میں ارکان پارلیمنٹ کے سوالات کا خود جوابات دینے کے لیے آتے ہیں۔ اس روایت کا فائدہ یہ ہے کہ وزیراعظم خود پوری حکومت کی کارکردگی پر آنکھ رکھتا ہے کہ فلاں فلاں محکمے میں کیا ہورہا ہے اور وزراء کی کارکردگی کیسی جارہی ہے؟ بیوروکریسی اور افسران کیا کررہے ہیں اور سب سے بڑھ کریہ کہ عوام کے نمائندوں کے ذہنوں میں کیا سوالات ہیں جسے حکومت کو ایڈریس کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ وزیراعظم جب پارلیمنٹ میں سوالات کے جوابات دینے کے لیے جاتا ہے تو وہ پوری کابینہ کے ساتھ اہم معاملات پر تفصیل سے بات چیت کرتا ہے کہ ان سے کیا متوقع سپلیمنٹری سوالات کیے جاسکتے ہیں اور ان کے جوابات کیاہوں گے۔ یوں 
ہر محکمے کا وزیر اور سیکرٹری ایکٹو رہتا ہے کہ اسے اپنی وزارت کا نہ صرف پتا ہونا چاہیے بلکہ اسے ان کاموں پر آنکھ بھی رکھنی چاہیے۔ یوں پوری حکومت پر ایک دبائو رہتا ہے کہ وزیراعظم نے ہر سیشن میں ایک دن ہائوس میں سوالات کے جوابات دینے ہیں اور اگر کوئی ایسا سوال ہوگیا جس سے ان کی کارکردگی کا پول کھل گیا تو وہ جہاں ملک کے وزیراعظم کے لیے پشیمانی کا سبب ہوگا وہیں ان کی اپنی وزارت پر بھی سوالیہ نشانات لگ سکتے ہیں۔ اگر وزیراعظم تگڑا ہوا تو پھر اس وزیر کی چھٹی بھی ہوسکتی ہے۔ یوں ان جمہوریت پسند معاشروں میں اس وقفہ ٔ سوالات کے پیچھے یہ فلاسفی رکھی گئی کہ وزیراعظم سے لے کر ان کی کابینہ اور بیوروکریسی تک سب الرٹ رہیں۔ اس کا فائدہ یہ ہواکہ جس دن وزیراعظم نے ہائوس میں آکر سوالات کے جوابات دینے ہوتے ہیں اس دن پورے ہائوس میںوزراء کے علاوہ ممبران بھی زیادہ تعدادمیں ہوتے ہیں اور بہت اہم سوالات پوچھے جانے کے ساتھ ساتھ اعلیٰ قسم کی بحث بھی ہوتی ہے۔ اس طرح برطانوی عوام کو یہ میسج جاتا ہے کہ ان کے ووٹوں سے منتخب وزیراعظم ان کو جواب دہ ہے اور وہ ان کے نمائندوں کے سب سوالات کا جواب دینے کو تیار ہے۔ یقینا اس سے وزیراعظم کے عہدے کی عزت بڑھتی ہے۔ 
اس پس منظر میں جب یہ بل پاکستان کی قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا کہ یہاں بھی وزیراعظم ہر سیشن میں ایک دن ممبران اسمبلی کے سوالات کے جوابات دیا کریں اور وقفہ سوالات میں بھی بیٹھا کریں تو یہ توقع کی گئی کہ نواز شریف حکومت اس روایت کی حوصلہ افزائی کرے گی تاکہ اس سے جمہوریت اور پارلیمنٹ مضبوط ہو۔ پیپلز پارٹی کے دور میں دیکھا گیا تھا کہ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی ہائوس میں موجود رہتے تھے اور کئی دفعہ وہ وقفہ ٔ سوالات میں بھی موجود ہوتے تھے جہاں وزراء سے سوالات پوچھے جاتے تھے۔
مجھے یاد ہے کہ ایک دن ان کے ایک وزیر‘ جنہیں سفارشی کوٹے پر بنایا گیا تھا‘ سے سوالات کے جوابات نہیں دیے جارہے تھے۔ وزیراعظم گیلانی وقفہ ٔ سوالات میں موجود تھے۔ وہ خود کھڑے ہوگئے اور سوالات کے جوابات دینے شروع کر دیئے‘ اگرچہ اپنے وزیر کی بدترین پرفارمنس دیکھ کر انہوں نے اس وزیر پر پابندی لگا دی تھی کہ وہ آئندہ وقفہ ٔ سوالات میں جوابات نہیں دیا کریں گے۔ یہ اور بات ہے کہ اس نالائق اور نکمے وزیر کو برطرف کرنے کی جرأت گیلانی صاحب میں نہ تھی۔ وہ وزیر ان دنوں اپنی وزارت میں صاف پانی کے فلٹر پلانٹس پراجیکٹ چلا رہے تھے اور اسلام آباد کے ایک فائیو اسٹار ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے تھے‘ جہاں ان کے بچے کنٹریکٹرز سے صاف پانی کے منصوبوں پر ہاتھ صاف کررہے تھے اور باپ بیٹے مل کر ان ڈیلوں میں تگڑا مال بنا رہے تھے۔ 
