ہمارے لیہ کالج کے انگلش کے پروفیسر چاند رضوی کی فیس بک پوسٹ سے پتہ چلا کہ پروفیسر شبیر نیّر صاحب ریٹائر ہو گئے ہیں۔ کافی دیر تک ان تصویروں کو دیکھتا رہا جس میں نیّر صاحب اور دیگر استاد موجود تھے۔ نیّر صاحب کے چہرے پر وہی روایتی سنجیدگی اور خاموشی تھی جو ان کی طبیعت کا خاصہ ہوا کرتی تھی۔ تیس برس کا عرصہ پلک جھپکتے گزر گیا ۔
چاند رضوی لیہ کی دھرتی کے سپوت ہیں‘ خوبصورت انسان اور اچھے استاد ہیں‘ بتانے لگے: وہ اب شبیر نیّر کے بعد انگلش کلاسز کی ذمہ داری لیا کریں گے۔ سائنس مضامین سے مجھے کبھی دلچسپی نہ تھی۔ میٹرک سائنس کے ساتھ کیا تو اماں سے کہا :اپنی تو بس ہے‘ اب آگے ہم سے سائنس نہیں پڑھی جاتی۔ اچھے دور تھے والدین پر ابھی ہر بچے کو ڈاکٹر بنانے کا جنون طاری نہیں ہوا تھا ۔ میری ضد دیکھ کر سب چپ کر گئے اور یوں میں نے لیہ کالج میں ایف اے میں داخلہ لے کر اکنامکس اور پولیٹکل سائنس رکھ لی‘ساتھ آپشنل میں فارسی لے لی۔ اکنامکس ہمیں بھکر کے انتہائی محترم استاد ظفر حسین ظفر پڑھاتے تھے۔ وہ بھی ان استادوں میں سے تھے جوپوری ایمانداری سے پڑھاتے۔ ہوسٹل وارڈن تھے اور رات کو باقاعدہ اگلے دن کا لیکچر تیار کرتے‘ نوٹس بناتے اور پھر کلاس کو پڑھاتے۔ مجھ پر ان کا بڑا گہرا اثر رہا ہے۔ مجھے گائیڈ کرنے میں ظفر حسین ظفر صاحب کا بڑا ہاتھ رہا۔ انہوں نے صحیح وقت پر راہنمائی کی۔ میں گورنمنٹ ڈگری کالج لیہ کے ہوسٹل میں رہتا تھا‘ جہاں وہ وارڈن تھے‘ لہٰذا چار برس کا طویل عرصہ ان کی نگرانی میں گزرا۔ فارسی کے استاد لیہ کے بڑے شاعر خیال امروہوی تھے‘ جنہیں فارسی اور اردو شاعری پرعبور حاصل تھا۔ علامہ اقبال کی فارسی شاعری پڑھاتے تو ساتھ اپنے فارسی کے شعر بھی سناتے۔ تہران یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کرکے لوٹے تھے۔ ہندوستان سے چلے تو لیہ کو اپنا مسکن بنایا۔ امروہوی صاحب گھر سے سائیکل پر نکلتے۔ کلاس پڑھانے کے بعد کالج کے کونے میں کرسی ڈال کر تنہا سگریٹ پیتے اور سوچتے رہتے۔ گھر واپسی پر سوار ہونے کی بجائے سائیکل کو پکڑ کر اس کے ساتھ ساتھ چلتے جاتے۔ ڈاکٹر خیال صاحب کا قہقہہ بہت پیارا تھا۔ دیر تک ہنستے یا پھر دیر تک خاموش رہتے۔ذرا یہ ملاحظہ فرمایئے:
ابلیس کی شہ پر نہ کسی شر سے لگی ہے
جو آگ لگی ہے وہ میرے گھر سے لگی ہے
مخلوق نے تو اپنے غموں کی دہائی دی
لیکن امیر شہر کو سازش دکھائی دی
جب بی اے میں داخلے کا وقت آیا تو پروفیسر ظفر حسین ظفر صاحب نے مجھے کہا: پہلی دفعہ کالج میں انگلش لٹریچر آپشنل مضمون کے طور پر شروع ہورہا ہے‘ تم بھی لے لو‘ انگریزی لٹریچر تمہیں زندگی میں بہت مدد کرے گا۔ میں نے ان کے کہنے پر بی اے میں انگریزی لٹریچر آپشنل مضمون رکھ لیا۔ پہلے دن کلاس میں بارہ لڑکے تھے۔ وہ سلیبس کی چھ سات کتابیں دیکھ کر چھوڑ گئے۔ دو سال بعد صرف خالد دستی اور میں نے فائنل امتحان دیا ۔ اس انگلش لٹریچر کی وجہ سے ہی پروفیسر غلام محمد‘ شبیر نیّر اور دیگر استادوں سے ملاقات ہوئی۔ غلام محمد صاحب ‘جنہیں سب جی ایم کہتے تھے‘ اپنی ذات میں انجمن تھے۔ کہیں سے نہ لگتا کہ دور دراز لیہ کالج کا ایک استاد اتنے خوبصورت انداز میں شیکسپیئر کے ڈرامے پڑھائے گا۔ یقین کریں جس انداز میں جی ایم صاحب نے ہمیں شیکسپیئر کا جولیس سیزر پڑھایا ایسا تو بعد میں ہمیں ملتان یونیورسٹی میں بھی پڑھنے کو نہ ملا۔ جی ایم صاحب ڈوب کر پڑھاتے۔ ایک ایک لفظ ہمیں سمجھاتے۔ انہیں سب سے بڑا دکھ یہ ہوتا تھا کہ بروٹس نے سیزر کو کیوں خنجر مارا؟ اکثر دہراتے: جولیس سیزر بے شک ایک ڈکٹیٹر تھا ‘لیکن وہ بروٹس کا تو دوست تھا ۔ بروٹس کیوں سازشیوں کے جال میں پھنس گیا؟ سیزر نے ابھی ڈکٹیٹر کا روپ تو نہیں دھارا تھا۔ ایک خدشہ تھا کہ وہ ڈکٹیٹر بن جائے گا۔ بروٹس انتظار کرلیتا اور اگر سیزر ڈکٹیٹر بنتا تو قتل کا پلان اس وقت بھی بنایا جاسکتا تھا۔ جی ایم صاحب کے اندر یہ بات موجود تھی کہ بروٹس نے جس طرح دوست کو قتل کیا‘ وہ نہیں کرنا چاہیے تھا۔ بعض دفعہ ہمیں لگتا جی ایم صاحب بروٹس سے زیادہ خود احساس جرم کا شکار تھے‘ بروٹس کے انجام پر افسردہ۔
غلام محمد صاحب کا دھیما لیکن پراثر انداز عمر بھر نہیں بھولا۔ آج بھی جب سیزر کی کوئی فلم یا رومن ایمپائر پرشو دیکھ رہا ہوتا ہوں تو لگتا ہے غلام محمد صاحب ہمیں بیٹھے پڑھا رہے ہیں اور تھوڑی تھوڑی دیر بعد وہ بھی ہونٹوں پر بے ساختہ انگلیاں پھیر رہے ہیں جیسے کوئی اہم نکتہ سمجھنے کی کوشش کررہے ہوں۔ اور پھر شبیر نیّر صاحب نے ہمیں لٹریچر کے دیگر مضامین پڑھائے تھے۔ وہ ملتان یونیورسٹی سے ایم اے انگلش کر کے لیہ کالج میں لیکچرار لگے تھے۔ نوجوان‘ خوبصورت اور ڈریس اچھا پہنتے۔ نفاست ان پر بس تھی۔ کلاس میں بھی ان کا اپنا الگ انداز۔ شروع میں ہمیں لگا شاید وہ مغرور ہیں ‘ نوجوان ہیں‘ ابھی کچھ عرصہ ہوا خود یونیورسٹی سے پڑھ کر آئے ہیں‘ ہمیں کیا پڑھائیں گے‘ لیکن ہم سب غلط نکلے جب انہوں نے ہمیں لٹریچر پڑھانا شروع کیا ۔ نیّر صاحب کا ہمیں یہ فائدہ ہوا کہ ان کے پاس جدید لٹریچر کا بیک گراؤنڈ تھا۔ پہلی دفعہ میں نے ان سے ہی کنگ ایڈپس کے یونانی ڈرامہ‘ جو سوفوکلیز نے لکھا تھا‘ کا ذکر سنا اور اشتیاق پیدا ہوا کہ اسے پڑھا جائے۔ مجھے ڈھائی ہزار سال پہلے لکھے گئے ان یونانی ڈراموں کو پڑھنے کا ایسا شوق ہوا کہ بعد میں چار یونانی ڈرامے اردو میں ترجمہ بھی کئے۔ اس سے پہلے کہ انہیں چھپواتا‘ میری لاپروائی سے مسودے گم ہوگئے۔
