عسکری حسن سید کا فون تھا ۔ وہ بیرون ملک دو ماہ گزار کر واپس لوٹے ہیں۔ شام ڈھلے ایک کیفے پر جا بیٹھے اور پھر یادوں کا دریچہ کھل گیا ۔ میں اور عسکری مل بیٹھیں اور ڈاکٹر ظفر الطاف کا ذکر نہ ہو۔میںنے کہا: آج پانچ دسمبر ہے اور ڈاکٹر ظفر الطاف کی تیسری برسی ۔ عسکری پوچھنے لگے: اب دوپہر کو کیا کرتے ہو؟ میں نے کہا :تین سال سے یاد نہیں پڑتا کہ دوپہر کو گھر سے باہر نکلا ہوں ‘اگر کوئی بہت ضروری کام نہ ہو یا کوئی خبرتلاش نہ کرنی ہو۔ اٹھارہ برس تو وہی روٹین تھی‘ بارہ بجے ڈاکٹر صاحب کا میسج آجاتا :بھائی کدھر ہو۔ جس دن ان کی کال آتی تو اندازہ ہوجاتا یا تو جاوید الطاف آرہے ہیں یا نواب یوسف تالپور۔ان دونوں کی ڈاکٹر صاحب سے فرمائش ہوتی کہ رئوف کو بلوائیں اس سے سیاسی گپیں مارنی ہیں ۔
ہم دونوں خاصی دیر چپ بیٹھے رہے۔ عسکری نے خاموشی توڑی اور وہی فقرہ بولاجو ڈاکٹر ظفر الطاف کے بارے میں وہ سبھی لوگ بولتے ہیں ‘جو ان کے مداح تھے‘ کہ یار اُن جیسا بندہ دوبارہ پیدا نہیں ہوگا ۔ میںنے کہا: ہم خوش قسمت تھے کہ زندگی میں ایک ایسا گرو مل گیا ۔ دنیا میں ہر کسی کو تو نروان نہیں ملتا ‘ ہمارے لیے تو ڈاکٹر ہی کافی تھے‘ جن سے اٹھارہ برس بہت کچھ سیکھا۔ ان میں جو خوبیاں تھیں وہ تو ہوسکتا ہے بہت سے لوگوں میں ہوں اور سیکھی بھی جاسکتی ہیں‘ لیکن ان کے اندر جو انسانیت تھی اورمدد کا جو جذبہ تھا‘کم لوگ ہی اس خوبی سے مالا مال ہوتے ہیں۔ میں جب 1998ء میں ملتان سے اسلام آباد پر نازل ہوا تو جن دو‘ تین لوگوں سے ملاقاتیں بہت جلد دوستی میں بدل گئیں ‘ان میں ارشد شریف ‘ اسلام آباد پریس کلب کے سیکرٹری شکیل انجم‘ ڈاکٹر ظفر الطاف‘ عسکری سید اور ارشاد بھٹی شامل تھے۔ بیس برس قبل عسکری‘ ارشاد بھٹی اور میری ملاقات ڈاکٹر ظفر الطاف کے دفتر میں ہوئی تھی ‘جو بعد میں ایک طویل تعلق میں بدل گئی ۔ بھٹی پنڈی بھٹیاں کادیہاتی تو میں لیہ اورعسکری ٹیکسلا کا۔
ارشاد بھٹی اس وقت بھی ایسے ہی تھا جیسے آج ہے۔ اس کا شمار بھی ڈاکٹر ظفر الطاف کے لاڈلوں میں ہوتا تھا ۔ ڈاکٹر ظفر الطاف کو علم تھا کہ رئوف کو خبریں چاہیں ہوتی ہیں‘ جبکہ بھٹی سرعام مذاق میں کہتا تھا: سر جی یہ خبروں والا مسلہ رئوف کا ہے‘ میں تو آپ سے تعلقات بنانے آتا ہوں۔ بہت لوگوں میں حسِ مزاح دیکھی ہوگی‘ لیکن ارشاد بھٹی جیسی شاید کسی میں نہ ہو۔ میں اکثر ڈاکٹر صاحب کو بھٹی کے خلاف بھڑکاتا کہ یہ اسی وقت نمودار ہوتا ہے جب آپ کسی عہدے پر لگ جائیں‘ آپ او ایس ڈی ہوں تو ادھر کا رخ نہیں کرے گا۔ کہا: ہاں یہ بات تو ہے۔ بھٹی آتا تو وہ میرے خلاف گپیں مار جاتا تو ہنس کر کہتے ‘ہاں یہ بات تو ہے۔ وہ ہم دونوں سے پیار کرتے تھے اور ہماری ایک دوسرے کے خلاف مزاحیہ گپ شپ کو بہت انجوائے کرتے۔