خیر جب یہ بل ہائوس میں پیش ہوا تو اس وقت کے وزیر قانون زاہد حامد ہائوس میں کھڑے ہوئے اور بولے: جناب میں نواز شریف حکومت کی طرف سے اس بل کی مخالفت کرتا ہوں۔ وزیراعظم پاکستان نواز شریف قومی اسمبلی میں وقفہ ٔ سوالات میں ارکان اسمبلی کے سوالات کا جواب ہرگز نہیں دیں گے۔ مجھے یاد ہے میں اس وقت پریس گیلری میں بیٹھا ہوا تھا اور اپنے دوست صحافی سے کہا کہ یہ ہے جناب ان کی اصلی حکومت اور نسلی جمہوریت۔ جنرل مشرف اور نواز شریف میں کیا فرق ہے؟ ایک فوجی آمر تھا تو دوسرا سیاسی آمر ہے۔ دیکھ لیں کہ کبھی لندن سے پارلیمنٹ میںآنے کو مرے جارہے تھے اور اب نواز شریف ہائوس میں آنے کو تیار نہیں ہیں کہ کہیں کوئی رکن اسمبلی مجھ سے سوال نہ پوچھ لے۔ میں نے کہا: تقریباً چار سال ہونے کو آئے ہیں میں نے تو ایک دن بھی نواز شریف کو وقفہ ٔ سوالات میں نہیں دیکھا۔ اکثر وزیر ہائوس سے غائب ہوجاتے ہیں۔ وزیر یہ سوچ کر نہیں آتے کہ وزیراعظم کون سا آتا ہے جب کہ ارکان اسمبلی یہ سوچ کر نہیں آتے کہ کون سے وزیر آتے ہیں۔ سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق صاحب کو کوئی گھاس نہیں ڈالتا ۔ یہاں تو ایاز صادق کو کوئی سیکرٹری سنجیدگی سے نہیں لیتا، اور آپ بات کرتے ہیں وزراء کی۔ 
خیر اس پر اپوزیشن نے رولا ڈالنے کی بہت کوشش کی۔ تقریروں میں ہائوس آف کامنز کی مثالیں دی گئیں۔ بتایا گیا کہ اس سے جمہوریت مضبوط ہوگی‘ نواز شریف کی کابینہ اور بیوروکریسی درست کام کرنے لگ جائے گی کہ ان کے وزیراعظم سے ان کی کارکردگی کے حوالے سے کوئی بھی سوال پوچھا جاسکتا ہے‘ لہٰذا ان سب کو ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ خود وزیراعظم اپنی کابینہ اور بیوروکریسی کے ساتھ بیٹھ کر محنت اور تیاری کے بعد ہائوس میں آیا کرے گا ۔ اور تو اور پریس گیلری‘ جو خالی پڑی رہتی ہے‘ بھی بھر جائے گی کیونکہ سب صحافی اس امید پر وہاں آئیں گے کہ شاید وزیراعظم سے سوال و جواب میں کوئی بڑی خبر نکل آئے۔
اپوزیشن ارکان کے تمام ترلے، منتیں اور جواز ضائع گئے جب جنرل مشرف دور کے وزیرقانون زاہد حامد نے اپنی حکومت کے گونگے بہرے ارکان اسمبلی کو اشارہ کیا کہ وہ اب فوراً گلا پھاڑ کر چلائیں کہ یہ بل نامنظور ہے۔ ان حکومتی ارکان اسمبلی کو بھی داد دیں جنہوں نے زاہد حامد کے اشارے پر شور مچانا شروع کردیا کہ ہمیں یہ بل نامنظور ہے۔ یوں زاہد حامد نے چہرے پر مسکراہٹ سجا کر سپیکر کو دیکھا اور بڑے فخر سے اشارہ کیا کہ اب اس بل کر مسترد کردیں۔ 
میںنے کسی سے پوچھا کہ نواز شریف سوالات کے جوابات دینے سے کیوں خوفزدہ ہیں؟ وہ بولے: نواز شریف جب سے وزیراعظم بنے ہیں انہوں نے کبھی کوئی ٹی وی انٹرویو دیا ہے؟اپوزیشن کے دنوں میں بھی صرف اپنے حامی اینکرز کو انٹرویو دیا جاتا تھا اور وہ بھی اینکر دو دن پہلے سوالات بتا دیتا تھا اور پھر نواز شریف کو رٹا لگوا کر جوابات تیار کرائے جاتے۔ اگر جواب نہ آتا تو ریکارڈنگ روک کر پورے سوال کا جواب تیار کر کے پھر ریکارڈنگ شروع ہوتی تھی۔ نواز شریف کے ساتھ انٹرویو میں ہر وقت ایک عدد بندہ لقمے دینے کے لیے موجود ہوتا ہے۔ اب ہائوس کے اندر یہ خطرہ مول نہیں لیا جاسکتا ۔ کوئی کچھ بھی پوچھ سکتا ہے ۔ 
آج نواز شریف فرماتے ہیں کہ انہیں بولنے کی اجازت نہیں دی جارہی۔ جہاں انہیں بولنا چاہیے تھا، روزانہ اجلاس میں جانا چاہیے تھا، بحث میں حصہ لینا چاہیے تھا، ارکان کے سوالات کے جوابات دینے چاہئیں تھے وہاں انہوںنے بل ہی مسترد کرادیا۔ ایک سال تک وہ سینٹ نہ گئے تو رضا ربانی نے اس وقت بائی لاز میں تبدیلی کرائی تھی اور وزیراعظم کو قانونی طور پر پابند کیا گیا کہ وہ اپر ہائوس میں آیا کریں گے۔ نواز شریف اس قانونی تبدیلی کے بعد بھی صرف ایک دفعہ اپر ہائوس گئے۔ 
جو وزیراعظم اسمبلی میں ایک سوال کا جواب دینے سے ڈرتا ہو، لقمہ لیے بغیر سوال کا جواب نہ دے سکتا ہو، ٹی وی اینکرز کو ساتھ ملائے بغیر انٹرویو نہ دے سکتا ہو اور چٹ کے بغیر صدر اوبامہ سے بات نہ کرسکتا ہو، وہ کتنا بول لے گا؟ 
بولنے دیں، بھائی ! 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں