ڈاکٹر حسن رانا سے تعلق بنے کچھ ہفتے ہوئے ہیں لیکن لگتا ہے برسوں کا تعلق ہے۔ انہوں نے دو پاکستانی ہٹ فلمیں 'وار‘ اور 'یلغار‘ بنائیں۔ ساڑھے چھ فٹ قد کے طویل قامت اس رانا سے مل کر اندازہ ہوتا ہے اصلی اور نسلی راجپوت کیسے ہوتے ہیں۔ ہمیں بھی فلموں کا ٹھرک ہے لہٰذا خوب نبھ رہی ہے۔ نوعمری میں سی ایس ایس کرکے وہ اسسٹنٹ کمشنر بنے‘ جوانی میں نوکری سے استعفیٰ دے دیا اور دنیا فتح کرکے پاکستان لوٹے۔ پڑھے لکھے بندے ہیں جن سے سیکھنے کو بہت کچھ مل جاتا ہے۔
ڈاکٹر حسن مجھے کہنے لگے: آپ فلم لکھ کر دیں۔ میں بولا: رانا صاحب بس کالم لکھ کر اپنا ٹھرک پورا کر لیتے ہیں، فلم لکھنے کا اپنا مزاج نہیں‘ ہاں آپ دوسروں پر فلمیں بناتے ہیں لیکن آپ کی اپنی زندگی بھی فلم سے کم نہیں‘ آپ پر فلم لکھ سکتا ہوں، پروڈیوس اور ڈائریکٹ آپ خود کر لیں‘ ہیرو کا رول بھی خود کریں کہ دراز قد اور خوبصورت انسان ہیں۔
پتہ نہیں کیا بات ہوئی تو ڈاکٹر رانا کسی خیال میں ڈوب گئے۔ بولے: زندگی میں بھی کیا کیا کردار ملتے ہیں۔ میں خاموش ہو کر گرین ٹی پینے لگا‘ جو ہماری بھابی جویریہ تھرموس میں ڈال کر لے آئی تھیں۔ کبھی کبھار بینگن کا روایتی بھرتہ کھانا ہو تو بھابی جویریہ سے فرمائش کرتا ہوں۔ ان کے ہاتھ کا اپنا ذائقہ ہے۔
ڈاکٹر رانا بولتے رہے۔ ان کی بطور اسسٹنٹ کمشنر جڑانوالہ تعیناتی ہوئی تھی۔ انہیں ڈپٹی کمشنر کا فون آیا: تمہارے دفتر میں ایک چپڑاسی ہے اسے ٹرانسفر کرکے میرے پاس بھیج دو۔ رانا صاحب نے کہا: جی سر کل دفتر جا کر‘ کر دوں گا۔
اگلی صبح وہ دفتر جانے کیلئے نکلنے لگے تو انہیں ایک اور اسسٹنٹ کمشنر کا فون آیا جو یہاں کچھ عرصہ کام کر چکا تھا۔ اس نے کہا: رانا صاحب! آپ کے ہاں دفتر کا ایک چپڑاسی ہے‘ اسے تو فارغ کرکے میرے پاس بھیج دیں۔
جب رانا حسن دفتر پہنچے تو تیسرا فون ایک اور اسسٹنٹ کمشنر کا آیا کہ آپ کے ہاں فلاں ملازم ہے‘ اسے میرے پاس بھیج دیں تو مہربانی ہو گی۔ اب ان کے حیران ہونے کی باری تھی کہ ایسا کون سا دفتر کا ملازم ہے جسے تین افسران اپنے ہاں ٹرانسفر کرانا چاہتے ہیں۔ یہ بندہ کسی اہم پوسٹ پر بھی فائز نہیں‘ محض دفتر میں چپڑاسی ہے‘ لیکن ہر کوئی اس کی ٹرانسفر کرانا چاہتا ہے۔
خیر رانا صاحب نے اپنے پی اے کو کہا کہ ہمارے دفتر میں فلاں بندہ ملازم ہے اسے ٹرانسفر کر دیں۔ پی اے رک گیا۔ بولا: سرکار! جسے سب اپنے پاس لے جانا چاہتے ہیں آپ اسے اپنے ہاتھوں سے ٹرانسفر کرنا چاہتے ہیں؟ ڈاکٹر رانا بولے: میں نے کیا کرنا ہے۔ ہم کوئی اور بندہ رکھ لیں گے۔ دفتر کا ایک چپڑاسی ہی تو ہے جس کا کام چائے پانی پلانا ہے۔ وہ کتنا اہم ہو سکتا ہے ہمارے لیے؟ جائیں اور اس کے ٹرانسفر آرڈر نکالیں۔ پی اے جھجک کر بولا: سر ناراض نہ ہوں تو ایک بات کہوں؟
