امریکی کی ریاست البامہ کے پہاڑوں میں واقع اس قصبے Anniston کے کمیونٹی ہال میں ورجینیا کے مشہور فلم ساز نور نغمی ہمیں اپنی نئی فلم 'اینجلز ود ان‘ کے بارے میں بتا رہے تھے۔
ہال میں کئی پاکستانی ڈاکٹرز اور دیگر دوست بھی بیٹھے تھے۔
نور نغمی ورجینیا سے تشریف لائے تھے اور وہ اپنی یہ فلم پاکستانی ڈاکٹروں کو دکھانا چاہتے تھے۔ فلم کا تعارف کراتے ہوئے نور نغمی نے بتایا کہ انہوں نے فلم کا آئیڈیا کچھ برس قبل ڈاکٹر عاصم صہبائی کے ہسپتال میں‘ ان کے دفتر میں بیٹھے ہوئے لیا تھا۔ دیوار پر لگے ایک کارڈ پر نور نغمی کی نظر جا کر رک گئی تھی۔ کسی نے ڈاکٹر عاصم صہبائی کو شکریے کا پیغام بھیجا ہوا تھا۔ یہ کوئی معمولی کارڈ نہیں تھا بلکہ کینسر کے ایک مریض نے عاصم کو شکریے کا خط بھیجا تھا کہ کیسے اس کے علاج کی وجہ سے اس کی زندگی بچ گئی تھی۔
کینسر کے اس مریض نے عاصم کو وہ فرشتہ قرار دیا تھا‘ جو خدا نے دنیا میں اس کی جان بچانے کے لیے بھیجا تھا۔ یہیں سے نور نغمی کے زرخیز ذہن میں یہ خیال آیا کہ ایک فلم بنائی جائے۔
گیارہ ستمبر کے حملوں کے بعد امریکہ میں پاکستانیوں اور مسلمانوں کا امیج بری طرح خراب ہوا تھا کہ یہ لوگ شاید مرنے مارنے کیلئے اس دنیا میں آئے ہیں۔ عاصم فلم کا وہ کردار ہے جس نے امریکیوں کو اپنا نظریہ بدلنے پر مجبور کر دیا تھا کیونکہ پاکستانی ڈاکٹرز انہی امریکیوں کی جانیں بھی بچا رہے تھے اور اس کا ثبوت ایک کارڈ کی شکل میں نور نغمی کے سامنے موجود تھا۔
نور نغمی کے بعد پاکستان کے اوکاڑہ شہر سے آئے کینسر کے نوجوان مریض حافظ عبدالرحمن اور ان کے والد انوارالحق چوہدری بات کرنے کے لیے اٹھے تو وہ جذبات سے مغلوب بات نہیں کر پا رہے تھے۔ انہیں بھی عاصم صہبائی کی شکل میں ایک فرشتہ مل گیا تھا۔
عبدالرحمن کو یونیورسٹی سے ڈگری لیے گھر پہنچے ابھی کچھ دن ہوئے تھے کہ ان کی والدہ کو کڈنی کا مسئلہ ہو گیا۔ ان کا خیال تھا معمولی سا مسئلہ ہے اور وہ بہت جلد ٹھیک ہو جائیں گی‘ لیکن کچھ عرصہ بعد والدہ کو ڈائلیسز پر جانا پڑا۔ اوکاڑہ میں انتظام نہ ہونے کی وجہ سے انہیں ہفتے میں دو دفعہ لاہور جانا پڑتا تھا ۔ بعد میں ساہیوال سے یہ علاج کرایا۔ والد ان کے ساتھ رہتے جبکہ عبدالرحمن کی بہن گھر کو دیکھ رہی تھی۔ چھوٹا بھائی ابھی پڑھ رہا تھا۔ عبدالرحمن کو باپ نے لاہور بھیج دیا جہاں اس نے نوکری شروع کی اور ایم فل میں داخلہ لے لیا۔ ماں کی وجہ سے باپ کے کام کا حرج ہو رہا تھا‘ لہٰذا عبدالرحمن نے نوکری چھوڑ دی تاکہ ماں کا ڈائلیسز کرا سکے اور باپ اپنے کام پر توجہ دے اور گھر کا خرچہ چلتا رہے۔
