لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ حامد جاوید سے میری دوسری ملاقات تھی۔
پہلی ملاقات سابق سیکرٹری انفارمیشن انور محمود صاحب کے ساتھ دو سال قبل ہوئی تھی اور دوسری بھی اب انہی کے ہمراہ ہو رہی تھی۔
انور محمود صاحب جنرل مشرف کے قریبی افسران میں شمار ہوتے تھے۔ بہت سارے رازوں کے امین۔ شاندار انسان۔ تقریباً 37 برس حکومت پاکستان کی سروس کی۔ ہر بڑے عہدے پر فائز رہے۔ دھیمے اور سلجھے ہوئے انسان ہیں۔ مہمان نوازی ان پر بس ہے۔ ان کے گھر ہر ماہ دسترخوان پر دوستوں کی محفل جمتی ہے۔ کتنی ہی سخت اور ترش بحث کیوں نہ کر لیں‘ وہ مسکرا کر جواب دیں گے۔
انور محمود صاحب جنرل حامد جاوید سے ملنے جا رہے تھے۔ مجھ سے پوچھا: چلنا ہے؟ پھر مسکرا کر بولے: اور کچھ نہیں تواپنی آنکھیں چیک کرا لینا۔ میں نے کہا: لالچ تو بڑی ہے‘ چلیں چلتے ہیں۔ جنرل حامد جاوید اس وقت الشفا آئی ٹرسٹ ہسپتال پنڈی کو چلا رہے ہیں۔ میں نے جنرل حامد سے پوچھ لیا: فوجی افسران تو ریٹائرڈ ہونے بعد بڑی بڑی کارپوریشنوں کے سربراہ لگتے ہیں، بڑے عہدے لیتے ہیں، سفیر لگ جاتے ہیں۔ آپ سے زیادہ طاقتور کوئی نہ تھا۔ آپ جنرل مشرف کے چیف آف سٹاف تھے۔ سب کچھ آپ کے ہاتھوں سے ہو کر جاتا تھا۔ آپ اتنے برس کسی کمپنی یا بڑے آدمی پر سرمایہ کاری بھی نہ کر سکے کہ آج ایک فلاحی ہسپتال چلانے کی بجائے مزے کر رہے ہوتے؟ جنرل حامد جاوید کے دفتر میں نظر دوڑائی تو وہ بھی عام سا لگا‘ جہاں ہٹو بچو کا شور یا پروٹوکول یا پورچ میں گاڑیوں کی ریل پیل نظر نہ آئی۔ سادہ سا دفتر تھا۔ ایک عام سی کرسی اور میز کے سامنے دو عام سی کرسیاں جن پر بیٹھ کر شاید آپ کمفرٹیبل محسوس نہ کریں۔
جنرل صاحب مسکرائے اور بولے: یہ سوال میں خود سے بھی اکثر پوچھتا ہوں کہ میں یہاں اس ہسپتال میں کیسے آ گیا‘ میرا یہاں کیا کام تھا؟ کچھ دیر کے لیے وہ کھو سے گئے‘ پھر بولے: بعض چیزیں آپ کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتیں۔ ایک دن جنرل جہانداد خان نے ملنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ جنرل جہانداد کا نام انہوں نے سن رکھا تھا‘ لیکن ملاقات نہ ہوئی تھی۔ جنرل جہانداد خان نے آئی ٹرسٹ پنڈی کو جس طرح کھڑا کیا‘ غریبوں کے لیے سہولتیں پیدا کیں‘ وہ اپنی جگہ ایک بڑا کارنامہ ہے۔ خیر جنرل حامد جاوید حیران ہوئے کہ بھلا جنرل جہانداد کو ان سے کیا کام ہو سکتا ہے جس کے لیے وہ ان کے پاس آنا چاہتے ہیں۔ وہ تو اب ویسے ہی ریٹائرڈ ہیں۔ ہسپتال کے لیے کوئی کام بھی نہیں کر سکتے۔ خیر ملاقات ہوئی۔ جنرل جہانداد نے عجیب سی فرمائش کر ڈالی۔ بولے: جنرل حامد میں بوڑھا ہوگیا ہوں‘ یہ جدید ہسپتال میں نے 1985ء میں اپنی جیب سے شروع کیا تھا۔ 1991ء میں مکمل کیا۔ بہت سے لوگوں نے مدد کی۔ اسے برسوں چلایا۔ میرے بعد اس فلاحی آئی ہسپتال کو آپ چلائیں۔ یہ غریبوں کے لیے بڑا ہسپتال ہے۔ ایشیا کے بڑے فلاحی ہسپتالوں میں سے ہے۔ میں نہیں چاہتا میرے بعد اس ہسپتال کو کچھ ہو۔
