آٹھ ماہ پہلے تک میری عون عباس بپی سے ملاقات تھی‘ نہ ہی میں اسے جانتا تھا۔
اتنا پتہ تھا‘ ملتان کے اس نوجوان کا تعلق تحریک انصاف سے ہے۔ ملتان ہمیشہ سے میرے دل کے قریب رہا ہے۔ میرا آٹھ برس قیام وہیں رہا۔ ملتان یونیورسٹی سے ہی پڑھا۔ کمال کے ملتانی دوست ملے۔ آج بھی دل ملتان جا کر لگتا ہے۔ ملتان جائوں تو پرانے صحافی دوست شکیل انجم کے گھر ٹھہرتا ہوں۔ ظفر آہیر کے ساتھ ساری رات گپیں لگاتے ہیں۔ جو سکون وہاں ملتا ہے وہ اسلام آباد میں بیس برس رہ کر بھی محسوس نہیں ہوتا۔ ملتان میں عجیب کشش ہے۔ شاید اس لیے کہ ملتان میں اپنا بہت کچھ دفن ہے۔
خیر‘ عون عباس سے ملاقات ہوئی۔ ایک ہنستا مسکراتا نوجوان۔ مجھے لگا‘ یہ نوجوان کچھ کرنا چاہتا ہے۔ ہائپر ایکٹو۔ لیکن پھر وہی لگا‘ اسلام آباد کئی جوان اور بزرگ آنکھوں میں خواب سجائے آئے اور پھر غلام گردشوں میں کھو گئے۔ پھر انہیں لوگ یاد رہے، نہ علاقہ اور نہ ہی وہ کام جس کے لیے وہ یہاں آئے تھے۔ جب عون عباس کو چیئرمین بیت المال لگایا گیا تو میرا خیال تھا اس نوجوان سے یہ سب کچھ نہیں ہو پائے گا۔ شاید عمران خان نے کسی کو یہ بڑا عہدہ دینا تھا‘ سو اپنی پارٹی کے ایک ورکر کو دے دیا۔ اگرچہ زمرد خان نے سویٹ ہوم بنا کر اچھا کام کیا تھا‘ جب زلزلہ زدگان کے بچوں کو اسلام آباد لا کر انہیں پناہ دی گئی اور اچھا انتظام کیا گیا۔ بیت المال کا اب تک یہی کام تھا کہ وہ غریبوں کی چالیس پچاس ہزار روپے تک مدد کر دے۔ اس کے بعد کبھی کوئی بڑا کام سنا‘ اور نہ ہی دیکھا؛ تاہم عون عباس بپی سے ملاقات ہوئی تو میں نے انہیں کہا: اگر وہ سمجھیں تو ان کے پاس وہ پاورز اور پیسہ ہے‘ جو ان کے وزیر اعظم عمران خان، کابینہ اور پارلیمنٹ کے پاس بھی نہیں ہے۔ عمران خان بھی اس طرح بیٹھے بٹھائے کسی کو پیسے نہیں پکڑا سکتے جیسے آپ کر سکتے ہیں۔ آپ کے پاس بجٹ ہے۔ پیسہ ہے۔ آپ نے منظوری دے کر ریلیز کرنی ہے۔ یہ کام اپنے ذمے لے ہی لیا ہے تو اسے اب فیشن کے ساتھ کرو۔ دفتر سے باہر نکلو۔ عام لوگوں اور غریبوں تک پہنچو۔ ان کے لیے امید بنو۔ مجھے لگا‘ اس نوجوان کے پاس بہت سارے منصوبے ہیں اور یہ کچھ کرنا چاہتا ہے‘ لیکن پھر وہی خوف میرے اوپر غالب آ گیا کہ پہلے بھی کئی نوجوان خواب سجائے یہاں آئے تھے۔ وہ ان لوگوں کی زندگیوں میں تو کوئی تبدیلی نہ لا سکے جن کے ووٹ لے کر یہاں پہنچے تھے‘ لیکن ان کی اپنی زندگیاں ضرور بدل گئی تھیں۔ مجھے لیاقت بلوچ کا ایک جملہ یاد آیا جو انہوں نے میرے دوست کالم نگار اور تجزیہ کار ارشاد بھٹی کے دفتر میں مجھ سے کہا تھا کہ اسلام آباد وہ ظالم شہر ہے جہاں بہت سارے ایم این ایز اپنے حلقوں سے سائیکل پر سوار ہو کر آئے اور پانچ سال بعد وہ سب کے سب لینڈ کروزرز پر واپس گھروں کو گئے۔ انہوں نے نام تو کسی کا نہیں لیا‘ لیکن اشارہ یقینا دو ہزار دو کی اسمبلی میں آنے والے ایم ایم اے کے بہت سارے ایم این ایز کی طرف تھا۔