ایک دن عبدالرحمن کو‘ جو ماں کی بیماری کی وجہ سے ڈسٹرب تھا‘ اپنے پیٹ میں کچھ مسئلہ ہوا۔ والد کے اصرار پر چیک کرایا تو ڈاکٹر نے دوا دی۔ فرق نہ پڑا تو ایک اور ڈاکٹر سے چیک کرایا۔ پھر بھی فرق نہ پڑا۔ اس دوران پیٹ کا درد بڑھ چکا تھا۔ دو ماہ بعد ایک اور ڈاکٹر کے پاس گیا تو اس نے بھی دوا دے دی‘ لیکن کوئی افاقہ نہ ہوا۔ آخر پانچویں ڈاکٹر نے ٹیسٹ لکھ کر دیا تو پتہ چلا کہ بڑی آنت کا کینسر ہو چکا تھا۔
یہ خبر کسی بم شیل سے کم نہ تھی۔ اب عبدالرحمن کو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ کیسے یہ خبر گھر والوں کو بتائے۔ ماں پہلے ہی ڈائلیسز پر تھی۔ پہلا خیال یہی آیا کہ گھر بتایا تو سب گھبرا جائیں گے۔ والدہ بہت کمزور ہو چکی تھیں۔ بہن نے پڑھائی چھوڑ کر گھر سنبھال لیا تھا۔ عبدالرحمن نے گھر نہ بتانے کا فیصلہ کیا۔ دوست اسے ہسپتال لے کر جاتے۔ عبدالرحمن نے انہیں منع کر دیا کہ وہ گھر نہ بتائیں۔
عبدالرحمن کو علم نہ تھا کہ کینسر کا علاج کہاں اور کیسے کرانا ہے۔ ایک دوست انمول ہسپتال لے گیا تو ڈاکٹر نے چیک کیا اور فائل بنا کر انکالوجسٹ کے پاس ریفر کر دیا۔ ڈاکٹر نے کہا: ففٹی ففٹی چانس ہے۔ ستمبر کے آخر میں عبدالرحمن ایک امید پر شوکت خانم کینسر ہسپتال گیا لیکن اس کا علاج یہ کہہ کر نہ کیا گیا کہ شوکت خانم کی پالیسی ہے کہ اگر مریض علاج پہلے کسی اور سے کرا رہا ہو تو پھر اس کا علاج وہاں نہیں ہو سکتا۔ اب انمول ہسپتال ہی رہ گیا تھا۔ اکتوبر دو ہزار سترہ میں ایک دوست نے آخر عبدالرحمن کے والد کو گھر بتا دیا کہ آپ کے بیٹے کو کینسر ہے۔ یہ خبر والد پر بم بن کر گری۔ عبدالرحمن نے باپ کو تسلی دی کہ بہت جلد سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔
نومبر دو ہزار سترہ میں عبدالرحمن نے ریڈی ایشن شروع کرائی۔ ایک ہفتہ وہ لاہور رہا‘ جب اوکاڑہ گیا تو ماں کی طبیعت بہت خراب تھی۔ وہ باپ کے ساتھ ماں کو لاہور لے گیا۔ چند دن وہیں رہے۔ ماں کے گردے ختم ہو چکے تھے جبکہ بیٹا کینسر کا علاج کرا رہا تھا۔
دو دن بعد ڈاکٹر نے کہا: ماں کو گھر لے جائیں یہ اب نہیں بچے گی۔ اس کے باوجود اس نے ماں کو ایک ہفتہ ہسپتال میں رکھا‘ لیکن طبیعت بگڑتی گئی۔ اسی اثنا میں عبدالرحمن اپنی ماں کو موت کے بستر پر چھوڑ کر انمول ہسپتال کیموتھراپی کرانے گیا۔ سارا دن کیمو کرانے کے بعد شام کو عبدالرحمن ماں کے پاس ہسپتال گیا تو اس کے باپ نے کہا: میں نے فیصلہ کر لیا ہے‘ تمہاری ماں کو اوکاڑہ لے جا رہا ہوں۔ وہ رات دو بجے اوکاڑہ پہنچ گئے۔ کیمو کی وجہ سے کمزوری ہو چکی تھی‘ اوپر سے طویل سفر‘ عبدالرحمن کی اپنی حالت خراب تھی۔ وہ گھر جاتے ہی سو گیا۔ صبح اٹھ کر دیکھا تو پوری فیملی ماں کے بستر کے قریب بیٹھ کر قرآن پڑھ رہی تھی۔ وہ ماں زندہ نہ رہی جو اپنے بیٹے کو دعائیں دے کر ہسپتال بھیجتی تھی۔