جنرل حامد جاوید کو دھچکا لگا اور وہ بولے: سر میں نے کبھی ایسا نہیں سوچا کہ ایک فلاحی ہسپتال کو چلائوں۔ میرے پاس ایسا تجربہ نہیں اور سب سے بڑھ کر شاید دلچسپی بھی نہیں۔ جنرل حامد حیران تھے کہ جنرل جہانداد خان نے ان میں ایسا کیا دیکھ لیا کہ اپنی زندگی بھر کا سرمایہ ان کے سپرد کرنے پر تل گئے تھے۔
جنرل جہانداد نے یہ کہہ کر ان کے انکار کا راستہ بند کر دیا کہ آپ کچھ ہفتے ہسپتال میں بیٹھیں۔ اگر اچھا لگے تو ٹھیک‘ ورنہ آپ کی مرضی ہوگی۔ جنرل حامد جاوید نے سوچا‘ کچھ وقت مل جائے گا۔ سوچتے ہیں‘ ایک فلاحی ادارے کا سربراہ بننا چاہیے یا نہیں۔ پھر ایک دن اطلاع ملی کہ جنرل جہانداد انتقال کرگئے ہیں۔ جنرل حامد جاوید نے ان کی موت کی خبر سن کر فیصلہ کیا اور چل پڑے۔ سوچا‘ جنرل جہانداد کچھ سوچ کر ہی ان کے پاس آئے تھے اور اتنی بڑی ذمہ داری سونپ گئے تھے تو پھر اس میں اللہ کی رضا بھی شامل ہوگی۔ جنرل حامد جاوید مسکرا کر بولے: اس طرح میں یہاں آیا۔ میں نے کچھ سوالات کیے تو ایسے جوابات دیے کہ میں نے کہا: آپ خود آئی سپیشلسٹ بن چکے ہیں‘ تھوڑی سی کوشش کرکے خود ڈاکٹر بن سکتے ہیں۔ ہنس کر بولے: جب آپ زیادہ وقت ہسپتال میں گزارتے ہیں تو کچھ اثر ہونے لگتا ہے۔
بتانے لگے: اب بھی بڑی تعداد میں مفت آپریشن اور آنکھوں کا علاج ہوتا ہے۔ ڈاکٹروں کی بہت اعلیٰ ٹیم ہے۔ صرف ان لوگوں کو چارج کیا جاتا ہے جو افورڈ کر سکتے ہوں ورنہ مفت علاج ہے۔ میں نے پوچھا: کبھی سنا تھا‘ آنکھوں کے عطیات سری لنکا سے ملتے ہیں۔ جنرل حامد کہنے لگے: سری لنکا سے عطیات آنا کم ہو گئے ہیں‘ اب امریکہ اور کینیڈا سے آنکھوں کے زیادہ عطیات ملتے ہیں۔ ایک آنکھ کو سٹور کرکے پاکستان لانے میں بہت پیسہ خرچ ہوتا ہے۔ کسی نیک دل انسان نے ذمہ داری لے لی کہ آنکھوں کو پاکستان لانے پر جو خرچ ہو گا وہ اپنی جیب سے ادا کرے گا۔ وہ پاکستان کے سب سے بڑے فلاحی ہسپتال کے پروجیکٹس اور اپنی ٹیم کی کامیابیوں کے بارے میں بتاتے رہے۔ میں نے پوچھا: پاکستان میں بھی لوگ آنکھیں عطیہ کرتے ہیں یا صرف باہر سے ملتے ہیں؟ جنرل حامد جاوید بولے: لوگ عطیہ کر بھی جائیں تو دو تین چیزیں بڑی ضروری ہوتی ہیں۔ پہلی یہ کہ کسی کے فوت ہونے کے چار گھنٹے کے اندر اندر یہ کام ہو جانا چاہیے۔ یہ کام اس بندے کے خاندان نے کرنا ہوتا ہے کہ ہسپتال کو انفارم کرے تاکہ ٹیم بھیجی جا سکے‘ لیکن دیکھا گیا ہے خاندان کے لوگ اس معاملے کو اہمیت نہیں دیتے کہ میت کی بے حرمتی ہو گی‘ حالانکہ چھوٹے سے آپریشن میں آنکھ کا مخصوص حصہ نکالنا ہوتا ہے۔ تھوڑی دیر کا کام ہے۔ اس کے بعد پٹی آنکھ پر رکھ دی جاتی ہے۔ بے حرمتی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