لیکن عون عباس بپی نے اب تک بہت سارے لوگوں کے اندازوں کو غلط ثابت کیا ہے۔ ایک دن میں دوستوں کو کہہ رہا تھا: عمران خان کی حکومت میں جن دو بندوں کی کارکردگی کھل کر عوام کے سامنے آئی ہے‘ حیران کن طور پر وہ دونوں نان الیکٹڈ ہیں۔ دونوں الیکشن کے ذریعے نہیں آئے‘ لیکن دونوں نے بغیر الیکشن لڑے بھی تحریک انصاف کی حکومت کو اجاگر کیا ہے۔ ایک عون عباس بپی ہیں اور دوسرے وزیر اعلیٰ پنجاب کے ترجمان شہباز گل۔ شہباز گل کے ساتھ میرا اکثر بحث مباحثہ چلتا رہتا ہے۔ اختلافات بھی ہوتے رہتے ہیں۔ لیکن گل کو یہ داد دینا پڑے گی کہ اس نے تن تنہا پنجاب میں کچھ کرنے کی کوشش کی۔ شہباز گل نے سوشل میڈیا استعمال کرتے ہوئے پنجاب میں بزدار حکومت کی کارکردگی دکھانے کی کوشش کی ہے۔ پنجاب میں یہ آسان کام نہ تھا۔ جب عثمان بزدار جیسا نیا وزیر اعلیٰ ہو اور ہر طرف سے سیاسی شکرے اس کے خلاف سازشیں کر رہے ہوں تو اس وقت ان کے درمیان اپنی جگہ بنانا آسان نہیں تھا۔ شہباز گل نے جس طرح پنجاب کی بیوروکریسی کو عام لوگوں کے مسائل حل کرنے کی طرف لگایا‘ اور لوگوں کی ٹویٹر پر شکایتیں پڑھ کر ان کی دادرسی کرنے کی کوشش کی‘ وہ پنجاب میں پہلے کبھی نظر نہ آئی تھی۔ عام آدمی کے مسائل اب بھی تھانہ کچہری ہیں‘ شہباز گل نے اس پر توجہ دی اور نتائج نکلے۔ مریم نواز کے میڈیا سیل کا جس طرح شہباز گل نے تن تنہا سامنا کیا وہ اپنی جگہ ایک مثال ہے۔
دوسرا بندہ جس نے سوشل میڈیا کو استعمال کیا وہ عون عباس بپی ہے۔ کہیں کوئی خبر چھپی یا ٹی وی چینل نے کسی غریب یا مظلوم کی کہانی شیئر کی تو عون نے فوراً اپنی ٹیمیں بھیجیں اور ان لوگوں کی امداد کی گئی۔
اب عون عباس بپی کو ایک اور دریا کا سامنا ہے۔ مجھے بھی شاید اس کا اندازہ نہ ہوتا اگر میرے ٹی وی شو کا کیمرہ مین مجھے وہ کہانی نہ سناتا۔ اس کے دو چھوٹے بیٹے سن نہیں سکتے تھے۔ ان کا آپریشن ہوا‘ جس کے بعد اب وہ سن اور بول سکتے ہیں۔ اللہ بھلا کرے ملک ریاض کا جنہوں نے اس کے بچوں کے آپریشن کے لاکھوں روپے کے اخراجات ادا کیے۔ اس پراسیس کے تحت پہلے آپریشن ہوتا ہے اور پھر آسٹریلوی آلۂ سماعت کانوں کے ساتھ لگ جاتا ہے۔ وہ بتا رہے تھے کہ بچے سن سکتے ہیں اور انہوں نے بولنا شروع کر دیا ہے‘ لیکن اب ان کے آلۂ سماعت کی بیٹریاں دھیرے دھیرے ختم ہو رہی ہیں۔ ان کے سیل تبدیل کرنے پر تین چار لاکھ روپے کا خرچہ آتا تھا۔ اب ایک کیمرہ مین بھلا کیسے ایسی دو بیٹریاں خرید سکتا تھا۔
