قومی اسمبلی کے اجلاس دیکھ کر جنرل مشرف کا دور یاد آ رہا ہے جب روز ہنگامے اور شور شرابہ ہوتا تھا۔ جنرل مشرف کو یہ فکر تھی کہ اگر اسمبلی نے ان کے ایل ایف او کی منظوری نہ دی تو کسی دن ان پر بغاوت کا مقدمہ ہو گا اور انہوں نے ملک پر جو مارشل لا لگایا اور اس کے بعد جو بھی اقدامات کیے‘ وہ سب غیرقانونی قرار پائیں گے۔
پرویز مشرف کی اس کمزوری کا ادراک نواز شریف اور بینظیر بھٹو کو تھا‘ جو پاکستان سے باہر بیٹھ کر سیاست کی ڈوریاں ہلا رہے تھے۔ یہ بات طے تھی کہ جس اسمبلی کے وزیر اعظم بینظیر بھٹو یا نواز شریف نہیں ہوں گے اسے نہیں چلنے دیا جائے گا۔ نواز شریف کو علم تھا کہ وہ بوریا بستر باندھ کر جدہ بیٹھے ہیں اور جب تک مشرف اقتدار میں ہیں، ان کا وزیر اعظم بننا چھوڑیں، وطن واپسی تک کا امکان نہیں تھا۔ لہٰذا انہیں سوٹ کرتا تھا کہ اسمبلی کے اندر ہر وقت ہنگامہ رہے تاکہ دنیا کو محسوس ہو کہ جب تک اصلی تے نسلی ''جمہوریت پسند‘‘ نواز شریف اس ملک کے وزیر اعظم نہیں ہوں گے‘ تو مطلب ہے ملک میں جمہوریت نہیں ہے۔ لہٰذا ان کے ارکان نے ات مچائی ہوئی تھی‘ جبکہ بینظیر بھٹو کو اس سارے ہنگامے میں یہ امید تھی کہ نواز شریف دور میں ان پر بنائے گئے منی لانڈرنگ کے مقدمے اسی وقت ختم کرائے جا سکتے ہیں اگر جنرل مشرف پر دبائو بڑھایا جائے اور ان کے ساتھ براہ راست مذاکرات کر کے اقتدار میں حصہ لیا جائے۔ اس سارے کھیل کی کنجی ایم ایم اے کے پاس تھی کہ اس کے پاس بڑی تعداد میں ایم این ایز تھے۔ نواز شریف اور بینظیر بھٹو کی کوشش تھی کہ وہ ان کے ساتھ کھڑے رہیں تاکہ اپنے سیاسی مقاصد پورے کر سکیں جبکہ جنرل مشرف انہیں اپنے ایل ایف او کے لیے استعمال کرنے کے لیے دائو لگائے بیٹھے تھے۔
وہی ہوا‘ ایم ایم اے جنرل مشرف کے ساتھ جا ملی کیونکہ وہ ان کی مانگیں پوری کر سکتے تھے۔ دونوں نے یہ ظاہر کیا کہ جنرل مشرف سال کے اختتام تک وردی اتار دیں گے اور مولانا فضل الرحمن اور قاضی حسین احمد انہیں ووٹ ڈالیں گے۔ اس کے بدلے ایم ایم اے نے کیا کچھ جنرل مشرف سے لیا‘ وہ علیحدہ کہانی ہے۔ خیر جو کچھ بینظیر بھٹو چاہتی تھیں‘ وہ انہیں پانچ سال بعد ملا جب ان کی جنرل مشرف سے خفیہ ملاقاتوں اور امریکہ کی کوششوں کے نتیجے میں بینظیر بھٹو کو این ار آو مل گیا۔ یہ اور کہانی ہے کہ این ار آو کا سارا فائدہ زرداری کو ہوا۔ این ار آو کے بعد نہ بی بی رہیں اور نہ ہی جنرل مشرف۔