جنوری دو ہزار اٹھارہ میں ڈاکٹر نے عبدالرحمن کو سکین کرانے کو کہا۔ ڈاکٹر نے عبدالرحمن کو بتایا کینسر اب جگر اور پھیپھڑوں میں پھیل چکا ہے۔ یہ بھی بتایا کہ وہ ایک یا دو سال ہی زندہ رہ سکے گا۔ عبدالرحمن کو خوفناک جھٹکا لگا۔ اس کا مسیحا اسے موت کی خبر سنا رہا تھا۔ عبدالرحمن کے لئے یہ ایک خوفناک تجربہ تھا۔ اس سال رمضان شروع ہوا تو عبدالرحمن کے سر کے بال کیمو کی وجہ سے گرنا شروع ہو گئے۔ بیٹے کے بال گرتے دیکھ کر والد کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے۔ باپ کو اندازہ ہونا شروع ہو گیا تھا کہ پہلے وہ بچوں کی ماں کھو چکا ہے‘ اب بیٹا اس کے ہاتھوں سے پھسل رہا ہے۔ جو دوست عبدالرحمن کو ہسپتال لے کر جاتے تھے‘ انہوں نے ایک دن اس کے باپ کو بتا دیا کہ ڈاکٹروں نے جواب دے دیا ہے‘ عبدالرحمن اب زیادہ عرصہ زندہ نہیں رہے گا۔ ایک اور میڈیسن کا ڈاکٹر کو بتایا گیا تو اس نے عبدالرحمن کو کہا کہ چھوڑو کیوں پیسے ضائع کرتے ہو‘ تم نے اب نہیں بچنا‘ چھوڑو سب کچھ‘ گھر جائو۔ ویسے بھی جو دوائی بتائی جا رہی ہے‘ بہت مہنگی ہے۔ کیوں کیمو پر پیسے خرچ کرتے ہو۔ کیمو نے اب تم پر اثر کرنا چھوڑ دیا ہے۔
باپ بیٹا اپنی طویل دکھ بھری کہانی سناتے ہوئے آنکھوں میں آنسو لیے ہمارے سامنے کھڑے تھے۔ عبدالرحمن اب بھی اپنی کہانی سنا رہا تھا‘ جسے پاکستانی ڈاکٹروں نے کہا تھا کہ وہ گھر جا کر موت کا انتظار کرے‘ اس کی زندگی ختم ہو چکی ہے۔
سب لوگ اس چھوٹے سے ہال میں سانسیں روکے بیٹھے حافظ عبدالرحمن کو سن رہے تھے۔ پاکستان سے ہزاروں میل دور اس امریکی قصبے کی اس سرد رات میں اس ہال میں بیٹھے سب لوگ عبدالرحمن کی ناقابل یقین باتیں سن رہے تھے جبکہ میں نے نو ماہ قبل اسلام آباد کی وہ شام اور باتیں یاد کرنے کی کوشش کی جب یہی عبدالرحمن زندگی سے مایوس مجھ سے اپنے تئیں پہلی اور آخری دفعہ اوکاڑہ سے ملنے آیا تھا۔
کینسر سے ایک طویل اور تکلیف دہ لڑائی لڑتے عبدالرحمن کے پاس مجھے اپنے بارے میں بتانے کو بہت کچھ تھا‘ لیکن اسے احساس یہ بھی تھا کہ وہ شکست کھا چکا ہے۔ کیفے میں بیٹھے اس شام مجھے اس نوجوان کی آنکھیں خالی اور ویران محسوس ہوئی تھیں۔ ڈاکٹروں نے علاج چھوڑ کر اسے موت کے لیے تیار کر دیا تھا۔
میں حیران تھا‘ موت سے چند قدم کے فاصلے پر زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا عبدالرحمن اوکاڑہ سے طویل سفر کر کے مجھ سے ہی کیوں ملنے اسلام آباد آیا تھا اور میں کیوں اجنبی نوجوان کے ٹیکسٹ میسج پر ملنے کے لیے تیار بھی ہو گیا تھا۔ (جاری)