میں نے عون عباس بپی کو فون کیا۔ وہ بولے: آپ کو اندازہ نہیں‘ یہ کتنا بڑا مسئلہ ہے۔ اس وقت اسلام آباد کیپٹل ہسپتال میں پورے ملک سے دو ہزار کے قریب ایسے بچوں کے آپریشن کی درخواستیں پڑی ہیں‘ جو سننے سے محروم ہیں۔ ایک بچے کے آپریشن پر بارہ تیرہ لاکھ روپے کا خرچہ آتا ہے۔
کئی والدین روزانہ اس کے پاس آتے ہیں۔ سماعت سے محروم بچوں کا یہ کامیاب آپریشن صرف پانچ سال کی عمر تک ہو سکتا ہے۔ اس کے بعد کچھ نہیں ہو سکتا۔ لیکن اس کے لیے ڈھائی ارب روپے کی ضرورت ہے جو کیپٹل ہسپتال اسلام آباد کو ادا کرنے پڑیں گے‘ پھر ان بچوں کو آواز ملے گی۔
عون عباس بولا: اب ڈھائی ارب روپیہ کہاں سے لایا جائے؟
میں ایک لمحے کے لیے دہل کر رہ گیا۔ میں نے کہا: یار ان بچوں کے والدین پر کیا گزر رہی ہو گی جنہیں اپنے بچوں کو دیکھ کر رات دن نیند نہیں آتی ہو گی کہ ان کا بچہ پانچ سال کا ہونے والا ہے اور اس کے بعد وہ ساری عمر سننے اور بولنے سے محروم رہے گا۔ کیا یہ ریاست کی ذمہ داری نہیں تھی کہ وہ ایسے بچوں کو معاشرے کا ذمہ داری شہری بنائے۔ ماں باپ ساری عمر اذیت سے گزریں گے۔ مجھے اس کیمرہ مین کی آنکھوں میں ایک چمک نظر آئی تھی جب وہ مجھے بتا رہا تھا کہ کیسے جب انہوں نے اپنے بچوں کو آپریشن اور آلہ سماعت کے بعد لفظ سیکھتے اور پہلی دفعہ بولتے سنا۔
میں نے کہا: عون تم ایک کام کرو۔ روزے شروع ہونے والے ہیں۔ مسلمان اس ماہ زکوٰۃ ادا کرتے ہیں۔ تم ایک مہم چلائو۔ اپنے یار دوستوں کو فون کرو۔ جاننے والوں کو اپیل کرو۔ ٹویٹر پر اپیل کرو۔ یہ بہت بڑا کام ہے کہ دو ہزار بچوں کے آپریشن کیلئے ڈھائی ارب روپے چاہئیں۔
عون عباس نے ملتان سے آ کر اسلام آباد بہت کم عرصے میں نام اور ساکھ بنائی ہے۔ وہ تو بیت المال سے تنخواہ تک نہیں لیتا۔ اسے اب ڈھائی ارب روپے کی ضرورت ہے۔ ان دو ہزار بچوں کو ضرورت ہے‘ جن کے ماں باپ ایک ایک دن گن رہے ہیں کیونکہ جونہی وہ پانچ سال سے اوپر ہوں گے نہ ان کا آپریشن ہو سکے گا نہ ہی وہ سن سکیں گے۔ ان دو ہزار سماعت سے محروم بچوں کے ماں باپ کے دکھ بارے سوچیں جو نہ جی سکتے ہیں نہ مر سکتے ہیں کیونکہ ہر گزرتا دن ان کے بچوں کو ایک نارمل زندگی سے دور لے جا رہا ہے۔ جو بچہ پانچ سال کا ہو گیا وہ پھر لاعلاج ہی رہے گا وہ ساری عمر اس معاشرہ میں بہرہ اور گونگا ہی کہلائے گا۔
وہ دو ہزار بچے ایک نارمل زندگی کی تلاش میں ہیں تو عون عباس بپی ان کے لیے ڈھائی ارب روپے ڈھونڈ رہا ہے!