نواز شریف صاحب کا یہ پرانا حربہ ہے کہ اگر وہ اسمبلی کی وزیر اعظم کی سیٹ پر نہیں بیٹھے ہوئے تو ان کے نزدیک اسمبلی کی اہمیت نہیں رہتی۔ اور جب وہ وزیر اعظم بن جاتے ہیں تو بھی وہ اس سیٹ پر اعتماد کا ووٹ لینے ہی جاتے ہیں اور اس کے بعد چھ چھ ماہ وہ اسمبلی کو اپنا منہ نہیں دکھاتے۔ اسمبلی اور جمہوریت کا رونا انہیں اس وقت تک آتا ہے جب وہ وزیر اعظم نہ ہوں‘ ورنہ کون وزیر اعظم ہو گا جو اسمبلی اور سینیٹ سے کئی کئی ماہ دور رہے۔ جب نواز شریف لندن میں جلا وطنی گزار رہے تھے تو ہر روز ان کے منہ سے جمہوریت اور اسمبلی کی گفتگو سن کر لگتا تھا‘ اگر پھر کبھی وہ وزیر اعظم بنے تو چوبیس گھنٹے اسمبلی میں ہی گزارا کریں گے اور پھر جب وہ بن گئے تو چھ ماہ تک اسمبلی نہ آتے اور سینیٹ تو ایک سال تک نہ گئے۔ مطلب وہی تھا‘ ان کی بلا سے کوئی جیے یا مرے‘ اگر ہم وہاں نہیں ہیں تو ہمیں کوئی دلچسپی نہیں۔
اب بھی اسمبلی میں وہی چل رہا ہے۔ جب سے عمران خان وزیر اعظم بنے ہیں ایک دن بھی ایسا نہیں گزرا جب اسمبلی میں سکون رہا ہو۔ اسمبلی کے اندر وہی سین ہے جو جنرل مشرف دور میں تھا۔ اس وقت بھی اپوزیشن کی کوشش تھی کہ جنرل مشرف سے کوئی ڈیل لی جائے اور اس کے لیے انہوں نے دبائو بڑھایا ہوا تھا۔ اب بھی وہی کچھ ہو رہا ہے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی کوشش ہے کہ عمران خان پر دبائو بڑھا کر کچھ اپنے لیے حاصل کیا جائے۔
یہ پہلی دفعہ ہو رہا ہے کہ نواز شریف اور زرداری دونوں ایک ساتھ جیل میں ہیں۔ نواز شریف کو سزا کے ساتھ ساتھ یہ بھی مشکل ہے کہ وہ اسمبلی کے ایم این اے نہیں ہیں‘ لہٰذا انہیں پروڈکشن آرڈرز پر نہیں بلایا جا سکتا۔ زرداری اس معاملے میں خوش قسمت نکلے کہ وہ ایم این اے بن کر ہائوس میں آ گئے ہیں۔ پہلے پیپلز پارٹی نے مسلم لیگ کا ساتھ دیا۔ جب شہباز شریف گرفتار ہوئے تھے اور وہ انہیں شور ڈال کر ہائوس میں لے آئے تھے۔ عمران خان کو سمجھایا گیا تھا کہ اگر شہباز شریف کو ہائوس میں لایا گیا‘ تو ہی ہائوس کے اندر امن ہو گا۔ پبلک اکائونٹس کمیٹی کا چیئرمین بھی بنایا گیا۔ اس کا فائدہ کیا ہوتا‘ الٹا یہ سب کچھ گلے پڑ گیا۔ اپوزیشن کو پتہ چل گیا کہ عمران خان کو بلیک میل کیا جا سکتا ہے۔ اگرچہ عمران خان کے ساتھی اسے سیاسی لچک کا نام دیتے تھے‘ جو ان کے خیال میں کسی بھی جمہوریت اور سیاست میں ضروری ہوتی ہے‘ لیکن اس لچک کے وہ فوائد نہ ملے جو ملنے چاہئیں تھے۔ عمران خان نے دوبارہ سختی کرنے کی کوشش کی‘ تو اس وقت تک بہت دیر ہو چکی تھی۔ اپوزیشن نے نیا طریقہ ڈھونڈ لیا تھا کہ پنجاب میں حمزہ شہباز اور سینٹر میں شہباز شریف کو پروڈکشن آرڈرز پر رکھنا ہے تاکہ کوئی تفتیش ان سے نہ ہو سکے۔
