پھر اسلام آباد کی وہی سرد رات اور وہی برسوں کے چند دوست ۔ ٹی وی پروگرام کے بعد ارشد شریف کو فون کیا ۔ جمشید رضوانی ملتان سے آیا ہوا تھا ۔ ارشد شریف ‘ عدیل راجہ ‘ علی‘ ضمیر حیدر اور میں تو مستقل اس گینگ کے ممبر ہیں‘ باقی یار دوست آتے جاتے رہتے ہیں ۔پچھلی دفعہ یہیںندیم افضل چن کے ساتھ ملاقات ہوگئی تھی اور اب ارشد شریف کے ساتھ وفاقی وزیر علی زیدی تھے۔ علی زیدی کے جوائن کرنے سے پہلے عدیل راجہ ان کے بارے میں اچھی باتیں کررہے تھے‘ میں چپ بیٹھا تھا کیونکہ میرا علی زیدی کے ساتھ زیادہ ایکسپوژر نہیں تھا لیکن جب دو گھنٹے بعد ہم لوگ اٹھے تو میری رائے بھی علی زیدی کے بارے میں بدل چکی تھی۔ علی زیدی کی بہادری کا میں قائل رہا ہوں کہ وہ کراچی میں ایم کیو ایم کے عروج کے دنوں میں بھی نہیں ڈرے اور کھڑے رہے ۔ وہ گپ شپ کے شوقین اور کھلے ڈلے بندے ہیں اور مجھے لگا کہ وہ اپنے کام سے بھی محبت کرتے ہیں‘ خالص سیاسی ورکر ہیں ۔ پانچ ماہ کے اندر وہ اپنا کام بہت اچھی طرح سمجھ گئے ہیں۔ اگرچہ کچھ نکات پر ہمارا اختلاف ضرور تھا ۔ علی زیدی کی وزارت کے حوالے سے بات ہوئی تو انہوں نے فوراً اپنا آئی پیڈ نکال کر ہمیں بریفنگ دینا شروع کر دی ۔ میں نے کہا: علی بھائی خدا کا خوف کریں ‘ہم سارا دن یہ کام کرتے ہیں‘ رات کے اس لمحے کسی سنجیدہ گفتگو کو دل نہیں چاہتا اور ایک آپ ہیں کہ آدھی رات کو بھی دفتر کھول لیا ہے۔ اس پر قہقہہ لگا۔
ویسے یہ ٹھیک بھی ہے‘ علی زیدی کی طرح اپنا ہتھیار ساتھ رکھو اور جہاں صحافی سے بحث ہوجائے اپنا آئی پیڈ نکال کر Presentation شروع کر دو ۔ علی زیدی سے گپ شپ کے ان دو گھنٹوں میں شیکسپیئر کے ڈرامے جولیس سیزر کے وہ جملے یاد آئے کہ جو بندہ کھلا ڈلا ہو‘ کھل کر قہقہے لگاتا ہو اور کھیل کود کا شوقین ہو وہ اچھا بندہ ہوتا ہے‘ اس پر بھروسہ کیا جاسکتا ہے۔ جو مسکرانے میں بھی کنجوسی کرتا ہو اس پر اعتبار جلدی نہیں کرنا چاہیے۔ لیکن پھر شیکسپیئر کا اور ایک مشہور ڈرامہ ہیملٹ یاد آیا جس میں وہ کہتا ہے: جو زیادہ مسکراتے ہیں وہ زیادہ تر ولن ہوتے ہیں۔ اب بندہ کدھر مرے ۔ ایک جگہ کہا جاتا ہے کہ زیادہ مسکرانے والے اچھے لوگ ہوتے ہیںاور دوسری جگہ انہیں ولن بنا کر پیش کردیا ۔ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ علی زیدی کو کہاں فٹ کروں ۔