ڈاکٹر ظفر الطاف‘ دراصل عسکری کی انگریزی لکھنے کی صلاحیت کے علاوہ اس کی ذہانت کے بھی قائل تھے۔ ایک دفعہ عسکری نے ایک افسر کی دفتر میں پھینٹی لگا دی۔ شکایت ڈاکٹر صاحب تک پہنچی تو عسکری کو بلایا اور پوچھا کہ کیوں مارا؟ عسکری نے کہا: سر جی اصل وجہ بتا دوں؟ جب عسکری نے وجہ بتائی تو ہنس کر لوٹ پوٹ ہوگئے اور بولے : پھر تو تم نے تھوڑی پھینٹی لگائی ہے‘کچھ اور لگا کر آئو۔ ذہین لوگ ڈاکٹر ظفر الطاف کی کمزوری تھے اور اس کمزوری کا نام اقبال دیوان تھا‘ جن کا تعلق تو افسروں کی ڈی ایم جی کلاس سے تھا ‘لیکن دیوان جی کے اندر روایتی افسری کم ‘جبکہ لٹریچر‘ تاریخ اور انسانی نفسیات پر عبور زیادہ تھا ۔ ڈاکٹر ظفر الطاف‘ جس بندے کا نام دن میں ایک دفعہ ضرور لیتے اور اس کا کارنامہ سناتے‘ وہ کراچی کے ہمارے پیر بھائی اقبال دیوان تھے۔ڈاکٹر ظفر الطاف کے دربار سے جڑے رہنے کی وجہ سے ہم تینوں ارشاد بھٹی‘ اقبال دیوان اور میں خود کو ''پیر بھائی‘‘کا درجہ دیتے تھے۔
عسکری خاموش بیٹھا تھا ‘میں نے کہا: عسکری آج بیس برس بعد آپ کو راز کی بات بتائوں ۔ مجھے پتا ہے‘ آپ ڈاکٹر ظفر الطاف سے ناراض رہے اور شاید آج بھی ناخوش ہوں۔ عسکری چونک پڑا اور پوچھا کون سی بات؟ میں نے کہا: آپ کا خیال تھا شاید ڈاکٹر صاحب نے کسی کے کہنے پر آپ کو ایک اہم عہدے سے ہٹا کر اپنے سٹاف افسر جیسی کھڈے لائن پوسٹ پر رکھ لیا تھا ۔ سیکرٹری کا سٹاف افسر کون لگنا چاہتا ہے؟مجھے یاد ہے میرا ایک دوست سی ایس ایس کر کے سیکرٹریٹ میں دفتر جوائن کرنے سے پہلے میرے گھر آیا تو میں نے اسے ایک پیشکش کی تھی۔ اس وقت ڈاکٹر ظفر الطاف سیکرٹری تھے۔ میں نے اس دوست کو کہا کہ وہ اگر کہے تو میں ڈاکٹر صاحب سے ریکویسٹ کر کے اسے ان کا سٹاف افسر لگوا دیتا ہوں۔ وہ دوست بے نیازی سے بولا: اس سے کیا ہوگا ؟ میں نے کہا :ایک اچھا افسر بننا ہے تو کسی بھی نوجوان افسر کو ڈاکٹر ظفر الطاف جیسے بیوروکریٹ کا سٹاف افسر لگ کر کچھ برس سیکھنا چاہیے کہ فیصلے کیسے کئے جاتے ہیں ۔ ایماندار‘ نیک‘ یا اچھے برے افسر ہر محکمے میں مل جائیں گے‘ لیکن آپ کو ایسے افسر کم ملیں گے ‘جو اہم اور مشکل فیصلے کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ ڈاکٹر ظفر الطاف سے آپ لاکھ اختلاف کرسکتے تھے‘ لیکن جتنی سرعت سے وہ فیصلے کرتے تھے‘ وہ بہت کم افسران کرتے ہوں گے ۔ وہ فیصلے کرتے وقت رولز اور ریگولیشنز کی پروا نہیں کرتے تھے۔ اس وجہ سے بہت سے مقدمے ان پر بنے اور ہر دفعہ اللہ نے انہیں سرخرو کیا ۔ وہ کہا کرتے تھے: سب افسران ایماندار کہلاتے ہیں‘ جو کوئی فیصلہ نہیں کرتے۔ فائل پڑھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے‘ لہٰذا اس فائل کو فائل کر کے ایمانداری کے قصے سناتے ہیں۔ وہ ایسے افسران کو بوجھ سمجھتے تھے۔ ڈاکٹر ظفرالطاف نے پوری فائل پڑھنے کی عادت بھٹو صاحب کے دور سے پیدا کی تھی‘ کیونکہ بھٹو صاحب پوری فائل منگوا کر پڑھتے اور پھر اس پر فیصلہ کرتے تھے۔ خیر اس دوست کو میری تجویز پسند نہ آئی ۔ اگرچہ برسوں بعد اس نے اعتراف کیا کہ میں نے تمہاری بات نہ مان کر غلطی کی تھی ۔
عسکری کے ساتھ بھی یہی ہوا ۔ عسکری کو ڈاکٹر صاحب نے ایک اہم پوسٹ سے ہٹا کر اپنا سٹاف افسر لگا دیا۔ انہیں وزارت میں ایک دفتر دے دیا گیا ۔ سارا دن ڈاکٹر صاحب انہیں فائلیں مارک کر کے بھیجا کرتے ۔میں جب بھی جاتا عسکری فائلوں میں سر دے کر بیٹھے ہوتے ۔ باتوں باتوں میں عسکری شکوہ کرتے: یار یہ ڈاکٹر صاحب نے انہیں کہاں پھنسا دیا ۔ میں نے کہا :عسکری آج وہ راز آپ کو بتاتا ہوں۔ دراصل ڈاکٹر صاحب نے آپ کے ساتھ وہی سلوک کیا‘ جو ان کے ساتھ ان کے نیک نام چیف سیکرٹری پنجاب افضل آغا نے کیا تھا ۔ ڈاکٹر صاحب تین برس مشرقی پاکستان میں اسسٹنٹ کمشنر کی نوکری کر کے لوٹے تھے۔ پنجابی ہوکر بھی بنگالی زبان سیکھ لی تھی اور اپنے اچھے سلوک کی وجہ سے مقامی بنگالیوں میں بہت مقبول تھے۔ مغربی پاکستان لوٹ کر وہ اکثر بنگالیوں کے ساتھ ہونے والے سلوک پرنالاں تھے ۔ ایک دن انہیں چیف سیکرٹری نے اپنے سٹاف میں تعینات کردیا ۔ ڈاکٹر صاحب حیران کہ کیا ناراضی ہوگئی جو انہیں اہم پوسٹ سے ہٹا کر دفتر میں کھڈے لائن لگا دیا گیا ۔ا فضل آغا نے انہیں دفتر بلا کر لیٹر اُن کے سامنے رکھا‘ جو ایک سیکرٹ ایجنسی نے لکھا تھا کہ یہ افسر پنجابی ہوکر بھی بنگالیوں کا حامی لگتا ہے۔ چیف سیکرٹری بولے : ظفر ان سے تمہیں بچانے کا ایک ہی حل ہے کہ تم میرے ساتھ رہو گے‘ تاکہ تمہیں نقصان نہ ہو۔میں نے کہا: عسکری آپ کے کیس میںبھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ کچھ لوگوں نے آپ کے خلاف درخواست لکھی تھی۔ انہوں نے آپ کے ساتھ وہی سلوک کیا ‘جو ان کے ساتھ چیف سیکرٹری ا فضل آغا نے کیا تھا ۔ انہوں نے اپنے اعلیٰ ظرف چیف سیکرٹری سے جو سیکھا ‘ وہی اپنے ماتحت افسر کے ساتھ کیا ۔انہوں نے آپ کو بچانے کیلئے سٹاف افسر لگا دیا‘ سزا کیلئے نہیں ۔ عسکری نے میری طرف دیکھا ‘ گہرا سانس لیا‘ جیسے اس کے سر سے بوجھ اتر گیا ہو۔
کیفے کے باہر دسمبر کی سرد رات اتر آئی تھی‘ ہم کافی دیر سے خاموش بیٹھے تھے۔ تین برس قبل اسی دن ‘دسمبر ہم سے ڈاکٹر ظفر الطاف لے گیا ‘ جن کے بغیر اب اسلام آباد ‘اُداس اور تنہا لگتا ہے!