ویسے تو کئی باتیں فوجی اور سیاسی حکمرانوں میں مشترک ہوتی ہیں‘ لیکن ایک چیز بہت ہی کامن ہے‘ وہ ہے عدالتوں اور میڈیا کو اپنے کنٹرول میں رکھنے کی خواہش۔ جب یہ لوگ اپوزیشن میں ہوتے ہیں تو انہیں آزاد جج اور صحافی اچھے لگتے ہیں‘ لیکن اقتدار ملتے ہی سب سے برے وہی لگتے ہیں۔ جنرل ایوب نے بھی ججوں اور میڈیا کو کنٹرول کیا ۔ میڈیا کے خلاف کالے قوانین متعارف کروائے۔ بھٹو صاحب کے دور میں بھی یہی کچھ چلتا رہا ۔ بھٹو صاحب نے ان کے خلاف لکھنے والے صحافیوں کو جیلوں میں ڈالا۔ جنرل ضیا ایک قدم آگے گئے کہ شایداُن کے 'محسن ‘بھٹو کو صحافیوں کو ڈیل کرنا نہیں آیا تھا ۔ انہوں نے ٹکٹکی کے ساتھ باندھ کر صحافیوں کو کوڑے مروائے اور سمری کورٹس سے سزائیں دلوا کر شاہی قلعے میں ان کی جوانیاں رول دیں۔ ججوں کو گھر بھیجا گیا اور جس جج نے بھٹو کی سزائے موت کے فیصلے خلاف لکھا اس کا جینا حرام کر دیا اور جسٹس صفدر شاہ کو ملک چھوڑنا پڑ گیا ۔
ہمارا خیال تھا جب بینظیر بھٹو آئیں گی تو شاید وہ ان تمام برسوں کے عذاب کے بعد نئی شروعات کریں گی۔ اگرچہ ان کے پہلے دور میں صحافیوں اور ججوں کے ساتھ براہ راست لڑائی نہ کی گئی ۔ شاید وہ ابھی نئی نئی تھیں ‘ جنرل ضیا کی باقیات کا دبائو ان پر شدید تھا اور انہیں اتنی آزادی نہ تھی کہ وہ کسی کے خلاف کوئی کارروائی کرسکتیں۔ الٹا اُس وقت کے ججوں اور جرنیلوں کا بینظیر بھٹو کے خلاف اتحاد تھا ۔
دوسرے دور حکومت میں بینظیر بھٹو نے میڈیا اور ججوں کے ساتھ براہ راست لڑائی شروع کی۔ ان کا خیال تھا کہ سندھی جج سجاد علی شاہ‘ جنہوں نے نواز شریف کی پہلی حکومت کی بحالی کے خلاف نوٹ لکھا تھا ‘ اپنے بندے نکلیں گے‘ لہٰذا انہیں چیف جسٹس بنا دیا۔ انہی سجاد علی شاہ نے بینظیر بھٹو دور میں وہی آزادی استعمال کرنے کی کوشش کی جو نواز شریف کے خلاف استعمال کی تھی‘ تو وہی بینظیر بھٹو ان کے خلاف ہوگئیں۔نواز شریف سے توقع نہ تھی کہ وہ میڈیا اور عدالتوں کو طاقتور بنانے کے لیے کوئی کوشش کریں گے‘ کیونکہ وہ جنرل ضیا سکول آف تھاٹ سے ڈگری لے کر وزیراعظم بنے تھے۔ نواز شریف صاحب نے صاف لفظوں میں میڈیا مالکان کی ایک تقریب میں خبردار کیا تھا کہ میرے ساتھ پنگا نہ لینا میں تو پیداوار ہی مزاحمت کی ہوں۔ نواز شریف ایک کاروباری انسان ہیں‘ لہٰذا ہر سودے میں وہ اپنا فائدہ دیکھتے ہیں اور عدالتوں اور میڈیا کو بھی انہوں نے نفع نقصان کے نظریے سے چلایا ۔ جو ہمارے ساتھ ہے وہ دوست ہے جو نہیں ہے وہ دشمن۔ یہ پالیسی نواز شریف نے آج تک رکھی ہوئی ہے۔ نواز شریف ہر آرمی چیف اور ہر چیف جسٹس سے لڑے‘ ہر میڈیا ہاؤس سے ان کی لڑائی ہوئی۔ ہر وہ صحافی بُرا ٹھہرا جس نے ان سے کوئی سنجیدہ سوال پوچھ لیا ۔ وہ سب صحافی ہیرو ٹھہرے جو ان سے مراعات لیتے یا اٹک جانے پر گفتگو میں انہیں لقمے دیتے تھے۔