جمشید رضوانی سے اپنا پرانا یارانہ ہے۔ ملتان یونیورسٹی میں تقریباً تیس برس قبل داخلہ لیا توجمشید رضوانی سے دوستی ہوئی ۔ جمشید رضوانی سے ہی ملتان میں جرنلزم سیکھی ۔ میں نے ایک آرٹیکل لکھا تو ڈاکٹر انوار احمد کو دکھایا‘ انہوں نے کہا کہ جمشید میرا شاگرد ہے ‘ایک اخبار کا ملتان میں رپورٹر ہے‘ وہ اپنے اخبار میں چھپوا دے گا ۔ خیر آرٹیکل تو نہ چھپا۔ بڑے عرصے بعد جب میں خود میڈیا میں آیا تو اندازہ ہوا کہ یہ جمشید رضوانی کا نہیں ادارتی بورڈ کا فیصلہ ہوتا ہے اور میں بلاوجہ جمشید کو ذمہ دار سمجھتا رہا ۔ ڈاکٹر انوار احمد کی ایک خوبی رہی ہے کہ انہیں کتنی ہی بیکار تحریر دکھائیں‘ وہ نہیں کہیں گے کہ یہ بیکار ہے۔ وہ دل نہیں توڑیں گے بلکہ حوصلہ افزائی کریں گے‘ جیسے آپ سے بڑا لکھاری کوئی نہ ہو ۔
جمشید رضوانی سے ملتان کی باتیں ہونے لگیں ۔ علی شیخ ‘ فیاض‘ طاہر ندیم ‘ خالد شیخ‘ سجاد جہانیاں ‘ انجم کاظمی ‘ ریاض گمب‘ سب کا ذکر ہوا ۔آج سے تیس سال قبل اس شہر کی حالت اور صحافت کچھ اور ہوتی تھی۔ مظہر عارف اور خان رضوانی جیسے صحافیوں کا طوطی بولتا تھا ۔ شوکت اشفاق ‘ ظفر آہیر‘ شکیل انجم‘ طاہر ندیم‘ سجاد جہانیاں جیسے نوجوان اس فیلڈ میں داخل ہورہے تھے۔ ملتان کے خوبصورت لکھاری رضی الدین رضی کی تحریروں کو انجوائے کرتے تھے۔ پہلے یہ ہوتا تھا کہ صحافی کے لیے ماسٹرز ڈگری کی ضرورت نہ تھی۔ آپ نے ایف اے یا بی اے کیا ہو تو بھی کام چل جاتا تھا ۔ جمشید رضوانی ہم سب سے پہلے صحافی بن گیا تھا کیونکہ ان کے والد خان رضوانی نے انہیں خود ٹرینڈ کیا تھا۔ جمشید اردو میں ماسٹر زکررہا تھا اور اس نے جگن ناتھ آزاد پر تھیسس بھی لکھا تھا‘جسے میں نے کچھ عرصہ پہلے کتابی شکل میں پڑھا تو اس کی خوبصورتی میں کھویا رہا ۔ جگن ناتھ آزاد میانوالی کی تحصیل عیسیٰ خیل کی دھرتی کے بیٹے تھے ۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ پاکستان کا پہلا ترانہ انہوں نے لکھا تھا ‘ بعد میں وہ ہندوستان ہجرت کرگئے ۔جمشید رضوانی نے ابھی ابھی ایک ٹی وی چینل سے استعفیٰ دیا ہے۔ وجوہات پوچھیں تو دل افسردہ ہوا کہ اب تیس سال بعد جمشید رضوانی جیسا بڑا صحافی صحافت کرے یا چینل کا کاروبار چلائے۔ جمشید رضوانی نے بیروزگار ہونا پسند کیا لیکن اپنے والد خان رضوانی کے پڑھائے ہوئے اخلاقی سبق سے روگردانی کی جرأت نہ کرسکا۔ اس نے وہ نوکری ہی چھوڑ دی ۔
اسی جمشید رضوانی سے تیس سال قبل میں نے ملتان میں صحافت سیکھی تھی۔ میڈیا میں بڑھتی بیروزگاری پر بات ہوئی تو کہنے لگا: اکثر دوستوں سے یہ سنتا ہوں کہ اگر فلاں کالم نگار یا اینکر اپنی لاکھوں کی تنخواہ کم کردے یا اس کی تنخواہ کم کر دی جائے تو اس سے بیسیوں صحافیوں کے چولہے جلتے رہیں گے۔ جمشید کہنے لگا: میری ان دوستوں سے بات ہوتی ہے‘ میں انہیں بتاتا ہوں کہ اگر ان اینکرز کو زیادہ تنخواہ ملتی ہے تو ٹی وی چینلز کی وہ مجبوری ہیں۔ لوگ انہیں دیکھتے ہیں‘ انہیں ریٹنگ ملتی ہے‘وہ برسوں سے جرنلزم کرتے آئے ہیں۔ آج کا نوجوان محنت کرنے کو تیار نہیں ہے۔ یہ جنہیں وہ ٹی وی پر دیکھتے ہیں ان میں سے اکثر کے پیچھے بیس سے تیس سال کا تجربہ اور فیلڈ رپورٹنگ کھڑی ہے۔ اگرچہ شروع میں کچھ لوگ ایسے ٹی وی سکرین پر آئے جن کے پاس فیلڈ کا تجربہ نہ تھا۔ شروع شروع میں وہ چل گئے اب وہ ایک ایک کر کے غائب ہوچکے ہیں ۔ اگر دیکھا جائے تو ایک دو کو چھوڑ کر ٹی وی چینلز پر زیادہ تر وہی اینکر شوز کررہے ہیں جو پرنٹ جرنلزم سے آئے تھے اور جنہوں نے برسوں رپورٹنگ کی ہے ۔ عوام کا مزاج ہوتا ہے‘ انہیں خبر چاہیے ہوتی ہے۔ جو انہیں خبر دے گا وہ اسے دیکھیں اور سنیں گے اور چینل مالکان انہیں تنخواہیں دیں گے۔ جمشید رضوانی کہنے لگا کہ اب یہ میڈیا ہاؤسز چیرٹی ہاؤسز تو ہیں نہیں کہ وہ ہمیں نوکری دیں گے تاکہ ہمارے گھر چلتے رہیں ۔ آپ جب تک ان کے کام کے ہوتے ہیں وہ آپ کو آپ کے کام کی تنخواہ دیتے رہتے ہیں ۔ دنیا کا یہی دستور ہے۔
جمشید رضوانی مجھ سے پوچھنے لگا کہ تم خود ملتان میں برسوں رہے‘ وہیں سے صحافت شروع کی ‘ اگر میں تم سے پوچھوں کہ تم کتنے صحافیوں کو جانتے ہو جو ملتان سے ٹی وی پر رپورٹنگ کرتے ہیں تو شاید دو تین سے زیادہ نہیں جانتے ہوگے‘ جبکہ ان اینکرز کو سب جانتے اور سنتے ہیں ۔ میں نے کہا: جمشید تمہارے علاوہ اپنے دوست شکیل انجم کے شوز دیکھتا ہوں‘ باقی وہاں سے کون کون ٹی وی پر رپورٹنگ کرتا ہے مجھے زیادہ علم نہیں ۔ میں نے کہا: جمشید تم تازہ تازہ بیروزگار ہوئے ہو ‘لیکن تمہارے اندر چینل مالکان کے خلاف تلخی کی بجائے لاجک اور اپنے خلاف دلائل زیادہ ہیں ۔ میں نے ہنستے ہوئے کہا :ایک چینی کہاوت ہے کہ اگر تم نے اپنی بیوی کو تھپڑ مارا اوربعد میں افسوس ہوا کہ اس بے چاری کی غلطی نہ تھی تو آپ پریشان نہ ہوں آپ کی بیوی کوئی نہ کوئی جواز خود ڈھونڈ لے گی کہ تھپڑ کیوں پڑا۔ تم بھی اس وقت یہی کررہے ہو۔جمشید ہنس پڑا اور بولا کہ میں تیس سال سے صحافت کررہا ہوں ۔ مجھے علم ہونا چاہیے کہ وہ کون سی وجوہات ہیں جن کی وجہ سے بحران آتے ہیں ‘چاہے وہ اداروں پر آئیں یاانسانوں پر۔
اسلام آباد کی سرد رات میں جب باہر نکلے اور سرد ہوا کے تھپیڑے میرے گالوں سے ٹکرائے تو مجھے جمشید رضوانی پر فخر ہوا جس نے صحافت میں ''کاروباری ‘‘ کمپرومائز کی بجائے بیروزگار ہونا پسند کیا ۔ اسلام آباد میں بھی اچھے صحافیوں کے ساتھ کام کا موقع ملا جن میں عامر متین اور محمد مالک شامل ہیں ۔ محمد مالک سے اختلافات اور پروفیشنل لڑائی جھگڑوں کے باوجود ان سے بہت سیکھا ۔اپنی قسمت پر خدا کا شکر ادا کیا کہ ملتان میں مظہر عارف اور جمشید رضوانی سے لے کر اسلام آباد میں ضیا الدین ‘ شاہین صہبائی اور ناصر ملک تک اچھے استاد ملے۔ جو جھکے نہ بکے!