عمران خان اس معاملے میں ایک بڑی غلطی کر گئے‘ جب انہوں نے بھی پنجاب میں اپنے دو وزیروں کو‘ جو نیب نے گرفتار کیے تھے‘ پروڈکشن آرڈرز پر پنجاب اسمبلی میں بلوانا شروع کیا۔ پہلے علیم خان تو اب سبطین خان کو پنجاب اسمبلی اجلاس میں بلایا گیا۔ پرویز الٰہی کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ وکٹ کی ہر طرف کھیلتے ہیں۔ انہیں اس کی پروا نہیں کہ عمران خان کیا سوچتے یا چاہتے ہیں۔ چوہدری شجاعت حسین جب جنرل مشرف دور میں گاڈ فادر بنے ہوئے تھے تو وہ اس وقت بھی شریف خاندان سے اندر خانے رابطے میں تھے اور ان کے بہت سارے کام وہ بغیر جنرل مشرف کو اطلاع دیے کر دیتے تھے۔ مطلب وہی تھا کہ کل کلاں کو شریف خاندان دوبارہ اقتدار میں آیا تو ان کے لیے ایک راہ ہموار رہنی چاہیے۔ چوہدریوں نے کوشش بھی کی تھی کہ کسی طرح نواز شریف درگزر کر دیں‘ لیکن وہ اس کے لئے تیار نہ ہوئے۔ اب پرویز الٰہی سپیکر کی کرسی پر بیٹھ کر وہی کچھ کر رہے ہیں۔ وہ حمزہ شہباز کے پروڈکشن آرڈرز جاری کر رہے ہیں۔ یوں احتساب ایک تماشہ بن کر رہ گیا ہے۔ مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی نے فیصلہ کر لیا ہے کہ ہم نے حکومت نہیں چلنے دینی‘ اگر ہماری نہ مانی گئی۔ پرویز الٰہی کو اپنی فکر ہے کہ کل کلاں کو انہیں پکڑ لیا گیا تو انہیں بھی پروڈکشن آرڈرز کی ضرورت پڑ سکتی ہے‘ جیسے سندھ اسمبلی کے سپیکر درانی کو پڑ گئی۔
عمران خان کو سب مسائل وہی درپیش آ رہے ہیں جو جنرل مشرف کو پیش آئے تھے۔ جنرل مشرف بھی کمپرومائز کرتے کرتے ایک مرحلے پر اپنی ساکھ کھو بیٹھے تھے‘ اور عمران خان کے ساتھ بھی وہی کچھ ہو رہا ہے۔ جنرل مشرف نے بھی اپنا سیاسی سفر یہ نعرہ لگا کر شروع کیا تھا کہ وہ پاکستان سے کرپٹ اور کرپشن ختم کریں گے اور پھر ہم سب نے دیکھا کہ ایک ایک کو پکڑ کر جنرل مشرف کے دربار میں پیش کیا گیا‘ اور سب کو وزارتیں عطا کی گئیں۔ یہ کیسے ہو سکتا تھا کہ گجرات کے چوہدری‘ جن پر لوٹ مار کے سنگین الزامات تھے‘ جنرل مشرف کے دربار میں اہم عہدوں پر فائز ہوتے اور پیپلز پارٹی اور نواز شریف کی کرپشن کے خلاف جہاد کیا جاتا۔ درجنوں کرپٹ سیاستدانوں کو جنرل مشرف نے وزارتیں دیں اور یوں وہ اخلاقی قوت کھو بیٹھے جو انہیں اپنے مخالفوں کے خلاف حاصل تھی۔ یوں دھیرے دھیرے جنرل مشرف کمزور ہوتے گئے اور ان کے مخالف طاقتور۔ وہی اب عمران خان کے ساتھ ہوتا ہم دیکھ رہے ہیں۔
جب گزشتہ روز اسمبلی کے اجلاس میں خورشید شاہ نے طویل فہرست گنوائی کہ عمران خان نے کیسے اپنے تمام وعدوں اور دعووں پر یُو ٹرن لیا تھا تو پورا ہال وزیر اعظم پر ہنس رہا تھا۔ اپوزیشن ارکان کے وہ طنزیہ قہقہے دراصل عمران خان پر نہیں بلکہ ان کی ساکھ پر لگ رہے تھے۔ وہ ساکھ جسے بنانے میں عمران خان کو بائیس برس لگے تھے‘ کھونے میں محض ایک برس لگا ہے۔
جی ہاں‘ صرف ایک برس!