سنا ہے آج کل گائوں سے کچھ فاصلے پر کوٹ سلطان شہر میں بیساکھی کا میلہ ہو رہا ہے۔
یادوں کا ایک ریلہ ہے جو اس میلے کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ برسوں پہلے گائوں کی زندگی میں تفریح کا ذریعہ ٹی وی چینلز یا فون کی بجائے یہ میلے ہوتے تھے۔ میلوں کی کئی قسمیں ہوتی تھیں۔ تفریح ڈھونڈنے کے لیے ہم بچے بھی میلوں تک سفر کرتے۔ آج حیران ہوتا ہوں‘ اس وقت ہمارے ماں باپ بھی ہمیں منع نہیں کرتے تھے اور ہم دور دراز میلہ دیکھ آتے۔ میلوں کے کئی رنگ تھے۔ جوانوں کے علیحدہ میلے تو جانوروں کے الگ۔ کتوں کی ریسیں ہوتیں، خوبصورت بیلوں کے دوڑنے کے مقابلے ہوتے۔ سب سے مزے کا میلہ مجھے وہ لگتا تھا جسے ہم سرائیکی میں دودا کہتے تھے۔ اس میں دو جوڑیاں جوانوں کی بنائی جاتی تھیں۔ ایک بندہ آگے بھاگتا تھا اور اس کے پیچھے دو جوان جاتے۔ یا تو وہ تیز رفتار جوان کو گھیر کر گرا لیتے یا پھر جوان ان سے تیز بھاگ کر دور نکل جاتا اور اسے فاتح سمجھا جاتا۔ صرف تیز رفتار جوان ہی یہ کھیل‘ کھیل سکتے تھے۔ یہ عام میلہ نہ ہوتا۔ بڑے بڑے اشتہارات چھپوائے جاتے‘ جن پر ان پہلوانوں یا کھلاڑیوں کی تصویریں ہوتی تھیں۔ اس پر بھی ٹکٹ لگی ہوتی تھی۔ وہ اشتہارات نزدیک و دور کے علاقوں میں لگا دیے جاتے تھے۔ میلے سے ایک دو دن پہلے ڈھول والے کو کرائے پر لا کر لائوڈ سپیکر پر اعلانات ہوتے تھے۔ شام تک پورے علاقے میں ایک سنسنی اور جوش پیدا ہو چکا ہوتا تھا۔ لوگوں کی زیادہ دلچسپی یہ ہوتی کہ ان کے گائوں سے کون سا کھلاڑی باہر سے آنے والے پہلوانوں کا مقابلہ کرے گا اور گائوں اور برادری کا نام اونچا کرے گا۔ ہر پہلوان کے نام کے ساتھ اس کی برادری کا نام ضرور لکھا ہوتا تھا۔ وہ پہلوان اکثر اسی گھر میں آکر ٹھہرتے‘ جہاں سے گائوں کے نوجوانوں نے ان کے مقابلے پر اترنا ہوتا تھا۔ ان پہلوانوں کی وہی خدمت مدارت کی جاتی تھی جو گھر والے اپنے پہلوان بیٹے کی کر رہے ہوتے تھے۔ اسے بھینس کا دودھ پلایا جاتا، دیسی گھی کھانے کو دیا جاتا اور جی بھر کے کھانا ملتا۔ کوئی کسر نہ چھوڑی جاتی تاکہ یہ طعنہ نہ ملے کہ باہر سے آنے والے پہلوان کو میلے سے ایک دن قبل وہ خوراک نہ ملی تھی جو وہ روزانہ اپنے گھر لیتا تھا۔ اکثر باہر سے آنے والے پہلوان گائوں کے لڑکوں سے جیت جاتے تھے‘ پھر بھی شام کو ان کی دوبارہ اتنی ہی خدمت کی جاتی۔ سارا دن جو کچھ ہوا ہوتا تھا رات کو پھر اس پر دھواں دھار باتیں ہوتی تھیں۔ بزرگ بیٹھ کر وہ غلطیاں بتا رہے ہوتے کہ تم کہاں مار کھا گئے تھے۔ اکثر یہ بھی ہوتا کہ ہرانے والے پہلوان کو گائوں میں انعام بھی ملتا۔ دونوں پہلوان گلے ملتے‘ مسکراتے اور بتاتے کہ دوسرا کہاں مار کھا گیا تھا۔ باہر سے آیا وہ پہلوان اس گھر سے ایک مستقل تعلق بنا کر واپس جاتا تھا‘ جس کے بچے کو اس پہلوان نے ہرایا ہوتا تھا۔ یا پھر گائوں کا بڑا اپنے گائوں کے بچے کو کچھ لعن طعن بھی کرتا کہ تم نے محنت نہیں کی‘ بھینسوں کا دودھ پی پی کر بھی میلہ نہیں جیت سکا۔ وہ نوجوان بہانہ بنا رہا ہوتا کہ پائوں پھسل گیا تھا‘ ورنہ اس نے پکڑائی نہیں دینا تھا۔ اس پر بزرگ طعنہ مارتے کہ تمہارا پائوں پورا سال ٹھیک رہا‘ لیکن جس دن میلہ تھا اسی روز پھسل گیا۔ شرارتی بچے اس پہلوان پر نعرے بھی کس دیتے لیکن وہ چپ رہتا یا پھر اٹھ کر چلا جاتا۔ اکثر مشہور کھلاڑی دور دراز کے علاقوں سے آتے تھے۔ اکثر ٹھیکیدار قسم کے لوگ یہ کام کرتے تھے۔ آسٹریلیا میں کیری پیکر نے یہ تصور تو بہت بعد میں دیا تھا کہ دنیا بھر کے اچھے کھلاڑیوں کو لا کر ان کی ٹیمیں بنا کر انہیں ایک دوسرے سے کھلا کر تماشائیوں کو نئی قسم کا لطف دیا جائے‘ ہمارے علاقوں میں اپنے چھوٹے لیول پر یہ کام بہت پہلے سے ہو رہا تھا۔ ٹھیکیدار دور دور سے پہلوان کھلاڑی کرائے پر لاتے۔ مقامی اور باہر سے آنے والوں کی بھی جوڑیاں بنائی جاتی تھیں تاکہ میلے میںجان پڑ جائے۔ ون سائیڈڈ کھیل نہ ہو۔ انہیں وہاں ٹھہرایا جاتا‘ جہاں میلہ ہونا ہوتا۔ وہاں خالی کھیتوں میں دور درر تک قناتیں باندھ کر کپڑوں کی ایک دیوار کھڑی کی جاتی تھی۔ پھر میلے والے دن کسی اونچے درخت پر چارپائی لٹکا کر دو تین لوگ بیٹھ کر ٹکٹیں بیچ رہے ہوتے تھے۔ بچوں کی کوشش ہوتی کہ انہیں ٹکٹیں نہ لینا پڑیں لہٰذا وہ ان کپڑوں کی دیواروں کے اردگرد پھرتے رہتے کہ موقع ملے تو جلدی سے اندر گھس جائیں۔ ٹھیکیدار کو بھی علم ہوتا تھا‘ لہٰذا اس نے بندے چھوڑے ہوتے‘ جو آنکھ رکھتے کہ کوئی مین گیٹ کے علاوہ اندر داخل نہ ہو سکے۔ اگر ان چوکیداروں میں کوئی گائوں کی جان پہچان والا نکل آتا تو بچے اسے کہتے: تو میرا مسات نہیں لگتا، جانے دے اندر‘ ورنہ ماسی کو شکایت لگائوں گا۔ اس طرح کی بلیک میلنگ بھی چل جاتی تھی۔ میلے میں جو پہلوان آرہے ہوتے تھے ان کے ساتھ ڈھولچی ڈھول بجاتے اور جھمر مارتے آتے۔ ایک عجیب سا فخر اور انوکھی رعونت چہروں سے ٹپکتی تھی کہ انہیں کوئی نہیں ہرا سکتا۔ ان سے زیادہ فخر ان کھلاڑیوں کے باپوں کے چہرے پر ہوتا جنہیں ہر طرف سے داد مل رہی ہوتی تھی۔ چاروں طرف کے دیہات سے لوگ آتے۔ اکثر نے اپنے بچے کندھوں پر اٹھائے ہوئے ہوتے تھے جن کا تعارف وہ اپنے دوستوں سے کراتے اور بتاتے: اسے بھی پہلوان بنانا ہے۔ ڈھول کی تھاپ پر جوانوں کی جوڑیاں آمنے سامنے کھڑی ہوتیں اور پھر دودا شروع ہو جاتا۔ ہاتھوں پر مٹی لگائی جاتی۔ بدن کو تیل سے چپڑا ہوتا تاکہ مخالف کا ہاتھ پھسل جائے۔ جو جوان دوسروں کو پچھاڑ جاتا‘ اسے کندھوں پر اٹھا کر ڈھول کی تھاپ پر ناچتے ہوئے واپس لایا جاتا اور ہر طرف سے نعرے بلند ہوتے۔ وہ جوان کندھوں پر سوار عوام کے سامنے سے گزرتا اور توقع رکھتا کہ اسے انعام کے طور پر پیسے دیے جائیں گے۔ کسی نے روپیہ تو کسی نے زیادہ دیا۔ مٹی میں لتھڑا وہ جوان ہر ایک سے مسکرا کر وہ انعام وصول کرتا جاتا۔