میں نے کہا: یہ جو لوگ بیرون ملک سے آنکھوں کا عطیہ کرتے ہیں‘ کیا کبھی انہوں نے اس خواہش کا اظہار نہیں کیا کہ جس بندے کو پاکستان میں وہ آنکھ لگائی گئی ہے‘ وہ اس کو دیکھنا چاہتے ہیں کیونکہ آنکھیں تو ان کے پیاروں کی ہوتی ہیں؟ کیا ان کا دل نہیں چاہتا کہ وہ ان آنکھوں کو دوبارہ کھلی ہوئی دیکھیں؟ وہ سامنے بیٹھیں۔ باتیں کریں۔ ان آنکھوں کو اپنے اندر تک ایسے محسوس کریں جیسے ان کا اپنا پیارا جب زندہ تھا تو وہ ان آنکھوں سے انہیں دیکھتا تھا؟ کیا لوگ دلچسپی نہیں رکھتے کہ وہ دوبارہ آنکھوں میں جھانکنے کی کوشش کریں؟ اب تو زمانہ بدل گیا ہے سکائی ایپ یا ویڈیو کالنگ پر بھی یہ کام ہوسکتا ہے؟
جنرل صاحب بولے کہ آج تک انہیں ایسی خواہش موصول نہیں ہوئی۔ دوسرے اس میں سیکریسی بھی رکھی جاتی ہے۔ کسی کو پتا نہیں ہوتا کہ اس کی عطیہ کی گئی آنکھ کس کو لگائی گئی ہے۔ میں نے کہا: جنرل صاحب! شاید یہ سوال پوچھنے کی وجہ ایک ویڈیو کلپ ہے جو میں نے کچھ عرصہ پہلے دیکھا تھا۔ کسی ملک میں ایک خاتون زچگی کے دوران بیٹے کی پیدائش کے بعد فوت ہوگئی۔ اس کا دل ایک مرد کو پلانٹ کر دیا گیا۔ اس پر ایک تجربہ ہوا۔ اس ماں کا وہ بچہ رو رہا تھا۔ سب نے باری باری اسے اٹھا کر چپ کرانے اور پیار کرنے کی کوشش کی لیکن وہ چپ نہ ہوا۔ مسلسل روتا رہا۔ آخر کار اس بچے کو اس بندے کو اٹھانے کے لیے دیا گیا جس کو ماں کا دل لگایا گیا تھا۔ جونہی اس بندے نے اس روتے بچے کو اٹھا کر سینے سے لگایا تو اچانک اس بچے کے تاثرات بدلنا شروع ہوگئے۔ پہلے وہ خاموش ہوا۔ پھر حیران اور آخر چہرے پر مسکراہٹ پھیلتی چلی گئی۔ نہیں پتا اس میں سائنس کی حد تک کیا سچائی ہے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ ایک بچہ اپنی ماں کا دھڑکتا ہوا دل پہچان لے یا یہ محض ایک اتفاق تھا؟ جنرل حامد جاوید ہسپتال کے مختلف پہلوئوں پر روشنی ڈالتے رہے جبکہ میں ان انسانوں بارے سوچتا رہا جو مرنے کے بعد بھی جہاں دوسروں کے لیے زندگی خوبصورت کر گئے تھے‘ وہیں وہ خود اس خوبصورت دنیا کو اپنی قبر سے اب بھی دیکھ رہے ہوں گے۔
جنرل حامد جاوید سے مل کر واپس لوٹے کتنا وقت گزر چکا ہے‘ لیکن میرا دل اب بھی اس ماں میں اٹکا ہوا ہے جو مرتے ہوئے بھی اپنے روتے نوزائیدہ بیٹے کو چپ کرانے کے لیے دھڑکتا ہوا دل اپنے پیچھے ایک اور انسان کے سینے میں چھوڑ گئی تھی‘ جس میں اس کا بیٹا اس بے رحم دنیا میں پناہ اور سکون ڈھونڈ سکتا تھا!