ننیّر صاحب کا اپنا انداز اور شخصیت تھی۔ وہ بہت کم دیگر استادوں کے ساتھ اس طرح گھل مل کر بیٹھتے جیسے باقی کالج کے استاد کینٹین پر بیٹھتے۔ انگلش لٹریچر نے ان کے اندر ایک نفاست پیدا کردی تھی۔ غلام محمد اور شبیر نیّرکے لیے بڑا چیلنج یہ تھا کہ ایک تو لٹریچر کی کلاس میں پہلے سال صرف دس لڑکوں نے داخلہ لیا اور کچھ عرصے بعد صرف خالد دستی اورمیں بچ گئے۔ دوسری انہیں فکر تھی کہ اگر یہ تجربہ ناکام رہا اور کسی لڑکے کو ملتان یونیورسٹی میں داخلہ نہ ملا تو بھی کالج کا نام خراب ہوگا۔ انہی دنوں بی اے انگلش لٹریچر کے ساتھ ایم اے انگلش کی کلاسز بھی شروع کر دی گئیں۔ نیّر صاحب‘ غلام محمد‘ بہادر صاحب اور دیگر استادوں نے وہاں بھی پڑھانا شروع کر دیا تھا۔ اب ان اساتذہ پر دبائو بڑھ گیا تھا۔ ایف اے‘ بی اے کی کلاسز کو لازمی انگلش کے علاوہ بی اے آپشنل انگلش لٹریچر اور ایم اے انگلش کی کلاسز کو بھی پڑھانا تھا ۔ ہم صرف دو طالب علم تھے‘لیکن اساتذہ نے کبھی ایسا رویہ نہ رکھا کہ چھوڑ اب کون صرف دو طالب علموں کو پڑھائے۔ مجھے یاد ہے سردیوں کے دنوں میںخالد دستی اور میں کلاس کے اندر سے تین کرسیاں اٹھا کر لاتے۔ ایک کرسی غلام محمد صاحب یا شبیر نیّر صاحب کیلئے اور دو اپنے لیے۔ سردیوں میں کالج کے لان میں دھوپ میں بیٹھ کر برناڈ شا ‘ شیکسپیئر کے ڈرامے یا ملٹن کی شاعری کا اپنا ہی رومانس تھا۔
دو برس پلک جھپکتے گزر گئے۔ مجھے ملتان یونیورسٹی میں ایم اے انگلش میں داخلہ مل گیا تو اساتذہ کو بہت خوشی ہوئی ۔خالد دستی کو یونیورسٹی میں داخلہ نہ مل سکا ۔ اس نے وہیں لیہ کالج میں ایم اے انگلش میں داخلہ لے لیا۔ کچھ برس بعد ملا تو پتہ چلا کہ وہ وہیں لیکچرار لگ گیا تھا ۔ مجھے اپنی کامیابیوں کی کہانی سناتا رہا ۔ مجھ سے پوچھا: کیا کرتے ہو؟ بتایا: انگریزی اخبار میں رپورٹر ہوں۔ ہنس پڑا۔ مجھے لگا مطمئن ہوگیا ہے کہ چلیں اگر اسے ملتان یونیو رسٹی میں داخلہ نہیں ملا تو میں نے بھی زندگی میں کوئی تیر نہیں مار لیا ۔ کچھ عرصہ پہلے ایک حادثے میں خالد دستی کا انتقال ہوا تو دل دکھ سے بھر گیا۔ اپنے ماضی سے تعلق کچھ کمزور ہوا ۔پہلے پروفیسر ظفر حسین ‘جن کے مجھ پر کئی احسانات تھے ‘ ریٹائر ہوکر بھکر واپس چلے گئے۔ پھرپروفیسر غلام محمد فوت ہوگئے ‘ اب پتہ چلا شبیر نیّرریٹائر ہوگئے ہیں۔ یوں لگا خود سے تعلق مزید کمزور ہو گیا ہے ‘ اپنے ماضی سے مزید دور ہوا ۔ دل اداس ہو گیا ۔ لیہ کالج کی سردیوں کی دوپہروں کی یادیں حملہ آور ہوئیں ۔ وہ تین کرسیاں یاد آئیں‘ جن پر کبھی غلام محمد تو کبھی شبیر نیّرمجھے اور خالد دستی کو لٹریچر پڑھاتے تھے۔
یادوں میں اب وہی تین کرسیاں ہیں‘ جو دسمبر کی دھوپ میں اب بھی شاید کہیں کالج کے لان میںخالی پڑی ہوں گی۔ وہی بروٹس سے ناراض غلام محمد صاحب اور وہی کنگ ایڈی پس کی ڈھائی ہزار سالہ پرانی دردناک کہانی سناتے شبیر نیّر‘خالد دستی اور میں!