جنرل مشرف بھی یہی آئیڈیا لے کر نمودار ہوئے کہ میڈیا اور ججوں کو کنٹرول میں رکھنا ہے۔ فوجی حکمران پہلے دن ہی خطرہ مول نہیں لیتے ۔ وہ آزاد ججوں کو گھر بھیج کر باقیوں کو پی سی او پر اپنی وفاداری کا حلف دلواتے ہیں۔ میڈیا مالکان کو بلا کر سمجھا دیا جاتا ہے کہ قومی مفادات کا تقاضا ہے‘ کوئی ایسی بات نہ کہی جائے‘ نہ لکھی جائے جو حکمران کو ناگوار گزرے یا جس سے عوام میں کوئی برا امیج اُبھرے۔ مالکان پہلا کام یہ کرتے ہیں کہ وہ ایسے صحافیوں کو بلا کر سمجھا دیتے ہیں کہ بیٹا یا تو ڈھول کی تھاپ پر رقص کرو یا پھر کوئی اور نوکری ڈھونڈ لو۔کچھ صحافی اور کالم نگار سمجھدار ہوتے ہیں وہ ہر طرف جھومر ڈانس کرلیتے ہیں۔ وہ فوجی حکمرانوں کے ساتھ بھی رقص کرنے کے ماہر ہوتے ہیں اور سیاسی حکمرانوں کے ساتھ بھی ہے جمالو کی تھاپ پر کھیلتے ہیں۔ ایسے صحافتی فنکاروں کو میرا سلام جو جنرل مشرف‘ زرداری‘ نواز شریف اور اب عمران خان سب کو خوش رکھنے کا فن جانتے ہیں ۔
جنرل مشرف اس وقت تک میڈیا سے بڑے خوش اور مطمئن رہے جب تک میڈیا بینظیر بھٹو اور نواز شریف کو لتاڑتا رہا ۔ لیکن جب میڈیا کی توپوں کا رخ جنرل مشرف کی طرف ہوا تو تین نومبر دو ہزار سات کو جنرل مشرف نے سب ٹی وی چینلز بند کروا دیے۔ میڈیا کی آزادی کا جنون ختم ہو گیا ۔ ساتھ ہی ججوں کو بچوں سمیت برطرف کر کے قید کر لیا ۔زرداری بھی ججوں سے خوف زدہ رہے‘ کیونکہ ان کے اپنے مقدمات چل رہے تھے۔ وہ سوئس بینکوں میں رکھے ساٹھ ملین ڈالرز ہضم کرنا چاہتے تھے اور عدالتیں وہ نکلوانے کے موڈ میں تھیں۔ یوں باقاعدہ ایک طویل جدوجہد کے بعد جج بحال ہوئے اور زرداری صاحب کو اس سے جو تکلیف ہوئی وہ ہم سب جانتے ہیں۔
نواز شریف کا تیسرا دورِ حکومت ججوں سے براہ راست لڑائی کا تھا ۔ اگرچہ دور بدل گیا تھا ‘ لہٰذا صحافیوں اور میڈیا مالکان کے ساتھ وہ حشر نہ کرسکے جو دوسرے دورِ حکومت میں مالکان اور ایڈیٹرز پر بغاوت کے مقدمے اور اخبارات بند کرا کے کیا تھا ۔ اس دفعہ نواز شریف نے وہی پرانا دائو آزمایا کہ میڈیا کو اگر دبا نہیں سکتے تو خرید لو۔ یوں چودہ ارب روپے کے اشتہارات بانٹے گئے۔ جو مخالفت میں کھڑے تھے ان کے اشتہارات روکے گئے۔ مطلب وہی تھا کہ اگر ہماری بولی بولو گے تو موج کرو گے ورنہ بھوکے مرو گے۔تب پیمرا کے ذریعے بھی میڈیا اور صحافیوں کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی گئی۔ پی ٹی وی پر بھرتیاں کر کے اینکرز اور صحافیوں کو گالی گلوچ کا سلسلہ بھی شروع کیا گیا ۔ سوال یہ ہے کہ پھر اس کا کیا نتیجہ نکلا؟ ایک دن وہ بیٹی سمیت جیل جا بیٹھے اور اب ایسی خاموشی نے انہیں جکڑ لیا ہے کہ صحافی چیختے چلاتے رہ جاتے ہیں کہ میاں صاحب کچھ تو بولیں۔ وہ عدالتیں جہاں ان کی مرضی سے بغاوتیں کرائی جاتی تھیں‘ وہی اب انہیں بلا کر کٹہرے میں کھڑا کرتی ہیں اور میاں صاحب بے بسی کی تصویر بنے کھڑے رہتے ہیں۔ اب باری لگی ہے وزیراعظم عمران خان کی جنہوں نے صحافیوں سے ملاقات کے دوران چیف جسٹس ثاقب نثار پر اعتراض جڑ دیے۔ مجھے تو عمران خان کی ناراضی پر حیرانی نہیں ہوئی ۔ عمران خان کا کہنا تھا: انہیں چیف جسٹس کے اس جملے پر اعتراض ہے کہ انہوں نے اپنے دوست زلفی بخاری کو وزیر کا عہدہ دے کر اقربا پروری کی تھی ۔اب مجھے نہیں پتہ کہ عمران خان کے نزدیک اقربا پروری کی کیا تعریف ہے۔ مجھے یاد ہے‘ جب یوسف رضا گیلانی اور نوازشریف نے بہت سی اہم تقرریاں کیں اور اپنے قریبی دوستوں کو اعلیٰ عہدوں پر بٹھایا تو اس وقت میڈیا اور عمران خان سب سے بڑے ناقد تھے ۔ دوستوں کے وفاق میں عہدوں کے علاوہ پنجاب میں‘ بنی گالہ میں اپنے گھر کے ملازم تک کو صوبائی مشیر کا درجہ دلوا کر معصومیت سے پوچھتے ہیں :میں نے کب اقربا پروری کی ہے؟ تو کیا یہ طے ہے کہ ہمارے اصول بڑے سمجھدار ہوتے ہیں ؟ ہم اپنے لیے معیار طے کرتے ہیں تو وہ کچھ اور ہوتا ہے‘ لیکن کسی اور کو جج کرنا ہو تو وہ کچھ اور ہوتا ہے۔ اپنے لیے سب رعائتیں اور دوسروں کے لیے سخت ترین معیار ۔ جو باتیں عمران خان دوسروں کے لیے غلط سمجھتے تھے‘ اب اپنے لیے درست سمجھنا شروع ہوگئے ہیں ۔
سوال یہ ہے کہ ہر حکمران کیوں میڈیا اور عدالتوں سے ناراض ہو کران سے لڑائی شروع کرتا ہے؟دنیا بھر میں جمہوریت کے بارے میں کبھی یہ نہیں کہا جاتا کہ اسے سیاستدان مضبوط کرتے ہیں۔ جمہوریت کو اگر مضبوط کرتے ہیں تو آزاد عدالتیں اور آزاد میڈیا۔ حکمران اس وقت میڈیا اور ججوں کو دبانے کی کوشش کرتے ہیں جب وہ لوگوں کے ساتھ کیے گئے وعدے پورے کرنے میں ناکام رہتے ہیں‘ اور پھر وزیراعظم اپنی ہر ناکامی اور بری کارکردگی کا ذمہ دار میڈیاا ور ججوں کو سمجھنا شروع کردیتا ہے۔ وزیراعظم کے حواری سمجھانا شروع کردیتے ہیں کہ دراصل جج اور صحافی ان کی حکومت نہیں چلنے دے رہے۔ جس نتیجے پر پہنچنے میں بینظیر بھٹو‘ جنرل مشرف‘ زرداری اور نواز شریف کو برسوں لگے ‘ عمران خان تین ماہ میں پہنچ گئے ہیں کہ میڈیا اور عدالتیں انہیں نہیں چلنے دے رہیں۔ جن عدالتوں اور میڈیا کے کندھوں پر سوار ہو کر وہ وزیراعظم بنے ہیں‘ وہی اب انہیں برا لگنا شروع ہوگئے ہیں۔ یہی عدالتیں تھیں جنہوں نے نواز شریف کو گھر بھیجا اور عمران خان کی پٹیشن پر بھیجا اور عمران خان کا راستہ ہموار ہوا ۔ اسی میڈیا نے دو برس تک مسلسل پانامہ سکینڈل کو زندہ رکھا‘ جس کا فائدہ عمران خان کو ہوا ۔ آج عمران خان انہی ججوں اور صحافیوں سے ناراض ہیں۔ مجھے تو عمران خان کی ناراضگی پر حیرانی نہیں ہوئی!