وزیرِ خزانہ مفتاح اسماعیل کو بجٹ پیش کرتے دیکھ کر پتہ نہیں کیوں مجھے لگ رہا تھا‘ اب جو مار دھاڑ ہو گی وہ ان آخری تیس دنوں میں ہو گی۔
موجودہ حکومت کے یہ آخری تیس دن مجھے پیپلز پارٹی کے آخری دنوں کی یاد دلاتے ہیں‘ جب مارچ دو ہزار تیرہ میں اسلام آباد میں ہر طرف ہڑبونگ مچ گئی تھی۔ پیپلز پارٹی کے بڑوں کو پتہ چل چکا تھا کہ اب وہ جا رہے ہیں اور ان کی حکومت کی الیکشن کے بعد واپسی بہت مشکل ہے۔ پہلے فوری طور پر وزیرِ خزانہ بدلا گیا کیونکہ حفیظ شیخ ڈاکٹر عاصم حسین کے ہر رنگ میں بھنگ ڈال دیتے تھے‘ بلکہ ان کی وزارت کی چند ارب روپوں کی ڈیل کی انکوائری بھی کرا رہے تھے۔
یوں ان آخری دنوں میں زرداری نے حفیظ شیخ کی جگہ سلیم مانڈوی والا کو وزیر خزانہ بنا دیا۔ کابینہ سیکرٹری نرگس سیٹھی کو کہا گیا کہ وہ کابینہ کی اقتصادی کمیٹی کا اجلاس بلائیں کیونکہ تیس کے قریب اہم ایجنڈے ہیں جن پر فیصلہ کرانا ہے۔ چاہیے تو یہ تھا کابینہ سیکرٹری اس معاملے میں لاء منسٹری کی مدد مانگتیں کہ آیا حکومت ختم ہونے سے صرف سات دن پہلے ای سی سی کا اجلاس بلوا کر اس میں اربوں روپے کی ڈیل، کنٹریکٹس اور کروڑوں کے فوائد مختلف پرائیویٹ پارٹیوں کو دلوانے چاہئیں یا انہیں وزیر اعظم کو بتانا چاہیے کہ اس موقع پر لانگ ٹرم فیصلے اگلی حکومت پر چھوڑ دینے چاہئیں۔ تاہم نرگس سیٹھی نے پورا پورا تعاون کیا اور یوں پاکستانی تاریخ میں پہلی دفعہ دو دن تک مسلسل ای سی سی کا اجلاس چلتا رہا‘ جس میں سب سے زیادہ سمریاں اس وقت کے پٹرولیم اور گیس کے وفاقی وزیر ڈاکٹر عاصم حسین لائے تھے‘ جو تقریباً بیس کے قریب تھیں۔ ان سمریوں میں ڈاکٹر عاصم بہت اہم فیصلے چاہتے تھے اور ان کی کوشش تھی کہ حکومت ختم ہونے سے قبل وہ فیصلے ہو جائیں۔ ان کا خیال تھا کہ بعد میں وہ نگران حکومت میں اپنے اثر و رسوخ کے ذریعے ان پر عمل درآمد بھی کرا لیں گے کیونکہ صدر زرداری حکومت ختم ہوتے ہی انہیں اپنا معاونِ خصوصی لگا رہے تھے۔
اسی اجلاس میں ایک ایسے پرائیویٹ بحری جہاز کے مالکان کو ہرجانے کے نام پر کروڑوں روپے کی ادائیگی کی منظوری دی گئی‘ جس کی مخالفت وزارت نے کی تھی۔ لیکن وہ آخری دن تھے اور لوٹ مار کا ماحول تھا‘ لہٰذا وزراء کی اکثریت کی کوشش تھی کہ اپنی اپنی پارٹیاں پکڑیں اور ان کے کام کرائیں۔ دوسرے وزراء کیا کر رہے ہیں اور کیوں کر رہے ہیں اس پر توجہ دینے کی انہیں ضرورت نہیں تھی۔ ایک سینیٹر نے ریلوے سے لاہورتا کراچی ایک بزنس ٹرین کا ٹھیکہ لیا تھا اور جو کروڑوں روپے کی ادائیگی انہوں نے ریلوے کو کرنی تھی‘ وہ نہیں کی تھی۔ بہاولنگر کے اس سینیٹر نے سمجھداری سے کام لیا تھا۔ اپنا حصہ رکھ لیا اور ریلوے کا بھی۔ بعد میں فرمایا: انہیں تو نقصان ہوا ہے لہٰذا وہ پیسے نہیں دے سکتے۔ ریلوے نے ان سے اپنے کروڑوں روپے وصول کرنے کے لیے کیس کیا ہوا تھا۔ اس سینیٹر نے ایک وزیر کو پکڑا‘ اسے ساتھ ملایا اور ای سی سی کے آخری اجلاس میں نہ صرف فیورز لے لیں بلکہ ایک کمیٹی بھی بنوا لی جس کی صدارت ایک اور وزیر کو سونپی گئی تھی۔ پانچ سال گزر چکے ہیں کچھ پتا نہیں انہوں نے ریلوے کو پیسے ادا کیے یا پھر وہ بھی کھوہ کھاتے چلے گئے؟ کسی دن وزیر ریلوے سعد رفیق ملے تو ان سے پوچھوں گا اس کا کیا بنا؟ یقینا کیس اب بھی کسی عدالت میں ہو گا۔ سینیٹر صاحب نے کب ادائیگی کرنی تھی۔
اسی طرح ایل این جی گیس امپورٹ کرنے کے ایک بڑے کنٹریکٹ کی منظوری بھی ای سی سی سے لے لی گئی۔ یوں ان تیس سمریوں میں ہر کسی کا کچھ نہ کچھ دائو پر لگا ہوا تھا۔ ایک لوٹ مار کا سماں تھا۔ مجھے یاد ہے‘ انہی دنوں میں نے ''دنیا‘‘ اخبار ہی میں کالم لکھا تھا کہ پیپلز پارٹی کے آخری دنوں میں یوں لگتا ہے خدانخواستہ غیرملکی فوجوں نے اسلام آباد پر قبضہ کر لیا ہے اور فوجیوں کو حکم دیا گیا ہے کہ جو جتنا اس شہر سے لوٹنا چاہتا ہے‘ لوٹ لے۔ یقین کریں کسی کو بھی ان دنوں اس ملک پر ترس نہیں آرہا تھا۔ میں نے اپنے پورے رپورٹنگ کیریئر میں اتنی لوٹ مار نہیں دیکھی‘ جتنی ان سات دنوں میں نظر آئی تھی۔ قانون کے تحت یہ ضروری تھا کہ ای سی سی کے منٹس کابینہ کی منظوری کے لیے بھیجے جائیں۔ چند دن بعد کابینہ کا آخری اجلاس وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف کی صدارت میں ہوا۔ منٹس ان کے سامنے رکھے گئے تو وہ گیس کی امپورٹ ڈیل کی منظوری دیکھ کر پریشان ہوئے اور پوچھا: اس پر سپریم کورٹ نے کوئی سوئوموٹو تو نہیں لے رکھا؟ اس پر وزیر موصوف نے بڑے اعتماد سے کہا: نہیں جناب اس پر کوئی سوئوموٹو نہیں ہے‘ حالانکہ کچھ دن پہلے ایک سکینڈل میں سپریم کورٹ اس پر سوئوموٹو لے چکی تھی۔ نفی میں جواب سن کر بھی وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف کی تسلی نہ ہوئی اور انہوں نے اس فیصلے کی منظوری کابینہ سے نہ لینے دی اور یوں اس وزیر کا دائو ناکام گیا جو اس میں بڑا تگڑا مال بنانے کے موڈ میں تھا۔
انہی دنوں جب ممبران قومی اسمبلی نے دیکھا کہ ہر کوئی مال بنا رہا ہے تو انہوں نے وزیر اعظم سے پوچھا: جناب ہمارا حصہ کہاں ہے؟ جواب ملا: مانگیں کیا چاہتے ہیں؟ سب نے ایک ہی بات کی کہ ہمیں ترقیاتی فنڈز دے دیں۔ یوں چھٹی کے روز بینک کھلوا کر اربوں روپے ایم این ایز کے حلقوں کے لیے ریلیز کرائے گئے تاکہ وہ اپنا الیکشن خرچہ اور دیگر اخراجات پورے کر سکیں۔ بعد میں جب سپریم کورٹ نے اس پر آڈٹ کا حکم دیا تو اس وقت کے آڈیٹر جنرل بلند اختر رانا نے اپنی رپورٹ میں ایسے ایسے انکشاف کئے کہ آنکھیں کھل گئیں۔ ایسی ایسی سکیموں کے نام پر پیسہ لٹایا گیا اور ریلیز ہوا جن کا یا تو وجود ہی نہیں تھا یا پھر وہ اس قابل نہیں تھیں کہ ان پر پیسہ لگتا۔ انہی دنوں پیپلز پارٹی کے معزز ایم این ایز اور سینیٹرز نے پاکستانی تاریخ میں ایک نیا باب رقم کیا‘ جب انہوں نے اپنے ترقیاتی فنڈز خیبر پختون خوا میں بیچنے شروع کیے۔ کے پی‘ کے ٹھیکیدار اسلام آباد پر حملہ آور ہوئے۔ بریف کیس ان کے ہاتھ میں تھے۔ ایم این ایز اور سینیٹرز کو گھیرا گیا کہ جناب آپ اپنا ایک کروڑ روپے کا فنڈ ہمیں دیں، ہم آپ کو بیس لاکھ روپے نقد دیں گے۔ پوچھا گیا: کیسے کرو گے؟ بولے: آپ اپنی واٹر سکیم میں فلاں ضلع اور علاقہ لکھ دیں‘ پیسے محکمے کو ریلیز ہوں گے‘ ٹھیکہ ہم خود انتظامیہ کے ساتھ مل کر لے لیں گے۔ وہاں ایک ٹیوب ویل لگے گا جس پر لاگت چند لاکھ روپے سے زیادہ نہیں آئے گی۔ بیس لاکھ آپ کے اور باقی محکمہ اور ہم آدھے آدھے کر لیں گے۔ یوں سینیٹرزنے یہ فنڈز بیچے اور ایک کروڑ پر بیس لاکھ نقد پائے۔
چکوال کی ایم این اے خاتون کو زیادہ فنڈز ملے تھے جو انہوں نے لکی مروت بیچے اور خوب مال بنایا۔ جب میں نے ان سے پوچھا: آپ نے چکوال پیسہ خرچ کیوں نہ کیا تو وہ بولیں: میرے آبائوواجداد لکی مروت سے تھے‘ اس لیے اپنا فنڈ وہاں بھیج دیا تھا۔ میں نے ہنس کرکہا تھا: شکر ہے افغانستان کے نہیں تھے۔ مجھے پتہ نہ چلتا کہ ٹھیکیدار‘ سینیٹرز اور کچھ ایم این ایز مل کر کیا کھیل کھیل رہے ہیں‘ اگر ایک جاننے والے کی فون کال نہ آتی جو لکی مروت سے تھا۔ بولا: کیا ظلم کرتے ہو۔ ایسی خبریں نہ لگائو۔ میں نے پوچھا: کیوں؟ بولے: یہ ٹھیکے ہم ہی تو لے رہے ہیں۔ میں فون پکڑ کر افسردہ بیٹھا رہا کہ انسان کتنا لالچی ہے۔ میری اس شخص بارے رائے اچھی تھی۔ افسوس ہوا اور اس کے بعد اس سے کبھی نہ ملا۔ پیپلز پارٹی کے سینیٹرز اور خواتین ایم این ایز نے بھی اپنے فنڈز بیچے۔ ایک لمبی فہرست ہے کیا کیا بتائوں۔
اب پھر اس حکومت کا آخری ماہ شروع ہو گیا ہے اور میرے کان بجنا شروع ہو رہے ہیں۔ وہی ہو رہا ہے جو پیپلز پارٹی کے آخری دنوں میں ہوا تھا۔ پچھلے دور کی طرح اب بھی راتوں رات نیا وزیر خزانہ لایا گیا ہے۔ وزیر اعظم عباسی اور مفتاح اسماعیل کے پاس بھی اس آخری ماہ کے لیے پاکستان کی حالت بدلنے کے بہت سارے ''آئیڈیائز‘‘ ہیں جیسے پیپلز پارٹی کے ڈاکٹر عاصم حسین اور سلیم مانڈوی والا کے پاس تھے۔
اقتدار کے ان آخری تیس دنوں میں بولیاں لگنے والی ہیں۔ منڈی کھلنے والی ہے۔
جاگدے رہنا... ساڈے تے نہ رہنا!