پھر وہی قومی اسمبلی۔ اجلاس کے دوران خبر آئی ڈالر ایک سو باسٹھ سے بھی اوپر چلا گیا تھا ۔ بجلی کی قیمت بڑھ گئی تھی۔ شام تک ایک سو نوے فیصد گیس کی قیمت بڑھنے کی خبر بھی آ چکی تھی۔
میرا خیال تھا ابھی حکومتی ارکان میں سے کوئی کھڑا ہو گا اور حکومت کو سنائے گا کہ ہمیں کس طرف لے کر چل پڑے ہیں۔ آج تو یقینا لوگ بول پڑیں گے کہ کافی ہوگئی ہے۔ فری فار آل ہوگیا ہے۔ سب کچھ آئی ایم ایف کے ہاتھ دے دیا گیا ہے۔ وزیراعظم، ان کے وزیر اور پارٹی اس پورے کھیل میں تماشائی سے زیادہ کی حیثیت نہیں رکھتے۔
یقین کریں جتنا عوام کو ٹی وی چینلز سے چیزوں کا پتہ چل رہا ہے کہ ڈالر کتنا اوپر گیا ہے، بجلی یا گیس کی کتنی قیمتیں بڑھ گئی ہیں، اتنا ہی پتہ عمران خان صاحب اور ان کی کابینہ کو ہے۔ واضح ہے کہ فیصلے وہ نہیں کررہے۔ ایک وزیر نے درست کہا تھا‘ اس حکومت کے فیصلے کہیں اور ہورہے ہیں اور انہیں خود نہیں پتہ کہ آج کیا ہورہا ہے اور کل کیا ہوگا۔
لیکن اس وقت حیرانی ہوئی جب اسمبلی کے اندر سب کچھ نارمل تھا ۔ کسی کوکوئی فکر نہیں تھی۔ چلیں مان لیتے ہیں آپ آئی ایم ایف کو سب کچھ دے بیٹھے ہیں لیکن چہرے پر کچھ سنجیدگی تو ہونی چاہیے۔ چاہے آپ کو کتنا ہی مذاق کیوں نہ سوجھ رہا ہو لیکن پھر بھی کسی افسوسناک صورتحال میں لطیفے سنا کر ہاتھ پر ہاتھ مار کر قہقہے نہیں مارے جاتے۔ اگر آپ کو کسی دوسرے کا دکھ محسوس نہیں ہورہا تھا تو بھی افسردہ ہونے کی اداکاری کرنی پڑتی ہے۔ لیکن آپ کو اسمبلی ہال کے اندر حکومتی ارکان میں یہ اداکاری بھی نظر نہیں آئے گی ۔ بلکہ آپ کو لگے گا کہ آپ کے دکھوں پر وہ قہقہے لگا رہے ہیں اور مزے لے رہے ہیں۔
آپ کو یقین نہیں آ رہا؟ چلیں آپ کو آنکھوں دیکھا حال سناتا ہوں ۔ آپ کی نظر اسمبلی ہال کی طرف جاتی ہے تو لگتا ہے تین سو بیالیس کے ہائوس میں سو ڈیڑھ سے زائد ارکان اسمبلی ہال میں موجود نہیں۔ حکومتی ارکان تو نہ ہونے کے برابر ہیں ۔ وزیر بھی آپ کو زیادہ نظر نہیں آرہے۔ اپوزیشن کے بھی وہی ارکان موجود ہیں جنہوں نے آج بجٹ پر بات کرنی ہے۔ اتنی دیر میں نفیسہ شاہ کھڑی ہوتی ہیں۔ نفیسہ شاہ ایک ذہین پارلیمنٹیرین ہیں جو یہ جانتی ہیں کہ یہ باتیں انہوںنے اس وقت کرنی ہیں جب اپوزیشن میں ہوں۔ ورنہ پانچ سال جب تک زرداری حکومت رہی انہیں یہ سب فکر نہ تھی۔ ان کے بعد حناربانی کھر نے کھڑے ہوکر جلدی جلدی تقریر کی کیونکہ سپیکر اسد قیصر کسی کو زیادہ بولنے کی اجازت نہیں دے رہے اور ان کی ساری سختی کا رخ اپوزیشن کی طرف ہے کیونکہ انہیں سمجھایا گیا ہے ان کے اچھے رویے کا اپوزیشن نے ناجائز فائدہ اٹھایا ہے۔ جب سپیکر یہ سب سختی اپوزیشن کو دکھا رہے تھے‘ اس وقت حکومتی بینچوں پر زیادہ تر ارکان نے اپنا اپنا دربار لگایا ہوا تھا۔ ہر طرف قہقہوں کی گونج پریس گیلری تک پہنچ رہی تھی۔ سب سے بڑا دربار اسمبلی کے اندر عامر کیانی نے لگایا ہوا ہوتا ہے۔ پتہ نہیں عامر کیانی کے پاس ایسا کون سا جادو ہے کہ وزارت سے برطرف ہونے کے باوجود ان کی پی ٹی آئی میں بڑی مانگ ہے۔ ایک دن پہلے وہاں زرتاج گل اور دیگر نے کافی دیر تک گپیں ماریں۔ جب ہائوس میں بجٹ پر بحث ہورہی تھی تو آج بھی دو تین پی ٹی آئی کی خواتین اور چند مرد ارکان وہیں انہیں گھیرا ڈالے باتوں میں مصروف تھے۔ اتنا رش تو وزیراعظم عمران خان کی کرسی کے گرد نظر نہیں آتا جتنا آپ کو عامر کیانی کے گرد پی ٹی آئی کے لوگوں کا نظر آتا ہے۔ اتنی دیر میں طارق بشیر چیمہ کو خیال آیا کہ انہوں نے اب تک اسمبلی میں سیر سپاٹا نہیں کیا ۔ وہ بھی ایک جگہ سے دوسری جگہ ہوتے ہوئے کسی کو جپھا تو کسی کے گال تھپتھپاتے، کبھی کہیں رکتے تو کبھی چلتے۔ چیمہ صاحب نے تو ایک رکن کی گردن میں ہاتھ ڈال کر زور سے اپنے قریب کر کے اسے دو تین پیار سے جھٹکے بھی دیے۔ طارق بشیر چیمہ آخرکار فرنٹ سیٹ پر سپیکر کی طرف پیٹھ کرکے دیگر ایم این اے سے گپوں میں مصروف ہوگئے۔ اتنی دیر میں کہیں سے علی نواز گنڈاپور نمودار ہوئے اور اپنی سیٹ پر کھڑے ہوکر وزیرداخلہ بریگیڈیر اعجاز شاہ سے گپ شپ میں مصروف ہوگئے۔ دونوں کے درمیان دو تین لائنوں کا فاصلہ تھا۔ پھر بھی بات چیت اور گپ شپ جاری تھی۔ اتنی دیر میں کہیں سے شاہ محمود قریشی کے صاحبزادے زین نورانی جو ابھی ابھی لندن سے عمران خان کے بچوں ساتھ کرکٹ میچ دیکھ کر لوٹے تھے اپنی سیٹ پر پہنچے تو وہاں بھی ایک محفل لگ گئی۔ اس محفل کو عزت بخشنے کے لیے مونس الٰہی بھی زحمت کر کے اپنی سیٹ سے اٹھ کر گئے اور انہوں نے بھی اپنی گپ شپ شروع کردی۔ اتنی دیر میں اپوزیشن اور حکومتی بینچوں کے درمیان جو خالی جگہ ہے وہاں دو تین وزیر اکٹھے ہوگئے اور انہوں نے اپنی محفل سجا لی۔ یوں ہر طرف حکومتی بینچوں پر محفلیں سجی ہوئی تھیں اور ایک مرحلے پر جب ایک حکومتی رکن بجٹ پر بات کررہے تھے تو سب سے زیادہ شور حکومتی بینچوں سے ہی آرہا تھا۔
ایک بات جو میں سمجھا ہوں کہ ہر دوسرے رکن اسمبلی کی زندگی کی سب سے بڑی خواہش ہوتی ہے کہ جس دن وفاقی وزیر ہال میں موجود نہ ہوں تو وہ اپنی سیٹ سے اٹھ کر کسی طرح ان کی فرنٹ سیٹ پر بیٹھ جائیں ۔ اس قطار میں بیٹھیں جہاں وزیر اعظم صاحب بیٹھتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی اسمبلی کا کیمرہ مین جو تیار کھڑا ہوتا ہے وہ کلک کلک کر کے محترم یا محترمہ کے کئی فوٹو بنا لیتا ہے اور بعد میں اچھا خاصا نذرانہ لے کر انہیں تصویریں پیش کرتا ہے۔ اس فوٹو کی تو بہت اہمیت ہے جو وزیراعظم کے کان میں سرگوشی کے انداز میں لی جاتی ہے۔ اگر کسی رکن اسمبلی کی آخری خواہش پوچھیں تو وہ ہوتی ہے کہ وہ وزیراعظم کی سیٹ کے ساتھ سیٹ پر کسی طرح بیٹھ جائے چاہے چند منٹ کے لیے سہی۔ اس تصویر کی اپنی اہمیت اورقیمت ہے کیونکہ اس تصویر نے صاحب کے ڈرائنگ روم میں صدیوںتک لٹکنا ہے‘ اور آنے والی نسلوں کو بتایا جائے گا تمہارے دادا وزیراعظم کے ساتھ بیٹھتے تھے۔
یہ لیں‘ وزیراعظم تشریف لے آئے ہیں ۔ وزیراعظم کو بجٹ میں بیٹھنا چاہیے تھا چاہے دو تین گھنٹے ہی سہی تاکہ سن سکیں کہ ان کے مخالفین اس بجٹ کے بارے میں کیا کہتے ہیں تاکہ جو باتیں ان کے اپنے وزیر، بیوروکریسی یا ارکان نہیں بتاسکتے وہ ان کے مخالف بتائیں اور وہ بھی مفت میں۔اپوزیشن سے بہتر وزیراعظم کا ٹیوٹر اور کوئی نہیں ہوسکتا۔
وزیراعظم کو دیکھ کر سب سے زیادہ جوش بیک بینچرز کو چڑھ گیا۔ ہمیں پریس گیلری میں بیٹھ کر یوں لگا جیسے ایک بھونچال آ گیا ہے۔ جیسے چھوٹے بچے محلے میں کسی بڑے آدمی کی پجارو گاڑی کو دیکھ کر بے حال ہو جاتے ہیں اور آوازیں نکالتے ہیں۔
اسی وقت سپیکر نے بجٹ پر یس اور نو کی رائے لینا شروع کی تو جس طرح کی مضحکہ خیز آوازیں ان بیک بینچز پر بیٹھے ارکان اسمبلی نے توجہ حاصل کرنے کے لیے نکالیں انہیں سن کر کوئی بھی شرما جائے۔ ان کی کوشش تھی کہ کسی طرح وزیر اعظم مڑ کر انہیں دیکھ لیں کہ دیکھیں وہ کتنی زور سے یس کہہ رہے ہیں اور ڈیسک پیٹ پیٹ کر ہاتھ لال کیے جارہے ہیں۔ باقی ارکان ان پانچ دس کے ٹولے کا تماشہ دیکھ رہے تھے اور ہنس رہے تھے کہ کیسی آوازیں نکال رہے ہیں۔ قابو سے باہر ارکان یہ سمجھ رہے تھے کہ ان کا کرتب کام آ گیا ہے اور ان کو توجہ مل رہی ہے؛ چنانچہ وہ مزید گلا پھاڑ کر چلا رہے تھے۔ وہ گلا عوام اور قوم کے درد میں نہیں پھاڑ رہے تھے۔ ساری کوشش تھی کہ کسی طرح عمران خان مڑ کر انہیں دیکھ لیں اور داد دیں‘ لیکن عمران خان نے ان کو ایک دفعہ بھی مڑ کر نہیں دیکھا اور بے چارے مسلسل چلاتے اور ڈیسک پر ہاتھ لال کرتے رہے۔
دو ہزار دو کے بعد سے میں نے مسلسل ان بے چاروں کو ہر وزیراعظم کی توجہ حاصل کرنے کیلئے ایسے ہی نعرے مارتے اور ہاتھ چلاتے ہوئے ہی دیکھا ہے۔
میں تو اسمبلی میں گیا تھا کہ عوام جس طرح مشکلات کا شکار ہیں‘ اسمبلی کے اندر بھی ارکان ڈسٹرب ہوں گے۔ پتہ چلا وہاں تو سب سکون ہے۔ مذاق ہورہے ہیں، گپیں لگ رہی ہیں ۔ جس دن ڈالر ایک سو باسٹھ روپے کی حد عبور کر گیا ، گیس کی قیمتیں ایک سو نوے فیصد بڑھ گئیں، ڈیڑھ روپے فی یونٹ بجلی کی قیمت بڑھ گئی، اس دن حکومتی ارکان پکنک منا رہے تھے۔