سب نے ایک دن مرنا ہے‘ لیکن کچھ اموات ایسی ہوتی ہیں‘ جو بڑے عرصے تک آپ کے ذہن پر سوار رہتی ہیں اور اتنی آسانی سے بھولتی نہیں ۔ میں اپنی زندگی میں کئی ایسے لوگ گنوا سکتا ہوں جن کی موت کے اثرات اب تک میرے اوپر ہیں اور نہ چاہتے ہوئے بھی ان کا نفسیاتی دبائو محسوس کرتا ہوں۔
مجھے اپنا کلاس فیلو افتخار یاد آتا ہے‘ جو کروڑ ہائی سکول میں ہمارے ساتھ میٹرک میںپڑھتا تھا ‘میرے ساتھ ہی بینچ پر بیٹھتا تھا ۔ بڑی پیاری پنجابی بولتا تھا ۔ مجھ سے اس کی دوستی گہری ہوگئی تھی ۔ شرارتی افتخار اکثر مجھے دور سے ہی کہتا :ہاں بھئی کلاسرے...کیا چل رہا ہے؟ کھلا ڈلا قہقہہ لگاتا۔ کئی دن سکول نہ آیا تو ایک دن ہمارے ٹیچر چوہدری حسن صاحب‘ جو اسی گائوں سے تعلق رکھتے تھے ‘نے بتایا کہ وہ بیمار ہے۔ بعد میں اسے ملتان لے گئے۔کچھ دن بعد پتا چلا افتخار فوت ہوگیا ہے۔ برسوں گزر گئے لیکن وہ ذہن سے نہ نکل سکا ۔ جب ہم سب اس کی قبر پر کھڑے تھے تو وہ منظر بھی آج تک ذہن سے نہیں جاتا ۔ اپنے ساتھ سکول بینچ پر بیٹھے دوست کو اب منوں مٹی تلے لیٹے دیکھ کر دل پر ایک عجیب افسردگی طاری ہوئی جو آج تک دور نہیں ہوئی۔پھر ایک دن پتا چلا کہ گرمیوں کی چھٹیوں میں ہمارا ایک اور کلاس فیلو یٰسین نہر میں نہاتے ہوئے ڈوب گیا تھا ۔ وہ بھی ذہن سے نہیں جاتا ۔ اپنے گائوں کے کئی نوجوان بھی قبروں میں جا لیٹے۔ وہ علیحدہ دکھ بھری کہانی ہے۔
اب ‘پتا چلا ہے کہ اسلام آباد میں سندھ سے آئے صحافی عطا راجڑ کا انتقال ہوگیا ہے۔ دل پر ایک گھونسا سا لگا ۔ عطا راجڑ سے تعلق بیس برس قبل ہوا تھا جب میں ملتان سے اسلام آباد آیا ۔ یاد پڑتا ہے کہ ہم دونوں کی ملاقات وفاقی سیکرٹری زراعت ڈاکٹر ظفر الطاف کے دفتر میں ہوئی تھی۔ میں نیا نیا ملتان سے آیا تھا اور شہر میں میری کوئی واقفیت نہ تھی‘ لہٰذا سمجھ نہیں آتی تھی کہ کہاں رہوں اور کس سے ملوں اور کہاں سے خبریں اکٹھی کروں؟ ہمارے انگریزی اخبار کے بیوروچیف ضیا الدین صاحب نے میرے ذمے زراعت کی رپورٹنگ لگا دی۔ کراچی میں کامرس صفحات کے انچارج جاوید بخاری صاحب کا اللہ بھلا کرے انہوں نے بڑی حوصلہ افزائی اور مدد کی اور میری خبریں وہ نمایاں کر کے چھاپ دیتے تھے۔ اسلام آباد میں‘ زراعت کی بیٹ اتنی اہم نہ سمجھی جاتی تھی‘ لہٰذا شروع میںمیں اکیلا ہی رپورٹر تھا ‘ لیکن دھیرے دھیرے انگریزی اخبار نے خبروں کو اہمیت دینا شروع کی تو دوسرے اخبارات کو بھی احساس ہوا کہ اس شعبے میں بھی بہت خبریں نکل سکتی ہیں۔ یوں دھیرے دھیرے دیگر اخبارات کے رپورٹر بھی وزارتِ زراعت میں آنا شروع ہوگئے۔ ہم سب کی خوش قسمتی کہ ڈاکٹر ظفر الطاف ان دنوں سیکرٹری تھے۔ ان کا دفتر ایک طرح سے پریس کلب لگتا تھا‘ جہاں ہر وقت ایک طرف سرکاری اجلاس چل رہے ہوتے تھے اور دوسری طرف صوفوں پر ہم صحافی بیٹھے انتظار کررہے ہوتے کہ اجلاس ختم ہو تو کوئی خبر ہمیں بھی شاید مل جائے۔ ایک دن میں ڈاکٹر ظفرالطاف کے دفتر میں بیٹھا تھا کہ ورلڈ بینک کی ٹیم ان سے ملنے آگئی۔میں اٹھ کرجانے لگا تو بولے: بھائی جان کدھر؟میں نے کہا :آپ کی میٹنگ ہے‘ آپ کر لیں۔ بولے: آپ پیچھے صوفوں پر بیٹھ جائیں‘ کون سا ہم یہاں نیوکلیئر سیکرٹ پر گفتگو کرنے لگے ہیں۔ ان کی اس طرح کی باتوں پر ان کے سرکاری افسران کے ماتھے پر شکن نمودار ہوجاتی جو سمجھتے تھے کہ ایسے زراعتی راز باہر نکل گئے تو پتا نہیں کون سا نقصان ہوجائے گا۔
یہیں میری ملاقات نوجوان سندھی رپورٹر عطا راجڑ سے ہوئی جو بہت جلد دوستی میں بدل گئی؛ اگرچہ رپورٹر اور بھی وہاں آتے تھے خبریں لینے کے لیے‘ لیکن جو جذبہ میں نے عطا راجڑ میں دیکھا ‘وہ بہت کم رپورٹرز میں ہوگا۔ مجھے پہلی دفعہ احساس ہوا کہ جو صحافی جرنلزم کو باقاعدہ منتخب کرتے ہیں‘ ان میں اور ان صحافیوں میں کیا فرق ہوتا ہے‘ جو نوکری نہ ملنے پر صحافت میں آجاتے ہیں ۔
عطا راجڑ جو بھی خبر کرتا اس کے ذہن میں سندھ اور سندھیوں کے مفادات ہوتے۔ میں نے ایک دن پوچھا تو بولا: سائیں سندھ کے ساتھ زیادتی تو بھی بہت ہوتی ہے۔ دوسرے ہمارا سندھی اخبار ہے اور سندھ میں ہی پڑھا جاتا ہے‘ لہٰذا ہمارے لوگوں کو اس میں زیادہ دلچسپی ہوتی ہے کہ ان کے حوالے سے اسلام آباد میں کیا چل رہا ہے۔ عطا راجڑ سندھ اور سندھیوں کے حوالوں سے بہت جذباتی ہوجاتا تھا اور میں اکثر اس کے جذبات پر ہنستا تو کہتا: سائیں آپ نے کبھی سندھ کو وزٹ نہیں کیا‘ لہٰذا آپ کو اس دکھ کا کیا پتا ؟اس دکھ کا پتا مجھے دو ہزار سات میں اس وقت چلا جب ہمارے انگریزی اخبار کے گروپ ایڈیٹر شاہین صہبائی نے مجھے بینظیر بھٹو کے قتل کے بعد لاڑکانہ بھیجا کہ میں وہاں سے رپورٹنگ کروں۔ جب میں سندھ میں تین‘ چار دن گزارنے کے بعد لوٹا تو میری سندھ کے حوالے سے رائے بدل چکی تھی اور مجھے عطاراجڑ کی باتیں یاد آئیں۔ جتنی غربت اور پس ماندگی سندھ میں مجھے نظر آئی اس پر دل دکھ سے بھر گیا۔ انسانوں کے چہرے پر غربت میلوں دور پڑھی جاسکتی تھی۔ سندھ کے نام پر اربوں کھربوں کے فنڈز پتا نہیں کہاں گئے ۔ بعد میں پتا چلا کہ اکثر سندھی وڈیروں ‘ حکمرانوں اور بیوروکریٹس نے دبئی اور لندن میں جائیدادیں خرید لی ہیں۔