رانا صاحب بولے: جی بتائیں؟
پی اے بولا: سر‘ چلیں ٹرانسفر کر دیں، آپ کی مرضی لیکن میری ایک بات مان لیں کہ اسے بدلنا بھی ہے تو دو دن بعد بدلیں۔
رانا صاحب کو وہی روایتی راجپوت والا غصہ محسوس ہوا کہ میں پی اے کو کہہ رہا ہوں اور وہ ایسے ایکٹ کر رہا ہے جیسے وہ اے سی ہو۔ انہوں نے پوچھا: دو دن میں کیا ایسا ہو جائے گا کہ میں اپنا فیصلہ بدل دوں گا؟
پی اے بولا: دو دن بعد آپ خود دیکھ لیں گے۔
ویسا ہی ہوا جیسا پی اے نے کہا تھا۔ دو دن بعد رانا صاحب نے پی اے کو بلایا اور کہا: ٹرانسفر کرنے کی ضرورت نہیں‘ وہ اب میرے پاس ہی کام کرے گا۔ پھر پوچھا: تمہیں کیسے پتہ تھا‘ میں دو دن بعد خود کہوں گا کہ اسے ٹرانسفر مت کرو۔
پی اے ہنس کر بولا: جو افسران آپ سے یہ بندہ مانگ رہے ہیں‘ ان سے پہلے جو اس کرسی پر بیٹھ کر گئے تھے‘ وہ بھی آپ کی طرح پہلے دن یہ حکم دیتے تھے کہ اس بندے کو فلاں اے سی یا ڈی سی کے پاس ٹرانسفر کر دو‘ میں انہیں بھی یہی مشورہ دیتا تھا جو آپ کو دیا‘ اور دو دن بعد وہ بھی فیصلہ بدل دیتے تھے‘ جیسے اب آپ نے بدل دیا ہے۔
میں دیر سے اس سٹوری میں محو بیٹھا تھا‘ اچانک بول پڑا: رانا صاحب اس چپڑاسی کے پاس آخر کون سی ایسی بڑی سفارش تھی کہ وہاں جو بھی اے سی بیٹھتا‘ دو دن بعد اس کا تبادلہ نہیں کر سکتا تھا؟ ایک چپڑاسی اتنے سارے اسسٹنٹ کمشنرز پر بھاری پڑ گیا تھا؟
رانا صاحب مسکرائے اور بولے: آپ غلط سمجھ رہے ہیں۔ وہ کوئی سفارش نہیں کراتا تھا۔ نہ کوئی ایم پی اے نہ ایم این اے نہ وزیر کا رقعہ یا فون۔ وہ ایسا بندہ تھا جو اپنی سفارش خود تھا۔ اسے کسی سفارش کی ضرورت نہیں تھی۔ وہ ایسا نشہ تھا جو ہر افسر کو خود چڑھ جاتا اور بندہ وہاں سے ٹرانسفر ہو جاتا تو بھی اس کے نشے میں رہتا لہٰذا ہر کوئی اسے ساتھ رکھنا چاہتا تھا۔
میرا تجسس مزید بڑھ گیا۔ وہ چپڑاسی ایسی کیا خدمات ان نئے افسران کو فراہم کر رہا تھا کہ سب اس کے دیوانے ہو گئے تھے اور اب باقاعدہ وہاں ضلع میں لڑائی ہوتی تھی کہ وہ ان کے دفتر میں کام کرے گا؟ ڈاکٹر صاحب بولے: دو دن بعد میں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ جب تک جڑانوالہ ہوں‘ اسے نہیں بدلوں گا۔ وجہ یہ تھی کہ میرے دفتر پہنچنے سے پہلے پورا دفتر آراستہ ہوتا تھا، میری میز صاف ستھری ہوتی، اخبار جیسے استری کرکے رکھا ہوا ہو، چائے کا گرم کپ، پانی کے گلاس سائیڈ پر۔ فائلیں صاف ستھریں، اور کمرے کی غیرمعمولی صفائی۔ اسے کچھ بتانا نہیں پڑتا تھا۔ اسے پتہ تھا کہ صاحب کو کیا پسند ہے اور کیا ناپسند۔ کوئی فضول آدمی دفتر آ جاتا تو وہ اندر کمرے میں داخل ہوتا اور چند منٹ میں اس بندے کو جانے پر مجبور کر دیتا۔ اس ظالم کو یہ بھی اندازہ تھا کہ کس صاحب کو کمرے کا کتنا ٹمپریچر پسند ہے۔ ہر کام اس تربیت اور نفاست سے کرتا کہ بندے کو دفتر میں کام کرتے اور بیٹھے مزہ آ جاتا۔ وہ اسی پر بس نہیں کرتا تھا۔ سرکٹ ہائوس میں بھی جا کر ڈیوٹی دیتا۔ کپڑے اس انداز سے استری کرتا کہ شاید ہی کسی نے کیے ہوں۔ اور تو اور شرٹس بھی وہ ائرکنڈیشنر کے سامنے رکھ دیتا تاکہ صاحب جب پہن کر باہر نکلے تو فوراً گرمی کا احساس نہ ہو۔ کھانے پینے کا خیال رکھتا۔ جوتے ایسے پالش کرتا کہ بندے کو اپنا چہرہ اس میں نظر آئے۔ اس کی موجودگی میں یوں لگتا‘ آپ شہزادے ہیں جو سیون سٹار ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے ہیں اور آپ کی بادشاہوں والی خدمت کی جا رہی ہے۔
رانا صاحب بولے: ایک دن میں نے اس سے پوچھا‘ یہ سب کچھ اس نے کیسے سیکھا؟ وہ بولا: صاحب! ایک دن میں نے خود سے پوچھا‘ کیا تم چپڑاسی سے ترقی کرکے فیصل آباد کا ڈپٹی کمشنر لگ سکتے ہو؟ جواب ملا: نہیں‘ تم نے ترقی کرکے زیادہ سے زیادہ تیس چالیس سال بعد کلرک ہی لگنا ہے۔ پھر میں نے سوچا‘ اگر ساری عمر چپڑاسی ہی رہنا ہے تو مجھے ایک عام چپڑاسی نہیں بننا‘ میں ایسا چپڑاسی بنوں گا کہ ہر صاحب میری خواہش کرے۔ یہاں سے اس کا تبادلہ ہو جائے تو بھی وہ مجھے یاد کرے اور مجھے اپنے ساتھ رکھنے کی خواہش کرے۔ میں نے دل میں خواہش پالی‘ اگر پاکستان میں کبھی یہ مقابلہ ہو کہ اس ملک کے سرکاری دفاتر میں بہترین نائب قاصد کا انعام کسے ملنا چاہیے‘ تو وہ مجھے ملے۔ پھر میں نے دل لگا کر کام کیا۔ اس کام کو چھوٹا نہیں سمجھا‘ نہ ہی خود پر یہ غم سوار کیا کہ میں ضلع کا ڈی سی کیوں نہیں؟ میں اس کام کو دنیا کا سب سے بڑا اور اہم کام سمجھ کر کرتا ہوں۔ میں اپنے اس کام کو انجوائے کرتا ہوں۔یہ سب کچھ سن کر میں گم بیٹھا تھا۔ میں نے کہا: رانا صاحب جب آپ وہاں سے تبدیل ہوئے تو آپ نے اسے اپنے ساتھ ٹرانسفر کیوں نہ کرا لیا؟ وہ ہنس کر بولے: نہیں میں نے فون کرکے تبادلے کا نہیں کہا تھا کیونکہ مجھے پتہ تھا‘ نئے افسر کے پی اے نے اسے دو دن کا مشورہ دینا تھا اور دو دن بعد نئے اے سی نے اپنا فیصلہ بدل دینا تھا جیسے میں نے بدل دیا تھا۔ میں نے پوچھا: اس واقعے کو کتنے برس گزر گئے ہیں؟ بولے: تقریباً ستائیس برس۔
میرا خیال تھا‘ اب ڈاکٹر صاحب کو اس کا نام کہاں یاد ہو گا؟ ڈاکٹر حسن رانا ہنس کر بولے: یار ایسے لازوال کردار کب بھولتے ہیں۔ ایک آدھ ہی ایسا بندہ زندگی میں ملتا ہے۔ اس کا نام فیصل احمد چوہدری اور باپ کا نام اکرام احمد چوہدری تھا!