اس میلے کی خاص بات لائوڈ سپیکر پر میلے کی کمنٹری کرتا مخصوص مزاحیہ لہجے کا مالک وہ بزرگ ہوتا تھا جو سنسنی خیز انداز میں کمنٹری کرتا۔ کسی کو سراہے‘ طنز کے تیر برسائے یا حوصلہ بڑھائے‘ یہ اس کی مرضی پر تھا۔ جگتیں کمنٹری کا خاصہ ہوتی تھیں۔
شام تک یہ کام چلتا رہتا۔ کھانے پینے کی چیزوں کے دیہاتی انداز کے سٹال لگتے۔ کوئی قلفیاں بیچ رہا ہے تو کوئی سوّیاں، کوئی بہت زیادہ سمجھدار نکلا تو وہ کچھ کھانے پینے کی چیزیں بیچ رہا ہے۔ زیادہ کنجوس یا سمجھدار جٹ گھر سے کھانا ساتھ باندھ کر لاتے۔ میلہ کے دوران وقفہ ہوتے ہی گھاس پر گول دائرے میں چوکڑی مار کر کھانے بیٹھ جاتے۔ اکثر وہ کھانا مکھن سے تر روٹی کے ساتھ گڑ، شکر یا پھر اچار پر مبنی ہوتا تھا۔ زیادہ شوقین اپنے حقے ساتھ لاتے، تمباکو گرم کرکے سوٹے لگائے جاتے۔ تمباکو وہ اپنی دھوتی کے پلو میں باندھ کر ساتھ لاتے تھے۔ پلو کھول کر‘ تمباکو نکال کر پہلے ہتھیلیوں پر خوب رگڑا جاتا اور پھر حقے پر رکھ کر آگ لگا کر دھواں شروع۔ لیکن ضروری تھا کہ حقے میں پانی تازہ ہو۔ وہ گھر سے حقے میں پانی بھر کر لاتے۔ میلے والی جگہ پر سب سے بڑا مشکل مرحلہ تازہ پانی ڈھونڈنا ہوتا تھا۔ شام کے سائے بڑھنے لگتے تو انہیں فکر پڑ جاتی کہ گھر والوں کے لیے کیا چیز خرید کر لے جائیں۔
کوٹ سلطان کے بیساکھی کے میلے میں آخری دن اہم آئیٹم کتوں اور ریچھ کی لڑائی ہوتی تھی۔ اس کے ٹکٹ مہنگے بکتے تھے۔ سب انتظار کرتے تھے۔ میں اس وقت بچہ تھا۔ مجھے بھی شوق چرایا کہ دیکھوں اتنا بڑا ریچھ اور کتے کیسے ایک دوسرے سے لڑتے ہیں۔
کوٹ سلطان کے جام اقبال صاحب میرے بھائی نعیم کے دوست تھے۔ ان کی ڈیوٹی ہوتی تھی کہ نعیم کے چھوٹے بھائیوں کو دو دن تک میلہ دکھائیں۔ میں نے جام اقبال سے ضد کی کہ ریچھ اور کتوں کی لڑائی دیکھنی ہے۔ جام اقبال اپنے سگے بھائیوں کی طرح نعیم کے بھائیوں سے بھی پیار کرتے تھے۔ ان کے لیے انکار کرنا مشکل ہو گیا۔ پتہ چلا سب ٹکٹیں بک چکی ہیں‘ جبکہ میں ضد کر رہا تھا۔ جام اقبال کو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ کیا کریں۔ اچانک جام اقبال کو کچھ سوجھا اور میرا ہاتھ پکڑ کر تیز تیز قدموں سے اس جگہ کی طرف چلنے لگے جہاں ریچھ اور کتوں کی لڑائی ہونی تھی۔ میرے اندر سنسنی بڑھتی جارہی تھی۔ میں زندگی کا عجیب و غریب تجربہ کرنے جا رہا تھا۔ ایک ریچھ اور تین کتے۔ (جاری)