عطا راجڑ کا دکھ اب مجھے سمجھ میں آنے لگا ‘تاہم مجھے ایک بات سے اپنے سندھی دوستوں سے گلہ رہا کہ وہ اپنے سندھی لیڈروں کا دفاع کرتے تھے۔ مجھے جو بات سمجھ آئی کہ سندھ سے آئے حکمرانوں نے اپنے سندھی دانشوروں اور صحافیوں کو یہ بات سمجھا دی تھی کہ اگر وہ کرپشن کررہے ہیں تو وہ سندھیوں کے حق پر ڈاکہ نہیں‘ بلکہ وہ پنجاب کے پیسے کھا رہے ہیں۔ میں اپنے چند ایک دوستوں کے سندھی حکمرانوں کی کرپشن کے جواز پر ہنس پڑا اور کہا کہ میرے دوستو !ہر صوبے کو این ایف سی سے حصہ ملتا ہے‘ پنجاب اپنا حصہ لے جاتا ہے اور سندھ اپنا ‘ لہٰذا جو کچھ سندھ سے آئے حکمران کھا رہے ہیں وہ دراصل سندھ کے این ایف سی کے بجٹ میں سے ہے ۔ وہ سندھیوں کا ہی پیسہ اور مال ہے‘ اس سے پنجاب کو کوئی فرق نہیں پڑ رہا ۔ ہاں زیادتی سرائیکی علاقوں کے ساتھ ہورہی ہے‘ ان علاقوں کو این ایف سی سے ملنے والے اربوں سے کچھ نہیں مل رہا ۔ تاہم عطاراجڑ اندر سے ایک سندھی قوم پرست تھا ‘لہٰذا وہ سندھ کے این ایف سی کا شیئر ہو‘ ارسا میں پانی کا حصہ ہو یا دیگر پراجیکٹس میں سے سندھ کو ملنے والے رقوم کا معاملہ ہو‘ جتنا میں نے اسے لڑتے دیکھا شاید ہی کوئی اور رپورٹر اپنے لوگوں کے لیے لڑا ہو ۔ ایک دفعہ پانی کا شدید مسئلہ ہوگیا تو مجھے عطاراجڑ ملا اور بولا: کل میں پارلیمنٹ کے آگے بیوی بچوں سمیت دھرنا دے رہا ہوں۔ میں نے حیرانی سے کہا :یار تو صحافی ہے ‘ سیاسی ایکٹویسٹ نہیں۔ بولا: چاچا اس معاملے میں کوئی صحافی نہیں۔ ہمارے لوگوں کے پاس پانی نہیں اور میں یہاں صحافی بن کر مطمئن رہوں؟
اسلام آباد میں اگر آپ کو سندھی یا پشتو آتی ہے تو پھر آپ کا نہ تو کوئی کام رکے گا‘ بلکہ اچھی اچھی خبریں بھی ملیں گی۔ عطا راجڑ اب سندھی وزیروں اور بیوروکریٹس سے بڑی بڑی خبریں نکلوا لاتا اور مجھے بھی دے دیتا تھا ۔ سندھی وزیر اور بیوروکریٹس اس پر بھروسہ کرتے تھے۔ کئی بڑی بڑی خبریں وہ رات گئے سندھ ہاؤس میں وزیروں کے ساتھ وقت گزارنے کے بعد نکلوا لاتا اور مجھے فون کرتا: چاچا تمہارے مطلب کی خبر ہے میرے پاس ۔ وہ سب کو چاچا کہتا تھا اور دھیرے دھیرے ہم نے اس کا نام چاچا رکھ دیا؛ حالانکہ وہ ابھی جوان تھا۔ اور پچھلے ماہ اس کے فیس بک پیج پر پڑھا کہ اسے گردوں کا مسئلہ ہوگیا ہے۔ میں نے گھبرا کر فوراً میسج کیا کہ چاچا تو نے کیا کر لیا ہے ؟ جواب دیا: بس یار ایسے ہی بیٹھے بٹھائے ہوگیا ۔ میں نے کہا: اچھا چکر لگاتا ہوں ۔ جواب دیا‘ ہاں جلدی لگا لو پھر میں نے حیدرآباد علاج کے لیے جانا ہے۔ میرا خیال تھا وہ ابھی کچھ دن مزید یہاں ڈاکٹرز کو ملے گا اور کسی وقت چکر لگا لوں گا ۔ اب چار پانچ دن پہلے فیس بک کھولاتو پہلی خبر یہ پڑھی کہ عطا راجڑ فوت ہوگیا ہے۔
دل دکھ سے بھر گیا ہے۔ ایک اور دوست رخصت ہوا ۔ ایک اور مستقل دکھ زندگی کا حصہ بنا ۔